Search This Blog

Saturday 9 June 2012

پیٹ پوجاہی اصل مقصد ٹھیرا

پیٹ پوجاہی اصل مقصد ٹھیرا

کیاکھاناپینا‘موجیںاڑانا‘رنگ رلیاںکرناہی اصل طرز حیات ومقصدزندگی طے پایاہے؟کیا ناکامی اورکامیابی کا معیار عین وہی ہے جو اس وقت میڈیا پر پیش ہورہاہے؟کیا میڈیا پر چھائے تمام روشن خیال عناصرایک مسلم معاشرے میں بے مقصدیت ‘ لادینیت‘ بے راہ روی وبے باکی کا سیلاب بہانے کے لیے یکجا ہوگئے ہیں؟۔ ذرائع ابلاغ کو مملکت کے چوتھے ستون کی حیثیت حاصل ہے۔اسے ’’واچ ڈاگ‘‘کی ذمہ داری سونپ کردیگرتمام ستونوں میں ممیزو ممتاز حیثیت کاحامل بنادیاگیا۔ کیا صحیح ہے ؟ کیا غلط ہے؟ کی نشاندہی کرنا‘ احسن افعال کی تحسین اور افعال بد کی بیخ کنی کرنا‘ اداروں کو درست راہ پرگامزن رکھنا‘ معاشرے ‘ اس کے مختلف اداروں نیز قوم کی اصلاح وتربیت اس کے فرائض میں شامل ہے۔ اگر بات ایک اسلامی معاشرے کے حوالے سے کی جائے تو اسلامی معاشرے کے میڈیاکو اسلامی کلچر ‘روایات واقدارکے فروغ کے لیے سعی کرنا چاہیے۔ ایک اسلامی معاشرے کی روایات واقدارکی شاخیں‘ایمان باللہ اور ایمان بالآخرہ کے شجر طیّبہ سے پھوٹتی ہیں۔ جس کی بدولت شرم وحیا‘ مضبوط ومنظم خاندانی نظام‘ چھوٹوںسے مہربانی‘ بزرگوں کی تعظیم‘ باہمی ایثار و اخوت جیسی خوبیاں تخلیق پاکراسلامی معاشرے کا پرامن و پاکیزہ ماحول تشکیل دیتی ہیں‘ میڈیا ذہن سازی‘ رائے سازی اوربحیثیت مجموعی ماحول سازی میں جوکردار ادا کرتا ہے اس سے ہرذی شعور واقف ہے۔ مملکت اسلامی پاکستان کا میڈیا دین ومذہب سے بیزار عناصرکے شکنجے میں ہونے کے سبب صرف اورصرف ان نظریات وافکارکی ترویج کا باعث بن رہاہے جوکسی بھی طرح اسلامی اقداروتعلیمات کے ذیل میں نہیں آتے۔ ’’کھائو پیو اور جیو‘‘ جیسے نعرے کو قبولیت عام کا درجہ مل گیاہے۔ سوشل میڈیاکے ذریعے زندگی کو بے مقصدسرگرمیوں‘ لہوولعب پر مبنی لاحاصل گفتگوئوں‘بے راہ روی پرمبنی دوستیوں میں برباد کرنے کی ترغیب کے لیے نت نئے پیکجز متعارف ہورہے ہیں‘ ہر نیا دن‘ ایک نئی آفراورنئے پیکج کے ساتھ نمودارہورہاہے۔ دوسری طرف کیبل کے بیشترچینلزپرہروقت ایک عدد شیف مزیدار کھانوں کی تراکیب کے ساتھ موجود ہوگا۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ دنیا میں تشریف آوری کا صرف یہی مقصد تھا کہ ’’پیٹ پوجا‘‘کی جاتی رہے۔ فی الحقیقت یہ زبان کی لذتوں میں گھر کر اعلیٰ ترین مقاصد حیات سے پرے دھکیلنے کے سامان کے سوا کچھ نہیں ۔ ان چٹخارے دارچینلزمیں گھرنے والی ہماری قوم‘ بالخصوص قوم کی خواتین‘ اوران کی پیٹھ ٹھونکنے والے مردحضرات یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہم اس نبی عظیمؐ کے امتی ہیں‘ جس کے گھرمیں 3‘ 3 دن فاقے ہوتے تھے۔ جس نے زبان کی لذتوں کو ناپسندفرمایاتھا۔ یہ توتھاکیبل کے چینلزکا مختصراحوال‘ اب تذکرہ ہوجائے پرائیویٹ چینلزکا…مستی‘رنگینی اورہلّے گلّے سے بھرپورماحول کو فروغ دینے کے لیے ‘ کبھی ’’فتح سروں کی‘ جیت سنگیت کی‘‘ کے تحت عاطف اسلم اورہمیش ریشما‘کی فوجوں کے مابین معرکہ کرایاجاتاہے‘ توکبھی فوڈستان کے نام سے پاک بھارت کوکنگ مقابلے کا انعقادہوتاہے۔بے مقصدیت اس وقت عروج پرہوتی ہے‘ جب غیرمسلم اقوام کے ایام مستعارلے کر اخبارات وجرائد سیاہ اورچینلزرنگین کیے جاتے ہیں۔ رنگارنگ شوزکا ہرمیزبان بے باکی کے اس مظاہرے میں دوسرے پر سبقت لے جانے کی بھرپورکوشش کرتا پایاجاتاہے۔ اقدار وروایات تیزی سے پھیلتی جارہی ہیں ‘ اسلامی کلچرکو ایک کونے میں دھکادے کر‘غیراسلامی کلچرکوفروغ دینے کے لیے پرنٹ‘الیکٹرانک اور سوشل میڈیا تینوں یکجاہوکر اپنی تمام تر وسعتوں کے ساتھ کام کررہے ہیں‘نتیجتاً ایسا معاشرہ وجود میں آرہاہے‘ جس میں جنسی جرائم کثرت سے جنم لے رہے ہیں‘ کہیں محبوبہ کی خاطربیوی بچوںکو موت کے گھاٹ اتارنے کا واقعہ ہے‘ کہیں کمسن بچوں سے زیادتی کے کیسزکی خبریں ہیں‘ کہیں گھروں سے بھاگ کر شادیاں رچانے والے جوڑے ہیں۔ یاد رہے کہ صرف حیاکے تقاضوں کو پوراکرتاہوامعاشرہ ہی پنپ سکتاہے۔ حیا کے تقاضوں پرضربیں لگانے کے نتیجے میں معاشرہ جس انتشارکا شکار ہوتاہے اس کا مظاہرہ ’’یورپ‘‘ میں دیکھاجاسکتاہے۔ مگردکھ کا مقام یہ ہے کہ بے لگام چینلزکے ’’جیسے چاہوجیو‘‘ اور ان جیسے دوسرے آزادی وبے باکی کے پیغامات لیے ہوئے متاثرکن سلوگنزحیا اور اس کے تقاضوں سے نبردآزماہوئے کھڑے ہیں‘ ایسے میڈیا سے سدھار‘اصلاح وتربیت کی توقع رکھنا عبث ہے۔ قرآن حکیم میں ارشادہوتاہے۔ ’’جولوگ چاہتے ہیں کہ اہل ایمان کے گروہ میں فحش پھیلے وہ دنیا وآخرت میں سخت سزاکے مستحق ہیں‘‘۔ان حالات میں اسلامی افکارکے حامل تعلیم یافتہ طبقے کا فرض بنتاہے کہ وہ بے لگام میڈیا کے مدمقابل اصلاحی نوعیت کے چینلزروشناس کرائیں‘ اس کے لیے مخلصانہ اندازمیں مساعی کریں‘ اسلامی سوچ کے حامل ہنرمندوں اورپیشہ ورافرادتک پہنچ کر اس کار خیر میں شریک کریں۔برائی کے اس منبع کے آگے بندھ باندھنے کی ضرورت جتنی آج ہے‘ پہلے کبھی نہ تھی۔

No comments:

Post a Comment