Search This Blog

Tuesday 31 July 2012

زانوئے تلمذ تہہ کرنا شرط ِاوّل

زانوئے تلمذ تہہ کرنا شرط ِاوّل

گریجویشن میں نصابی اُردو پڑھنے کے بعدمجھے اردو شاعری کا چسکا لگ گیا ۔پہلے پہل تک بندی کرنے کے لئے لغت سے ہم آہنگ الفاظ چُن چُن کرمن گھڑت شعری جملے تراشنے کی کوشش کرنے لگا۔شاعری کا جنوں اس حد تک پہنچ گیا کہ نصابی تعلیم اثر انداز ہونے لگی۔گھروالوں کی ڈانٹ ڈپٹ کے باوجود چوری چھپے ایک ڈائری ترتیب دینے کا کام جاری رہا۔روز نت نئے اشعار ’’لکھنے‘‘ کی تگ ودو میں صفحے سیاہ کرنے میں گھنٹوںمصروف عمل رہتا۔چند کتابوں کے مطالعہ کے بعد پتا چلا کہ شاعری صرف ردیف و قافیہ کا نام نہیں بلکہ ’’ شعر چیزے دیگر است‘‘کے مترادف ایک ایسی دنیا ہے جس کی تخلیق کے لئے شعوری کوششوں کے علاوہ فطری رجحان کا ہونا اتنا ضروری ہے جتنا ایک انسان کیلئے پانی اور ہوا ضروری ہے۔یہ دنوں چیزیں کسبی نہیں بلکہ وہبی ہیں ۔اسی دوران مجھے کمال احمد صدیقی کی کتاب ’’ عروض اور آہنگ‘‘ پڑھنے کا موقعہ ملا۔پیش لفظ پڑھ کر ہی اندازہ ہواکہ عروض کی بھول بھلیوں سے نکلنا آسان نہیں۔پھر بھی میں نے ہمت کرکے بحروں کے اوازن اور ارکان سمجھنے کی کوشش کی ،لیکن جب عروض کا معاملہ ریاضی کی طرح پیچیدہ اور گنجلک لگا تو میںنے غزل کے بجائے آزاد نظم میں طبع آزمائی شروع کی لیکن جلد ہی معلوم ہوا کہ آزاد نظم کا بھی ایک باقاعدہ عروضی نظام ہوتا ہے۔اسی لئے نثر لکھنے پر اکتفا کیا۔
دوران مطالعہ مجھے اس بات کا شدید احساس ہوا کہ شاعری کے اسرارو رموز سیکھنے کے لئے اساتذہ کے سامنے زانوئے ادب تہہ کرنا شرط اول ہے۔ہر دور میں اساتذہ کی ایک روایت رہی ہے جو اپنے شاگردوں کو شاعری کے محاسن و معائب سے آشنا کرتے ہیں ،کلام کی باریکیوں سے روشناس کراتے ہیں تاکہ شاگردمیں شعرکہنے کا سلیقہ اور ہنربخوبی پیدا ہو ۔ورنہ بگڑا شاعر مرثیہ گو بننے میں دیر نہیں لگتی۔
آ پ کہ یہ جان کر تعجب ہوگا کہ عرب میں شاعری شروع کرنے کے لئے باضابطہ استادسے اجازت لی جاتی تھی ۔اس سلسلے میں عربی زبان کے رجحان ساز شاعرابونواس کا واقعہ بہت ہی مشہورہے ۔جب انہوں نے زمانہ ٔ طالب علمی میں ایک بار اپنے استاد خلف الاحمر سے شعر گوئی کی اجازت چاہی ۔تو خلف الاحمر کہا کہ میںتمہیں اس وقت تک اجازت نہیں دے سکتا جب تک کہ تم قدیم شعرائے عرب کے ایک ہزار اشعار حفظ نہ کرلواور ان میں گیت ،قصیدہ اور فردیات سب کچھ ہونا چاہیے۔ابو نواس یہ حکم سن کر ایک مدت کے لئے گوشہ نشین ہوگیا اور عرصہ طویل کے بعد حاضر ہو کر اس نے استاد سے کہا:
’’جناب ،میں نے آپ کا حکم بجا لایا۔‘‘
’’ تو سناؤ‘‘۔ خلف الاحمر نے کہا۔
ابونواس نے اشعار سنا نے شروع کیے اور کئی دن کی مدت میں اس نے اپنے یاد کئے ہوئے زیادہ تر اشعار سنا ڈالے اور پھر اپنی درخواست کا اعادہ کیا کہ مجھے شعر کہنے کی اجازت عطاہو۔
’’ اجازت نہیں مل سکتی ‘‘۔خلف الاحمر نے کہا۔’’ تاوقت یہ کہ تم وہ سب اشعار اپنے حافظے سے اس طرح محوکردو گویا تم نے انہیں کبھی یاد ہی نہ کیا تھا ۔‘‘
’’استاد ،یہ توبہت مشکل ہے‘‘۔ ابونواس نے کہا۔’’ میں نے تو یہ اشعار بڑی محنت کرکے اچھی طرح یاد کرلئے ہیں۔‘‘
خلف الاحمر نے صاف کہا کہ ’’جب تک تم انہیں بھلاؤ گے نہیں ،تب تک تمہیں شاعری کی اجازت نہیں ملے گی‘‘۔
بیچارہ ابونواس دوبارہ کسی خانقاہ میں چھپارہا اور بہت مدت وہاں پڑا رہا ،جب تک وہ سارے اشعار اس کی یاد اشت سے محو نہ ہوگئے ۔تب کہیں باہر نکل کر وہ استاد کی خدمت میں حاضر ہو ااور بولا:
’’استاد میں نے وہ اشعار اس طرح بھلادیئے ہیں گویا میں نے انہیں کبھی یاد ہی نہ کیا تھا ‘‘۔
’’ اچھا توجاؤ ‘‘۔خلف نے کہا ’’ اب شعر کہو‘‘۔
استاد اور شاگرد کے رشتے پر بات کرتے ہوئے اردو کے معروف محقق ڈاکٹر یعقوب عامر لکھتے ہیں:
’’ شاعری کے فن میں استادی اور شاگردی کو بڑی اہمیت حاصل تھی ۔جہاں کسی شاعرکے لئے فخر کی بات تھی کہ وہ اپنے زمانے کے مسلم الثبوت استاد سے تلمذ رکھتا وہاں استاد بھی اس بات پر ناز کرتاکہ اس کا شاگرد ہونہار اور ذہین ہے ۔دوسرے لوگ بھی اس بات کو قابل ذکر سمجھتے تھے کہ فلاں فلاں کا شاگرد ہے ،بغیر استاد کے کسی شاعر کو بہت کم امتیاز حاصل ہوتا تھا۔
ادبی تاریخ کا سرسری مطالعہ کرنے کے بعد ہی پتا چلتا ہے کہ اردو ادب میں باقاعدہ اصلاح سخن کی تحریک بھی چلی ہے یہاں تک کہ دبستانِ دلّی اور  دبستا نِ لکھنؤ کی بنیاد میں اصلاح سخن کی تحریک ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے۔جگہ جگہ ایسی تربیت گاہیں تھیں جہاں شعراء ایک دوسرے سے استفادہ کیا کرتے تھے ۔ ڈاکٹر عنوان چشتی ایسی تربیت گاہوں کے بارے میں رقطراز ہیں:
’’ اصلاح سخن کی تحریک کے پروان چڑھنے کے بعد دہلی میں ایک ہی وقت میں اردو شاعری کی چار تربیت گاہیں نظر آتی ہیں ۔ان میں پہلی تربیت گاہ خان آرزو کا مکان،دوسری شاہ تسلیم کا تکیہ ،تیسری خواجہ میر درد ؔ کی خانقاہ اور چوتھی میرتقی میر ؔ کی ڈیوڑھی ہے ‘‘۔
میں جانتا ہوں کہ میری طرح ہزاروں ایسے نوجوان ہونگے ،جن کے دل میں یہ خواہش ضرور ہوگی کہ ان کے اشعار بھی اخباروں اور رسالوں کی زینت بنیں ،کہنہ مشق شعراء ان کی طرف متوجہ ہوں یا کم از کم انہیں اتنی خفت نہ اُٹھانی پڑے کہ شعر ٹوٹ رہا ہو۔اکثر و بیشتر نام نہاد شعراء نوعمر و نوآموز شعراء پر استادی کی دھاک بٹھانے کے لئے یہی جملہ رٹتے رہتے ہیں کہ ’’شعر ٹوٹ رہا ہے ‘‘۔جس سے نوآموز شاعر کے حوصلے پہلے ہی مرحلے پرٹوٹ جاتے ہیںاور وہ شاعری کے نام پر کان پکڑنے لگتاہے ۔جب کہ ہونا ایسا چاہئے کہ کہنہ مشق شعراء اصلاح سخن کی روایت کو برقراررکھتے ہوئے نوآموز شعراء کی تربیت کرتے اور ایک نئی نسل کو سامنے لانے میں اپنا رول نبھاتے مگرفی الوقت ریاست میں اس نوعیت کی کوئی ادبی تحریک کے آثار دکھائی نہیں دے رہے ہیں ۔اسی لئے شاید ہم سنجیدگی کے ساتھ لکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ نہیں کرپارہے ہیں۔
……………………
موبائل نمبر:-9419711330 ؛   salimsalik2012@gmail.com

مصر از انقلاب تا انتخاب۔۔۔تاریخی پس منظر میں

مصر از انقلاب تا انتخاب۔۔۔تاریخی پس منظر میں


انقلاب مصر ،جس کی شروعات 2011 کے بہار میں ہوئی، صداراتی انتخابات کے اختتام تک ایک لمبے سفر سے گذرا۔ اخوان المسلمین کے محمد مرسی کے صدر منتخب ہونے کے بعد بھی مصر ی جمہوریت کو محکم نہیں مانا جا سکتا کیونکہ پرانی واحد حزبی حکومت کے سایے ابھی بھی حکومتی ایوانوں میں اپنی چھاپ بنائے ہوئے ہیں۔ترکی کی مانند مصری فوج بھی مصر کی دفاعی حکمت عملی و خارجی امورپر اپنے دیرینہ کنٹرول سے ہاتھ نہیں کھنچنا چاہتی اور مصر کی دفاعی حکمت عملی و خارجہ پالیسی نہ صرف مصری اغراض و مقاصد بلکہ عرب دنیا کی پالیسی سازی کی بھی ترجمان ہو سکتی ہے اور اُس کی وجہ مصر کا جغرافیائی محل وقوع، حدود اربعہ،آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا عربی ملک ہونا،شرح خواندگی کے لحاظ سے پیشرفتہ ترین عربی ملکوں میں اُس کا شمار ہونے کے علاوہ کئی اور وجوہات کو گنا جا سکتا ہے جن میں تاریخی وجوہات بھی شامل ہیں ۔
زمانہ قدیم سے ہی مصر کی مہذب دنیا پرسیاسی چھاپ رہی ہے ۔ فرغنہ مصر ،فرعون وآل فرعون کی روایات کی نہ صرف تاریخ بلکہ مقدس مذہبی کتابیں بھی گواہ ہیں۔ تعمیری روایات ،جن میں اہرام مصر کو گنا جاسکتا ہے،نے کرہ ارض کے تاریخی ماخذوں میں مصر کا نام سر فہرست رکھا اور اِن تعمیرات کے ساتھ بھی تاریخی و مذاہب اہل کتاب کی روایات جڑی ہوئی ہیں ۔حضرت یوسف ؑ سے سوتیلے بھائیوں کی دغا بازی، اُن کا کنوئیں میں پھینکا جانا اور پھر ایک قافلے کے وسیلے سے کنوئیں سے باہر لایا جانا،بازار مصر میں اُن کی فروخت،عزیز مصر کے دربار میں رسائی،عزیز مصر کی اہلیہ زلیخا کا حسن یوسف ؑ پر فریفتہ ہونااور حضرت یوسف ؑ کا پیغمبرانہ تقدس قائم رکھتے ہوئے انجام کار عزیز مصر بننا اور پھر مصری دربار میں قحط زدہ کنعاں سے آئے ہوئے سوتیلے بھائیوں سے فراخدلی سے پیش آتے ہوئے اُن کو غلہ فراہم کرنااور اِس بیچ حضرت یعقوب ؑ سے بیٹے کی جدائی کے غم میں نا بینائی اور پھر بیٹے کی خبر آتے ہی مسرت کے لمحات ایک ایسی حقیقت کے گواہ ہیں جہاں دغا ،لالچ،انسانی اقدار سے کھلواڑ بھی ہے اور انسانیت کی بہترین روایات بھی دیکھنے کو ملتی ہیں،پیغمبرانہ وسعت قلبی کی جلوہ نمائی بھی ہے اور یہ بھی دیکھنے کو ملتاہے کہ زمانہ قدیم میں مہذب دنیا کی قحط زدگی کو دریائے نیل کے کنارے پر واقع مصر کی لہلاتی ہوئی کھیتی ہی سہارا فراہم کرتی تھی۔ مصر کی اِس لہلاتی ہوئی کھیتی کو مد نظر رکھتے ہوئے حضرت عمر فاروق  ؓ نے بحیرہ احمر کے آر پار ایک سمندری راستے سے مصر و حجاز کی دوری کو نزدیکی میں بدل لیا تاکہ اسلامی سلطنت کے دارلخلافہ کو غلے کی فراہمی میں کو ئی دقت پیش نہ آئے ۔
زمانہ جدید میں بر اعظموں کے بیچوں بیچ سمندری راستے کو کم سے کم کرنے میں نہر سوئزکی ساخت ہوئی جس سے یورپ و افریقی ایشائی بر اعظموں میں دوریاں کم ہوئیں۔ خیر یہ تو بعد کی باتیں ہیں۔حضرت یوسف ؑ کے زمانے میں عبرانیوں کا مصر میں بس جانا اور اُن کے بعد فرعونوں کے اُن پر مظالم اور آخر کار حضرت موسی ؑ کے وسیلے سے اُن کی رہائی ،صحرائے سینائی میں سفر ، نجات دہندوںحضرت موسی ؑ واُن کے بھائی حضرت ہارون ؑ کے ساتھ عبرانیوں کی زیا دتیاں ،اسرائیل میں بستی، جو زمانہ جدید کی سیاست کو بھی گھیرے میں لئے ہوئے ہے کیونکہ یورپی یہودیوں نے اِسی بستی کو بنیاد بنا کر عربوں سے اُن کی زمین چھین لی اور ایک زبردستی کاقبضہ بنائے ہوئے ہیں۔ مصری تاریخ کی رنگینی کی داستاں اتنی ہی نہیں ہے۔ اُس کے کئی اور رنگ ہیں۔
بحر متوسط کے ساحل پرواقع مصر ایک افرو ایشیائی ملک ہے یعنی بر اعظم افریقہ و ایشیا پہ محیط ملک کے مغربی رومی سلطنت کے قریبی تعلقات نے اُس کو عالمی سیاست سے بہرہ مند رکھا ۔مصری ملکہ کلوپیٹرا کے قیصر روم جولیس سیزر کے رومانی وازدواجی رشتے اور اُس کے بعد قیصر روم کے شاہی دربار میں ایک با اثر شخصیت و قیصر کے قریبی دوست مارک انٹونی کے ساتھ اُس کے معاشقے نے ایک ایسی تکونی رنگین رومانی داستان کو جنم دیا جس سے ولیم شیکسپیئر جیسے ادیبوںنے اتنے رنگوں سے بھرا کہ آج تک اِس داستان کو رومان،سیاسی شعبدہ بازی،سامنے کی دوستی و پیٹھ میں خنجر کی مثال مانا جاتا ہے جہاں بروٹس نے رومن سنیٹ کی سیڑھیوں پہ چڑھتے ہوئے قیصر روم جولیس سیزر کی پیٹ میں خنجر گھونپا ۔یہ واقع تقریباََ نصف صدی قبل از تولد پاک حضرت مسیح  ؑ پیش آیا اور آج بھی سیاسی فریب کو یہ کہا جا تاہے کہ بروٹس کا رول دہرایا گیا۔مغربی رومی سلطنت کا زوال پس از تولد مسیح  ؑ کا دور ہے اور پھر رومیوں و یونانیوں نے مشرقی رومی سلطنت کی داغ ڈالی جس کا دارلخلافہ قسطنطنیہ بنا جو اسلامی دور میں اسلامبول بنا اور آج کل استنبول کہلاتا ہے۔مشرقی رومی سلطنت کو بازنطینی سلطنت بھی کہا جاتا ہے جو پس از طلوع اسلام زوال پذیر ہوئی ۔ مصر میں گرچہ اپنی بادشاہت تھی البتہ مصری بادشاہ مقومس بازنطینی سلطنت کا باجگذار تھا۔ مصریوں کی اکثریت نے دین اسلام کی عظمت کو قبول کرتے ہوئے مصر کو ایک اسلامی ملک بنایا البتہ مصریوں میں آبادی کا ایک قلیل حصہ عیسائی فرقے قبطیوں میں شامل رہا۔تاریخ اسلام کے سنہری دور میں مصریوں کا کافی اثر رہا جس کوایک کالم میں بیاں کرنا ممکن نہیں ہو گا بلکہ ہمیں زمانہ جدید میں ہی لوٹنا ہو گا۔
بیسویں صدی کے وسطی دور میں مصری شاہ فاروق کو فوجی انقلابیوں نے بر طرف کیا۔مصری ساحل سے رخصت ہوتے ہوئے شاہ فاروق نے تاریخی الفاظ دہرائے کہ جلد ہی دنیا میں پانچ ہی شاہ رہیں گے، چہار تاش کے اور ایک شاہ انگلستان ۔ سچ تو یہ ہے کہ مصری بادشاہت کے آخری دور میں تین خواتین شاہ فاروق کی والدہ ملکہ مادر نازلی برطانوی سفیر رسل پاشا (پاشا ترکی زباں میں سر کو کہتے ہیں اور یہ ایک اعزازیہ مانا جاتا تھا) کی اہلیہ اورمصری وزیر اعظم زغلول پاشاکی اہلیہ کا سیاسی امور میں بڑاعمل دخل تھا۔فوجی انقلابیوں کا رہبر کرنل جمال عبدالناصر تھا جس کے دور حکومت (1952-1970) میں اُنہیں بے پناہ محبوبیت نصیب ہوئی۔وہ عربی دنیا کے ہیرو مانے جاتے تھے حالانکہ 1967کی عرب اسرائیلی جنگ میں اُنہیں بری ہار کا سامنا کرنا پڑا ۔کرنل ناصر نے بے پناہ مقبولیت کے باوجود مصر کوایک پائدار جمہوریت نہیں دی اور اخوان المسلمین جیسی اسلام پسند تنظیموں کو حکومتی تشدد کا شکار ہونا پڑا۔ایک واحد حزبی حکومت قائم کی گئی حالانکہ ایک کامل جمہوریت میں بھی کرنل ناصر کی سیاسی حیثیت کو چلینج کرنا ایک انہونی بات تھی ۔یہ مصر سیاست کا المیہ رہا کہ تقریباََ ساٹھ سال گذرنے پر بھی مصری جمہوریت کو پائدار نہیں کہا جا سکتا حالانکہ اب ایک منتخب صدر زمام حکومت کو سنبھالے ہوئے ہیں۔
ناصر کی روایات کواُن کے جانشین انور السادات (1970-1984) نے قائم رکھا ۔1973 کی ماہ رمضان کی جنگ میں مصری افواج نے پہلی دفعہ کامیابی کا منہ دیکھاجس فوجی کامیابی کو مکمل تو نہیں کہا جا سکتا البتہ نسبتاً پہلے کی جنگوں ،جو1948 اور 1967میں ہوئیں، سے اِس جنگ میں مصر کا فوجی اعتبار قائم رہا ۔مصری فوجوں نے نہر سوئز کو عبور کر کے پہلی دفعہ اسرائیلی فوج کواچھنبے میں ڈال دیا۔شامی اور اردنی فوجوںکو البتہ اِس جنگ میں پسپائی کا سامنا کرنا پڑا۔سادات عربی اتحاد کو قائم نہیں رکھ سکا اور 1978 میں اُس نے اسرائیلی پارلیمنٹ میں اسرائیلیوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دئے ۔عربی مفادات کی بجائے سادات نے خالص مصری مفادات کا خیال رکھا جس سے سینائی کا علاقہ مصریوں کو واپس تو مل گیا لیکن آج تک یروشلم اور گولان کی بلندیاں اسرائیلی تسلط میں ہیں۔ 1984 میں فوج میں اسلام پسند وں نے سادات کو قتل کیااور  1984سے 2011تک حسنی مبارک نے اپنے پیشرؤں کی سیاسی روایات کوقائم رکھا۔
 2011؁ٗ کی عربی بہار کی ہواؤں نے جمہوری قوتوں کو انقلاب برپا کرنے کی شاہ دی۔پہلے پہلے لیبرل عناصر ،جن میں جمہوریت نواز طلبا  شامل رہے ،قاہرہ کے تحریر چوک میں مظاہروں میں شامل ہوئے ،البتہ مظاہروں کا حجم تب ہی بڑھنے لگا اور آواز موثر تر ہوتی گئی جب مظاہرین میں اسلام پسند عناصر شامل ہوئے جن میں قدیم جماعت اخوان المسلمین اور سلفی فرقے کے عناصر شامل تھے۔ فوج نے یہ دیکھتے ہوئے کہ حسنی مبارک ایک ناکارہ مہرہ بن چکا ہے، اُس کااستعفیٰ حاصل کیا اور دوسرے مہروں کو آگے بڑھانے کا سلسلہ جاری رکھا لیکن مصری پارلیمنٹ کے انتخابات میں اسلام پسندوں کی زبردست کامیابی کے بعد مصری فوج کے حاکم اگر چہ کچھ حدتک پسپا ہوئے لیکن سیاسی شطرنج پہ کچھ مہرے ابھی بھی فوجی کھیل کی ساکھ کوسہارا دئے جا رہے تھے جن میں قانون اساسی کی نگہباں عدالت پارلیمنٹ میں لئے جانے والے فیصلہ کے برعکس عدالتی رائے دے کر پارلیمانی فیصلوں کی نفی کرتی رہی حتّی کہ صدارتی انتخابات کی باری آئی۔صدارتی انتخابات کے الیکشن کمیشن میں فوج کے زیر سایہ کام کرنے والی حکومت نے اُنہیں عناصر کو الیکشن کمیشن میں شامل کیا جو فوج کے ہم پیالہ و ہم نوالہ تھے، چنانچہ اخوان المسلمین کے فرنٹ امیدوار خیرط الشتر کے کاغذات نامزدگی رد کر لئے گئے۔ ماضی میں اُن کی تجارتی سرگرمیوں کو شک کے دائرے میں لایا گیا۔ اِسی طرح سلفی امیدوار حازم صالح ابو اسماعیل کو اُن کی مرحومہ والدہ کی کسی زمانے میں امریکی شہریت کو بہانہ بنا کے اُن کے کاغذات نامزدگی رد کر لئے گئے۔امریکی حکومت کے کارندوں نے سابقہ امریکی شہریت کے ثبوت میں کاغذات فراہم کرنے میں زرہ بھر دیر نہیں کی اور ایسے میں مصری انقلابیوں سے اپنی خصومت کا ثبوت دیا۔حالت یہاں تک پہنچی کہ  23 کاغذات نامزدگی میں 10 کو رد کر لیا گیا۔اِس طرح فوج کی کوشش جاری رہی کہ ایک ایسے صدر کوسامنے لایا جائے جو فوجی حاکموں کے اشاروں پہ چلے لیکن نہ جانے کیوں اور کیسے اخوان المسلمین کے دست دوم کے امیدوار محمد مرسی کو میدان میں رہنے دیا گیا جنہوںنے انجام کار انتخاب جیت کے نئی حکومت قائم کی البتہ اُنہیں بہت احتیاط سے کام لینا ہو گا۔
فوج و انتظامیہ ایسے عناصر سے بھری پڑی ہے جو سابقہ ساٹھ سال کی انتظامیہ کے در پروردہ ہیں ۔یہ مفاد خصوصی رکھنے والا طبقہ اپنے مفادات کو خطرے میں دیکھ کے کوئی بھی اقدام کر سکتا ہے البتہ اِن عناصر کو خوف ہے تو یہی کہ اُن کا کوئی بھی اقدام تحریر چوک کے انقلابیوں کو سامنے لا سکتا ہے اور اُن کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اِس کے باوجود محمد مرسی کی کاامکانی کامیابی کو نظر میں رکھتے ہوئے مصری فوج و قانون اساسی پرنظارتی عدالت نے مصری پارلیمان کے انتخاب کو یہ بہانہ بنا کے کالعدم قرار دیا کہ جس قانون کے تحت یہ انتخابات کرائے گئے وہ قانون اساسی سے مطابقت نہیں رکھتا۔یہ کاروائی صدراتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے بعد ہوئی جب کہ دوسرے مرحلے میں دو ہی امیدوار میدان میں رہے ایک تو محمد مرسی اور حسنی مبارک کی سرکار کے آخری وزیر اعظم اور سابقہ ایر فورس جنرل احمد شفیق چونکہ اِن دونوں میں کسی کو واضح اکثریت نہیں ملی تھی لہذا دوسرے مرحلے کے انتخابات کروائے گئے جس میں محمد مرسی کو 51.7 فیصد اور احمد شفیق کو 48.3 فیصدوؤٹ حاصل ہوئے اور اُنہیں سال رواں کے  24 جون کو منتخب صدر قرار دیا گیا۔صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اُنہوں نے ہاشم قندل کو وزیر اعظم نامزد کیا جو کہ فوج کے زیر سایہ کام کرنے والی حکومت میں آبی وسائل و آبشاشی کے وزیر تھے۔موصوف امریکہ میں پڑھے لکھے انجینئر ہیں اور گر چہ اُن کا اخوان المسلمین سے کوئی تعلق نہیں البتہ وہ مذہب کے پابند مانے جاتے ہیں ۔
مصری فوج نے قانون اساسی کی نظارتی عدالت کے فیصلے کے ذریعے سے پارلیمان کی بر طرفی کا جو حکمنامہ صادر کروایا ہے اُس کو نادیدہ لیتے ہوئے کوئی دو ہفتے پہلے جولائی کے مہینے میں مصری صدر محمد مرسی نے بر طرف شدہ پارلیمان کا اجلاس طلب کیا جس میں فوج نے کوئی رخنہ تو نہیں ڈالا لیکن دیکھنا یہ ہے فوجی کونسل نے عدالتی حکم کی آڑ میں نئے قانون اساسی کی تشکیل اور بجٹ بنانے کا کام جواپنی تحویل میں لے لیا ہے، اُس کے تدارک کیلئے نئے صدر محمد مرسی کیا اقدامات کرتے ہیں ۔ایک قانونی جنگ مصر میں شروع ہو چکی ہے اور نئے صدر کو گوناگوں مشکلات کا سامنا ہے۔فوج بجٹ پر اپنی گرفت رکھنے والے فوجی افسروں کی مراعات اور فوجی اخراجات کے پھیلاؤ کو قائم رکھنے کی اپنی مہم میں کس حد تک جا سکتی ہے، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔مصر بھاری قرضے میں مبتلا ہے اور یہ قرضہ بہت حد تک بے غیرت و وطن فروش عناصر نے اپنی ذاتی ساکھ و ایک ایسے سیاسی ڈھانچے کو قائم رکھنے کے لئے کھڑا کیا ہے جسے نہ تو عربی مفادات کی پرواہ ہے نہ مصر کے غریب عوام کا خیال! مصر کے نئے سیاسی رخ کو جانچنے کیلئے امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن پچھلے دنوں مصر گئیں او ر صدر محمد مرسی سے مل کے ظاہراََ َمصر کی داخلی سیاسی کشمکش سے اپنی بے تعلقی ظاہر کی لیکن کون نہیں جانتا کہ در پردہ سیاسی تار کہاں سے ہل رہے ہیں۔اللہ نگہباں۔یار زندہ صحبت باقی!
Feedback on<iqbal.javid46@gmail.com>

فرقہ وارانہ دنگے . کامریڈ کرشن دیوسیٹھی

فرقہ وارانہ دنگے
لڑ ائی میں جھگڑ ے میں کن کی بڑا ئی؟


نسل ، قومیت، کلیسا، سلطنت، تہذیب و رنگ
خواجگی نے خو ب چن چن کر بنائے مسکرات
                                    (اقبال)
گزشتہ دنوں اُترپردیش کے شہر بریلی ، فیض آباد اورآسام کے علاقہ کھوکھرا جھار سے فرقہ وارانہ دنگوں اور بلوئوں کی افسوس ناک اطلاعات آئیں۔ بعض عناصر ان المناک واقعات کو محض مقامی چپقلش قرار دے کر ان سے مفت میں دامن چھڑانے کی کوشش کر رہے ہیںلیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ دنگے فسادات والے واقعات پیش خاصہ ہیں آنے والے حالات کا اور یہ بلوے خود غرض اور مفاد خصوصی رکھنے والے عناصر کی کارستانیاں ہیں جو مظلوم اورمفلوک الحال عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹا کر فرقہ وارانہ ماحول خراب کرنے کے در پے ہیں۔
 فرقہ وارانہ دنگے اورفسادات قابل مذمت ہیں اور سرکار کی طرف سے انہیں روکنے اور انسدادی تدابیر اختیار کرنے کی فوری ضرورت ہے لیکن ان دنگوں اور فسادات کی اصل وجوہات کو سمجھنا اور ا س کے محرکین کو جاننابھی اشد ضروری ہے۔
ہم نے متعدد بار متعلقین کو منتبہ کیا ہے کہ لٹیرے حکمران طبقے اور ان کی نمائندہ پارلیمانی پارٹیاں عوام کی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹانے اور حصول اقتدار کی خاطر نہ صرف فرقہ وارانہ مناقشات ہی پید ا کریںگی بلکہ فرقہ وارانہ دنگے فسادات بھی کروائیں گی۔ چنانچہ  ایسا دکھائی دیتاہے کہ اس آ زمودہ تخریبی حکمت عملی پر عملدرآمد شروع ہوگیاہے۔ حال ہی میں اترپردیش میں زبردست فرقہ وارانہ دنگے فسادات اسی سلسلے کی کڑ ی ہیں۔ اگرچہ ان فسادات اور دنگوں کی فوری وجہ معمولی قسم کے ا شتعال انگیز انہ واقعات بتائے جاتے ہیں لیکن غور سے دیکھا جائے تویہ فسادات پیش خیمہ ہیں مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کا۔ لہٰذاان واقعات کو مقامی اور معمولی واقعات سمجھ کر نظرانداز نہیں کیا جاناچاہیے اور یہ بخوبی سمجھ لینا چاہیے کہ لٹیرے حکمران طبقے بحیثیت مجموعی عوامی بے چینی کا رُخ موڑنے اوران طبقوںکی نمائندہ پارلیمانی سیاسی پارٹیاں انتخابی اغراض کی تکمیل کے لئے پورے ملک میں اس قسم کے واقعات رونما کرواسکتے ہیں۔
غور سے دیکھئے توواضح ہوجاتاہے کہ خواہ موجودہ حکمران اتحاد ’’یونائٹیڈ پروگریسو الائنس‘‘ کی پارٹیاں کتنی ہی فارغ البالی کے گیت گائیں یا سابقہ حکمران ’’نیشنل ڈیمو کریٹک الأینس‘‘ سے جڑ ی پارٹیاں ’’خوشحال ، درخشاں اور چمکتے ہندوستان‘‘ کا راگ الا پیں، حقیقتاً ملک سیاسی ومعاشی بحران کا شکار ہے۔ ملک مکمل طورپر سامراج ،گماشتہ سرمایہ داری اور لٹیرے زمینداروں اور جاگیرداروں کی دسترس میںہے۔ قومی دولت کا غالب حصہ ان کی تجوریوں میںجمع ہورہاہے اور غریب و متوسط اورمحنت کش طبقے انتہائی کسمپرسی کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ ملک کی کثیر آبادی غربت کی حد سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور کردی گئی ہے۔بڑھتی ہوئی مسلسل مہنگائی اور گرانی نے عوام کاجینا ہی دو بھر ہی نہیں کیا ہوا ہے بلکہ ان کیلئے روح اور جسم کاتعلق قائم ودائم رکھنا مشکل بنادیاہے۔ عوام کی اکثریت کو پیٹ بھر کر دو وقت کاکھانا بھی میسر نہیںہے ، جسم ڈھانپنے کو کپڑا دستیاب نہیں ہے، سر چھپانے کے لئے جھونپڑی تک میسر نہیں ہے، بچے، بوڑھے ، نوجوان ،مستورات اور مرد بلا علاج موت کے منہ میں داخل ہورہے ہیں، جہات اور لاعلمی نے ڈیرا ڈال رکھاہے ، رشوت اور بھرشٹا چار کا بازار گرم ہے جس سے عوام میںزبردست بے چینی پائی جاتی ہے اور وہ آمادئہ بغاوت نظرآتے ہیں۔ لٹیرے حکمران طبقے لوٹ کھسوٹ بے شک مچائے ہوئے ہیںلیکن وہ خوفزدہ بھی ہیں کہ عوام کواس صورت حال کی اصل وجہ سمجھ میںآگئی اور انہوں نے مصائب سے خلاصی حاصل کرنے کا درست راستہ اپنا لیاتو لٹیرے طبقوں کی خیر نہیں ہے۔اس لئے ان طبقوں کے نظریہ دانوں اور ترجمانوں نے عوام کی توجہ اس صورت حال کے حقیقی پہلوئوں سے ہٹانے اور درست سمت اختیار کرنے سے روکنے کے لئے شعوری طورپر اپنے زر خرید ایجنٹوںکے ذریعہ فرقہ وارانہ اور زات برادری کے مناقشات پیدا کرنے اور انہیںہوا دے کر فرقہ وارانہ دنگے فسادات برپارکرنے کا منصوبہ بنارکھاہے۔ انہوں نے ’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کے اپنے برطانوی آقائوں کے اصول پر عمل کرنے کی مکمل منصوبہ بندی شروع کررکھی ہے۔ حالیہ فسادات کی نوعیت مقامی ہرگز نہیں ہے بلکہ وہ جزو ہے اس جا رحا نہ حکمت عملی کا جو لٹیرے حکمران طبقوں نے عوام کی تووجہ اصل مسائل سے ہٹانے کے لئے فرقہ وارانہ دنگے فسادات برپا کرنے کی مرتب کررکھی ہے۔ یہ امر اچھی طرح ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے۔ محض میڈیا کے پراپیگنڈا سے متاثر ہوکر ان واقعات کومقامی اورانتظامیہ قراردے کر ہر گز نظرانداز نہیںکیا جاسکتا۔
 علاوہ ازیں حصول اقتدار کی جنگ میں لٹیرے حکمران طبقوں کی پارلیمانی پارٹیوں نے بھی اپنا ووٹ بنک مضبوط کرنے کیلئے فرقہ واریت کو ہوادینے کا منصوبہ بنارکھاہے۔ بے شک بھارتیہ جنتاپارٹی اس سلسلہ میں پیش پیش ہے اور اس نے راشٹریہ سوئم سنگھ ، وشو ہندو پرشید، بجرنگ دل وغیرہ کے ذریعہ ’’ہندوتو‘‘ کے نام پر فرقہ روارانہ جذبات برانگیختہ کرنے میںکوئی وقیقہ فروگزاشت نہیں کیا ہے لیکن دیگر پارلیمانی پارٹیاں بھی اس سلسلہ میں برائے راست یابالواسطہ طورپر فرقہ واریت کا زہر پھیلانے میں ہرگز پیچھے نہیں ہیں۔ اگربھارتیہ جنتاپارٹی گرم ’’ہندوتو‘‘ کے ذریعہ اپنا ووٹ بنک مضبوط کرنے کے لئے کوشاں ہے تو کانگریس پارٹی نے بھی ’’نرم ہندوتو‘‘ کا موقف ا ختیار کررکھاہے اور اقلیتی ووٹ حاصل کرنے کے لئے اقلیتی فرقہ پرستی کو ہوا دے رہی ہے۔ دیگر پارلیمانی پارٹیوں کو بھی یہی حال ہے۔ اس لئے موجودہ جیسے دنگوں کے لئے ووٹ بنک کی سیاست بھی بہت حد تک ذمہ دار ہے۔ یہ امر بھی ذہین نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ بھارتیہ جنتاپارٹی نے توکھلم فرقہ واریت کا موقف اختیار کررکھاہے لیکن ملک کا کوئی قانون ، ضابطہ، الیکشن کمیشن، سپریم کورٹ یا کوئی ااور ادارہ اس کے ان مکردہ عزائم کوروکنے سے قاصر ہیں۔ اس صورت حال میں فرقہ وارانہ جنون کے بڑھنے کا مزید امکان ہے اور پارلیمانی سیاسی پارٹیاں اس کے لئے کلیتاً ذمہ دارہیں۔
بے شک اکثریتی فرقہ پرستی انتہائی خطرناک ہے جس کا اولاً مقابلہ کیا جانا چاہیے لیکن رد عمل کے طورپر اقلیتی فرقوں میںپائی جانے والی فرقہ وار انہ ذ ہنیت کوبھی نظرانداز نہیںکیا جاسکتا۔ اکثریتی فرقہ کی فرقہ پرستی کے مقابلہ کے نام پر اقلیتی فرقوں میں فرقہ پرستی کا زہر پھیل رہاہے۔ذی غرض افرادسیاسی اور پارلیمانی اغراض کے لئے باقاعدہ طور فرقہ وارنہ  کے میدان میںصف آائی ااور محاذ آرائی کی پالیسی پر گامزن ہیں جس سے فرقہ وارانہ تنائو اورکشیدگی میں زبردست اضافہ ہواہے۔
 تجربہ گواہ ہے کہ ایک طرف کی فرقہ پرستی دوسری طرف فرقہ پرستی کی تقویت پہنچاتی ہے۔ دونوں طرح کی فرقہ پرستیاں اصل میں جڑواں بہنیں ہیں۔ آج تک ایک طرح کی فرقہ پرستی نے دوسری طرح کی فرقہ پرستی کو طاقت ہی عطا کی ہے، اس کا انسداد نہیںکیا ہے۔ اس لئے اکثریتی فرقہ کی فرقہ پرستی اور اقلیتی پرستی دونوں لعنت ہیں۔ دونوں لوٹ کھسوٹ کرنے والے حکمران طبقوں اور فرقہ پرستی کے سوداگر پارلیمانی گروہوں کے مفادات اور اغراض کو پورا کررہی ہیں۔ اس لئے دونوں طرح کی فرقہ پرستی کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ بے شک کوئی زیادہ ضرر رساں ہویا کوئی کم ضر ررساںلیکن ہیں تودونوں ضرر رساں۔ اور دونوں لٹیرے حکمران طبقوں اور ان کی نمائندہ پارلیمانی پارٹیوں کی اغراض کو پورا کرتی ہیں۔
کچھ بھدر پرش اور نیک دل انسان محض اپدیشوں اور واعظوں سے فرقہ پرستی کا ختم کرکے فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور یگانگت قائم کرنے کے خواہاں ہیں اور محض امن کمیٹیاں قائم کرکے فرقہ وارانہ میل ملاپ بڑھانے کے متمنی ہیں۔ ان کا جذبہ تو بلا شک نیک ہے اور انہیں ایسا کرنے کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہے لیکن محض اس طریقہ سے فرقہ پرستی اور فرقہ واریت کاانسداد نہیںکیا جاسکتا۔ اس مقصد کے حصول کے لئے سائنٹفک طریقہ کار اور لائحہ عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ بے لوث، مخلص، قربانی، مجسم ، دیانتدار اور صاف ذہن کے سیاسی کارکنوں کوآگے آنا چاہیے اور عوام کو مہنگائی ، بھوک، افلاس، بے روزگاری، رشوت ، بھرشٹاچار ، کنبہ پروری ، بدعنوانیوں، بے ضابطگیوں ، بے قاعدگیوںکے مسائل پر منظم کرکے مشترکہ جدوجہدیں شرو ع کرنی چاہیں۔ ان جدوجہدوں کے دوران مختلف فرقوں اور برداریوں کے درمیان جو اتحاد پیدا ہوگا وہ دائمی اور دیرپا بھی ہوگا اور لٹیرے حکمران طبقوںاوران کی نمائندہ پارلیمانی سیاسی پارٹیوں کی طرف سے شاطرانہ طریقہ سے پھیلائی جانے والی فرقہ واریت کامقابلہ بھی کرسکے گااور مصائب سے نجات دلانے کاموجب بھی بن سکے گا۔
اس موقعہ پر یہ امر ذہن نشین کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ ملک میں سامراج ، گماشتہ سرمایہ داری اور لینڈ لارڈ ازم کے مشترکہ اتحاد کا ثلاثہ کی حکومت ہے۔یہ تینوں لٹیرے طبقے طبقاتی لحاظ سے برسر اقتدار ہیں۔ موجودہ پارلیمانی سبھی پارٹیاں ان تینوں طبقوں کی ہی نمائندہ ہیںاور ان تینوں طبقوںکے مفادات کی نگہبان اورمحافظ ہیں۔ ان میں سے کوئی پارٹی یا پارٹیوں کا استحصال بھی جاری رہے گا۔ جب تک ان طبقوں کی لوٹ کھسوٹ جاری رہے گی اورمحنت کش عوام کا استحصال بھی جاری رہے گا، جب تک ان طبقوں کا اقتدار ختم ہوکر عوامی جمہوریت قائم نہیںہوتی تب تک عوام لوٹ کھسوٹ سے نجات حاصل نہیں کرسکتے۔ موجودہ پارلیمانی نظام کے متعلق ابہامات پیدا کرکے لٹیرے حکمران طبقے محنت کش عوام کو گمراہ کررہے ہیں۔ عوام کی نجات کے لئے موجودہ لٹیرے نظام کا خاتمہ شرط اول ہے۔
پارلیمانی ابہامات کے علاوہ لٹیرے حکمران طبقے اور ان کی نمائندہ پارلیمانی پارٹیاں عوام میں نفاق منافرت اورجھگڑے پیدا کرکے لٹیرے نظام کی عمر میںاضافہ کر نے کا رْص نیم بسمل کررہے ہیںاور عوام کو اس نظام کے خاتمہ کی جدوجہد سے توجہ ہٹارہے ہیں۔ فرقہ واریت، فرقہ پرستی اورفرقہ وارانہ بنیادوں پردنگے اور فسادات دراصل لٹیرے طبقوں کے ہاتھ ایک شاطرانہ ہتھیار ہے جس کوکند کرنا محنت کش عوام کے لئے لازمی بن گیاہے۔ برطانوی اقتدار بھی عوام میں تقسیم در تقسیم کرکے اس ملک پر طویل مدت تک قابض رہاہے اور اب دیسی لٹیرے حکمران اوران کی سرپرست سامراجی بھی وہی حربہ بروئے کار لاکر اپنے اقتدار کی مدت میںاضافہ کررہے ہیں۔
 اندریں حالات محنت کش عوام کے لئے لازم ہے کہ اس نظام کے مکمل خاتمہ کے لئے بھی اور روزمرہ کے مصائب اور مشکلات کے خاتمہ کے لئے بھی متحدہوکر جدوجہد کریں۔ اس جدوجہد کے دوران جو اتحاد پیدا ہواگااسی سے فرقہ واریت کابھی خاتمہ ہوگانیز مشکلات ومصائب کا بھی ازالہ ہوگا۔ اس نظام کے خاتمہ میں ہی نجات اور فرقہ وارانہ اتحاد دنوں کا عمل کارفرماہے اور یہ دونوں لازم وملزوم ہیں۔ اس لئے عوام کوا س نظام کے خلاف متحد ہ جدوجہد کرکے اس نظام کا خاتمہ کرکے فرقہ وارانہ یگانگت قائم کرنی چاہیے۔
krishandevsethi@gmail.com 

Sunday 29 July 2012

بلائوں سے بچنے کا نسخہ

بلائوں سے بچنے کا نسخہ

- بینا صدیقی
’’یار بلائوں سے بچنے کا نسخہ ہے تو بڑا مہنگا، مگر میرے جاننے والے پیر صاحب ہیں۔ اُن سے بات کر کے تمہیں ذرا سستا دلوا دوں گا۔‘‘ شہریار نے رافع سے سرگوشی کی۔ ’’یار دنیا میں اس وقت مجھ سے زیادہ بلائوں سے بچنے کی ضرورت اور کسی کو نہیں۔ دنیا کی ہر بلا اور مصیبت میرا انٹرویو لینے پر تلی ہے۔‘‘ رافع بلبلا کر بولا۔ ’’آخر ایسا بھی کیا ہوگیا ہے؟‘‘ عثمان جو دیر سے دونوں کی باتیں سن رہا تھا، بالآخر بول پڑا۔ ’’یار میرے، تم تو جانتے ہو کتنی مصروف ترین زندگی ہے میری۔ نوکری اور پڑھائی ساتھ ساتھ کررہا ہوں۔ ایک طرف ظالم و خونخوار پروفیسرز ہیں جو مجھے نقل کرنے کی ذرا سی بھی سہولت دینے کو تیار نہیں۔ دوسری طرف انتہائی بدتمیز اور مکار باس حضرات ہیں جو میرا خون نچوڑ کر پیسے بنارہے ہیں۔ ان کو معلوم ہے کہ میں ایوننگ شفٹ میں ایم بی اے کررہا ہوں، لیکن جان بوجھ کر شام کے وقت ڈھیر سارا کام مجھ پر لاد دیا جاتا ہے۔ کام کے چکر میں شروع کی دو کلاسیں نکل جاتی ہیں اور ایوننگ شفٹ کے سارے پروفیسر اپنی اپنی بساط کے مطابق مجھے ذلیل و خوار کرتے ہیں۔ رہ گیا گھر، تو میرے گھر پر بھی ظلم کی سہولت موجود ہے۔ یعنی میرے خونخوار بھائی بھابھی، جو اپنے موٹے تازے بچوں کی پرورش میں میرا کردار بڑھاتے چلے جارہے ہیں۔ میرا ایک بھتیجا جنگلی ہے، دوسرا موٹا اور ہونق۔ دونوں الگ الگ طریقوں سے مجھے تنگ کرکے جینا حرام کرتے ہیں۔ امی ابو سعودیہ میں رہتے ہیں۔ آخر میں جائوں تو جائوں کہاں؟‘‘ رافع رو دینے کو تھا۔ ’’ارے بھائی رونے کی کیا بات ہے؟ کل ہی اپنے پہنچے ہوئے پیر صاحب سے تعویذ لادوں گا بلائوں سے بچنے کا۔ بس ایک صحت مند کالا بکرا اور دس ہزار روپے کیش چاہیے ہوگا نذرانے کے لیے۔‘‘ شہریار نے تسلی دی۔ ’’یار تمہارا پہنچا ہوا بزرگ کچھ زیادہ ہی اوپر پہنچا ہوا ہے۔ وہ کچھ نیچے نہیں آسکتا؟ میرا مطلب ہے یہ تم میرے پورے مہینے کی تنخواہ مانگ رہے ہو نذرانے کے لیے۔‘‘ رافع بوکھلا اٹھا۔ ’’یار مسئلے تیرے اتنے ہیں اور بلائیں بھی اتنی۔ پیسے بھی اتنے ہی لگیں گے۔ تُو اپنی بلائیں کم کرلے تو تعویذ بھی ہلکا اور سستا آجائے گا۔‘‘ شہریار برا مان گیا۔ ’’چلو یار کرتا ہوں کچھ۔ ویسے تو میں تنخواہ سے ہی اپنی فیس کے پیسے نکالتا ہوں، مگر خیر چلو۔‘‘ رافع ہونٹ دانتوں میں دباکر کچھ سوچنے لگا۔ ……٭٭٭…… بلائوں سے بچائو کا مہنگا تعویذ رافع کے گلے میں تھا اور وہ اعتماد سے چور چور ہوتا ہوا صبح آفس میں داخل ہوا۔ باس کے بلانے پر اعتماد سے ان کے آگے جاکھڑا ہوا۔ ’’رافع آپ کو دو پریزنٹیشن بنانی ہیں اور کل تک کلائنٹ کو جمع کرانی ہیں۔‘‘ باس نے مخصوص اکھڑ لہجے میں کہا۔ ’’اگر نہ جمع کرائوں تو؟‘‘ رافع خم ٹھونک کر بولا۔ ’’واٹ؟ آر یو ان یور سینس؟ ہوش میں تو ہیں آپ؟‘‘ باس چیخے۔ ’’میں کوئی گدھا نہیں جس پر آفس کا سارا کام ڈال کر آپ مزے کریں۔ کچھ کام آپ خود بھی کرلیا کریں۔ ورنہ مینجمنٹ آپ ہی کو فارغ کرنا چاہے گی۔‘‘ رافع اعتماد سے بولا۔ ’’واٹ؟ جسٹ گیٹ لاسٹ۔ میں آپ کی صورت بھی نہیں دیکھنا چاہتا۔ یا تو اس آفس میں مَیں رہوں گا یا آپ۔‘‘ باس حلق کے بل چلاّئے۔ ’’تو پھر اس کا مطلب ہے کہ یہاں میں رہوں گا۔‘‘ رافع خوش ہوکر بولا اور باہر نکل آیا، مگر اس وقت سناٹے میں آگیا جب سینئر سے بدسلوکی کرنے پر اسے ای میل پر نوٹس موصول ہوا۔ ……٭٭٭…… چھوٹو اور ببلو نے جیسے ہی آئسکریم، آئسکریم کا نعرہ بلند کرکے اس پر چھلانگ لگائی، ویسے ہی موٹے ببلو کو رافع نے کرارا ہاتھ لگادیا۔ چھوٹو کا کان ایسے مروڑا کہ وہ بلبلا اٹھا اور دونوں لاڈلے چاچو رافع کے اس نئے رویّے پر سناٹے میں آگئے پھر دھاڑیں مار کر رونے لگے۔ بھائی صاحب گھبرا کر اندر سے نکل آئے اور لاڈلوں کو روتا دیکھ کر خونخوار نگاہ رافع پر ڈالی: ’’یہ کیا کیا؟‘‘ وہ چلاّئے۔ ’’آپ کے جنّات بچوں کو قابو کرنے کا واحد طریقہ۔ جدید بچوں کی پرورش کا قدیم نسخہ۔ یعنی پٹائی اور دھلائی۔‘‘ رافع اعتماد سے بولا۔ ’’مگر یہ معصوم بچے ہیں۔ کیا بگاڑا تھا انہوں نے تمہارا؟‘‘ بھابھی جان شعلے برساتی نمودار ہوگئیں۔ ’’یہ جتنا بگاڑ سکتے تھے، بگاڑ چکے میرا۔ اب تو میری باری ہے۔‘‘ رافع ہنسا۔ ’’رافع، رافع تم…‘‘ بھائی جان غصے سے کچھ کہتے کہتے رک گئے اور اندر چلے گئے۔ ……٭٭٭…… توبہ، اس خبیث پریزنٹیشن میں کھپ کر رہ گیا میں تو۔‘‘ رافع سر پکڑ کر بولا۔ ’’پریزنٹیشن تو ہوتی رہے گی تیار، چلو چل کر ظہر تو پڑھ لیں۔‘‘ سمیر نے دراز سے اپنی ٹوپی نکالتے ہوئے پیار سے کہا۔ ’’یار میرے پاس مرنے کی فرصت نہیں، تُو کہتا ہے نماز پڑھ لوں؟ تُو جاکے پڑھ لے، بلکہ میرے حصے کی بھی پڑھ لینا۔‘‘ رافع جھنجھلا کر بولا۔ سمیر سر جھٹک کر نماز پڑھنے چلا گیا۔ ’’اس پریزنٹیشن میں اپنا دل، گردہ، جگر، پھیپھڑے بھی ڈال دوں گا ناں تب بھی باس کہے گا سم تھنگ از مسنگ (کوئی کمی ہے پریزنٹیشن میں) ہونہہ۔‘‘ رافع جلتے کڑھتے ہوئے کمپیوٹر کی بورڈ پر انگلیاں مار رہا تھا۔ ’’باس کے لاڈلے، مفت خورے، خوشامدی، جانے کون سا جادو منتر پڑھتے ہیں۔ ان کا تو ہر کام چوری کا ہے۔ انٹرنیٹ سے آئیڈیا چرایا، جھاڑ پونچھ کر اپنا بنا کے پیش کردیا، اور باس عش عش کر اٹھتے ہیں۔ چور کے بچے۔‘‘ رافع بڑبڑاتا رہا۔ ……٭٭٭…… یار یہ تیرا تعویذ… پتا نہیں کیوں الٹا اثر کررہا ہے! ساری بلائیں مجھ کو چمٹ گئی ہیں۔ جب سے دونوں بھتیجوں کی ٹھکائی شروع کی ہے ان کی خونخواری میں تو کوئی کمی نہیں آئی، الٹا بھائی صاحب جو نرم وملائم مزاج کے تھے وہ بھی خونخوار ہوگئے ہیں۔ دوسری طرف آفس میں باس صاحب ہیں جن کا پارہ 52 ڈگری سے نیچے ہی نہیں آتا کبھی۔ پہلے زبانی ذلیل کرتے تھے جس کا کوئی ریکارڈ نہ ہوتا۔ اب ذلیل کرنے کے لیے انٹرنیٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ ای میل پر ذلیل کرتے ہیں، اور یہ ذلت آن ریکارڈ آجاتی ہے۔ میری پروگریس رپورٹ کا حصہ بن جاتی ہے۔ تیسری طرف اس یونیورسٹی کے ایوننگ شفٹ کے تمام پروفیسر مجھ سے دگنی نفرت کرنے لگے ہیں۔ آخر میں کیا کروں؟ کیا فائدہ ہوا اس تعویذ کا؟‘‘ رافع آج شہریار پر پھٹ ہی پڑا۔ ’’یہ تو نہ کہہ یار۔ فائدہ تو ہوا ہے مگر تجھے نہیں۔ پیر صاحب کو۔‘‘ شہریار ہنسا۔ ’’ہنس کے میرا دل نہ جلائو۔ کوئی حل بتائو یا پھر اس لالچی پیر سے میرے پیسے واپس لاکر دو۔‘‘رافع چیخا۔ ’’لالچی پیر، پیسے واپس نہیں کرتے۔ یہ تو پتا ہی ہوگا تم کو۔ میرے پیر صاحب کے نذرانے نان ری فنڈ ایبل (ناقابل واپسی) ہیں۔‘‘ شہریار اطمینان سے کتابیں سمیٹتا چلتا بنا۔ رافع تعویذ نوچ کرکھولتا رہ گیا۔ ……٭٭٭…… ’’اندر مصیبت، باہر مصیبت، آگے مشکل، پیچھے مشکل۔ ایک لمحے کا سکون ہے نہ گھڑی بھر کی فرصت۔ لگتا ہے سارے شہر کی مصیبتیں میرے کھاتے میں آگئی ہیں۔ دن رات کام کرو پھر بھی سُکھ نہیں ملتا۔ منتشر سوچوں کے ساتھ رافع گھر میں گھسا ہی تھا کہ سامنے دوڑ کر آنے والے موٹے بھتیجوں سے ٹکراتے ٹکراتے بچا جو بھاگ کر ڈرائنگ روم میں جارہے تھے۔ ’’افوہ کیا مصیبت ہے نظر نہیں آتا؟‘‘ رافع غرایا اور لمحے بھر کو اس کی نگاہ بچوں کے ہاتھ میں موجود سپاروں پر پڑی۔ غالباً بچوں کے قاری صاحب آئے بیٹھے تھے اور بچے ان سے پڑھنے اندر جارہے تھے۔ لمحے بھر میں سپاروں پر نگاہ پڑتے ہی اس کے دل کو کچھ ہوا اور اسے ایک دم خیال آیا کہ اس کے انتہائی مصروف ترین شیڈول میں پیسے کمانے کا وقت تو تھا، مزید پیسے کمانے کے لیے پروفیشنل تعلیم حاصل کرنے کا وقت بھی تھا۔ بھائی، بھابھی اور بھتیجوں کے لیے بھی ٹائم تھا۔ یار دوستوں سے گپیں لڑانے کا وقت تھا۔ مگر اللہ کے لیے کوئی وقت نہ تھا۔ وہ ذہن پر زور ڈالنے لگا کہ آخری مرتبہ اس نے قرآن پاک کو کب کھولا تھا؟ شاید پچھلے برس کے رمضان میں… ساتھ ہی اس کی نگاہ الماری کے اوپر جا پہنچی جہاں سبز مگر گرد آلود مخمل میں لپٹا ہوا بلائوں سے نجات کا نسخہ، کب سے اس کی مدد کرنے کو تیار تھا۔

مٹھی بند ریت کے قیدی

مٹھی بند ریت کے قیدی

- امبر مصعب

’’ایک توتم اسی بات پر اٹک جاتی ہو کہ موت ابھی بہت دور ہے۔ تم ایسا کیوں سوچتی ہو! جبکہ موت کا تو کوئی بھروسہ ہی نہیں، کسی بھی وقت کسی کو بھی سیکنڈوں میں دبوچ لے گی۔‘‘ رابعہ نے منہ بسورتے ہوئے افشاں سے کہا۔ رابعہ افشاں کو سمجھا رہی تھی، جبکہ افشاں یہ سوچنے کے لیے بھی تیار نہیں تھی کہ میں یا کوئی بھی شخص مسلمان ہو یا نہ ہو، اسے موت اتنی جلدی پلک جھپکتے آئے گی، روح قبض کرلی جائے گی، اورہم منوں مٹی تلے چلے جائیں گے! بلکہ وہ یہ سوچتی کہ ابھی تو ہماری جوانی ہے، ابھی موت اور موت کی باتیں کیوں؟ کھائو پیو، گھومو پھرو، جب ہم بوڑھے ہوں گے تو بڑھاپے میں اللہ اللہ کرلیں گے، پھر کہیں جاکے موت ہمیں آواز دے گی اور ہم قبر کی آغوش میں جاسوئیں گے۔ رابعہ جو کہ افشاں کی بڑی بہن تھی اس سے اکثر اس بات پر بحث ہوجاتی۔ رابعہ بڑی ہونے کے ساتھ سمجھدار بھی تھی۔ افشاں چھوٹی تھی اور اس کا دھیان نت نئے فیشن کے ملبوسات پر تھا۔ اور میگزین اور فلمیں دیکھنے کا تو اس کو جنون کی حد تک شوق تھا۔ ٭٭٭٭ دونوں بہنوں کے امتحانات ختم ہوچکے تھے۔ چھٹیوں کا اعلان بالخصوص افشاں کے لیے کسی بڑی خوشی سے کم نہ تھا۔ ’’آپی سب سے پہلے تو میں اپنے لیے نئے فیشن کے ملبوسات سلوائوں گی۔‘‘ افشاں نے رابعہ سے خوشی سے جھومتے ہوئے کہا۔ ’’اور ہاں آپی ایک سوٹ تو ود آئوٹ سلیوز سلوانا ہے جو کہ مجھے بہت پسند ہے۔‘‘ ’’ہونہہ… ہونہہ… کیا کہہ رہی ہو!‘‘ رابعہ نے چونک کر کہا۔ ’’امی سلیولیس کبھی نہیں پہننے دیں گی اور ننگا پہناوا کہہ کر ڈانٹ دیں گی۔‘‘ امی کا نام سن کر افشاں افسردگی سے بولی ’’واقعی آپی ہمارے والدین نہیں پہننے دیں گے۔ مجھے تو اس خواہش کو مارنا پڑے گا۔‘‘ اچانک افشاں کے ذہن میں ایک اور پلان آیا:’’آپی کیوں نا ہم چھٹیوں میں اسلام آباد پھوپھو کے گھر چلیں اور وہاں اپنی چھٹیاں گزاریں۔ پھوپھو کے گھر بڑا مزا آئے گا۔‘‘ رابعہ جو کہ ابھی تک سوچوں میں گم تھی، صوفے پر ٹیک لگاتے ہوئے بولی: ’’تم اس لیے بھی خوش ہورہی ہو ناکہ وہاں تمہاری پھوپھی زاد سمیرا تمہاری ہم عمر اور ہم خیال موجود ہے، جس کے ساتھ تمہاری چھٹیاں تمہارے مزاج کے مطابق گزر جائیں گی۔‘‘ ٭٭٭٭ افشاں نے منانے کے انداز میں رابعہ کے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے کہا: ’’آپی! امی اور ابو سے اجازت کا مرحلہ آپ طے کریں گی۔‘‘ رابعہ نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا: ’’اچھا بھئی رات کے کھانے پر بات کریں گے۔‘‘ ٭٭٭٭ ’’ارے آپی سامان بھی پیک کرنا ہے، جلدی کرو، کھانا ختم بھی کرو‘‘۔ افشاں جس کا خوشی کے مارے کھانا بھی حلق سے نہیں اتررہا تھا دستر خوان سے اٹھتے ہوئے بولی۔ ’’ارے بھئی کھانا تو آرام سے پورا کرلو۔‘‘ ابو اجازت دینے کے بعد سوچ رہے تھے کہ دونوں بیٹیوں کو ٹرین سے بھیجا جائے یا ہوائی جہاز سے! ٭٭٭٭ رات کو بستر پر لیٹتے ہوئے رابعہ نے افشاں سے کہا: ’’سونے کی دعا کے ساتھ کلمہ بھی پڑھ لیا کرو، نہ جانے صبح نصیب ہو یا نہ ہو، ہمارے سوتے ہوئے ہی ہماری موت کا وقت آجائے۔‘‘ افشاں جو کہ ابھی فلم پوری کرنے کے بعد بستر پر نیم دراز ہوئی تھی اور سونے کی کوشش کررہی تھی رابعہ کی بات پر بیزاری سے بولی ’’اچھا بھئی ٹھیک ہے نا‘ ویسے آپی آپ بھی کسی موت کے فرشتے سے کم نہیں‘‘۔ یہ کہتے ہی افشاں نے اپنا منہ چادر میں کرلیا۔ ٭٭٭٭ دوسرے دن ابو نے آفس سے آکر امی سے کہا کہ یہ ٹکٹ رکھ لو اور ان کو بھیجنے کی تیاری کرو۔ یہ سن کر دونوں بہنوں کا خوشی سے برا حال تھاکہ ہم جہاز سے اسلام آباد پھوپھو کے گھر جارہے ہیں۔ افشاں دل ہی دل میں پلان بنارہی تھی کہ وہاں جاکر بہت گھومیں گے، اور میں تو سمیرا کے ساتھ بہت مزا کروں گی۔ نئی موویز دیکھوں گی۔ اور… اور … بہت کچھ۔ امی کی آواز نے افشاں کا پلان بیچ میں ادھورا چھوڑ دیا: ’’افشاں سواری کی دعا یاد ہے نا؟‘‘ ’’جی جی امی‘‘۔ افشاں نے بیزاری سے جواب دیا ’’امی میں جہاز میں بیٹھ کر پڑھ لوں گی۔‘‘ ’’ابو ہمیں ایئرپورٹ چھوڑنے آپ جائیں گے یا ہم بھائی کے ساتھ جائیں؟‘‘ افشاں نے ابو سے پوچھا۔ رابعہ کو جانے کی خوشی بھی تھی اور امی ابو سے کچھ عرصہ دور رہنے کا غم بھی۔ خوشی اور غم دونوں کے ملے جلے تاثرات اس کے چہرے سے نمایاں تھے اور اس کی آنکھوں میں نمی تھی۔ امی کی آواز نے اسے چونکا دیا ’’ارے بھئی ہم سب تمہیں ایئرپورٹ چھوڑنے جائیں گے۔‘‘ رابعہ امی کے گلے لگ کر رو رہی تھی ’’امی مجھے آپ اور ابو بہت یاد آئیں گے، آپ لوگ اپنا بہت خیال رکھنا۔‘‘ ٭٭٭٭ گلزار صاحب نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے صبیحہ بیگم سے چائے کے ایک کپ کی فرمائش کی اور ساتھ ہی ٹی وی کا ریموٹ مانگا۔ ٹی وی کھولتے ہی اچانک بریکنگ نیوز پر نظر پڑی کہ کراچی سے اسلام جانے والی فلائٹ بھوجا ایئرلائن کا طیارہ اسلام آباد کے قریب گر کر تباہ ہوگیا ہے۔ یہ خبر سنتے ہی گلزار صاحب نے دل پر ہاتھ رکھ لیا۔ بس زبان سے ایک ہی لفظ نکل رہا تھا کہ ’’یااللہ خیر‘‘ چائے کا کپ لاتی ہوئی صبیحہ بیگم سے کپ چھوٹ کر فرش پر بکھر چکا تھا۔ وہ بوجھل قدموں سے گلزار صاحب کے نزدیک پہنچیں جنہیں دل کا اٹیک آچکا تھا۔ ایک طرف شوہر اور دوسری طرف بیٹیاں… صبیحہ بیگم کے منہ سے ’’یااللہ مدد‘‘ کے سوا اور کچھ نہ نکل سکا۔ ٭٭٭٭ گلزار صاحب کو دل کا دورہ تو آیا لیکن ابھی مہلتِ زندگی باقی تھی، مگر دوجوان بیٹیاں جہاز کے حادثے کی نذر ہوچکی تھیں۔ یہ مہلتِ زندگی کوئی اصول نہیں رکھتی۔ نہ عمر کی قید ہے نہ صحت کی قید۔ بس مہلت مٹھی میں بند ریت کی ماند ہے۔ اِدھر مٹھی کھلی اور اُدھر یہ پھیلی۔

شدت پسندی کے اونٹ کی انگڑائیاں۔۔۔......۔ از...............شمس جیلانی


شدت پسندی کے اونٹ کی انگڑائیاں۔۔۔......۔ از...............شمس جیلانی
از ۔شمس جیلانی
 اسلام ایک سیدھا اور آسان مذہب ہے اور داعیِ اسلام محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ  (ص)ایک نرم خو اور اخلاق کی بلندیوں پر فا ئز انسان ہیں۔ اور ساتھ میں یہ بھی کہ اگر آپ (ص) سخت ہو تے تو لوگ آپ کو چھوڑ کر بھاگ جاتے، یہ میں نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ قرآن میں اللہ سبحانہ تعالیٰ فرما رہا ہے، اسلام اور داعیِ اسلام کاتعارف ان ہی جیسے الفاظ میں کرا رہا ہے! لیکن ہم اگر آج کے اسلام پر غور کریں تو جو ایک فرقہ سوائے اپنے فرقہ کے اور کسی کو مسلمان ہی نہیں مانتا وہ ہے، جو انتہائی سخت ہے، جبکہ دوسرا فرقہ جسے عوام الناس کہتے ہیں ۔ کسی اصول کا پابند ہی نہیں ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ وہ اخلاقی طور پر اتنا گر چکا ہے کہ وہ کبھی چھپ کر تو کبھی دن دھا ڑے جیبیں کا ٹ رہا ہے۔ انسان کی جان لینا اس کے لیئے کوئی اہمیت نہیں رکھتا ، رشوت لینا ،لوگوں کے مال جائیداد ،سر کاری املاک پر قبضہ کر نا اپنا حق سمجھتا ہے۔ جبکہ مسلمان ملکوں کی حکومتیں بیت المال کو ان معنی میں لیتی ہیں کہ بیت المال عوامی امانت نہیں چونکہ وہ ہمارے قبضہ میں ہے لہذا ہمارے باپ دادا سے وراثت میں ملا مال ہے، اس کو جس طرح چا ہیں ہم خرچ کر یں؟ یہ گروہ بھی اسلام کا نام گاہے بہ گاہے لیتا رہتاہے لیکن جب اس پر عمل کی بات کرو تو نہ یہ گروہ تیار ہے، نہ وہ گروہ تیار ہے کیونکہ حلوہ مانڈا دونوں کااسی پر چلتا ہے۔ جبکہ اسلام میانہ روی کا سبق دیتا ہے۔ اور ہمارے ہاں میانہ روی نامی کو ئی چیز سرے سے پائی ہی نہیں جاتی۔ اگر میانہ روی پر یقین رکھنے والا طبقہ کہیں ہے بھی تو پھر اتنی چھوٹی اقلیت میں ہے کہ جس کی طوطی سے بھی کم آواز ہے جو کہیں سنائی نہیں دیتی؟

 یہ ہے اس وقت کے عالم اسلام کی صورت ِ حال ؟ جبکہ شدت پسندی کا دیو اسے نگلنے کے لیئے تیزی سے اس کی طرف بڑھ رہا۔ جبکہ عوام کی اکثریت جب بھی کہیں کوئی تحریک چلتی ہے تو اس کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھتی ہے اور اس کے پیچھے چل پڑتی ہے اور شاطر اسے استعمال کر کے بیوقوف بنا  تے رہتےہیں۔ کیونکہ شیطان اِن کو اِن کے اعمال اچھے کر کے دکھا تا ہے اور ُا ن کو بھی ُان کے اعمال اچھے کر کے دکھا تا ہے۔
   آپ اسلام کی پوری تاریخ کو دیکھ جا ئیں تو آپ کو ایک ہی بات پایہ ثبوت کو پہونچتی ہو ئی نظر آئے گی کہ جب بھی شدت پسندی آئی تو اپنے ساتھ لا منتا ہی کشت و خون لیکر آئی اور جب وہ رخصت ہوئی جبھی اسلام پھیلا ۔تاریخ اسلام میں اس کی ابتدا خارجیوں سے ہوئی ۔ یہ خارجی کیوں کہلائے اس کی وجہ یہ تھی یہ سب باہر سے آئے تھے اور عربی زبان میں باہر سے آنے والی ہر چیز بشمول انسان سب خارجی ہیں، خارجیوں نے ہی مدینہ منورہ کا گھراؤ کیا، حضرت عثمان  (رض)کو شہید کیا؟ اس وقت ان کی تعداد سیکڑوں میں تھی، اس کے بعد جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ خلیفہ بنے تو وہ کل تک جو ان کے مداح تھے، انہوں نے ان کے خلاف بھی پہلے زبانی تحریک چلائی اور پھر وہ عملی طور پر بزعم خود ان سے جہاد کے لیئے کوفہ کے اطراف میں جمع ہوگئے، جنکی تعداد اب بیس ہزار سے تجاوز کرچکی تھی، جن میں ساتھ سو سے زیادہ حفاظ تھے اور انہیں کے رہنما ان کی قیادت کر رہے تھے۔ کیونکہ اس وقت تک حفاظ ہی عالم ِ دین سمجھے جاتے تھے اور ابھی دنیا کی دوسری قوموں کی طرح اسلام میں علماءکا طبقہ عالم وجود میں نہیں آیا تھا جوکہ بہت بعد میں آیا۔ اس سے پہلے صرف وہ  قرآں کےمفسرین تھے جن کی تربیت حضور (ص) نے فرمائی تھی جو کہ انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے اور زیادہ تر مدینہ منورہ میں مقیم تھے ۔اس زمانے میں جسے کوئی بھی مسئلہ در پیش ہوتا تو وہ انہیں سے رجوع کرتاتھا۔ 

 انہیں خارجیوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ جیسے انتہائی متقی انسان کو بھی بہت تنگ کیا لیکن وہ انہیں مسلمان ہونے کی وجہ سے طرح دیتے رہے ، اور ان کو ہر طرح سمجھانے بجھانے کی کوشش فرماتے رہے حتیٰ کہ حضور (ص) کی پیشن گوئی کے مطابق انہوں (رض) نے ان میں وہ تمام خصائل  دیکھ لیئے جوکہ مخبر ِ صادق (ص) نے پہلے ہی بیان فر ما دیئے تھے اور یہ بھی فرمادیا تھا کہ انہیں تمہارے ہاتھوں مارا جانا ہے۔ پھر بھی پہلے تو انہوں نے عام معافی کا اعلان کیا کہ ً جو نہ لڑے یا یہاں سے چلا جا ئے تو اس کو امان ہے، اسے کچھ نہیں کہا جا ئے گا ً لہذا خارجیوں کی اکثریت ان کوچھوڑ گئی ۔اب صرف وہ رہ گئے جو کسی قیمت پر بھی انسان بننے کو تیار نہ تھے جنکی تعداد چار ہزار سے زیادہ نہ تھی تو انہیں ان پر حملہ کر نا پڑا کیوں کہ ایسے لوگوں کا دار الخلافہ کوفہ کے سامنے پڑاو انتہائی خطر ناک تھا جبکہ انہوں نے چاروں طرف لوٹ مار قتل اور غارت گری کا بازار بھی گرم کر رکھا تھا۔ جبکہ یہ پہلے مدینہ منورہ میں لوٹ مار اور قتل و غارت گری سے نہیں چوکے تو یہاں کیا چوکتے؟ مگر اس سے ان کا بظاہر زور تو ٹوٹ گیا مگر وہ پورے عالم ِ اسلام میں پھیل گئے اور صدیوں تک کبھی ایک اور کبھی دوسری شکل میں قتل اور غارت گری کا بازار گرم کیئے رہے ۔ اور انہیں میں سے ایک نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو شہیدکر دیا۔

 چونکہ یہ پوری دنیا میں پھیل گئے تھے اور آج کی طرح اسلام کی تشریح ان کی اپنی تھی۔ وہ یہاں تک گئے کہ حرم اور حجر اسود بھی ان کے ہاتھوں سے محفوظ نہیں رہ سکا کہ بقول ان کے اس سے بت پرستی کی بو آتی تھی جس کو ہم سب کے آقا (ص) نے بو سہ دیا تھا جس سے ہر حاجی طواف ِ کعبہ شروع کرتا ہے۔ 

اس کے بعد یہ شدت پسندی کسی نہ کسی شکل میں موجود رہی حتیٰ کہ ما ورا النہر کے ایک قلعہ پر قابض ایک گروہ نے کئی نسل تک دنیا پر دہشت گردی کے ذریعہ حکومت کی اس لیئے کہ اس کے پاس جان دینے والوں کی اچھی خاصی تعداد ہمیشہ رہتی تھی اور جو اس تحریک کی  یا اس کے شیخ کی مخالفت کرتا تھا وہ جان سے جاتا تھا۔ کیونکہ وہ جانثار ہر بادشاہ کی فوج میں ،ہر شیخ کے مریدوں، میں گھس جاتے تھے۔ اور جب انہیں حکم ملتا تو طاہر ہوکر قتل کر دیتے۔ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک کہ ہلا کو نے آخری عباسی خلیفہ اور تمام مسلم بادشاہوں کو ختم کر کے اپنا تسلط نہیں قائم کر لیا، کیونکہ منگولوں میں وہ گروہ اس لیئے رسائی نہیں پاسکا کہ وہ سوائے اپنی قوم کے غیر کو اپنے قریب نہیں پھٹکنے دیتے تھے۔

اس کے بعد شدت پسندی دم توڑ گئی اور اصفیائے عظام کے ذریعہ جہان میں اسلام پھیلنا شروع ہوا اور آہستہ آہستہ ان کے بلند کردار دیکھ کر وہ مشرف بہ اسلام ہو تا چلا گیا۔ پھر دوبارہ اس کڑوہ پھل دینے والے درخت کی نرسری انگریزوں نے سلطنت ِ عثمانیہ کو ختم کر نے کے لیئے نجد میں لگائی جو کہ ہمیشہ سے قریش کی بر تری کے خلاف تھے۔ شریف مکہ نے انہیں عمرہ کرنے کی اجازت دیدی اور انہوں نے عمرہ کی آڑ میں مکہ معظمہ پر قبضہ کر لیا۔ وہ اہلِ مکہ کے لیئے خارجی ہی تھے اس لیئے کہ یہ نجد سے آکر قابض ہو ئے تھے جوکہ تاریخ میں انہونی بات تھی۔ انہوں نے بھی آکر انہیں خارجیوں کی طرح بدعتی کہنا شروع کر دیا۔ چونکہ اسلام اب وہ نہ رہا جو حضور  (ص)لا ئے تھے اور ہمیشہ ہر دور کے مسلمانوں میں مجدد آتے رہے تھے لہذا ان کو بھی ویسا سمجھا اور اسلام کی نشاةِ ثانیہ کے لیئے ان کی طرف دیکھنے لگے۔ انہوں نے پہلے تو بدعت کے نام پر قریشی دور کے تمام قبرستان تک مٹا ڈالے اور پھر ان وقف مسافر خانوں کو بھی ڈھادیا جو تمام دنیا کے امرءاور روساءنے حجاج کی سہولت کے لیئے  اطراف ِ حرم میں بنوا ہوئے تھے ۔ اوران کے بجائے  وہاں شہزادوں کی سرپرستی میں جدیدہوٹل بن گئے ۔ جوکہ ان کے خیال میں عین اسلام تھا اور بد عت نہیں تھی۔ پھرانہوں نے دنیا ئے اسلام کی قیادت اپنے ہاتھوں میں لینے کے لیئے دنیا بھر کے مدرسوں کو مدد دی مساجد پر قبضہ کر نے کے لیئے اپنے ہم خیال لو گوں کو مالی اعانت کی ۔ کیونکہ ان کے پاس ڈالر کی کمی نہ تھی اور ان کے قبضے میں دونوں مقدس شہرمکہ معظمہ اور مدینہ منورہ  بھی تھے لہذا انہوں نے خادم ِ حرمین شریفین کا لقب اختیا کر لیا اور اس طرح وہ عالم اسلام کے چودھری بن گئے۔ پھر کچھ عرصہ کے بعد امریکہ کو روس کو شکست دینے کے لیئے اسلام کی ضرورت پڑگئی چونکہ روس سے مسلمان بھی ان کے الحاد کی وجہ سے خوش نہ تھے۔ لہذا ان کے زیر اثر تمام ممالک اور مدارس متحرک ہو گئے جو پہلے عالم اسلام کے لیئے امام بناتے تھے اب مجاہد بنانے لگے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ شدت پسندی کا اونٹ سب جگہ بے مہار کے نظر آنے لگا ۔ جن کا ذہن یہ تھا، جو کہ انہیں پڑھایا گیا ہے وہی اسلام ہے؟ اور باقی سب بد عتی ہیں اور واجب القتل بھی اور انہیں ہر اس جگہ مداخلت کر نے حق حاصل ہے جہاں وہ چاہیں۔ یہ انجام کبھی شدت پسندی کے اونٹ کو کھلا چھوڑنے والوں نے سوچا ہی  بھی نہ تھا۔ جب توپوں کا رخ انکی اپنی طرف ہوا تو انہوں نے سوچنا شروع کیا اور اس کا گلا گھوٹنا چاہا ؟مگر اب اس کی جڑیں اتنی گہری ہو گئی تھیں کہ اس شدت پسندی کے اونٹ کے نتھنوں میں نکیل ڈالنے کے لیئے پہلے کی طرح کسی چنگیز خان کی ہی ضرورت تھی جو اب دنیا میں کہیں موجود نہیں ہے۔ آج ان کی نرسری اگانے والوں کی سمجھ میں خود نہیں آرہا ہے کہ کیا کریں؟ کبھی ان سے مذاکرات کرتے ہیں تو کبھی ان پر حملہ آور ہو تے ہیں ،اس کشمکش میں اسلام بد نام ہو رہا ہے جس کا شدت پسندی سے دور کا بھی تعلق بھی نہیں ہے اور کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا ہے کہ دنیا کا بنے گا اسلامی ملکوں کیا بنے گا اور اسلام کا کیا بنے گا ۔ یہ صرف مسلمانوں کے لیئے ہی نہیں پوری دنیا کے لیئے لمحہ فکریہ ہے جس طرف بھی دیکھئے لاشیں ہی لا شیں دکھا ئی دیتی ہیں۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ خادم ِ حر مین شریفین کو نہ ان کی آہیں سنائی دیتی ہیں نہ سڑتی لا شیں دکھا ئی دیتی ہیں ۔ ابھی چند دنوں سے بر ما میں مسلمانوں کے قتل عام کی مسلمانوں کو خبر ہوئی جو کہ آج سے نہیں ستر سال سے جاری ہے تھا، مگر پاکستان کی وزارت ِ خارجہ کو اب خبر ہو ئی ہے کہ اس نے کل بیان مذمت میں داغا ہے؟ اس کی تاریخ بھی بہت لمبی اور پرانی  بھی یہ علاقہ بھی کبھی مسلم بادشاہت کے زیر ِنگین تھا ساڑھے تین سوسال تک رہا پھر انگیریزوں نے مہربانیکرکے  اسے بر ما میں شامل کردیا؟ 



The views expressed by the writers in  feature/article are entirly their own and not necessarily reflect my views. 

Saturday 28 July 2012

پروفیشنل مسکراہٹ

پروفیشنل مسکراہٹ

محمد سمیع  PST
- وہ دلچسپ واقعہ جس کا تذکرہ میں بعد میں کروں گا، اخبار میں پڑھنے کے معاً بعد ادبی صفحہ پریہ رباعی میری نظروں سے گزری: رہا کچھ بھی نہ اب باقی وطن میں مگر اک خستہ حالی رہ گئی ہے ترستی ہیں نگاہیں روشنی کو فقط روشن خیالی رہ گئی ہے میں یہ سوچنے لگا کہ یہ رباعی کیا بروقت میرے سامنے آئی ہے۔شاعر کو تو فکر روشنی کی ہے اور لوڈ شیڈنگ کے اس دور میں انسان کو اور کیا فکر لاحق ہوسکتی ہے؟ لیکن ’’فکر ہر کس بقدر ہمت اوست‘‘ کے مصداق جس روشن خیالی کا مظاہرہ اس واقعہ میں نظر آیا اسے محسوس کرکے مجھے فکر دینی اقدار کی پڑ گئی ہے۔ تو آئیے سب سے پہلے اس واقعہ کی رپورٹ پر نظر ڈالیں: ’’سینیٹ کی دفاعی کمیٹی کا اجلاس اس وقت کشت زعفران بن گیا جب چیئر مین ، پی آئی اے قمر رائو سلطان نے اپنے اسٹاف کا مسافروں کے لیے بہتر رویہ اپنانے کے لیے ایئر ہوسٹسز کی تربیت سے متعلق آگاہ کیا او ر بتایا کہ ہم نے ایک مہم شروع کی ہے جس میں ایئر ہوسٹسز کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ہر پرواز کے دوران ہر ہر مسافر سے چھ سے سات بار مسکراکر بات کرے ۔اس سے ریونیو بڑھے گا ، ادارے کا امیج بہتر ہوگا اور پرواز کا ماحول بھی بہتر ہوگا۔ مگر ایئر ہوسٹسز کہتی ہیں کہ اگر ہم زیادہ مسکرائیں تو مسافر غلط مطلب لیتے ہیں اور ہمارے معاشرے میں عورت کا مرد کے ساتھ ان حالات میں مسکرانا اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ جس پر میں نے ان سے کہا کہ وہ غلط مطلب والی مسکراہٹ نہ دیں صرف پروفیشنل مسکراہٹ دیں۔ اس سے رویہ بہتر ہوگا ۔ہر مسافر کو عزت دیں گی تو آہستہ آہستہ صورتحال بہتر ہوجائے گی۔‘‘ اب آئیے ذرا تجزیہ کرتے ہیں کہ اس واقعہ میں ہمارے لیے عبرت کا کتنا سامان موجود ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامی تعلیمات کا کس دھڑلے سے مذاق اڑایا جاتا ہے۔ ہمارے دین نے تو مردوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ دائرئہ کار معین کیا ہے۔ رزق کے حصول کی ذمہ داری مردوں پر ڈالی ہے اور عورتوں پر شوہر کے گھر اور مال کی حفاظت اور اس بچوں کی تربیت کی ذمہ داری ڈالی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں خاتون خانہ کو شمع محفل بنادیا گیا ہے۔معیار زندگی کو بلند سے بلند تر کرنے کی دوڑ میں خواتین کو بھی معاشی جدوجہد کے لیے گھر سے باہر نکال دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب خواتین پر ان کے دین کی طرف سے دی گئی ذمہ داری سے بڑھ کر بوجھ ڈالا جائے گا تو اس کے منفی نتائج تو لازماً پیدا ہوں گے۔ ہماری قومی فضائی کمپنی نے ’’کوا چلا ہنس کی چال تو اپنی چال بھی بھول گیا ‘‘کے مصداق دنیا میں رائج سسٹم کو اختیار کرکے خواتین کو ایئر ہوسٹس کی ملازمت کے لیے منتخب کرلیا ہے۔ حالانکہ یہ کام مرد بھی انجام دے سکتے ہیں۔ لیکن پھر وہی بات کہ اگر خواتین کو ایئر ہوسٹس نہ بنایا جائے تو عالمی سطح پر ہمارا سوفٹ امیج کیسے بنے گا؟ لوگ پہلے بھی اسلام کی آئیڈیل تعلیمات سے متاثر ہوکر اسلام قبول کیا کرتے تھے کیونکہ انہیں اسلامی معاشرہ اعلیٰ اخلاق پر مبنی آئیڈیل معاشرہ نظر آتا تھا۔ آج بھی اگر غیر مسلم اسلام قبول کررہے ہیں تو اسلام کی آئیڈیل تعلیمات سے متاثر ہوکر بالخصوص خواتین اس معاملے میں مردوں سے آگے ہیں کیونکہ جس راستے پر آج ہماری خواتین ، مغرب کی خواتین کے سامنے اس راستے کی تباہ کاریاں آچکی ہیں ۔ لیکن ہم نے سوفٹ امیج کے حصول کے لیے اپنے معاشرے کی اس آئیڈیل حیثیت کو ختم کردیا ہے اور ایسا کیوں نہ جبکہ ہمیں مغربی معاشرہ آئیڈیل معاشرہ نظر آنے لگا ہے۔ اگر کوئی سوال اٹھاتا ہے کہ کیوں اپنے معاشرے کی آئیڈیل حیثیت کو مغربی معاشرے سے متاثر ہوکر نقصان پہنچانے کے درپے ہو تو ان کا یہ کہہ کر مذاق اڑایا جاتا ہے کہ اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو یہ مے و نغمہ کو اندوہ ربا کہتے ہیں آپ نے دیکھا کہ پی آئی اے نے ایئر ہوسٹسز کی مسکراہٹ کو کیش کرنے (ریونیو بڑھانے) اور ادارے کا امیج بہتر بنانے کا ذریعہ سمجھ رکھا ہے اور پرواز کا ماحول بہتر بنانے کا یہی ایک ذریعہ سمجھ رکھا ہے۔ لیکن بے چاری ایئر ہوسٹسز کو اس سے کتنا فائدہ پہنچے گا اب یہ سب کو معلوم ہے۔ اب آئیے ایئر ہوسٹسز کے اس ضمن میں تحفظات کی طرف ۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم زیادہ مسکرائیں تو مسافر غلط مطلب لے لیتے ہیں اور ہمارے معاشرے میں عورت کا مرد کے ساتھ ان حالات میں مسکرانا اچھا نہیں سمجھا جاتا ۔ وہ بے چاریاں بھی کیا کریں۔ ہمارا دین خواتین کو حج جیسی عظیم عبادت کے لیے بھی محرم کے بغیر سفر کی اجازت نہیں دیتا۔ لیکن انہیں فلائٹ کے دوران ملک اور بیرون ملک کے شہروں میں رکنا پڑتا ہے۔ اپنے نامحرم ساتھیوں کے ساتھ ہنسی مذاق کو وہ غلط نہیں سمجھتیںجبکہ ہمارا دین خواتین کو ستر و حجاب کا پابندبناتا ہے۔ وہ تو امہات المومنین کو یہ ہدایت دیتا ہے کہ اگر انہیں کسی نامحرم کی بات کا پردے کے پیچھے سے جواب بھی دینا پڑے تو ان کی آواز میں لوچ نہیں ہونا چاہئے تاکہ اگر کسی کے دل میں روگ ہو تو وہ کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہو۔ اور ان امہات المومنین کے بیٹوں یعنی صحابہ کرام ؓ سے کہا گیا کہ اگر تمہیں ان سے کچھ طلب کرنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو۔ ہماری خواتین جب دینی تعلیمات کی خلاف ورزی کریں گی تو انہیں اس قسم کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا جن سے ہماری ایئر ہوسٹسز دوچار ہوتی ہیں۔ اب ذرا پی آئی اے کے چیئر مین کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔ کہتے ہیں کہ وہ غلط مطلب والی مسکراہٹ نہ دیں ۔اب پتا نہیں اس سے ان کی کون سی مسکراہٹ مراد ہے۔ البتہ مطلوبہ مسکراہٹ کو انہوں نے پروفیشنل مسکراہٹ کا نام دیا ہے۔ پروفیشنل کا اگر اردو میں ترجمہ کیا جائے تو اس کا مطلب پیشہ ور انہ ہوتا ہے۔ پیشہ ورانہ مسکراہٹ کوئی پیشہ ور عورت ہی دے سکتی ہے ۔ اگرچہ ورکنگ ویمن کے اعتبار سے وہ بھی پیشہ ور خواتین کہلا سکتی ہیں لیکن کیا کیجئے کہ پیشہ ور عورت کا لفظ سنتے ہی جس کی طرف دھیان جاتا ہے اسے سوسائٹی میں ناپسندیدہ ہی سمجھا جاتا ہے۔جبکہ ایئر ہوسٹسز اپنے حلقے میں قابل احترام مقام رکھتی ہیں۔ تو چیئرمین ،پی آئی اے انہیں پروفیشنل مسکراہٹ کا حکم کیوں دے رہے ہیں؟ویسے بھی ایک عام مسافر کے لیے غلط مسکراہٹ اور پروفیشنل مسکراہٹ میں فرق کرنا خاصا دشوار ہوگا۔بہرحال یہ تو طے ہے کہ اگر ہماری خواتین شریعت کو اپنے پیروں تلے روندتی رہیں گی تو اس طرح کے حالات سے انہیں سابقہ پیش آتا رہے گا۔وہ ہمیشہ اس کیفیت میں مبتلا رہیں گی کہ ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے انہیں کعبہ اور کلیسا میں سے کسی ایک کا انتخا ب توکرنا ہی پڑے گا۔اگر وہ کعبہ کا انتخاب کرتی ہیں تو بقول علامہ اقبال ۔ گر تومی خواہی مسلماں زیستن نیست ممکن جز بہ قرآں زیستن انہیں اپنے آپ کوقرآنی تعلیمات کا پابند بنانا ہی پڑے گا۔ اب آئیے آخر میں اس نکتہ پر کہ چیئر مین ، پی آئی اے کی باتوں کو سن کر سینیٹ کی دفاعی کمیٹی کا اجلاس کشت زعفران بن گیا حالانکہ یہ تو رونے کا مقام ہے بالخصوص اس وجہ سے کہ سینیٹ کا تعلق اسلامی جمہوریہ پاکستان سے ہے کسی سوشلسٹ ریپبلک سے نہیں۔ لیکن رونا تب آئے جب ارکان دفاعی کمیٹی کی آنکھوں میں بصارت کے ساتھ بصیرت کی قوت بھی موجود ہو۔
jasarat

Friday 27 July 2012

راجیش کھنہ کے لیے آنسو‘برمایں مسلمانوں کے قتل عام پرخاموشی!

راجیش کھنہ کے لیے آنسو‘برمایں مسلمانوں کے قتل عام پرخاموشی!

متفرق  
-خدارامیڈیاکو ایسا مت بنادو کہ لوگ ہم سے نفرت کرنے لگیں‘ ہمیں گالیاں دیں اورہمارے گریبانوں کو پکڑلیں۔ ریٹنگ اورپیسہ کے چکرمیں ہمیں اپنے آپ کو اتنانہیں گرانا چاہیے کہ اپنے دین کو ہی مذاق بنادیں اور ایسے کام کریں جو اللہ اور اللہ کے رسولؐ کی تعلیمات کے برخلاف اورکھلی ٹکرکے مترادف ہوں۔ آگے کیاکسرباقی تھی کہ ایک آزاد خیال اداکارہ سے متعلق خبرملی کہ وہ رمضان المبارک کے دوران رزانہ مذہبی پروگرام پیش کرے گی۔ پہلے تو یقین نہ آیا۔میںسوچتا رہا کہ یہ کیسے ممکن ہوسکتاہے۔ رمضان کے بابرکت مہینے میں تو اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رحمتوں سے نوازنے کا موقع دیتاہے مگر ہم ہیں کہ اس بات پر تلے بیٹھے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کے قہرکو دعوت دیں۔ نجانے اس پروگرام کا مقصدکیاتھا مگر کسی طوربھی اس مقدس مہینے میں ایک ایسی عورت کو روزہ داروں کے سامنے پیش کرنا جس نے پوری دنیا میں مسلمانوں اور پاکستانیوں کو اپنی فحاشی وعریانیت کی وجہ سے بدنام کیا‘ ایک انتہائی گھنائونا فعل ہوتا۔ اب اطلاع ملی ہے کہ عوامی ردعمل کے بعد مذکورہ پروگرام کو روک دیاگیاہے۔اللہ کرے ایسا ہی ہومگر اس واقعہ نے میڈیا کی مادر پدر آزادی‘ معاشرے میں بڑھتی ہوئی فحاشی وعریانیت میں اس کے کرداراورمتعلقہ محکموں کی نااہلی کو ایک بارپھرثابت کردیاہے۔ میڈیا کے ایک کارکن کی حیثیت سے مجھے اس بات کا یقین ہے کہ میڈیا خود اپنے آپ کو ریگولیٹ نہیں کرسکتا بلکہ اس کو ریگولیٹ کرنے کے لیے ایک آزاد اور خود مختار ادارے کی ضرورت ہے۔ اگرمیڈیا خود ذمہ دارنہیں تو اس کا کیا مطلب ہے کہ لوگوں کو میڈیا کے رحم وکرم پر چھوڑدیاجائے؟ کیا ریاست کی کوئی ذمہ داری نہیں؟رمضان سے چند روز قبل ایک ہندوستانی اداکارکی موت واقع ہوئی تو ہمارے میڈیا نے آسمان سرپراٹھالیا کہ نہ جانے کوئی کتنا بڑا شخص ہم سے جداہوگیا۔ راجیش کھنہ ہندوستان کا رہنے والا اس کا ہندومذہب سے تعلق اس کی ساری زندگی اور اس کی پہچان ناچ گانا رہی۔ گویا نہ کچھ اس نے مسلمانوں کے لیے کیا نہ پاکستان کے لیے مگر اس کے باوجود اس کے لیے ہمارے میڈیا نے گھنٹوں صرف کردیے۔ کہاں پیداہوا‘ کیا کیاکارنامے کیے‘ کتن بچے تھے‘ کتنی شادیاں کیں‘ کس کس فلم میں کام کیا‘ کون کون سے گانے گائے اور نہ جانے کیاکچھ۔ اس میڈیا سرکس میں کسی کو یہ تو توفیق نہ ہوئی کہ دیکھنے والوں کو یہ بھی بتادیتے کہ مرنے والے ’’ہیرو‘‘ نے ہمارے لیے کیاکیا۔ خیراس کی تومجھے توقع ہی نہیں کہ ایسے ’’ہیرو‘‘کے مرنے پرہمارامیڈیا کبھی اسلامی نقطہ نظربھی پیش کرے گا کہ اللہ کے دین کی نظرمیں ایسے ’’ہیروز‘‘ کی کیاحیثیت ہے‘ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا آخرت میں کیاوعدہ ہے اورکیا مسلمانوں کے لیے ایسے ’’ہیروز‘‘ کسی بھی لحاظ سے قابل تقلید ہوسکتے ہیں۔ مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اسلام کو بھلابیٹھیے۔ اگرایسا نہ ہوتا تو گھنٹوں راجیش کھنہ کو’’ہیرو‘‘ بناکر پیش کرنے والے برما میں مسلمانوں کے قتل وغارت پربھی کچھ نہ کچھ دکھادیتے ۔ بین الاقوامی میڈیا کو تومسلمانوں کے اس قتل وغارت پرخاموش رہنا ہی تھا مگر پاکستان کے میڈیا میں اس موضوع پرکیوں خاموشی طاری ہے۔ زرداری حکومت اور دفترخارجہ اس ظلم پرکیوں چپ سادھے بیٹھے ہیں ؟ شرم کی بات تو یہ ہے کہ ہم تو اس مسئلہ پرخاموش ہیں مگر ایمنسٹی انٹرنیشنل نے برمامیں مسلمانوں کے قتل عام پر اپنی آواز بلندکی ہے۔ ہم مسلمانوں کا توالمیہ یہ ہوچکاکہ ہم قومیتوں میں تقسیم ہوچکے جبکہ مسلم امہ کی سوچ کو مکمل طورپر ختم کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔اسلام دشمنوں کی سازش سے پہلے ہی مسلمانوں کو پاکستانی ‘ایرانی‘ افغانی‘ ترکی‘ کویتی‘ عراقی سعودی‘ اردنی وغیرہ میں تقسیم کیا جاچکا ہے ۔ اور اب تو حالات اتنے بدترہوچکے کہ ہم پاکستانی بھی نہیں رہے اور ہماری پہچان پنجابی‘ پختون‘ سندھی ‘مہاجر‘بلوچ‘ پٹھان‘ سرائیکی‘ ہزارہ بن چکی اور انہی بنیادوں پر ہماری دوستیاں اوردشمنیاں قائم ہیں۔ یہ حالات ہیں اسی تباہی کے جو ہم جیسے مسلمانوں کا مقدربن چکی ہے اور جس کی وجہ سے ہمیں ہرطرف سے ذلت ورسوائی سے جان چھڑانی ہے تو اس کا واحد حل اسلام ہے۔ صرف اسلام پاکستان کو اندرونی وبیرونی خطرات اور تقسیم درتقسیم سے بچاسکتاہے بلکہ اس دین محمدکی بناپر مسلم امہ کو دوبارہ متحدکیاجاسکتاہے اورمسلمانوں کا یہی اتحاد ان کو مشرکوں کے ہاتھوں قتل عام سے بچاسکتاہے۔ برما میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم وستم سے متعلقہ ایک ای میل میں مجھے کچھ تصویریں موصول ہوئیں جن کو دیکھ کر میرے رونگھٹے کھڑے ہوگئے اور میں یہ سوچتا رہاکہ کیاکوئی انسان کسی دوسرے انسان پر اس قدر ظلم کرسکتاہے۔ کوئی انسان اتنا سفّاک اور درندہ صفت ہوسکتاہے۔ راجیش کھنہ کی موت اور امریکا میں ایک فلمی شوکے موقع پر فائرنگ سے ہلاک ہونے والے چند امریکیوں پرآنسو بہانے ولے برمامیں اپنے دس ہزارسے بیس ہزارتک مسلمان بھائیوں ‘بہنوں اور بچوںکے قتل عام پرکیوں خاموش ہیں ؟؟۔