Search This Blog

Friday 22 June 2012

مصر کے انتخابات میں فوجی مداخلت

مصر کے انتخابات میں فوجی مداخلت

-پروفیسر شمیم اختر
مصر میں حسنی مبارک کی آمریت کے خاتمے پر پہلے پارلیمانی، اس کے بعد صدارتی انتخابات منعقد ہوئے جو فوجی آمریت کے ساٹھ سالہ دور کے انتخابات سے بہت مختلف تھے، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پارلیمانی انتخابات میں ہر مکتبِ فکر کی حامل جماعتوں نے اپنے اپنے نمائندے کھڑے کیے اور انتخابی مہم میں بڑی سرگرمی دیکھنے میں آئی، جبکہ پولیس کی مداخلت کم سے کم رہی، کیونکہ تحریر چوک کے عوامی احتجاج نے رائے دہندگان کے دل سے خوف نکال دیا تھا۔ پارلیمان کے انتخابات کئی مرحلے طے کرتے ہوئے جنوری میں اختتام کو پہنچے تو498 رکنی اسمبلی میں اخوان کی حمایت یافتہ الحریہ والعدالہ اور سلفیوں کی تنظیم النور کو بالترتیب 232 اور 80 نشستیں حاصل ہوئیں، چنانچہ پارلیمان نے 100 رکنی دستور ساز کمیٹی بنائی جس کے نصف ارکان پارلیمان سے اور باقی مختلف اداروں اور مزدور انجمنوں سے منتخب کیے گئے تھے۔ اس میں چھ عدد قبطی عیسائی اور پانچ خواتین بھی شامل تھیں۔ کمیٹی کا اجلاس 28 مارچ کو منعقد ہوا جس میں سعدکتاتنی کو سربراہ بنایا گیا۔ انہوں نے قوم کو یقین دلایا کہ مجوزہ دستور تمام مصریوں کے لیے بنایا جائے گا اور یہ عمل غیر جانبدارانہ ہوگا۔ لیکن مصر کی عدالت عظمیٰ نے اپنے نمائندے کو یہ کہہ کر واپس بلالیا کہ دستور ساز کمیٹی متنازع ہوگئی ہے (ڈان 29 مارچ 2012ئ)۔ جبکہ 10 اپریل کو مصر کی انتظامی عدالت نے اس کمیٹی کو غیر آئینی قرار دے کر معطل کردیا اور اس کی قانونی حیثیت کے تعین کے لیے اسے عدالت عظمیٰ کے حوالے کردیا۔ مذکورہ عدالت کا مؤقف تھا کہ رائے شماری میں دستور سازی کے بارے میں جو اعلان کیا گیا تھا اس میں یہ شق نہیں تھی کہ پارلیمان کے ارکان اس کے رکن بن سکتے ہیں (ڈان 11 اپریل 2012ئ)۔ تاہم جیسا کہ ظاہر ہوتا ہے مصر کے مقتدر حلقوں کے دبائو کے باوجود دستور ساز کمیٹی کے افتتاحی اجلاس میں 74 ارکان موجود تھے جنہوں نے اس کی کارروائی میں بھرپور حصہ لیا۔ (29 مارچ 2012ئ)
یہ مروجہ جمہوری روایت کے بالکل منافی ہے کہ دستور ساز اسمبلی کی دستور سازی میں مزاحمت کی جائے۔ اس ضمن میں یہود و نصاریٰ بہت سرگرم تھے اور یہ پروپیگنڈا کررہے تھے کہ اخوان کے برسراقتدار آنے سے غیر مسلم اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک برتا جائے گا، جبکہ مصریوں کی شخصی آزادی سلب کرلی جائے گی، لیکن فوجی جنتا اور اس کی آلہ کار عدلیہ کی جمہوری عمل میں مداخلت کے باوجود اخوان نے صبر و تحمل سے کام لیا اور تین مرحلوں میں ہونے والے صدارتی انتخاب کی تیاری میں لگ گئے۔ اس مرحلے پر مغربی، صہیونی، سرکاری اور غیر سرکاری ذرائع ابلاغ نے فوجی جنتا کے ساتھ ہم آواز ہوکر اخوان کی کردارکشی کی مہم شروع کردی اور یہ تاثر دیا کہ انہوں نے تحریر چوک کے انقلاب میں کوئی کردار ادا نہیں کیا تھا۔ یہ سچ ہے کہ اخوان نے جمہوری تحریک میں فعال کردار اس لیے ادا نہیں کیا تھا کہ اس سے مصر کی فوجی جنتا اور اس کے امریکی آقا ساری جدوجہد کو مذہبی انتہا پسندی قرار دے کر سختی سے کچل دیں گے۔ یوں تو مصر کی فوجی جنتا کی اخوان نے ساٹھ سال تک شدید مزاحمت کی تھی، جبکہ وفد، سوشلسٹ، کمیونسٹ اور سیکولر قوتیں یا تو سیاست سے کنارہ کش ہوگئی تھیں یا فوجی جنتا میں شامل ہوگئی تھیں۔ حسنی مبارک کے تین عشروں پر محیط دورِ اقتدار میں اخوان المسلمون کی سرگرمیوں پر اتنی پابندیاں عائد کردی گئیں کہ وہ عملاً مفلوج ہوکر رہ گئی۔ انہیں اپنے جھنڈوں پر لاالہ الا اللہ، محمد الرسول اللہ لکھنے کی بھی اجازت نہ تھی۔ کیا مصر کی کوئی سیکولر پارٹی یہ دعویٰ کرسکتی ہے کہ مصر کے ساٹھ سالہ فوجی آمریت کے دور میں اخوان المسلمون کے جتنے کارکنوں اور رہنمائوں کو پھانسی، حبسِ دوام، ماورائے عدالت قتل، ایذا رسانی کی سزائیں دی گئیں، ان کی عشر عشیر سزائیں بھی ان کے حامیوں کو ملیں؟ کیا یہ اخوان کے ایثار اور قربانی کا ثبوت نہیں ہے؟ حسن الہضیبی، عبدالقادر عودہ سے لے کر سید قطب اور ان کے ساتھیوں کی قربانیوں کو شمار نہیں کیا جائے گا؟
شاہ فاروق نے اخوان کے رہبر اور بانی حسن البنا کو فروری 1949ء میں قتل کرایا، جبکہ جمال عبدالناصر نے عبدالقادر عودہ اور سید قطب کو شہید کیا۔ اخوان کے مقابلے میں وفد، سوشلسٹ اور کمیونسٹ، اور تحریر چوک کے احتجاج میں خودرو جماعتوں نے مصر میں جمہوری حکومت کے قیام کے لیے کتنے شہید پیدا کیے؟ بڑی ستم ظریفی ہے کہ دو ہفتے شور شرابہ مچانے اور ہنگامہ آرائی کرنے والے انقلابی کہلائیں، اور ساٹھ سال سے ستونِ دار پر چراغ کے سر رکھنے والے رجعت پسند بلکہ انقلاب شکن کہلائیں؟ کیا عمر سلیمان کی سربراہی میں مصر کی خفیہ ایجنسی نے اخوان کے کارکنوں کو حراست میں لے کر ان کی نظروں کے سامنے ان کی مائوں، بہنوں اور بیویوں کی عصمت دری نہیں کی؟ آج محمد برادعی کہتا ہے کہ مصر پارلیمانی جمہوریت اور انتخاب کے لیے سازگار نہیں ہے۔ تو بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی IAEA سے فارغ ہونے کے بعد اس نے کس لیے اپنی سیاسی جماعت بنائی تھی؟ کیا اُس وقت اس کا ارادہ انتخاب لڑنے کا نہیں تھا؟ اگر مصر جمہوریت کے لیے سازگار نہیں ہے تو اس نے حسنی مبارک کی آمریت کی مخالفت کیوں کی تھی؟ اب جبکہ اُس کی تانگہ پارٹی کا مستقبل تاریک نظر آیا تو جمہوریت شجر ممنوعہ بن گئی؟ ویسے بھی محمد برادعی کے کرتوت کون نہیں جانتا کہ وہ امریکہ اور اسرائیل کے لیے ایران کی تنصیبات کے معائنے کی آڑ میں جاسوسی کرتا تھا۔ اس نے اسرائیل کے اسلحہ خانے میں چار سو جوہری بموں کے انبار پر اس کی بازپرس کیوں نہیں کی؟ بلکہ اس پر چشم پوشی کرتا رہا۔ عمرو موسیٰ تو صدارتی امیدوار بن کر انتخاب کے میدان میں خم ٹھونک کر اترا تھا۔ وہ فوجی جنتا کا تنخواہ دار وزیر خارجہ تھا اور اس کی خدمات کے عوض میں خلیج کے فرماں روائوں نے اسے نیم مفلوج صم بکم لایرجعون عرب لیگ کا سیکریٹری جنرل بنادیا، اور اس نے غزہ پر اسرائیل کے حملے کے سدباب کے لیے کوئی بھی اقدام نہیں کیا۔ اگر حسنی مبارک کی معزولی کے بعد فوجی جنتا اور اس کے تابع سارے اداروں انتخابی کمیشن، عدلیہ، حتیٰ کہ جامعہ ازہر کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو ان میں سے ہر ایک کی یہی کوشش رہی کہ کسی طرح جمہوری عمل کو ناکام بنادیا جائے۔ انتخابی کمیشن نے تو کھل کر جانب داری کا مظاہرہ کیا اور حسنی مبارک کے دورِ حکومت میں اہم عہدوں پر فائز وزرا مثلاً سابق وزیراعظم احمد شفیق کو جو مصر کی فضائیہ کا سربراہ بھی رہ چکا ہے، صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کا اہل قرار دے دیا جس سے پوری قوم میں مایوسی اور غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔ جبکہ الحریہ والعدالہ (اخوان) کے رہنما اور صدارتی امیدوار خیرت الشاطر اور النور کے حازم صلاح ابواسمٰعیل کو نااہل قرار دے دیا۔ اگر الحریہ والعدالہ (اخوان) نے ڈاکٹر محمد مرسی کو امیدوار نامزد نہ کیا ہوتا تو مصر کی سب سے بڑی عوامی پارٹی یعنی اخوان صدارتی انتخاب سے بے دخل کردی گئی ہوتی۔ بدقسمتی سے اخوان کے رہنما عبدالمنعم ابوالفتوح اپنی پارٹی کے فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے صدارتی امیدوار بن گئے جنہیں انتخابی کمیشن نے فوراً اہل قرار دے دیا اور مغربی ذرائع ابلاغ اور ان کا ہمنوا مصری میڈیا اخوان کے منحرف رہنما عبدالمنعم ابوالفتوح کو معتدل سیاستداں کی حیثیت سے رائے دہندگان کے لیے قابل قبول بنانے میں کوشاں تھے۔ اب انتخابی میدان میں 13 صدارتی امیدواروں میں مقابلہ آرائی ہوئی۔ ستم ظریفی یہ تھی کہ حسنی مبارک کی عوام دشمن حکومت کا سابق سربراہ احمد شفیق خود کو مذہبی رواداری، امن و استحکام کے علم بردار کی حیثیت سے عوام میں متعارف کرانا چاہتا تھا، جبکہ سیکولر اور سوشلسٹ پارٹیوں نے تحریر چوک کی تحریک کا محرک اور رہنما ہونے کا دعویٰ کیا، اور ان دونوں یعنی احمد شفیق اور سیکولر اور روشن خیالی کی داعی جماعتوں نے اخوان پر مذہبی انتہا پسندی کا الزام لگاکر قبطی عیسائیوں کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی۔
یہ اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اخوان کے خلاف فوجی جتنا اور نام نہاد سیکولر جماعتوں کا محاذ بن گیا، لیکن ان نامساعد حالات کے باوجود 13، 14 مئی کو صدارتی انتخاب کے پہلے مرحلے میں الحریہ والعدالہ کے امیدوار ڈاکٹر محمد مرسی کو 25.3 فی صد، جبکہ احمد شفیق کو 24.9 فی صد ووٹ حاصل ہوئے، اور تیسرے نمبر پر پان عرب سوشلسٹ پارٹی کے امیدوار حمد بن صیاحی کو 21.5 فی صد ووٹ ملے۔ اس طرح تمام ہتھکنڈوں کے باوجود پہلے مرحلے میں ڈاکٹر محمد مرسی کو سب سے زیادہ ووٹ ملے، اور انہیں احمد شفیق کے مقابلے میں تقریباً ایک لاکھ ووٹوں کی برتری حاصل رہی۔ اب دوسرا مرحلہ باقی تھا جس کے لیے 8 اور 9 جون کو 33 ممالک میں مقیم پانچ لاکھ اندراج شدہ رائے دہندگان میں سے تین لاکھ دس ہزار افراد نے ووٹ ڈالے جس میں الحریہ والعدالہ (اخوان) کے امیدوار ڈاکٹر محمد مرسی کو دولاکھ بتیس ہزار ووٹ ملے، چنانچہ 16، 17 جون کو اندرون ملک رائے دہندگان نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ دریں اثنا بیرون ملک مقیم مصری رائے دہندگان کی ڈاکٹر محمد مرسی کی ہمہ گیر اکثریت کی حمایت سے مصر کی فسطائی فوجی جتنا کے ہاتھ پائوں پھول گئے، چنانچہ 14 جون کو عدالت عظمیٰ نے منتخب شدہ پارلیمان کو غیر قانونی قرار دے دیا اور حسنی مبارک کے ظالمانہ دورِ حکومت میں وزارت عظمیٰ اور اعلیٰ عہدوں پر فائز رہنے والے احمد شفیق کو انتخاب کا اہل قرار دے دیا۔ (ڈان 15 جون 2012ئ)
اس سے عدلیہ اور فوجی جنتا کی ملی بھگت ظاہر ہوتی ہے۔ چنانچہ طنطاوی جنتا نے عدلیہ کے فیصلے کی آڑ لیتے ہوئے ایک فرمان صادر کیا جس کے ذریعے منتخب پارلیمان کو تحلیل کرکے ازسرنو انتخاب کا اعلان کیا، ریاست کے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیے، دستور سازی کے لیے ایک کمیٹی مقرر کرنے کا وعدہ کیا اور 30 جون کو منتخب صدر کو اختیارات سونپ دینے کا وعدہ کیا۔ فوجی جتنا کے اس اقدام کی نہ صرف مصر بلکہ دنیا بھر میں مذمت کی گئی اور اسے رجعت پسندانہ اقدام قرار دیا گیا۔ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل اور بھارت کے انگریزی روزنامے دی ہندو (The Hindu) نے اسے جمہوریت کے منافی قرار دیا۔ اخوان کی درخواست پر مصر کی تمام سیاسی جماعتوں نے ایک بار پھر 19 جون کو فوجی جنتا کے غیر آئینی اور آمرانہ اقدام کی مذمت کی اور ایک بار پھر تحریر چوک کی فضا انقلابی نعروں سے گونج اٹھی۔
تادم تحریر مصر کے انتخابی کمیشن نے صدارتی انتخاب کے نتائج کا اعلان نہیں کیا، تاہم اخوان اور دیگر غیر سرکاری ذرائع کے مطابق اخوان کے امیدوار ڈاکٹر محمد مرسی نے 52 فی صد کے لگ بھگ ووٹ حاصل کرکے انتخاب جیت لیا ہے، تاہم مصر کے سرکاری ذرائع نے اس کی تصدیق نہیں کی، جبکہ احمد شفیق نہایت دیدہ دلیری سے اپنی کامیابی کا اعلان کررہا ہے۔
دراصل حسنی مبارک کی معزولی کے بعد اس کے ماتحت فوجی ٹولے نے ملک کا اقتدار غصب کرلیا اور اس کی کوشش یہی تھی کہ ملک کی مختلف سیاسی جماعتوں کو لڑاکر اقتدار اپنے کسی پٹھو کے حوالے کردے۔ ظاہر ہے یہ صرف فوجی جتنا کا فیصلہ نہیں ہے بلکہ اس میں اسرائیل اور امریکہ کا ہاتھ ہے جو نہ صرف اخوان بلکہ ہر نمائندہ حکومت سے خائف رہتے ہیں کیونکہ وہ عوام کے دبائو کے باعث صلیبی صہیونی ٹولے کی ہر بات نہیں مانے گی۔
ان واقعات نے یہ ثابت کردیا کہ جب تک امریکہ کی تنخواہ دار اور تابعدار فوج اور اس کی تابع نوکر شاہی عدلیہ اور ذرائع ابلاغ کی تطہیر نہیں کی جاتی، ملک پر یہ لعنت مسلط رہے گی۔ یہ اخوان کا ہی دردِسر نہیں ہے، اگر کوئی سیکولر جماعت بھی عوامی حمایت سے برسراقتدار آتی ہے تو اسے بھی اس عفریت کا سامنا کرنا ہوگا۔ لہٰذا مصر کی عوامی فوج (Peoples Army) کی ضرورت ہے جو امریکہ اور اسرائیل سے نہیں اپنی منتخب حکومت سے احکامات لے۔

No comments:

Post a Comment