مہربہ لب انسانیت سے برمی مسلمانوں پر اُفتادکیوں؟ ایم ودودساجد
متعددعالمی اداروں کی رپورٹ کے مطابق برما میں بہت سے مذاہب کے لوگ بستے ہیں لیکن واضح طور پرمسلمانوں اورعیسائیوں کو مذہبی آزادی حاصل نہیں ہے۔حکومت برما کو مسلمانوں کے ساتھ کھلے عام تفریق کرنے میں کوئی عار بھی محسوس نہیں ہوتی۔اسی لئے مسلمانوں کو وہاں شہریت کا حق حاصل نہیں ہے۔۱۹۷۸میں مسلمانوں کی اکثریت والے صوبہ’ اراکان‘ میں کنگ ڈریگن آپریشن کیا گیا تھا۔اس کے نتیجہ میں دو لاکھ سے زیادہ مسلمان دربدر ہوگئے تھے۔دنیا بھر میں فوج کو غیر سیاسی کردار کی حامل اور کچلے ہوئے شہریوں کی محافظ سمجھا جاتا ہے لیکن برما میں فوج ہی مسلمانوں کی سب سے بڑی دشمن واقع ہوئی ہے۔واقعہ یہ ہے کہ ۸۰کی دہائی میں جمہوریت پسند قومی لیڈر آنگ سانگ سوکی کو برما کے مسلمانوں کی اکثریت نے جوش وخروش کے ساتھ حمایت دی تھی لیکن ’فوجی جنٹا‘نے عوامی الیکشن میںبھاری اکثریت کے ساتھ کامیاب ہوکر آنے والی سوکی کو حکومت سازی کا موقع نہیں دیااور انہیں نظر بند کردیا ۔ یہ ایک حیرت انگیز سوال ہے کہ آخر مہذب دور کی جمہوری دنیا نے کیسے جمہوریت کے اس قتل کو برداشت کرلیا؟بین الاقوامی تناظر میںبرما کی فوج کے پاس تو اتنی بھی طاقت نہیں تھی جتنی ازکاررفتہ عراقی فوج کے پاس ۹۰اور اس سے اگلی دہائی میں تھی۔
برما کی ۸۹فیصد آبادی اس دھارمک عقیدے پرعمل پیرا ہے جس کی بنیاد ہی بھائی چارہ اور بقائے باہم کے اصول پر رکھی گئی تھی مگر دنیا اتنی بڑی ‘منظم اور اجتماعی’ مذہبی دہشت گردی‘اور سرکاری ظلم وتشددکے خلاف مہر بلب ہے۔اتنی بڑی تعداد میں آباد روہنگیامسلمانوںکوایک طرف جہاں حقِ شہریت حاصل نہیں ہے وہیں انہیں تعلیم کا حق بھی میسر نہیں۔ان کے بچے اسکولوں میں داخلہ نہیں لے سکتے۔ خود مسلمان اپنے تعلیمی ادارے قائم نہیں کر سکتے۔ ۸۰ء کی دہائی تک مسلمانوں نے بڑی تعداد میں جو ادارے قائم کرلئے تھے انہیں بند کردیا گیا ہے۔ہمسایہ ملک میں اس اہم انسانی مسئلے پر جمہوری بھارت کی خاموشی یا لاتعلقی کی کیا توجیہہ کی جاسکتی ہے کہ برما کے جولُٹے پٹے مسلمان پچھلے چند برسوں سے ہندوستان کے مختلف شہروں میں بھٹک رہے تھے وہ بے خانماں اب پچھلے چند مہینوں سے راجدھانی دہلی میں دردر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔یہ لوگ اقوام متحدہ کے کمشنر برائے پناہ گزیں کے دفتر کے باہر ہفتوں پڑے رہے لیکن ان کا پناہ گزینی کا مسئلہ حل نہ ہوسکا۔جس ’عالیشان ‘علاقے میں یہ دفتر واقع ہے وہاں کی مقامی آبادی نے پولیس پر اتنا دبائو ڈالا کہ اس نے آخر کار معصوم بچوں‘عمر رسیدہ بیماروں اور عورتوں پر مشتمل اس کارواں کو بے رحمی کے ساتھ مارپیٹ کر بھگا دیا۔حالانکہ کئی مسلم جماعتوں نے ان کی روزمرہ ضروریات کا انتظام کیا لیکن آخر کب تک؟پھر ایک سوال ذہن میں گردش کر رہا ہے کہ اگر ایسا لٹا پٹا قافلہ پڑوسی ملک پاکستان سے آیا ہوتا تو کیا اس کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوتا؟دہلی میں ہی ایسے ہزاروں خاندانوں کو اوقاف کی بیش قیمت زمینوں پر منظم کالونیاں بناکر دے دی گئی ہیں۔یہی نہیں وہ شہری ترقیات کے تمام ضابطوں کی دھجیاں اڑاتے ہوئے تعمیری اضافہ کرلیتے ہیں مگر ان کو کچھ نہیں کہا جاتا۔نیپال کے شہریوں کو تو آزادی کے ساتھ بغیر پاسپورٹ اور ویزا کے ہندوستان آنے جانے ‘یہاں آباد ہوجانے اور سرکاری ملازمتوں تک کیلئے درخواست دینے اور سول سروسزکے امتحانات میں بیٹھنے کا حق حاصل ہے۔وزارتِ اطلاعات ونشریات نے تو نیپالی اور سندھی زبان کے اخبارات کیلئے باقاعدہ اشتہارات کا فنڈاردو سے زیادہ مختص کر رکھا ہے۔توکیا عربی اور فارسی زبان کے رسائل بھی ایسی سہولت حاصل کرسکتے ہیں؟
فرانس میں مسلم خواتین کے حجاب کے ساتھ سکھوں کو بھی دستارپر پابندی اور تعصب کا سامنا کرنا پڑا تھا۔لہٰذا ۲۰۰۷میںشرومنی گرودوارہ پربندھک کمیٹی نے ایک طرف تو حکومت ہند پر بجاطوردبائو ڈالا اور دوسری طرف حکومت فرانس سے از خود رابطہ کیا۔یہاں تک کہ کمیٹی کی صدر بی بی جاگیر کورایک وکیل کو لے کر خود پیرس پہنچ گئیں۔جرمنی میں مقیم فرینچ زبان کے ماہر ایک سکھ پروفیسر کی خدمات حاصل کی گئیں،پھر جب خود وزیر اعظم من موہن سنگھ ‘فرانس گئے تو سکھوں کی دستار کے مسئلہ پر صدرسرکوزی سے خصوصی طور پر بات کی۔ہندوستان کی وزارت خارجہ نے بھی سفارتی سطح پرکافی سرگرمی دکھائی۔فجی میں ہندودھرم ماننے والوں کے ساتھ بدسلوکیاں کی گئیں تو حکومت ہند نے اس کے خلاف زبردست ردعمل ظاہر کرکے وہاں کے حکمرانوںکو ہوش کے ناخن لینے کا سجھائو دیا جس سے فجی کے حاکموں کی عقل ٹھکانے آگئی ۔کیا ایسی ہی سرگرمی مسلم قائدین کو بھی اختیار کرنے کی چھوٹ دی جاسکتی ہے؟حال ہی میں وزیر اعظم کی ملاقات برما کی جمہوریت نواز لیڈر آنگ سانگ سوکی سے بھی ہوئی ہے۔اس ملاقات سے کئی روز پہلے وزیر اعظم سے مختلف تنظیموں نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ جب وہ برمی لیڈر سے ملاقات کریں تو برما کے ان خانہ بدوش مسلمانوں کا ذکر بھی ضرور کریں لیکن افسوس کہ ہمارے وزیر اعظم صاحب نے ان بے سہاروں،بے چاروں کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ہندوستان میں آزادی کے بعد سے اب تک سینکڑوں مسلم کش فسادات میںہزاروں بے گناہوں کی جانیں تلف ہوچکی ہیں۔لاکھوں لٹ پٹ کر بربادہوچکے ہیںلیکن آج تک نہ متاثرین کی بازآبادکاری کاکوئی منصوبہ بنایا گیااور نہ قصورواروں کو سزا ملی۔اس کے برخلاف ۱۹۸۴ء میں ہونے والے قتل عام کی پاداش میں کتنے ہی نامی گرامی سیاستدانوںکودھول چٹادی گئی اور متاثرین کوبھاری معاوضے اور دوسری صورتوں میں ملنے والی مختلف امداد کے علاوہ ان کیلئے جنوری۲۰۰۶میں سات ارب ۱۴کروڑ۷۶ لاکھ روپیہ کا بجٹ منظور کیا گیا۔ آج بھی دہلی کی مختلف عدالتوں میں متاثرین کے کتنے ہی مقدمات زیر سماعت ہیں۔ فساد زدگان کے تئیں اتنی فراخ دلی شاید آزاد ہندوستان کی تاریخ میں کسی بھی حکومت نے نہیں دکھائی ہوگی لیکن لٹے پٹے ہزاروں برمی مسلما ن دردر کی ٹھوکریں کھاکر بیٹھ گئے ہیں‘ انہیں آج تک معاوضہ کے نام پر سات روپیہ تک نہیں دئے گئے۔ایسی صورت میں کیونکر اس شخص کی زبان پکڑی جائے جویہ گلہ کرے میری بربادی اور تباہی پر خاموشی اختیار کی گئی اور مصلحتوں کے تالے لب اظہار پر چڑھائے گئے کیونکہ میں مسلمان اور کلمہ خواں ہوں۔
wadoodsajid@gmail.com
|
Search This Blog
Friday, 22 June 2012
مہربہ لب انسانیت سے برمی مسلمانوں پر اُفتادکیوں؟
Labels:
News/Feature
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment