Search This Blog

Thursday 14 June 2012

خواتین: ا نصاف کی دہلیز پہ صدیوں سے منتظر

خواتین: ا نصاف کی دہلیز پہ صدیوں سے منتظر


قدرت نے کائنات کو ماں، بہن، بیوی اور بیٹی جیسی خوبصورت مخلوق عطا کر کے انسانیت پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ آج اگر عورت کو اپنے معاشرے سے الگ کر کے غور کیا جائے تو کائنات کے رنگ بے نور ہو جاتے ہیں۔ یہ وہی مخلوق ہے جس کے پائوں کے نیچے اللہ تعالی نے بہشت جیسی عظیم نعمت کو بچھا دیا ہے۔ اسلام نے عورت کو وہ مقام عطا کیا ہے جس کی وہ اصل میں حقدار ہے۔دُنیا بھر کی خواتین کو اس بات پر فخر محسوس کرنا چاہیے کہ انہوں نے خواتین کے سیاسی، سماجی اور معاشی حالات کے ضمن میں کئی سنگ میل کامیابیاں حاصل کیں اور خصوصا گذشتہ ایک عشرہ میں یہ کامیابیاں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہیں۔  جب ہم اپنے معاشرے پر نظر دوڑاتے ہیں تو بڑی شرم محسوس ہوتی ہے کہ اس عظیم ہستی کو پائوں کی جوتی خیال کیا جاتا ہے۔ حالت تو یہ ہے کہ عورت اپنے آپ کو مرد کی غلام تصور کرتی ہے۔ایک سروے کے دوران لوگوں سے یہ سوال پوچھا گیا کہ جب وہ سائنسدان، پائلٹ، انجینئر، بینکر، صحافی وغیرہ کا تصور کرتے ہیں تو ان کے ذہنوں میں کس کی شبیہ ابھرتی ہے، زیادہ تر لوگوں نے کہا کہ ان کے ذہنوں میں مرد کا تصور آتا ہے۔ یہ مثال اس معاشرتی سوچ کی عکاسی کرتی ہے جس کے مطابق زیادہ تر لوگوں کی رائے میں خواتین صرف گھر کی چار دیواری کے اندر ایک مخصوص کردار ادا کر سکتی ہیں اور اس کے علاوہ ان کا کوئی علیحدہ تشخص نہیں ہے لیکن اس سوچ میں کافی تبدیلی آچکی ہے ۔ ماضی میں ملازمت پیشہ خواتین چند مخصوص شعبوں تک محدود تھیں۔ ان کے لئے تعلیم اور طب کے شعبے موزوں سمجھے جاتے تھے لیکن اب خواتین ان شعبوں کی طرف بھی آ رہی ہیں جہاں پہلے مردوں کی اجارہ داری تھی۔ سالہا سال سے ہمارے معاشرے میں روزی روٹی کمانے کا کردار مرد ادا کرتا رہا ہے اور عورت کی ذمہ داری گھر داری اور بچے پالنا سمجھی جاتی ہے۔ اس لئے جب عورت گھر سے نکل کر مرد کے شانہ بشانہ کام کرنے کی ٹھان لیتی ہے تو اسے ہزاروں دشواریوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس کے برعکس مرد کو سازگار ماحول کے ساتھ ساتھ خاندان اور معاشرے دونوں کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ گھر اور باہر کی دوہری ذمہ داریاں نبھانے کے باوجود زیادہ تر ملازمت پیشہ خواتین کو گھریلو اور معاشرتی سطح پر مدد نہیں ملتی۔
ہمارے معاشرے میں اکثر دفتروں میں خواتین کو صرف ایک شو پیس کی حیثیت سے رکھا جاتا ہے۔ اکثر مرد حضرات بلاوجہ نزدیک آنے اور بات چیت کی کوشش کرتے ہیں اور اگر لڑکی کسی سے ہنس کر یا اچھے طریقے سے بات کرے تو اس کے کردار پر باتیں بننا شروع ہو جاتی ہیں۔ورکنگ وومن ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ماں ہونا بھی مسئلہ ہے۔ ان کے بچوں کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ چنانچہ ملازمت پیشہ خواتین کے لئے کام کی جگہ پر ڈے کیئر سینٹر ہونے چاہئیں تاکہ وہ سکون سے ملازمت کر سکیں۔آج کل بعض کالجوں میں ڈے کیئر سنٹرز موجود ہیں جب کہ  کالج کے اوقات کار دفتروں میں کام کرنے والی خواتین کی نسبت کافی کم ہیں۔ ملازمت پیشہ خواتین کا ایک بڑا مسئلہ ٹرانسپورٹ کا ہے۔ مسافر بسوں میں خواتین کی نشستیں مردوں کے مقابلے میں کم ہیں۔ اکثر سواریاں اور ڈرائیور وکنڈیکٹرفرنٹ سیٹ پر بیٹھی خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ورکنگ ویمن کو اگر اپنے گھر سے کچھ بھی سپورٹ ہو تو انہیں کوئی خاص مسائل درپیش نہیں ہوتے کیونکہ انہیں اپنے آپ کو بیرونی جھمیلوں سے نپٹنے کی فکر نہیں ہوتی لیکن نچلی سطح پر کام کرنے والی خواتین کافی مسائل کا شکار ہیں۔ فیکٹریوں میں کام کرنے والی خواتین کے اوقات کار زیادہ ہوتے ہیں  جب کہ اس قدر سخت محنت کے عوض انہیں معمولی اجرت دی جاتی ہے۔ اکثر خواتین بغیر آواز اٹھائے کام کرتی رہتی ہیں۔ ان کے اس رویے سے دوسری خواتین متاثر ہوتی ہیں۔ بارہا یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایک ہی تعلیمی قابلیت پر خواتین کو مردوں کے مقابلے میں کم معاوضہ دیا جاتا ہے۔
 ملازمت پیشہ خواتین دوہری ذمہ داریاں نبھانے کے باعث ذہنی دباو کا شکار رہتی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اکثر ملازمت کرنے والی خواتین کو گھر والوں کی حمایت حاصل نہیں ہوتی۔ گھر اور باہر دونوں کی ذمہ داری نبھانے کے باوجود انہیں طعنے دئے جاتے ہیں کہ وہ گھر اور باہر کی زندگی میں توازن قائم نہیں رکھ سکتیں۔ ہمارے معاشرے میں ملازمت پیشہ خواتین کے لئے کوئی سپورٹ نیٹ ورک نہیں ہے۔ مختلف اداروں میں کام کرنے والی خواتین کو اعلی عہدوں تک نہیں جانے دیا جاتا۔ ہمارے معاشرے میں مرد اور عورت دونوں کے لیے الگ الگ معیار ہیں، بیوی اور شوہر دونوںجب کام کر کے واپس گھر آتے ہیں تو شوہر آرام سے بیٹھ جاتے ہیں جب کہ بیوی کو بچوں کو سنبھالنا، کھانا پکانا اور گھرداری کرنا پڑتی ہے۔ملازمت پیشہ خواتین صنفی امتیاز اور جنسی طور پر ہراساں کیے جانے سمیت کئی مسائل کا شکار ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اکثر اوقات لڑکیاں اعلی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود خاندان والوں کی سپورٹ کی عدم موجودگی اور معاشرتی رویوں کی وجہ سے ملازمت نہیں کرتیں۔اب خواتین کی ایک مناسب تعداد سیاست میں موجود ہے۔ اس طرح یہ ثابت ہورہا ہے کہ عورتیں گھر کی چار دیواری سے باہر نکل کر اپنا علیحدہ تشخص قائم رکھ سکتی ہیں اور وہ مردوں کے شانہ بشانہ سوسائٹی کی بہتری میں ممد ومعاون بن سکتی ہیںلیکن نچلی سطح پر کام کرنے والی خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لئے  مناسب قانون سازی کی ضرورت ہے۔
ملازمت پیشہ خواتین کی گھر اور معاشرتی سطح پر حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے کیونکہ یہ خواتین نہ صرف اپنے گھروں کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں بلکہ ملکی ترقی میں بھی ان کا کردار بہت اہم ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی سے مسلم ممالک میں کافی تبدیلیاں آئی ہیں اور اس کے زبردست اثرات مسلم خواتین پر بھی پڑے ہیں۔ اب تعلیم کے جذبے کے ساتھ ساتھ لڑکیوں میں اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کا ایک نیا رجحان پیدا ہوا ہے اور وہ اپنی کامیابی کے لئے تمام ذرائع کا سہارا لے رہی ہیں۔ آج کی خواتین سماج میں مردوں کے برابر کھڑی ہیں اور وہ بھی اپنی ترقی کے لیے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتیں۔ نئی نسل میں یہ بحث بھی جاری ہے کہ نقاب پہننا ضروری ہے یا اس کے بغیر بھی کام چل سکتا ہے۔ بہت ساری لڑکیوں کاکہنا تھا کہ برقع پہننے سے وہ محفوظ محسوس کرتی ہیں ۔مسلم ملکوں کو اپنی تہذیب و روایات سے لگا ئوہے لیکن ان میںحصول تعلیم کا جذبہ بھی مستحکم ہے اور وہ اپنے حقوق کے تئیں بیدار ہیں۔ آج کل مسلم خواتین ہر شعبے میں اپنی قسمت آزمائی کر رہی ہیں۔ تقریبا سبھی بس اسٹاپس پر کالج جانے والی برقع پوش لڑکیوں کی بھیڑ جمع رہتی ہے جو بدلتے ہوئے مسلم معاشرے کی عکاسی کرتی ہے۔ اگر عورت کو گھر، دفتر اورحکومتی سطح پر سپورٹ مہیا کی جائے تو وہ اپنے حقوق کیلئے جدو جہد کر سکتی ہے۔ 

No comments:

Post a Comment