یاسرعرفات کا قتل کس نے کیا؟
غزالہ عزیز
- ’’یاسرعرفات کی موت زہرسے واقع ہوئی‘‘ یہ دعویٰ الجزیرہ ٹی وی کی ایک دستاویزی فلم میں سامنے آیا جس میں سوئٹزرلینڈ کے سائنس دانوں نے بتایاکہ 2004ء میں یاسرعرفات کی موت کے بعد ان کے زیراستعمال جو چیزیں تھیں ان میں ایک خاص قسم کے تابکارمادہ پلوٹینیم 201کے ذرات پائے گئے۔ اکتوبر2004ء میں جب وہ غرب اردن میں اپنی رہائش گاہ میں محصورتھے۔شدید بیمارہوگئے۔ اس کے علاج کے لیے انہیں فرانس لے جایاگیا۔ جہاں پچھترسال کی عمرمیں وہ انتقال کرگئے۔ فرانسیسی ڈاکٹروں نے عرفات کی طبی حالت کے بارے میں کسی قسم کی معلومات نہیں دی تھیں کیونکہ وہ فرانسیسی ڈاکٹرنجی معلومات کو خفیہ رکھنے کے قانون کے پابندتھے۔ (پتا نہیں مہذب ملکوں کا یہ کیسا قانون ہے جو قاتلوں اور ان کے سرپرستوں کو تحفظ دیتاہے)۔ یاسرعرفات کے بارے میں اس سے پہلے بھی 2009ء میں یہ انکشاف کیاجاچکاہے۔ جو کسی اخباریا ٹی وی کے ذریعے نہیں بلکہ الفتح کے سیاسی شعبے کے سربراہ اورجنرل سیکرٹری فاروق قدوی کی پریس کانفرنس کے ذریعے سامنے آیاتھا فاروق قدومی نے پریس کانفرنس میں دستاویزی ثبوت بھی پیش کیے تھے ان کے بقول یاسرعرفات نے بھی انتقال سے پہلے ایسے ہی خدشات کا اظہارکیاتھا۔ بعدمیں قطرکے اخبار’’الشرق‘‘ نے محمددھلان کے اس خط کا انکشاف کیا جو انہوں نے اسرائیلی وزیردفاع کو 13 جولائی 2003ء میں لکھاتھا۔ جس میں یاسرعرفات کے قتل کی سازش کا پورااحوال ہے۔ یادرہے کہ فاروق قدومی نے اپنے انکشاف میں بتایا تھا کہ یاسرعرفات کو زہردے کر مارنے والے کوئی اورنہیں بلکہ ان کے اپنے یعنی ’’الفتح‘‘ کے اہم راہنما محمودعباس اور محمددہلان ہیں جو اسرائیل کے ہاتھوں میں مکمل طورپرکھیل رہے ہیں۔ محمددہلان اپنے خط میں اسرائیلی وزیردفاع کو مخاطب کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’ہمارا یقین ہے کہ ہماری عوام کا مفاد اس مافیاگروہ کے خاتمے میں ہے جو انتشار اور خلفشارپھیلارہاہے جو اپنے ذاتی مفادات کے خاطر عوام کے درمیان نفرتیں تنازعے اور بغض اورکینہ کی فضاء قائم کررہاہے۔ (یعنی ہروہ شخص جو مزاحمت کو جاری رکھنا چاہتاہو) ہم شرپسندوں کو اپنے درمیان نہیں رہنے دیں گے ہم ان کا اس طرح صفایاکریں گے کہ اس سرزمین پرکوئی شخص نہیں بچے گا جو آپ (یعنی اسرائیل) کے ساتھ رہنا قبول نہ کرتاہو۔ یاسرعرفات آج کل اپنی زندگی کے آخری دن گزاررہاہے اب یہ بات ہم پرچھوڑدیں کہ ہم اسے کس طرح ختم کرتے ہیں۔ میں ذاتی طورپر آپ کویقین دلاتاہوں کہ میں نے صدربش کے ساتھ جو وعدے کیے ہیں ان کو ایفاکرنے کے لیے میری جان بھی حاضرہے‘‘۔ یہ ہیں اوسلو معاہدے کی کوکھ سے جنم لینے والی فلسطینی ریاست کے سیاسی کردارجنہوں نے اپنے قائدکو ختم کرنے کی ذمہ داری لی۔ اس خط کے متن کو غورسے پڑھیے تو پاکستانی سیاست میں بھی بہت سے ایسے ہی کرداروں کے رویے سمجھ میں آجاتے ہیں۔ قائداعظم کے انتقال سے لے کر ڈاکٹرعمران فاروق کے قتل تک…یہ گھنائونے کردارجن کی ڈوریاں ہلانے والے انہیں استعمال کے بعد ٹیشوپیپرکی طرح کچرے میں ڈال دیتے ہیں۔ ان کے اہداف کوئی ڈھکے چھپے نہیں لیکن پھربھی استعمال ہونے والے خوب استعمال ہورہے ہیں۔ یاسرعرفات نے تیس سال تک سیکولر قوتوں کی سرپرستی میں گوریلا کارروائیوں کے ذریعے فلسطین کو آزادکرانے کی کوششیں کی لیکن ناکامی کا منہ دیکھا۔ سوویت یونین شکست وریخت کا شکارتھا لہذا اب یاسرعرفات نے مسئلہ فلسطین کو پرامن طریقہ سے حل کرنے کی طرف رجوع کیا۔ 1985ء میں انہوں نے قاہرہ میں اعلان کیا کہ وہ فلسطین کے مقبوضہ علاقوں کے علاوہ کسی علاقے میں پرتشدد کارروائیاں نہیں کریں گے۔ 1986ء میں اردن کی حکومت نے ان کے دفاتربندکردیے۔ یاسرعرفات نے 1988ء میں واشنگٹن میں امریکی یہودیوں کے ساتھ ایک مشترکہ بیان میں اسرائیل کے وجودکو ماننے کا اعلان کیا۔ چنانچہ نوئے کی دہائی میں یاسرعرفات کو کئی امن کے انعامات سے نوازاگیا۔ اسرائیلی وزیراعظم رابن اوروزیرخارجہ شمعون پیرزکے ساتھ مشترکہ طورپرامن کانوبل انعام بھی دیاگیا۔ بالآخر13 ستمبر1993ء میں الفتح کے سیکرٹری جنرل محمودعباس اوراسرائیل کی جانب سے شمعون پیرزنے واشنگٹن میں ’’عبوری حکومت کے قیام کے اعلان ضوابط‘‘ پر اس عجلت میں دستخط کیے کہ اس کے لیے فلسطینیوں کے سرکاری وفدکو باقاعدہ مطلع کرنے کی زحمت بھی گوارانہیں کی۔ اس معاہدے کو اوسلو معاہدے کانام دیاگیا۔ اس معاہدے نے حقیقت میں کسی بڑے مسئلے کی گرہ نہیں کھولی اورنہ فلسطینیوں کو فائدہ پہنچایا۔ اس میں اسرائیل کے حق بقا پر بڑا زوردیاگیاجبکہ فلسطینیوں کے بارے میں مبہم اندازاختیارکیاگیا۔ جس کی من مانی تشریح کرکے اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف کئی عملی کارروائیاں کیں جن میں معاشی پابندیاں اورآزادانہ نقل وحرکت میں رکاوٹیں ڈالناشامل ہیں۔ وزیراعظم ایریل شیرون کے حکومت میں آنے کے بعد اسرائیلی فوج نے دسمبر2000ء میں انہیں راملہ میں قائم ان کے خستہ حال دفترمیں محصورکرکے رکھ دیاتھا ایریل شیرون نے یاسر عرفات کی موت سے ایک ماہ قبل اسرائیلی اخبارکو انٹرویودیتے ہوئے کہاتھا کہ یاسرعرفات کو فلسطینی علاقے سے کسی مناسب وقت پرملک بدر کردیا جائے گا اوروہ یاسرعرفات اورحماس ان لیڈروں میں کوئی فرق محسوس نہیں کرتے جن کو اسرائیل قتل کراچکاہے۔ چند دنوں کے اندر واقعی یہ فرق ختم کردیاگیا۔ فلسطین کے موجودہ وزیراعظم اسماعیل ہنیہ نے یاسرعرفات کے قتل کے بارے میں تحقیقات کے لیے مغربی کنارے کی فلسطینی اتھارٹی پرزوردیاہے اس وقت راملہ اتھارٹی سیکورٹی فورسزسیاسی جماعتوں کے کارکنان کے خلاف کریک ڈائون میں مصروف ہے۔ اسماعیل ہنیہ نے اپنے شہریوں کے خلاف طاقت کے استعمال کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیاہے کہ یاسرعرفات کے قاتلوں کا سراغ لگایاجائے۔ انہیں زہردے کر مارنے والوں میں سے کسی ایک کوبھی ابھی تک گرفتارنہیں کیاگیا۔ اکتوبر2011ء میں اسرائیل کے کثیرالاشاعت اخبار ’’ہارٹز‘‘ نے انکشاف کیاتھا کہ اسرائیلی فوج نے مغربی کنارے میں صدرمحمودعباس کی انتظامیہ اور ان کے زیراہتمام قائم سیکورٹی فورسزکو مظاہرین کو منتشرکرنے کے لیے اسلحہ اور آلات فراہم کیے ہیں۔ یہ فراہمی ان کی درخواست پرکی گئی ہے۔ یقیناً اسرائیل اور اس جیسی دیگرانسانیت سوزمظالم کرنے والی ریاستوں کی خون آشامی میں امریکی سرپرستی کے ساتھ ساتھ ان غداروں کا ہاتھ بھی شامل ہے جو سامراج کے ساتھ مل کر اپنی قوم کا خون بہانے میں کسی قسم کی شرم محسوس نہیں کرتے۔ ’’ کسی شخص کا دنیوی عروج، خوشحالی اور ناموری کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس پر رشک کیا جائے۔ رشک کے قابل صرف دو آدمی ہیں‘ ایک وہ جسے قرآن کا علم حاصل ہو اور وہ اسے شب و روز نماز میں پڑھنے کے لئے کھڑا ہو یا اس کام میں لگا ہو کہ خلقِ خدا کو اس کی تعلیم دے اور اس کی تبلیغ و تلقین کرے۔ دوسرا وہ شخص قابلِ رشک ہے جسے مال و دولت حاصل ہو اور وہ اسے عیاشیوں اور دوسرے غلط کاموں میں خرچ کرنے کے بجائے شب و روز اللہ کی راہ میں خرچ کررہا ہو۔یہ وہ تعلیم ہے جس کے ذریعے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے ذہنوں کو بدلا ہے اور انہیں نئی قدریں عطا فرمائی ہیں۔ انہیں یہ بتایا ہے کہ قدر کے قابل اصل میں کیا چیز ہے اور انسانیت کا وہ اعلیٰ نمونہ کیا ہے جس کے مطابق انہیں خود کو ڈھالنے اور بنانے کی تمنا اور کوشش کرنی چاہیے۔‘‘(سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ)
|
No comments:
Post a Comment