Search This Blog

Thursday 14 June 2012

جہیز کی پرچھائیاں

جہیز کی پرچھائیاں
اتنی نہ بڑھاپاکیٔ داماں کی حکایات

’’کشمیرعظمیٰ‘‘ 12مئی 2012ء کے شمار ہ میں اشفاق پرواز صاحب (ٹنگمرگ)کا جہیز پر سیر حاصل اور مدلل مضمون شائع ہوا ۔ دیگر تکلیف دہ سماجی مسائل میں جہیز ہی ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی ناپسندیدگی کے بارے میں اسکولوں میں طلباء وطالبات سے مضامین لکھائے جاتے ہیں تاکہ اس نوخیز نسل کے اذہان میں جہیز کے خلاف جذبہ پیدا ہو ۔ جب یہ اس اسٹیج پر پہنچیں تو جہیز کو حقارت سے ٹھکرادیں۔ مسجدوں ،نجی مجلسوں اور اخبارات میں جہیز کے خلاف تقریریں کی جاتی ہیں اور لکھا جاتاہے مگر جہیز سے حقارت ونفرت کے باوجود اسے پسندید ہ قرار دیا جاتاہے۔
کچھ لوگ جہیز کے جائز ہونے کی یہ دلیل دیتے ہیں کہ وراثت میں لڑکی کا حصہ بھی ہوتاہے جو جہیز کی صورت میں دیا جاتاہے ۔لڑکی کا حصہ لازماً ہے مگر یہ حصہ جہیز کی صورت میں ہی کیوں دیا جاتاہے ۔ شادی سے پہلے بھی یہ حصہ نقد کی صورت میں لڑکی کے بنک کھاتہ میں چپکے سے جمع کیاجاسکتاہے ۔ نمود ونمائش بھی نہیں ہوگی اور اس رسم بد کو فروغ دینے کے گناہ سے بھی بچا جاسکتاہے اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی بھی حاصل کی جاسکتی ہے جب کسی بھی مسئلہ میں رب کریم کی رضاحاصل ہو تو یقیناً خیر وبرکت بھی سایہ فگن رہے گی ۔
رب ذوالجلال کی رضا سے علی الرغم جب بندوں کی خوشنودی مطلوب ہوتی ہے تو اللہ کی ناراضگی گرفت میں لے کے رہتی ہے ۔ جس سے پھر فرار ممکن ہی نہیں ہوتاہے ۔ بعض اوقات قرآن پاک کی زبان میں یہ گرفت اتنی شدید ہوتی ہے کہ عام خام کی بات ہی نہیں دانشور وزیرک لوگ بھی سر پیٹتے رہتے ہیں ۔
بندوں کی رضا جوئی کے حوالہ سے ذیل کا واقعہ چشم کشا ہے ۔
ہوا یوں کہ لڑکا نہایت ہی آسودہ حال گھرانے سے تعلق رکھتا تھا ۔ لڑکی بھی اچھے کھاتے پیتے گھر کی نورِ چشم تھی ۔ منگنی کی تمہید کے بعد نکاح خوانی کی تاریخ طے پائی۔دوسوافراد پر مشتمل نکاح پارٹی کا جتھہ ترتیب دیاگیا ۔ اس جتھہ کی روانگی سے پہلے پانچ ہزار مالیت کے تحفے تحائف مزدوروں کے کاندھوں پر لادکے لڑکی والوں کے گھر بھیجے گئے ۔اس کے علاوہ خوردوکلاں کے لئے قیمتی کپڑے ، لڑکی کی والدہ کے لئے سونے کاہار اور تین انگوٹھیاں الگ ۔مقصدیہ تھا کہ ہونے والی بہو اور اس کے واالدین اس قدر زیر باراحساں رہیں کہ کل شادی پر اس سے دوگنا مال دینے پر مجبورہوں۔
اس امات کی نمائش میں اگر کسی چیز کی کمی تھی تو وہ رضائے الٰہی کی تھی۔بہرکیف عقد خوانی کی رسم جاہ وحشمت کے ساتھ تکمیل کو پہنچی۔ جس وقت مہمان پُرتکلف ومرغن دعوت سے لطف اندوز ہورہے تھے اسی وقت بغل کی مسجد شریف سے عشاء کی روح پرور اذان ہورہی تھی لیکن نہ مہمان اور نہ میزبان ہی ٹس سے مس ہوئے ۔ ایک فقیر جو پس ِ خوردہ کے لئے دروازے پر دامن پھیلائے ہوئے تھا ، نے بڑی جرأت کرکے بہ آواز بلند کہا صاحبو! اذان ہوگئی ، جماعت کھڑی ہونے والی ہے تو ایک صاحب نے فرمایا اب کھانا تناول فرمانے کے بعد یہیں نماز پڑھیں گے ۔
نکاح شادمانی کے جوش وخروش سے ہوا۔ یہ بھی قرار پایا کہ چھ مہینے کے بعد شادی ہوگی ، لیکن ابھی تین ہی مہینے گزرے تھے کہ رب جبار وقہار کی رضا رنگ لائی ، دونوں خاندانوں کے درمیان معمولی سی بات پر تلخی پیدا ہوئی ۔ بات بڑھتے بڑھتے شدت اختیار کر گئی۔نتیجہ یہ ہواکہ شادی سے پہلے ہی طلاق واقع ہوگئی ، جو چیز نکاح خوانی کی تقریب پر لڑکے والوں نے بڑے اہتمام کے ساتھ بطورِ نذرانہ بھیجی تھیں وہ سب ایک ایک کرکے مزدوروں اور خاندانی نائی کے ہاتھ واپس بھیج دی گئی ۔ جب بات گھر آنگن سے بازار تک پہنچی تو چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں ، لڑکے والوں سے لوگوں نے قطع رشتہ کی وجہ پوچھی تو لڑکی اور اس کے شریف والدین کی کردارکشی پر اُتر آئے ۔ لڑکی والوں سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا بدقسمتی سے لڑکے میں جنوں کے آثار ظاہر ہوئے ۔ بات کھنچتے کھنچتے گلی گلیاروں اور عدالت تک جا پہنچی جو شریف زادی محرم لوگوں کو دیکھتے ہی چھوئی موئی کی طرح سمٹ جاتی تھی ، اسے عدالت کے کٹہرے میں پہنچایا گیا ۔ اب دونوں خاندانوں کی باضابطہ سرد جنگ شروع ہوگئی ، جو تھمنے کا نام ہی نہیں لیتی ۔بازاری لوگوں نے بھی فقرے کسنے شروع کئے۔ کوئی یوں نشتر زنی کرتاکہ دونوں گھرانوں کے پاس عمر بھر کا حرام مال تھا ،ٹھکانے لگا۔ کوئی کہتا لڑکی اور لڑکے کے والدین کی اعمالِ بد کی سزا دونوں کوملی ۔غرض یہ کہ ہزار منہ ہزار باتیں ۔
جہیز کے حوالہ سے یہ واقعہ بھی دل تھام کر سنئے ۔
ایک سرکردہ سماجی شخصیت کے صاحب زادے کی شادی خانہ آبادی کی تقریب تھی ۔دلہا کو لے کر جب بارات روانہ ہوئی تو برات کی قیادت صاحب خانہ نے خود سنبھال لی ۔ وازہ وان کی ضیافتوں سے لطف اندوز ہونے کے بعد دلہن کو لے کر جب بارات واپس خراماں خراماں چل رہی تھی تو صاحب خانہ بڑے دلنشیں انداز سے باراتیوں کو سادگی کا درس دے رہے تھے اور جہیز کی خرابیوں کو گن گن کر بیان کررہے تھے ۔ اچانک صاحب خانہ نے پیچھے مڑ کر دیکھاکہ ایک over loaded ٹرک آہستہ آہستہ برأت کے تعاقب میں آرہاہے ۔صاحب خانہ نے باراتیوں سے کہا، بیچارے ٹرک والے کو راستہ چھوڑ دیجئے معلوم نہیں اس کی منزل کہاں ہوگی ہم اس کی رفتار میں حائل ہیں۔ برأت میں سے ایک شخص نے کہا حضرت اس ٹرک میں لڑکی والوں نے اپنی استطاعت کے مطابق جہیز بھرا ہے ۔ یہ ٹرک آپ کے دولت خانہ پر ہی آئے گا ۔ صاحب خانہ آگ بگولہ ہوگئے اور فرمایا ’’ یہ کیا حماقت ہے ، ٹرک ڈرائیور کو کہاجائے کہ وہ واپس جائے ہمیں جہیز کی قطعاً ضرورت نہیں ‘‘۔ اس پر یک منہ پھٹ شخص نے کہا ’’حضرت یہ آلو ٹماٹرنہیں کہ لڑکی والے سٹور کرکے رکھ دیں اور کھاتے رہیں ‘‘۔
عقل وخرد اور اتقا کا تقاضا تھاکہ رشتہ طے کرتے وقت ہی لڑکی ولوں کو دو ٹوک الفاظ میں کہاجاتاکہ جہیز کی ہمیں قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ لڑکی کے سامنے لاکھوں کی جہیز کی کیا وقعت ہے ۔
جہیز کے حوالہ سے یہ واقعہ بھی چشم ہے کہ ایک شخص نے اپنے فرزند ارجمند کے لئے رشتہ کی تلاش شروع کردی ۔ جہاں بھی رشتہ کا پیغام بھیجاجاتا تو یہ کہہ کر رشتہ رد کیا جاتاکہ گھرانہ تو امیر ہے مگر گھر کی مالکن بدمزاج اور لالچی ہے ۔ اس کی پہلی بہو بھی رو رو کر اس گھر سے بھاگ کر دریا کی لہروں میں بہہ گئی تھی ۔وجہ یہ تھی کہ یہ بہو بیچاری غریب باپ کی بیٹی تھی ، جہیز ساتھ نہیں لائی تھی ۔ رشتہ طے کرتے وقت لڑکی کے والدین کو یقین دلایا تھاکہ ہمیں جہیز کی کوئی ضرورت نہیں ، صرف لڑکی مطلوب ومقصود ہے لیکن صبح وشام بیچاری غریب بہو کو طعنے دیتی کہ خالی ہاتھ آئی ہے ، گھر میں برکت بھی نہیں رہی ۔ کبھی کالونی میں نئی آنے والی بہو کے بارے میں کہتی کتنی خوش نصیب بہو ہے لاکھوں کاجہیز لائی ہے ۔ اس کے آنے سے ان کے گھر میں بھی برکت آئی ہے ۔ الغرض طرح طرح کے طعنے دے کر غریب بہو کا دل دکھایا ۔
مالِ کار ایک جگہ رشتہ طے پا گیا ۔ لڑکی کے والدین متوسط درجے تھے یہاں بھی یقین دلایا گیا کہ ہمیں جہیز کی قطعاً ضرورت نہیں ۔ ہمیں صرف لڑکی چاہئے ۔ اللہ نے اپنے فضل وکرم سے ہمیں سب کچھ دیا ہے۔بات بھی سچی تھی ۔بیس کنال پر پھیلا ہوا سیبوں کا باغ ، مارکیٹ کے وسط میں پانچ دوکانیں کرایے پر دی ہوئی تھیں ، ہر دوکان کا ماہانہ کرایہ ستر ہزار تھا ۔ لڑکی کے والدین نے اطمینان کرکے رشتہ قبول کرلیا ، شادی سادگی سے ہوئی ۔ چھ مہینے تک بہو سکون سے رہی اور اپنی قسمت پر ناز کرتی کہ مجھے اچھاگھرملا لیکن ساتویں مہینے ہی اس کی خوشیوں کے تاج محل میں دراڑیں پڑناشروع ہوگئیں کیونکہ ساس نے طعنے دینے شروع کئے ۔کبھی کہتی ملک صاحب کی بہو نے دو ٹرک بھرے جہیز لایا ۔ کبھی کہتی خان صاحب نے لڑکی کو جہیز سے مالا مال کردیا ۔ اب بیچاری بہو کا دل کڑھنے لگا ۔تنگ آکر اس نے اپنے میاں سے کہا کہ اماں جان نے میرے والدین کو شادی سے پہلے ہی کہا تھاکہ ہمیں جہیز کی بالکل ضرورت نہیں خدا کا دیا ہوا سب کچھ ہے اب اٹھتے بیٹھتے مجھے طعنے دے رہی ہیں ۔ میرے والدین سفید پوش ہیں وہ جہیز کہاں سے لائیں گے۔اماں جان کے طعنوں سے مجھے ذہنی ٹینشن ہورہی ہے ۔مجھے بتائیے کہ میں کیا کروں ؟
چونکہ میاں نے سای لالچی ماں کا دودھ پیا تھا ، نے بیوی سے کہا ممی نے اگرچہ ٹھیک ہی کہا مگر اس کی باتوں کو سیریس نہیں لینا چاہئے ، ہو سکے تو اپنے ابو سے کہو ان کو خوش کرنے کے لئے بیس تیس ہزار نقد ہی دیں تو ممی جان بھی خاموش ہوجائیں گی اور تم بھی سکون کے ساتھ رہوں گی ۔ میاں نے پینترا بدلتے ہوئے یہ تلخ جملہ بھی کہا ’ بیویوں کی کوئی کمی نہیں ہے مگر ماں ،ماں ہی ہوتی ہے۔ماں کا جواب نہیں‘‘۔
میاں کی دل چھلنی کرنے والی باتوں سے غریب باپ کی بیٹی کا ماتھا ٹھنک گیا اور دل میں سوچاکہ یہاں اب دال گلنے والی نہیں ۔ رات بھر آہیں بھرتی رہی ۔ صبح پو پھوٹتے ہی گھر سے بھاگ نکلی اور مائیکہ جاکر دَم لیا ۔ والدین کو رو رو کر اپنی بپتا سنائی اور کہا یاتو تین چار کنال زمین دے کر میری ساس کو خوش کرو، یا مجھے اپنے ہاتھوں سے دریا برد کردو۔ اس کے شریف والدین سیخ پا ہوکے رہ گئے ۔ محلے کے امام صاحب کے گھر جا کر سارا ماجرا سنایا ۔امام صاحب نے کہا کہ بدخصلت ساس پہلی بہو کو بھی اسی طرح تنگ کیا تھ وہ بھی خودکشی پر مجبور ہوگئی تھی ۔اللہ نے اس کو سزا دی اس کی اپنی بڑی بیٹی نے ایک سال کے بعد ہی طلاق لی تھی ۔ سنا ہے کہ ہفتہ قبل وہ کسی بنجارے کے ساتھ فرار ہوگئی ۔ نہ معلوم اس بدخصلت خاتون سے اس گھر پر اور کیا کیا عذاب ہوںگے ، اللہ رحم کرے ۔
امام صاحب نے لڑکی کے میاں کو بلایا اور بڑے پیار سے سمجھایا کہ ماں کا تقدس اپنی جگہ مگر بیوی کو گھر میں دُکھ پہنچے ، اچھی بات نہیں ہے ۔ خدا کی گرفت سے ڈرو ،ایسا نہ ہو کل تمہاری والدہ اور بہنوں پر ایسا وبال آجائے کہ عزت خاک میں مل جائے ۔ جس گھر میں بہو کو ساس سسر اپنی بیٹیوں کی نگاہ سے نہ دیکھیں وہ گھر سکون واطمینان کے ساتھ نہیں رہ سکتا۔ ہمارے سامنے ایسی درجنوں مثالیں موجود ہیں ۔ یادرکھو مظلوم پر اللہ کی رحمت برستی ہے اور ظالم پر اللہ کی لعنت !!!۔

بہ شکرءیہ 
’’کشمیرعظمیٰ‘‘

No comments:

Post a Comment