Search This Blog

Saturday 21 July 2012

قافلۂ سخت جا ں کی ہمتو ں کو ہے سلام Himmaton ko Salam

مصر کی نئی حکو مت
قافلۂ سخت جا ں کی ہمتو ں کو ہے سلام

جب بھی کوئی نظریا تی تحریک وجود میں آتی ہے تواس کو اپنے اغرا ض و مقاصد حاصل کرنے کیلئے بہت سے جا ں گسل مراحل سے گزرنا پڑتا ہے ۔ مصر کی اخوان المسلمین ایک ایسی ہی تحریک کا زریں عنوان ہے جس کا تذکرہ آج ہر زبان پر آرہا ہے۔کیوں کہ اس نے مصر میں حسنی مبا رک کی معز ولی کے بعد ملک کی جمہو ری قیادت وسیادت سنبھا لنا شروع کیا ہے ۔ کل تک یہ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھاکہ فراعنہ کی سر زمین مصر پر کبھی اخوان المسلمون کا نما ئندہ عوامی نمائند گی کا خلعت پا ئے گا۔ جس تنظیم پر ابتداء سے ہی غیر معمو لی مظا لم اور مصا ئب کے پہا ڑ تو ڑ دئے گئے ، جس کے کے با نی حسن البناکو سرراہ گو لی، جس کے مفکر اور منا د سید قطب شہید کو سولی اور جس کے اراکین ، دانشوروں، حامیوں اور مدد گا روں کو تختۂ مشق بنا نے میں کو ئی کسر نہ چھوڑی گئی اور جسے صفحۂ ہستی سے حرف ِغلط کی طرح مٹا نے کے لئے جبروتشدد اور جیل اور زنداں کے تما م اوچھے ہتھکنڈے کئی دہا ئیو ں تک مسلسل آ زما ئے گئے ، جس کو مد تِ دراز تک غیر قانو نی اور ممنوعہ تنظیم قرار دے کر اس کی سر گر میوں پر پا بندی عا ئد کی گئی ، وہ آ خر کا ر ھا لا ت کی معجزہ نما ئی سے عوام کی مر ضی اور قوم کا انتخا ب کا درجہ پا گئی، اس پر حیر ان ہو نا قابل فہم امر ہے ۔ تیو نس کے تانا شاہ کی حکومت کا ستارا غروب ہو نے کے بعدحسنی مبا رک کی باری آ ئی اور بہت جلد اس کا تختہ تحریر اسکوائر کے چوراہے پرملک گیر احتجاجی مظاہروں کے نہ تھمنے والے عوامی انقلا ب کے ہا تھو ں پلٹ گیا۔ ابتدائًً ملک کے فو جی آمرحسنی مبا رک نے وہ تما م فرعونی حر بے آ زما ئے جو ڈو بتے کو تنکے کا سہارا ثا بت ہو تے ہیں، اس کی ساری جا برا نہ کاوشیں اور ظا لما نہ کارروائیاںیکے بعد دیگر ے ناکام رہیں ۔ بالآ خر بحا لت مجبوری مبا رک کو اقتدار سے دستبردار ہو کر اپنی کٹھ پتلیو ں کو سامنے لا نا پڑا ۔ چلتے چلتے قرعہ فال ملک کے سپاہ سالا ر جنرل حسین طنطا نوی کے حق میں نکلا اور انہو ں نے عبو ری دور کے لئے حکو مت کا نظم و نسق سنبھا لا۔ ان کی زیر نگرا نی ملک کا آ ئین تر تیب دیا گیا اور مصری پا رلیما ن کے انتخا با ت منعقد کرا ئے گئے ۔ انتخا بات میں اوّل نمبر پر اخوان المسلمین آ ئی ۔ البتہ نگران فو جی حکمرا ن نے عدلیہ کے ذریعہ ان جمہو ری انتخا بات کے نتیجے میں بننے والی پا رلیمنٹ کو بیک جنبش قلم تحلیل کروایا مگر پھر بھی جو ن کے چنا ؤ میں اخوان کے ہی امیدوارڈا کٹر مرسی نے مبا رک دور کے وزیر اعظم شفیق کو لا کھو ں ووٹو ں کی بر تری سے شکست فاش دے کر کر سیٔ صدارت کو سنبھا لا۔ فی الحا ل ڈاکٹر مرسی کے طرز حکمرا نی کامعیا ر دیکھ کر مصری عوام میں یہ امید جا گ رہی  ہے کہ اس قوم نے مدتوںآ مر یت ،لو ٹ کھسوٹ اورملکی مفاد کھو ٹے سکو ں کے عو ض بیچ کھا نے کے جوتیر سہے شاید قدرت کو یہی منظور ہے کہ ان کا ازالہ اب اخوان کے ہاتھو ں ہو۔ مرسی کی حکومت اور انتظا میہ کو بہت سارے پیچیدہ چلنج ضرور در پیش ہیں البتہ آ ثار وقرائن سے لگتا ہے کہ انقلا ب مصر کے مقا صد اور لوگوں کی تو قعات کا ہر قد م پر خا ص خیال رکھا جا ئے گا۔ تا ریخ اس وقت ایک اور نظا رہ یو ں دیکھ رہی ہے کہ جو فرد واحد مسلسل۳۰ سا ل تک مصر پر جبر وتسلط کے ہتھیا رو ں سے حکومت کرکے لاکھوں لوگوں کو قتل کرنے اورجیلوں میں ٹھونس دینے والے جیسے شر منا ک جرائم کا ارتکا ب کر تا رہا، وہ آ ج ایران کے رضا شاہ پہلو ی کی طر ح تل تل کسمپر سی اور رُسواکن اسیر ی کی ٹھوکریںکھارہا ہے۔
 عرب دنیا میں خا ندانی بادشاہت کے دور دورے نے وہا ں کے لوگوں کو عیش پرست اور دنیا و ما فیہا سے غا فل بنا کے رکھ دیا ہے ۔ اس پر مستزاد یہ کہ مغربی تہذ یب کی کو رانہ تقلید اور ذہنی غلامی نے وہاں لو گو ں کو اپنے عقائد اور ثقافتی اقدار کا با غی بنا نے میںکوئی کسر باقی نہ چھوڑی ہے۔ اس رنج دہ صورت حا ل کے پس پردہ یہ حقیقت چھپی ہوئی ہے کہ وہاں کے نام نہاد لیڈر اور حکمران دونو ں اسلامی نظریا ت و تصورات سے کوسوں دورہیں۔ یہ اسی کا خمیازہ ہے کہ اسرائیل فلسطین میںاورامریکہ ، عراق ، افغانستان اور پاکستان میںلاکھوں مسلمانوں کو تہ تیغ کرنے میںکوئی شرم محسوس نہیں کرتا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ مغرب اور اس کے امام امر یکہ کی ان ننگِ انسانیت حرکات کا مردانہ وار تو ڑ کر نے کی بجا ئے عرب ورلڈ میں سیاہ وسپید کی ما لک قوتیں غیرو ں کے اشاروں پر چن چن کر عربو ں کا بھلا چاہنے والو ں کو جرم بے گناہی کی سزا دینے اور ان کا گلا گھو نٹھنے میں شیر بنتے چلے آ رہے ہیں ۔ اخوان المسلمین کی تا ریخ اس کی ایک زندہ مثال ہے ۔ اقبال نے بجا طورفرما یا    ؎
 تھا جو نا خو ب وہی ہوا خوب ہوا
 کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قومو ں کا ضمیر
شاید یہی نا گفتہ بہ حالات تھے جنہوںنے مصر کے ۲۲ سالہ ہو ش مند ، با غیر ت اور ملی جو ش و جذ بے اور حق وبا طل کی شنا خت رکھنے والے نوجوان اُستاد ومعلم حسن البنا کو اخوان المسلمین جیسی ایثا ر پیشہ تحریک کو جنم  دینے اور اسے بے پناہ مشکلا ت کے با وجودپروان چڑ ھا نے کے لئے اُٹھ کھڑا کیا۔ اس تنظیم نے مسلسل  ہر تیر کھا یا ، ہر زخم کو برداشت کیا ، ہر آ زما ئش کا مجا ہدانہ مقا بلہ کیا مگر اپنے مو قف اور نظریۂ حیا ت سے ایک انچ بھی نہ ہٹی۔ یہ اسی کا صلہ ہے کہ آ ج کا میا بی اس کے قدم چوم رہی ہے۔ تا ہم اب تا ریخ کی نگاہیں بے تا بی کے ساتھ اس بات کا نظا رہ کریں گی کہ حکو مت و سلطنت کی گدی سنبھا لتے ہو ئے اخوان اندرو نی خلفشار اور بیرو نی سازشو ں کا کس نظم و ضبط سے تو ڑ کر ے گی ، خصو صی طور امر یکہ اور اسرا ئیل کے زہر یلے سانپو ں کا سر کچلنا  اس کے لئے کا ر دار د والا معا ملہ ہی نہیں بلکہ ٹیڑ ھی کھیر ثابت ہو گا ۔ توقع یہی ہے کہ تو کل علی اللہ اور تدبر و بصیر ت کے اسلحہ سے لیس ہو کر یہ ان اعصا ب شکن مرا حل کی کا میا بی کے ساتھ آ بلہ پا ئی کرے گی۔ 
مصر میں اخوان المسلمو ن کی سیا سی و نظر یا تی کامیابی پراگرچہ بہت سارے مسلم ممالک میں اسلا م کی حا می قوتو ں نے جشن منایا ،یہاں تک کہ جماعت اسلامی پاکستان مٹھایاں بانٹنے سے بھی پیچھے نہیں رہی لیکن مسلم بلا ک کایہ نا قابل التواء فرض بنتا ہے کہ ان مخلص بندگانِ خداکوحو صلو ں اور ہمت افزائیو ں کی سوغا ت کے ساتھ ساتھ دعا ؤ ں کے نذرا نے پیش کریں۔ نیز دنیا ئے انسانیت کو یہ تلخ و تند حقیقت فرا مو ش نہیں کر نی چا ہیے کہ نظر یا تی تحر یکیں ایمان و ایقان ، قر با نیو ں ، استقامت، توکل اور واضح حکمت عملی کے بل بوتے پر کا میا بی کی جا نب قد م بڑ ھا تی ہیں ۔ انہیں اپنوں کی لا پروائی اور بیگانوں کی تما شہ گیر ی کے گہرے گھاؤ سہہ سہہ کر اپنا سفر مقرر کردہ منز ل کی طرف تن تنہا بھی جا ری رکھنا پڑ تا ہے۔ کیاتا ریخ آ ج بھی اس دل شکن منظر کو یا د کر کے اشکبا ر نہ ہوتی ہو گی کہ جب اخوان کے پہلے مرشد عام حسن البنا کو۱۲ فروری ۱۹۴۹ء کو شاہ فاروق کے حکم پررات کی تاریکی میں شہید کیا گیا اور جا برانہ حکو متی احکا ما ت کے تحت ان کے اہل خا نہ کے یہا ں سو گ اور ما تم منا نے کے لئے کسی کو بھی وہاں جانے کی اجازت تک نہ دی گئی، یہاں تک کہ شہید حسن البنا کی تجہیز وتکفین اور جنازے کے فرائض و آ خر ی رسومات ان کے۹۰سالہ معمروالد اور گھر کی عورتوں نے انجام دیا۔بے بسی کے اس عالم میںآپ کی بیٹی نے دل دہلانے والے یہ الفاظ کہے: "بابا جان آپ کے جنازے کے ساتھ لوگوں کا ہجوم نہیں ہے، زمین والوں کو روک لیا گیا مگر آسمان والوں کو کون روک سکتا ہے ؟ آپ کے جنازے کے ساتھ روحوں کا قافلہ رہا۔ آپ نے جو پیغام ہمیں دیاہے وہ زندہ رہے گا۔ جوجھنڈا ہمیں تھما دیاہے وہ سر بلند رہے گا ۔ یہ معاملہ ان کے ساتھ ہی نہ ہوا بلکہ اخوان سے وابستہ مفسر القران سید قطب شہید، شیخ عبدالقادرعودہ،شیخ محمدمرغلی،یوسف طلعت،ابراہیم الطیف سمیت ہزاروں او لو العزم و جا ں نثارو ںکو اسی فضا میں حیا ت جاودا نی کی خلعت پہنا ئی گئی ۔ اور تو اور اخوان المسلما ت کی سر براہ زینب الغزالی کو کس کس انداز سے سخت ترین عتاب و عذاب سے گزرا گیا، اس کی جھلکیا ں دیکھنے کے لئے ان کی معر کتہ الاراء کتا ب ’ زندان کے شب وروز‘ کے صفحا ت خو ن کے آ نسو رلا دینے والی داستا ن سنا تی ہے ۔ اخوان کے مرشدعام مہدی کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے۷۴سال کی عمر میں شادی کی کیوںکہ نوجوانی کابیشتر حصہ وہ اسیر زندا ں رہے۔ اسی طرح چیدہ چیدہ اخوانی پروفیسر و ں، ڈاکٹروں، انجینئروں اور دوسرے سر بر آ وردہ کا ر کنا ن اخوان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان میں سے کسی نے دس توکسی نے چھ سال جیل میں کاٹی اور ہر طر ح کی صعو بتو ں کا خندہ پیشا نی کے ساتھ استقبا ل کیا۔ حتیٰ کہ اخوان پر ایسے نا گفتہ بہ حالات طاری کئے گئے کہ بسا اقا ت پچھلی امتو ں کی سر گزشتو ں کا اعادہ کر تے ہوئے انہیں ایک با سی روٹی کے لیے ترسا یا اور تڑ پا یا جا تا تھا، دعوتی سرگرمیاں جا ری رکھنا تو دور انہیں اُ ف تک کہنے کی اجا زت نہ تھی۔
مصر صدر جمال عبدلناصراور حسنی مبارک جیسے نا ہنجا ر ظا لم حکمرا نو ںکاظلم وجبرآج تا ریخ کا گرد آ لو دہ حصہ بن چکا ہے اور اخوان ایک شمع فروزاں بن کر مصر کے سیا سی ، سما جی، نظ ر یا تی اور مملکتی افق پر نمو دا ر ہو رہی ہے۔ اصل با ت یہ ہے کہ حق کو جبروتشدد سے وقتی طور دبا یا جا سکتا ہے مگر آ خڑ کار فتح اسی کی تقدیر میں لکھی ہو تی ہے ۔ البتہ کا میا بی کی منزل تک پہنچے کے لئے حق پرستوں کو مصا ئب کے پہا ڑ ، مخالفتوں کے طو فا ن اور مشکلا ت کے سمند پاٹنے پڑتے ہیں ۔ یہ دنیا کا دستور ہے یا سنت الٰہیہ کی تکرا ر کہ حق کو ثبا ت صرف اسی صورت میں ملتا ہے جب اس کانٹوں بھری راہ پر چلنے والاخود حق کی قطعی قوت اور بر تر ی پر ایما ن ہی نہ رکھے بلکہ اس را ہ پر ذوق و شو ق سے چلنے کی ہمت سے آ راستہ ہو۔ بہر صورت امر یکہ کی مسلم دشمنی اور شکنجۂ یہود کو مد نظر رکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ مصر میں اخوان المسلمون کا حکومت چلانا کانٹوں پر ننگے پیر چلنے اور لو ہے کے چنے چبا نے کے برابر ہے ۔وہا ں کی فوج اب بھی اپنی چودھراہٹ اغیار کے اشارو ں پر قائم ودائم رکھنے میں کو شاں ہے ۔ جس طرح الجزائر میںسالو یشن فرنٹ کی انتخا بی کا میا بیا ں ، فلسطین میں خمس کی انتخا بی فتح اور افغا نستا ن میں طا لبا ن کاظہور اسرآئیل کو راس آ یا اور نہ ہی امریکہ اس پرخوش ہوا ، اسی طر ح ہیلر ی کلنٹن کی زبا نی یقین دہا نی کے با وجود کہ صدرمرسی حکومت کوسیا سی وسفا رتی تعا ون واشتراک دیا جائے گا، سیاسی بھو ل بھلیو ں کے سوا کچھ نہیں۔ امر یکہ مصر میں در پردہ حکومت کو نا کام بنا نے کے لئے اپنی ریشہ دوانیا ں جا ری وساری رکھنے سے با ز نہ آ ئے گا۔اسے مصر ی عوام کی آ رزؤ ں،ان کے حقوق البشر،وہا ں کی جمہو ریت اور معیشت یا امن عالم کی کو ئی چٹی نہیں پڑ ی ہے بلکہ تل ابیب کا مفاد ہی اس کے دل ودماغ پر چھا یا ہوا ہے۔ لہٰذا ٰعین ممکن ہے کہ اخوان کی کا میا بی سے خا ر کھا ئے بیٹھے واشنگٹن دیر سویر قاہرہ میں بھی عراق ،افغانستا ن او رفلسطین جیسی صورت حال پیدا کر نے کا خو ں آ شام ڈرامہ رچائے۔ اس سے مصری عوام کو چو کنا رہنا ہو گا۔بہر صورت اللہ سپر یم قوت ہے ، وہ حق دشمن چالو ں کا تو ڑ کر نے کا اپنے اسلو ب میں کا م کرتا ہے ۔
 اگر چہ ڈاکٹر مرسی نے اولین فرصت میں دنیا بھرکے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھنے کا یقین دلایا لیکن اس سے انکار نہیں کہ اسرائیل کے ساتھ کبھی بھی اخوان دور اقتدار میں خوشگوار تعلقات رہنے کا امکان نہیں ۔ اس کا عملیــ ثبوت یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر مرسی نے اسرائیلی وزیر اعظم کا فون اُٹھانے سے انکارکیا۔
یہاں پر نو منتخبہ مصری صدرڈاکٹر محمدمرسی کا تعا رف کرا نا بہتر رہے گا ۔ آپ ۲۰؍ اگست۱۹۵۱ء کوشمالی مصر میںپیدا ہوئے۔قاہرہ یونیورسٹی سے انجینئرنگ میں اعلیٰ تعلیم اور کیلفورنیا اسٹیٹ یوینورسٹی سے ۱۹۸۲ء میں ڈاکریٹ حاصل کی ۔۱۹۹۱ء میںباقاعدہ اخوان المسلمون کی رکنیت حاصل کی۔ ۲۰۰۰ء سے ۲۰۰۵تک اخوان کی طرف سے رکن پارلیمان رہے اور فریڈم اینڈ جسٹس پاٹی کے صدر مقرر ہوئے۔کئی دفعہ جیل میں بھی رہے۔ اہل خاندان کی ایسی تربیت کی کہ بیٹے کے شائستہ الفاظ اور بیوی کے حلیمانہ رویہ نے پورے امت مسلمہ میں اسلامی جذبے کو اور فروغ دیا ۔ ان کے فر زند دلبند کا یہ کہنا : بابا !یقیناً ہم صرف اللہ کی اطاعت میں آپ کی اطاعت کریں گے ۔اللہ کی نافرمانی ہوئی تو آپ کی نہیں اپنے رب کی اطاعت کریںگے‘‘۔ اہلیہ محترمہ نے علی الاعلا ن کہا ’’مجھے خاتون اوّل نہ کہا جائے ۔میں مصری عوام کی خادمہ ہوں ۔ہم سب ملک کے برابرکے حقوق وفرائض رکھنے والے شہری ہیں ‘‘۔ خود آپ نے صدارتی محل میں رہائش پذیر ہو نے سے انکار کیا، نماز کی امامت خود کرتے ہیں۔ اگر چہ عا لم انسانیت حقیقت میں نظام حق و عدل کی متلاشی ہے لیکن عالمی سطح پر بڑ ے بڑ ے جبار و قہا ربنے پھر نے والے اس کو کہیں بھی پنپنے نہیں د یتے۔ اس حوالے سے اخوان المسلمون کی کامیابی پر عرب میڈیا کی خاموشی اس بات کی عکاس ہے کہ مسلم ممالک میں میڈیاکو امریکہ اور اسرائیل نے اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔ ہمارے سامنے میڈ یا کی بھینگی آ نکھ کا یہ ’ کمال‘ بھی آ چکا ہے کہ برما میں مسلما نو ں کا قتل عام کر کے اہنسا وادی لو گ نسلی تطہیر کا پروگرام شد ومد سے چلا رہے ہیںاور اب تک ایک سر سری تخمینے کے مطا بق اب تک بیس ہزار سے زیا دہ مسلما نو ں کو مو ت کے گھا ٹ اتا ر نے کے علا وہ لا کھو ں لو گو ں کو ملک بد ر کر کے ان کی زمین وجائداد پر قبضۂ نا جا ئز جما یا گیا ہے مگر کسی میڈ یا کے ما تھے پر بل پڑ ے ہیں اور نہ کسی آ نگ سانگ سوچی کو مسلما نو ں کی حا لتِ زار پر افسو س کر نے یا اُف تک کہنے کی تو فیق مل رہی ہے۔ ان حالا ت میں اخوان المسلمون کی حالیہ کا میا بی کو ایک مستقل حقیقت بننے میں ابھی نہ جا نے کتنے اور زہر کے پیا لے اس تنظیم وتحریک کے قائدین سے لے کر کا رکنو ں تک کو پینے پڑ یں گے۔امید ہے کہ یہ تحریک اپنے نظر یا تی اہداف اور مقا صد کی تکمیل اپنے روایتی جوش و جذ بے سے جا ری و ساری رکھے گی اور اقبال کے اس فر مو دہ پر عمل پیرا رہے گی  ع
 بہا ر ہو کہ خزاں لا الٰہ الا اللہ

No comments:

Post a Comment