Search This Blog

Monday 25 June 2012

محنت کا پھل

محنت کا پھل
مرسلہ :شکور احمد ملک

 ایک امیر تاجر تھا۔ اس کا ایک بیٹا تھا جو نہایت ہی سست اور کاہل تھا۔وہ تاجر چاہتا تھا کہ اس کا بیٹا محنتی اور کام کے قابل بن جائے۔ وہ اس کو محنت کی اہمیت سمجھانا چاہتا تھا۔ اس مقصد کے لیے اس نے ایک دن اپنے بیٹے کو بلایا اور کہا:" آج تم گھر سے باہر نکل کر جاؤ اور کچھ کما کر لاؤ۔ اگر تم نہ کما سکے تو آج رات کا کھانا تمہیں نہیں ملے گا۔"لڑکا اناڑی تھا اور کوئی ہنر وغیرہ بھی نہیں جانتا تھا اور نہ ہی کوئی محنت کا کام پہلے کبھی کیا تھا۔ اس کے باپ کے حکم نے اس کو پریشان کر دیا اور وہ رونے لگا اور اپنی ماں کے پاس چلا گیا۔ماں کا دل پگھل گیا اور اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ بے چین ہوگئی۔ اس کا حوصلہ بڑھانے کے لیے اس نے اس کو اپنے پاس سے ایک سونے کا سکہ دے دیا۔شام کو جب باپ گھر آیا تو بیٹے سے کمائی کا پوچھا ، بیٹے نے جھٹ سے ایک اشرفی سامنے رکھ دی۔ باپ نے کچھ دیر سوچا اور پھر کہا کہ اس سکے کو لے کر کنویں مییں پھینک دو۔ بیٹے نے بلا ججھک پھینک دیا۔ تاجر باپ کی عقل نے اس کو سمجھایا کہ ہو نہ ہو یہ اشرفی اس کو اس کی ماں نے دیا ہے۔ ا س نے اگلے دن اپنی بیوی کو اس کے میکے بھجوا دیا۔ اور اب کہا کہ اب جاؤ اور پھر کچھ کما کر لاؤ ورنہ آج تمہیں کھانا نہیں ملے گا۔اب کی بار لڑکا روتا ہوا اپنی بہن کے پاس گیا جس نے اس کی دل کی حالت کو سمجھتے ہوئے اس کو اپنے بچائے ہوئے میں سے ایک اشرفی دے دی۔ جب باپ گھر آیا تو اس نے بیٹے سے پوچھا لاؤ کیا کما کر لائے ہو۔ تو بیٹے نے وہ اشرفی سامنے کر دی۔ باپ نے اس سکے کو بھی کہا کہ اس کو کنویں میں پھینک دو۔ باپ نے دیکھا کہ بیٹے نے یہ سکہ بھی آرام سے پھینک دیا۔ باپ کی تجربہ کار نگاہوں نے بھانپ لیا کہ یہ سکہ اس لڑکے نے خود نہیں کمایا ہے۔ اس نے اپنی اس بیٹی کو اس کے سسرال بھجوا دیا۔ اور اب اس لڑکے کا کوئی ساتھ دینے والا نہیں تھا۔ باپ نے اگلے دن کے کھانے کے لیے بھی کہا کہ جب کما کر لاؤ گے تو ہی کچھ ملے گا۔ اب لڑکا بے سہارا حالت میں مجبور تھا کہ گھر سے نکل کر واقعی کوئی کام ڈھونڈے۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے بالآخر اس کو ایک دکان دار کے پاس ایک کام ملا۔ دکان دار نے اس کو کہا کہ " دیکھ لڑکے ، میں تمہیں دو روپے دوں گا۔اگر تم یہ صندوق میرے گھر تک اٹھا کر پہنچا دو۔ امیر تاجر کے بیٹے نے ججھک کر دیکھا اور پھر کام میں لگ کیا اور کسی طرح سامان گھر پہنچا کر دو روپیہ حاصل کیا۔مگر اس کے پیر تھک چکے تھے اور گردن اور کندھے بری طرح درد کر رہے تھے۔ پھر اس کے پیٹھ پر بھی سامان اٹھانے کی وجہ سے نشان پڑ گئے تھے۔ یہ ایک ہی کام کر کے جب وہ گھر پہنچا تو وہاں باپ کے سامنے پیشی ہوئی تب باپ نے سب سے پہلے اس سے آج کی کمائی کا پوچھا۔ تو اس نے اپنی مٹھی باپ کے سامنے کھول دی جس میں وہ دو روپے موجود تھے۔ باپ نے دیکھتے ہی کہا کہ یہ کنویں میں پھینک دو۔ تو لڑکا اپنی تکلیف کو یاد کر کے چلا اٹھا کہا: اباجان، میرا پورا جسم دکھ رہاہے۔ میری پیٹھ پر نشان پڑ گئے ہ?ں۔ مزدوری کر کے۔ اتنی محنت کر کے میں نے کمایا ہے اور آپ اپنی آسانی سے اسے کنویں میں پھینکنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ "تب وہ باپ مسکرایا اس نے اس کو بتایا کہ ہر انسان اس وقت بڑی ہی تکلیف محسوس کرتا ہے جب اس کی محنت کی کمائی ضائع ہو جائے۔ گزشتہ دو دن سے تم جو اشرفی مجھے دکھا رہے تھے جو کہ تمہیں تمہاری ماں اور بہن نے دیے تھے۔ اور ان کو کنویں میں پھینکتے ہوئے تمہیں کوئی پریشانی محسوس نہیں ہوئی۔ مگر آج جب اپنی محنت کی کمائی کنویں میں پھینکنے کاو قت آیا تو تم چلا اٹھے۔ تمہاری تکالیف میں اضافہ ہونے لگا۔ کیوں ؟۔تب بیٹے نے محسوس کیا کہ دنیا میں اپنے ہاتھ سے محنت کرنے میں ہی عزت و عظمت ہے۔ یہ احساس ہوتے ہی اس نے اپنی کام چوری اور سستی کو چھوڑدیا اور اپنے باپ سے وعدہ کیا کہ اب وہ آئندہ باپ کی کمائی اور دولت کو سنبھالے گا اور کام چوری نہیں کرے گا۔۔ تب باپ نے اپنے کاروبار کی تمام چابیاں بیٹے کے ہاتھ میں رکھا اور اس کو کہا کہ میں باقی زندگی بھی تمہارا ساتھ اسی طرح دیتا رہوں گا۔
سبق:زندگی کے بعض اسباق انتہائی مشکل حالات سے ہی حاصل ہوتے ہیں۔٭٭٭

No comments:

Post a Comment