انٹی بایوٹک کھانے سے پہلے
ہمارے ہاں اکثر لوگ معمولی انفکشن(چاہے وہ ویئرسی ہو یا جراثیمی) میں مبتلا ہونے کے بعد ایک دم، کسی ڈاکٹر سے مشورہ کئے بغیر، انٹی بیوٹک دوائیاں کھانا شروع کرتے ہیں۔ بخار، کھانسی یا سردرد شروع ہوتے ہی گھر میں پڑے انٹی بیوٹک لیتے ہیں، گھر میں موجود نہ ہو تو ہمسایہ یا کسی دوست سے اُدھار لیکر کھاتے ہیں۔ وہاں سے نہ ملے تو دوائی کی دکان پر جاکر خرید لیتے ہیں اور یہ جانے بغیر کہ اس کی ضرورت ہے بھی یا نہیں، چنّے، مٹر کی طرح کھانا شروع کرتے ہیں…ہماری وادی میں انٹی بایوٹک دوائیاں کا جتنا زیادہ استعمال ہوتا ہے اُتنا دنیا کے کسی کونے یا ہندوستان کی کسی ریاست میں نہیں ہوتا ہے، کشمیر میں ہر قسم کی انٹی بویاٹک دوائیاں ہرگلی کوچے کی دکان پر بنا کسی ڈاکٹری نسخے کے دستیاب ہیں اور لوگ جاکر کوئی بھی ایسی دوائی خرید کر از خود اپنے لئے تجویز کر کے استعمال کرنا شروع کرتے ہیں …اگر ان دوائیوں کے نام یاد نہ ہوں تو میڈیکل شاپ پر کام کرنے والے ملازموں سے اپنی بیماری بیان کرتے ہیں اور وہ روپیہ کمانے کے لئے ان کیلئے ڈھیر سارے انٹی بویاٹک تجویز کرتے ہیں اور مریض ایک دو دن تک استعمال کر کے ترک کرتے ہیں اور اس طرح نہ صرف وہ اپنے آپ پر ظلم ڈھاتے بلکہ اپنے گھر والوں اور نزدیکی رشتہ داروں کیلئے ایک سنگین مسئلہ کھڑا کرنے کے علاوہ سماج کے لئے بھی ایک خطرہ بن جاتے ہیں۔ کیونکہ دوتین انٹی بیوٹک کیپسول یا ٹیبلٹ کھانے سے اُس فرد کے جسم کے اندر موجود جراثیم پوری طرح فنا ہونے کے بجائے صرف نیم مردہ ہوتے ہیں اور چند دنوں کے بعد وہ پھر سے تازہ اورصحت مند ہو کر دوبارہ اس بیمار پر حملہ آور ہوتے ہیں… اور ان پر دوبارہ وہ دوائی/دوائیاں اثر اندازنہیں ہوتی ہیں کیونکہ اس دوائی کے خلاف جراثیم مقاوم (Resist)ہو چکے ہوتے ہیں اور وہ اپنا کام زیادہ فعالیت اور مستعدی سے انجام دے کر مریض کو اندر ہی اندر کھوکھلا کر دیتے ہیں… اس طرح اس بیمار کا وقت اور پیسہ برباد ہوتا ہے اور اسے پھر کوئی دوسرا مہنگا اورتیز اثر انٹی بویاٹک استعمال کرنا پڑتا ہے۔ علاوہ ازیں ایسے مریض کے جسم کے اندر یہ مقاوم جراثیم سانس کے ذریعہ چھینکنے سے یا نزدیک سے گفتگو کرنے سے، دوسرے انسانوں میں منتقل ہوتے ہیں اوران کے لئے بھی خطرہ بن جاتے ہیں کیونکہ ان پر وہ انٹی بویاٹک اثر نہیں کرتے اور وہ بے چارے لوگ مفت میں کسی اور کی غلطی کی سزا بھگت لیتے ہیں اس لئے انٹی بویاٹک دوائیاں کھانے سے پہلے درج ذیل نکات پر غور کرنا بے حد ضروری ہے۔
یاد رکھئے صرف ایک انٹی بایوٹک کیپسول یا ٹیبلٹ کھانے سے یا ایک دو انجکشن لگانے سے، آپ کے جسم کا نظام درہم برہم ہوسکتاہے اوربسا اوقات جسم کے اندر موجود مفید جراثیم بھی نیست و نابود ہونے سے آپ پیچیدگیوں کے شکار ہوسکتے ہیںاس لئے جب بھی انٹی بویاٹک دوائی لینی ہو تو کم از کم دس بار سوچئے اور کسی ماہر ڈاکٹر سے تفصیلی مشورہ کرنے کے بعد یہ دوائیاں شروع کرنے کی جرأت کریں۔
٭ کبھی بھی، کسی بھی صورت میں انٹی بایوٹک دوائیاں اپنی مرضی سے نہ لیں۔
٭ کسی دوست، رشتہ دار یا ہمسایہ سے مانگ کر، کسی دوائی کی دُکان سے خرید کر انٹی بویاٹک دوائیاں استعمال کرنا خطرے سے خالی نہیںہے۔
٭ انٹی بویاٹک شروع کرنے میں جلدبازی سے کام نہ لیں۔
٭ اپنے معالج ڈاکٹر کو انٹی بویاٹک تجویز کرنے پر مجبور نہ کریں۔
٭ اگر آپ کا معالج ڈاکٹر آپ کیلئے ایسی دوائیاں تجویز کرتا ہے تو اس سے ’’وجہ‘‘ ضرور پوچھئے اور مکمل جانکاری حاصل کریں۔انٹی بویاٹیک ادویات لینے سے پہلے اپنے خون کی مکمل جانچ (CBC) کروالیں تاکہ یہ پتہ چلے کہ عفونت ہے یا نہیں!
٭ ویئرسی عفونتوں(Viral Infections)مثلاً زکام، کھانسی، پیٹ درد، اسہال،یرقان وغیرہ کے لئے ان دوائیوں کا استعمال ہرگز نہ کریں۔
٭ انٹی بویاٹک دوائیاں مقررہ مقدار میں مقرر وقت کیلئے استعمال کریں۔ اگر آپ کے سبھی علائم بھی ناپید ہوں تب بھی ان دوائیوں کی پوری مقدار اور تجویز کردہ مقدار کھالیں۔ قبل از وقتِ معین ترک کرنے سے بیماری دوبارہ حملہ آور ہوسکتی ہے اور جسم میں موجود جراثیم آپکے خطرناک دشمن بن جائیں گے۔انٹی بویاٹیک ادویات لینے سے پہلے ان کے منفی یا ذیلی اثرات کے بارے میں مکمل جانکاری حاصل کریں۔
٭ اپنے لئے ایک ہیلتھ فائل بنائیے اس میں مختلف علائم یابیماریوں کے لئے استعمال شدہ انٹی بائٹکس کی تعداد، مقدار اور مدتِ استعمال تفصیل سے درج کیجئے اوربہ وقت ضرورت اپنے ماہر معالج کو دکھائیے۔
٭ اگر چند روز، ڈاکٹر کی تجویز کردہ انٹی بایوٹیکس کھانے کے بعد بھی علائم ناپید نہ ہوں تو فوری ڈاکٹر سے رجوع کر کے خون ،پیشاب اور دیگر لازمی Testsکروالیں۔
انٹی بویاٹک ادویات شروع کرنے کے بعد اگر جانبی اثرات ستانے لگیں (مثلاً دست کی شکایت ہونے لگے) تب بھی ان کا استعمال جاری رکھیں کیوں کہ عارضی طور استعمال کرنے سے آپ ان دوائیوں کیلئے مقاوم بن جائیں گے اور پھر دوبارہ یہ اثر نہیں کریں گے۔ کمسن بچوں کو انٹی بویاٹک ادویات سوچ سمجھ کر دی جانی چاہئے۔ ہمارے ہاں اکثر ڈاکٹر، حکیم ، نیم حکیم، دوافروش سوچے سمجھے بنا ہی بچوں کو معمولی بخار کھانسی یا اسہال کیلئے انٹی بویاٹک دوائیاں تجویز کرتے ہیں۔ کبھی بھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کرتے ہیںکہ بخار کی بنیادی وجہ کیا ہے؟ اگر عفونت ہے تو وہ جراثیمی ہے یا وائرسی۔ بچوں کو بار بار بنا کسی وجہ کے انٹی بویاٹک کھلانے سے اُن کی صحت پر زبردست منفی اثرات پڑتے ہیں، ان کی انٹریوں سے دوست جراثیم کا صفایا ہوجاتا ہے اور وہ سوئِ تغذیہ کا شکار ہوکر لاغر ہوجاتے ہیں، اُن کے جسم کا نظامِ دفاع بُری طرح متاثر ہوتا ہے اور وہ گوناگوں بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ا کثر لوگ ’’انٹریوں کی انفکشن‘‘ کیلئے فوری طور دوائیاں لیتے یں۔ یہ سراسر غلط اور غیر سائنسی ہے۔ انٹرویوں کی انفکشن کیلئے دوائیاں لینے سے پہلے فضلہ کی جانچ (لگاتار تین دن کیلئے) کروانا ضروری ہے اور پھر خون کی مکمل جانچ بھی لازمی ہے۔ کسی بھی ٹسٹ کے بغیر دوائیاں لینا خطرے سے خالی نہیں ہے۔ اسی طرح کھانسی اور زکام اکثر وائریسی نوعیت کے ہوتے ہیں ان میں انٹی بویاٹک دوائیاں لینا پیچیدگیوں کو دعوت دینا ہے۔
آپ کا جسم آپ کی امانت ہے، اسلئے اسکی حفاظت کرنا آپ کی اولین ذمہ داری ہے۔ کسی بھی صورت میں کوئی انٹی بویاٹک ٹیبلٹ، کیپسول یا انجکشن ہرگز نہ لیں۔ اپنے لئے خود ہی انٹی بویاٹک تجویز کرنا یا کسی دوافروش سے خرید کر استعمال کرنا، ایک گناہ ہے اس لئے اس گناہ سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کریں
بہ شکءیہ روزنامہ کشمیر عظمی
|
Search This Blog
Sunday, 10 June 2012
انٹی بایوٹک کھانے سے پہلے
Labels:
SELECTED ARTICLES
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment