بین الاقوامی میڈیا اور اس کا اعتبار
مسعود انور
- شام کے علاقے الحولہ میں سفاکی و درندگی کے واقعے نے‘ جس میں معصوم بچوں اور عورتوں سمیت 108 بے گناہ انسانوں کو قتل کردیا گیا ، بین الاقوامی میڈیا کی ساکھ و اعتبار کو ایک مرتبہ پھر بحث کاموضوع بنادیا ہے۔اس واقعے کے بارے میں بی بی سی نے اپنی ویب سائٹ پر تصاویر جاری کیں۔ان تصاویر کوساری نیوز یجنسیوں نے بی بی سی کی ویب سائٹ سے اٹھا کرپوری دنیا میں پھیلادیا اور یہ سارے اخبارات و جرائد میں چھپ بھی گئیں۔ان تصاویر کے کیپشن میں کہا گیا کہ یہ شام کی سرکاری فوج کی بہیمیت و سفاکی کا کھلا ثبوت ہے۔ ان تصاویر کو بنیاد بنا کر امریکا و برطانیہ اور ان کے سیٹلائٹ ممالک کے گروپ نے فوری طور پر شام سے سفارتی تعلقات منقطع کرتے ہوئے اس کے سفارتی نمائندوں کو اپنے ملک سے نکل جانے کا حکم دے دیا۔ یہ بالکل ایسا ہی تھا جیسا کہ نائن الیون کے فوری بعد ہوا تھا۔نائن الیون کے بعد امریکا اور اس کے حواریوں نے ذرائع ابلاغ کی مدد سے ایک ایسا ماحول تیار کرلیا تھا کہ اس کے بعد امریکا و اتحادیوں نے جو بھی کیا، سب نے دم سادھ لیا۔عراق و افغانستان، جن کا اس سارے فسانے میں کہیں ذکر نہیں تھا، آج تک خاک و خون میں غلطاں ہیں۔ پاکستان ایسی دہشت گردی کا شکار ہے کہ اتنی خوں ریزی تو براہ راست جنگ کے شکار افغانستان و عراق میں بھی نہیں ہوئی۔ افغانستان کے شمالی علاقے اور عراق کے چند صوبوں کے علاوہ پورا عراق آج بھی امن و آشتی کا گہوارہ ہے۔ مگر پوری دنیا میں یہ صرف اور صرف پاکستان کی سرزمین ہے کہ کہیں بھی جائے اماں میسر نہیں۔ نائن الیون کے واقعے کے بعد ہی غیر جانبدار ماہرین سامنے آگئے تھے جنہوں نے سائنسی اور تکنیکی بنیادوں پر ثابت کیا تھا کہ ٹوئن ٹاور گرانے کا واقعہ سراسر طے شدہ تھا اور حقائق امریکی دعوئوں کے قطعی برعکس ہیں جن میں کہا گیا تھا کہ یہ اغوا شدہ جہازوں کے ٹکرانے سے گرے ہیں۔ ان ماہرین نے یہ بھی ثابت کیا تھا کہ جہاز اغوا ہی نہیں ہوئے اور پینٹاگون پر بھی کسی جہاز نے حملہ نہیں کیا۔ مگر آج تک main stream کے کسی بھی میڈیا گروپ نے ان ماہرین کی آراء پر توجہ دینے کی زحمت نہیں کی اور یہ وہی راگ الاپتے رہے جو جنگ کے جویا ممالک کی منشا تھی۔ عراق و لیبیا کے معاملات میں نام نہاد منحرف لوگوں کے بیانا ت پر صاد کرلیا گیا کہ یہاں پر وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے کے ہتھیار موجود ہیں۔ بنا کسی ثبوت کے، اس کی ڈفلی روز روز اور بار بار بجائی گئی اور اسی کو ان ممالک پر حملے کی بنیاد بنایاگیا۔ اب ان الزامات لگانے والوں نے خود اس امر کا اعتراف کرلیا ہے کہ ان کے یہ تمام الزامات جھوٹ کی گٹھڑی تھے۔ الحولہ کے واقعے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ یہ افسوسناک واقعہ پیش آیا اور یقینا واقع ہواہے مگر کیا یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ بین الاقوامی میڈیا نے پیش کیا ہے۔ یہ سب سے اہم سوال ہے۔ جیسا کہ میں اپنے گزشتہ کالم میں تفصیل سے عرض کرچکا ہوں کہ بی بی سی نے جو تصویر جاری کی تھی وہ عراق کی تھی اور امریکی و برطانوی فوج کی سفاکی کا ثبوت تھی۔ اس تصویر کو اتارنے والے فوٹو گرافر کے شدید احتجاج پر بی بی سی نے یہ تصاویر اپنی ویب سائیٹ سے بلاکسی معذرت یا معافی کے ہٹالی تھی ۔ تاہم اس وقت تک اس کا مقصدپورا ہوچکا تھا۔ آخر ملین ڈالر اور پاؤنڈ تنخواہ لینے والے ان میڈیا گروپوں کے ایگزیکٹو ایسی غلطی کیسے کرسکتے ہیں اور بار بار کرتے ہیں۔ اس سوال کے جواب میں ہی تمام کہانی پنہاں ہے۔ میں نے 1995 میں ایک تحقیقی مقالہ پڑھا تھا جس کا عنوان ہے Who Rules America ۔ اس تحقیقی مقالے کے پہلے پیراگراف میں بحث کی گئی تھی کہ امریکا پر کون حکومت کرتا ہے ۔ اس پیراگراف میں بتایا گیا کہ امریکا پر میڈیا گروپ حکومت کرتے ہیں کیوں کہ یہی عوام کا نقطہ نظر بناتے اور بگاڑتے ہیں۔ اور پھر دوسرے پیراگراف سے ایک ایک میڈیا گروپ پر تفصیل سے بحث کی گئی تھی، جس میں پتا چلا کہ یہ تما م گروپ انہی عالمی سازش کاروں کے چنگل میں ہیں جو دنیا بھر میں جنگیں اور بغاوتیں کراتے ہیں اور ایک شیطانی عالمی حکومت کے خواہاں ہیں۔ اب vanguard publications نے اس کو ایک مستقل سلسلہ بنالیا ہے اور اس مقالہ کو ایک کتابی صورت بھی دے دی ہے۔ اس وقت میرے سامنے اس مقالے کا 2010 کا شائع شدہ ایڈیشن ہے۔اس مقالے کے ابتدائی پیراگراف میں کہا گیا ہے کہ دنیا میں آج کے دورمیں اتنی بڑی طاقت اور کوئی نہیں ہے جتنا کہ امریکامیں رائے عامہ کو متاثر کرنا۔ اس طاقت کازمانہ قدیم کا کوئی پوپ، بادشاہ یا جنرل بھی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ رائے عامہ کو تبدیل و متاثرکرنے والا یہ گروپ امریکا کے نیوز اور انٹرٹینمنٹ پر مشتمل ماس میڈیاکے چند درجن مالکان و افراد پر مشتمل ہے۔ اس گروپ پر گفتگو اگلے کالم میں انشاء ااﷲ تعالیٰ۔ ان سازشیوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔
|
No comments:
Post a Comment