Search This Blog

Wednesday 25 July 2012

مذہبیت، ادبیت اور ندا فاضلیت

مذہبیت، ادبیت اور ندا فاضلیت

مصنف : اشعر نجمی                                              سہ ماہی اثبات، شمارہ ۹


اردو برصغیر کے سب مسلمانوں کی زبان تھی نہ ہے۔ بنگالی مسلمان بنگالی بولتا ہے۔ گجراتی، گجراتی زبان بولتا ہے۔ مدراس کا مسلمان تمل کو ہی شیرینی اور لطافت سے بھرا ہوا مانتا ہے۔ پاکستان میں بنگلہ دیش کا وجود اسی لسانی اختلاف کا ثبوت ہے۔ اردو بھلے ہی دو قومی نظریہ میں شامل کردی گئی ہو لیکن اس حقیقت سے شاید انکار ممکن نہیں کہ ہندوستان میں اردو کا بھی وہی علاقہ ہے جو ہندی سے ہم رشتہ ہے۔ اس کے آگے پیچھے بہت سی اور زبانیں بھی ہیں جن میں ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی سب کی حصہ داری ہے۔ اردو کو کسی ایک مذہب کی میراث سمجھنا پھر سے اس لسانی تعصب کو ہوا دینے کے مترادف ہے جو وقت کے ساتھ بتدریج کم ہوتا جارہا ہے۔
(ندا فاضلی،ماہنامہ "تحریر نو" ، ممبئی، شمارہ: 16، صفحہ 62)
ادب دراصل ادب کے پڑھنے یا لکھنے والے کو مذہب سے نہیں مذہبیت سے دور کرتا ہے۔ کیوں کہ ادب انسانی برادری کو فرقوں کے تفرقوں میں نہیں بانٹتا۔۔۔
۔۔۔انسانی دردمندی ہی ہر مذہب کی روح ہے۔ یہی مذہب جب رسمیات کے پنجرے میں قید ہوجاتا ہے تو وہ مذہب سے مذہبیت میں منتقل ہوجاتا ہے۔ میر کے ہم عصر شاعر قائم چاند پوری نے اپنے ایک شعر میں مذہب اور مذہبیت کے فرق کو یوں ظاہر کیا ہے:
ٹوٹا جو کعبہ کون سی یہ جائے غم ہے شیخ
کچھ قصر دل نہیں کہ بنایا نہ جائے گا
ندافاضلی پڑھے لکھے شاعر ہیں ، لہٰذا ان کے غور و فکر کا دائرہ وسیع ہے لیکن اس کے باوجود وہ بہرحال ایک شاعر ہی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی نثر میں بھی ان کی شاعرانہ شخصیت منعکس ہوتی نظر آتی ہے جس کا خالص تنقیدی یا تجزیاتی اسالیب سے بظاہر کوئی رشتہ بھی نظر نہیں آتا۔ لیکن ایسی تخلیقی نثر کی سب سے بڑی خرابی یہ ہوتی ہے کہ وہ سنجیدہ مکالمہ قائم کرنے میں ہمارا ساتھ زیادہ دور تک نہیں دے پاتی بلکہ یہ خود کو نظری اور تعبیری محاکمے میں بھی تاثراتی فضا بندی تک محدود رکھتی ہے۔اگرچہ ندافاضلی اختلاف رائے کے جمہوری حق پر پابندی لگانے کے خلاف ہیں لیکن وہ دوسری جانب مدیروںکو "ناقدین کے اختلاف کے اکھاڑے " سے دور رہنے کی تلقین بھی کرتے ہیں۔ لیکن تنقیدی کشتی اور مراسلے کی ہاتھا پائی کے درمیان وہی فرق ہے جو باکسنگ اور محلے کی عورتوں کی "تُو تُو میں میں" کے بیچ ہے۔ اب چونکہ خاکسار زور قلم سے کم اور زور بازو سے زیادہ لکھتا رہا ہے ، لہٰذا زیر جامہ ہمیشہ لنگوٹ کسے رہنا عادت سی بن گئی ہے، کیا پتہ کب اکھاڑے سے بلاوا آجائے۔ یوں بھی اپنی حریص طبیعت "دھوبی پچھاڑ" سے کم پر سیر نہیں ہوتی۔ اپنے محبوب ترین شاعر ندا فاضلی پر یہ تحریر رقم کرتے ہوئے مجھے قطعی کوئی افسوس نہیں کیوں کہ بقول وارث علوی، تنقید اسی پر وار کرتی ہے جسے وہ پسند کرتی ہے اور جنھیں وہ پسند نہیں کرتی، انھیں اپنے منھ نہیں لگاتی۔
معاصر ماہنامہ "تحریر نو" (پنویل، ممبئی )کے شمارہ نمبر 15 کے اداریے میں مدیر (ظہیر انصاری) نے اردو کا رشتہ مذہب سے جوڑتے ہوئے اسے دوسری قوموں کے مقابلے مسلمانوں سے زیادہ قریب بتایا تھا کیوں کہ بقول مدیر، اس زبان سے مسلمانوں کی" عقیدت کی حد تک چاہت کی وجہ اس کا رسم الخط ہے جو عربی کے مماثل ہے" اور یہ کہ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ان کا مذہبی اثاثہ اسی زبان میں سب سے زیادہ دستیاب ہے ۔ ظہیر انصاری نے اپنے اسی اداریے میں ایک اورسوال اٹھایا تھا کہ ہمارے بیشتر ادیب مذہب بیزار پائے جاتے ہیں تو "کہیں ادب اور مذہب میں تضاد تو نہیں بالخصوص برصغیر کے مسلمانوں میں؟"۔ اگرچہ مکمل اداریے سے میں بھی متفق نہیں (جس کا اظہار میں براہ راست مدیر سے کرچکا ہوں) لیکن محولہ بالا دونوں سوال خود میرے لیے غور وفکر کے محرک رہ چکے ہیں بلکہ ثانی الذکر مسئلے پر تومیں سہ ماہی "اثبات" کا ایک اداریہ بھی رقم کرچکا ہوں۔
ظاہر ہے کہ ظہیر انصاری کے اس دو ٹوک اور راست بیانی پر مختلف ردعمل ہونے تھے، سو ہوئے۔ سب سے دلچسپ مکتوب ندافاضلی کا تھا جو صرف اپنے مکتوب نگار کی ہی فکری نمائندگی نہیں کرتا بلکہ دانشوروں کے اس طبقے کی بھی نیابت کرتا ہے جس کی جانب فاضل مدیر نے اشارہ کیا تھا۔ لہٰذا اس مضمون کا محرک بلاشبہ ندافاضلی ہی کا وہ مختصر مکتوب ہے لیکن میراروئے سخن صرف ان کی طرف نہیں بلکہ ان تمام دانشوروں اور ادیبوں کی جانب بھی ہے جو مذہب کی خودساختہ ادبی تعبیر پر ہمیشہ مصر رہتے ہیں۔
لیکن اس سے قبل میں اردو اور برصغیر کے مسلمانوں کے رشتے پر بھی کچھ خامہ فرسائی کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔ ندافاضلی کا یہ کہنا کہ اردو برصغیر کے تمام مسلمانوں کی زبان تھی نہ ہے، درست ہے۔ لیکن ان کا یہ اصرارکہ ہندوستان میں اردو کا بھی وہی علاقہ ہے جو ہندی سے ہم رشتہ ہے ، مجھے اسے تسلیم کرنے میں تامل ہے کیوں کہ اعداد و شمار کچھ اور کہتے ہیں۔ گذشتہ دنوں حیدرآباد کے رہنے والے اور پیشے کے اعتبار سے Architect عمر خالدی کا، جو مشہور زمانہ ادارے میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی (M.I.T)میں پروفیسر تھے، انتقال ہوگیا۔ انھوں نے تن تنہا ہندوستان میں اردو کی حالت کا جائزہ لیا تھا ۔ یہ کام ایسا تھا کہ پورے پورے ادارے بھی انجام نہیں دے سکے ہیں۔ عمر خالدی کی رپورٹ کو سامنے رکھا جائے تو درج ذیل نقشے سے علم ہوگا کہ ان پانچ ریاستوںمیں اردو پڑھنے والوں کی تعداد کیا ہے جہاں مسلم آبادی سب سے زیادہ ہے۔
ریاست = اردو بولنے والے = ابتدائی اور ثانوی اسکولوں میں بچوں کی تعداد
مہاراشٹر = انہتر لاکھ = نو لاکھ تریپن ہزار اٹھائیس
بہار = پچانوے لاکھ = آٹھ لاکھ چوہتر ہزار پانچ سو انتیس
کرناٹک = پچپن لاکھ = چار لاکھ تہتر ہزار تین سو چوراسی
آندھرا پردیش = چھیاسٹھ لاکھ = تین لاکھ گیارہ ہزار سترہ
اترپردیش = ایک کروڑ تینتیس لاکھ = ایک لاکھ اٹھائیس ہزار بانوے
ان اعداد سے صاف ظاہر ہے کہ اردو خواندگی کا حال مہاراشٹر میں سب سے بہتر ہے جب کہ اترپردیش کا حال سب سے بدتر ہے۔ ندافاضلی کے دعوے کے اعتبار سے اترپردیش کو اول اور بہار کو دوم ہونا چاہیے تھا جب کہ مہاراشٹر اردو خواندگی کے معاملے میں اول ہے ، حالاں کہ اردو بولنے والوں کی تعداد کے اعتبار سے یہ تیسرے نمبر پر ہے۔ پھر کرناٹک اور آندھرا پردیش بھی اردو خواندگی کے معاملے میں اترپردیش سے اوپر ہیں جو بقول ندافاضلی اردو کے علاقوں میں شمار نہیں ہوتے کیوں کہ یہ ہندی سے ہم رشتہ نہیں ہیں۔
بالفرض محال یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ اردو تمام ہندوستانی مسلمانوں کی زبان نہیں ہے تو سوال اٹھتا ہے کہ کیا ان علاقوں میں غیر مسلم اردو سے ویسی ہی عقیدت رکھتے ہیں جس کی جانب مدیر نے اپنے اداریے میں کیا ہے؟ 'عقیدت' بہت بڑا لفظ ہے، میں اسے 'دلچسپی' جیسے بے ضرر لفظ سے بدل دیتا ہوں لیکن تب بھی مایوسی ہی ہاتھ لگتی ہے۔ مجھے اردو کی عظیم گنگا جمنی روایت یاد دلانے کی ضرورت نہیں کیوں کہ میں موجودہ صورت حال کی بات کررہا ہوں اور اس کا نظارہ ان علاقوں میں بخوبی کیا جاسکتا ہے جن کی نشاندہی اوپر کردی گئی ہے۔ مثلاً آپ کسی صبح ان علاقوں کے کسی اخبار کے اسٹال پر خاموشی سے کھڑے ہوکر یہ دیکھیں کہ کتنے غیر مسلم حضرات اردو اخبارخریدتے ہیںتو یقینا اس کے نتیجے سے ندافاضلی کو بھی مایوسی ہوگی اور شاید یہی سبب ہے کہ اردو اخباروں نے بھی اپنی توجہ صرف اپنے Target Readers یعنی مسلمانوں تک محدود کردی ہے جو ظاہر ہے تجارتی اور اخلاقی اعتبار سے درست بھی ہے۔ اگر آپ اپنی مزید ایک اور صبح خراب کرنے کو تیار ہوں تو پھر کسی اردو اسکول کا چکر لگا آئیے۔ اس اسکول کے غیر مسلم طلبا کے اعدادوشمار کا جائزہ لیجیے اور خود سے ایک سوال کیجیے کہ ان اردو اسکولوں میں جو مخدوش علاقوں کی طرح ہوتے جارہے ہیں، وہاں کس فرقے کے لوگوں نے اب تک اپنے جگر گوشوں کو بھیجنا بند نہیں کیا ہے؟ بقول وارث علوی ، تہذیب و تمدن کی برکتوں سے محروم، فلاکت کا مارا ہوا، فرقہ وارانہ نفرت کا ہدف، فسادات کا صید زبوں ، تعصبات و تنگ نظری کا شکار، سیاسی پارٹیوں کا ووٹ بینک، سیاسی و مذہبی دباؤ تلے جینے والے غریب و متوسط طبقے کے وہ مسلم بچے ہی آپ کو ملیں گے جو اردو اسکولوں میں روزانہ قتل ہونے کے لیے جاتے ہیں۔ہمیں کافی دنوں تک اس بات کا گمان رہا (اور شاید ندافاضلی اور ان کے ہم خیالوں کو اب بھی ہے) کہ اردو ہندوستان کی مشترکہ میراث ہے لیکن ہم یہ نوٹس کرنا بھول گئے کہ اس ورثے سے دوسرے کب کا دستبردار ہوچکے ہیں۔جو تھوڑے بہت بچے ہیں، ان کے بعد تو بس اللہ ہی اللہ ہے۔ لیکن اس کے برخلاف آج بھی مسلمانوں کا ایک خاص طبقہ اپنی اپنی استعداد کے مطابق اس کی حفاظت اپنی جان اور ایمان کی طرح کررہا ہے۔ ندافاضلی یقینا اسلامی مدرسوں کے وجود سے بہت زیادہ خوش نہیں ہوں گے لیکن کیا وہ اس بات کے بھی منکر ہیں کہ ان مدرسوں نے اردو کے تحفظ میں فعال کردار ادا کیا ہے اور کررہے ہیں۔ میرے خیال میں اس کا سب سے اچھا تجربہ تو خود ندا کو ہی ہونا چاہیے کیوں کہ وہ یقینا ہندوستان کے بہت سے ایسے علاقوں میں بھی مشاعرے پڑھتے ہوں گے جہاں اردو کے چند بوڑھے پرستاروں اور تفریح کے شوقین چند نوجوانوں کے علاوہ ایک بڑی تعداد ان مدرسوں کے طالب علموں کی ہی ہوتی ہے۔ اردو کو مذہبی حوالوں سے علیحدہ کرکے دیکھنا جذباتی عمل تو ہوسکتا ہے جس پر سامعین اور قارئین سے تالیاں پٹوائی جاسکتی ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس کی آبیاری جس عقیدت سے مسلمان کررہا ہے ، وہ دراصل صرف ایک جذباتی انسلاک کے سبب نہیں ہے بلکہ اس کے پس پشت تاریخی عوامل بھی کارفرما ہیں۔
ہندوستان میں اردو صرف ایک زبان نہیں بلکہ لسانی اعتبار سے اسے مسلمانوں کی شناخت تسلیم کرلیا گیا ہے۔ جرمن اسکالرMarc Gaborieau نے ہندوستان ہی نہیں بلکہ اسے برصغیر کی اسلامی زبان سے تعبیر کیا ہے۔ دوسرے اسکالرز مثلا Troll ، Pearson اور Lelyveld بھی یہی کہتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ مولوی عبدالحق نے اس زبان کی ارتقا میں صوفیوں کے رول کو کافی اہم قرار دیا ہے، جب کہ ایوب قادری نے اردو نثر کے فروغ میں مسلم علما کے کارناموں کو سراہا ہے۔ بلاشبہ عربی کے برعکس اور فارسی کی طرح اردو کوئی مقدس زبان نہیں لیکن یہ ہندوستان میں اسلامی تہذیب کی نمائندہ رہ چکی ہے جس پر گفتگو کے لیے علیحدہ مضمون کی ضرورت ہے ۔ یہاں یہ جاننا کافی ہوگا کہ ہندوستان میں اردو کے تاریخی نشیب و فراز میں مسلمانوں نے اسے "اسلامی زبان" کے طور پر ہی استعمال کیا، لہٰذا مسلمانوں کے اجتماعی لاشعور میں اس زبان کی محبت، عقیدت کی سطح پر موجود ہے جس کی جانب مذکورہ ماہنامہ کے فاضل مدیرنے اشارہ کیا تھا۔ اب اگر بنگالی مسلمان بنگلہ بولتا ہے یا گجراتی مسلمان گجراتی میں بات کرتا ہے تب بھی اردو کے لیے اس کے دل میں ایک نرم گوشہ ضرور موجود ہے۔ اس سلسلے میں ایک مزے دار واقعہ یاد آگیا۔ ایک پاکستانی مسلمان جب حج کے لیے بیت اللہ پہنچا تو اس نے دیکھا کہ بیت الخلا کی دیوار پر عربی میں کچھ ہدایات درج ہیں۔ اس نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ کیا لکھا ہے بلکہ اس کے غم وغصے کے لیے یہی کافی تھا کہ عربی جیسی" مقدس زبان" بیت الخلا میں کیسے لکھی جاسکتی ہے۔ یہی حال ہندوستانی مسلمانوں کا ہے۔ وہ اردو سے واقف ہوں یا نہ ہوں، اس کے لیے ان کے دل میں عقیدت و احترام ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔ پھر ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ جس طرح زبانیں "مذہبیائی" جاتی ہیں، اسی طرح زبانوں کو سیکولرائز بھی کیا جاسکتا ہے، آخرترقی پسندی اور جدیدیت کی تحریکات کے زیر اثر اردو بھی تو سیکولرائز ہوئی ہے۔شاہنواز فاروقی نے اس ضمن میں کتنے اہم نکتے کی جانب ہماری توجہ مبذول کرائی کہ یہ جو اردو کا رسم الخط بدلنے کی تحریک وقتاً فوقتاً سر اٹھاتی رہی ہے، اس کا پس منظر بھی یہی ہے۔ اس تحریک کی پشت پر موجود عناصر اچھی طرح جانتے ہیں کہ اردو کا اسکرپٹ بدل کر وہ اس کا مذہبی حوالہ کمزور کردیں گے،بالکل اسی طرح جس طرح ترکی زبان کو رومن رسم الخط میں لایا گیا تو کمال اتاترک کے سیکولرازم کو جڑیں پکڑنے اور توانا ہونے میں بڑی مدد ملی۔ عیسائیت کی تاریخ پر اس کے عبرانی سے کٹ کر رہ جانے کا جو اثر ہوا ہے وہ سامنے کی بات ہے۔ یہاں تک کہ لاطینی سے دور ہو کر عیسائیت کی مذہبیت کا بڑا حصہ زائل ہوگیا۔ انگریزی میں بائبل پڑھنا ترجمے کا ترجمہ پڑھنے کے مترادف ہے اور اس کے معنی اور مضمرات عیاں ہیں۔ اردو زبان کے تین بڑے چشمے ہیں: عربی، فارسی اور ہندی۔ اردو ان میں سے کسی سرچشمہ سے بے نیاز نہیں لیکن جو لوگ اردو کو ہندی سے زیادہ قریب اور عربی و فارسی سے قدرے دور کرنا چاہتے ہیں، وہ بھی اردو کے مذہبی حوالے کو کمزور کرنے کے سوا کچھ نہیں کرنا چاہتے۔ دیکھیے بات کہاں سے چلی تھی اور کہاں پہنچ گئی لیکن ایسے موضوعات کو ندا فاضلی صرف قائم چاند پوری کے شعر سے نپٹانا چاہتے ہیں جو ممکن نہیں ہے اور نہ ہی ان کی تخلیقی نثر اس سلسلے میں ہماری کچھ زیادہ مدد کرسکتی ہے۔فی الحال اس موضوع کو یہیں تشنہ چھوڑ کر ہم ندافاضلی کے دوسرے بیان پر آتے ہیں جس میں انھوں نے مذہب اور مذہبیت کی تفریق سمجھانے کی کوشش کی ہے۔
اس ضمن میں سب سے پہلی بات تو یہ کہ ندا فاضلی اب تک اسی نوالے کو چبا رہے ہیں جو ایک مدت سے ہمارے ترقی پسند احباب اگلتے رہے ہیں۔ صرف ندا فاضلی ہی نہیں بلکہ آج بھی ہمارے پڑھے لکھے ادیبوں کا ایک بڑا حلقہ ایسا ہے جن میں مذہب سے بیگانگی کا رویہ عام ہے اور اسے روشن خیالی کی دلیل سمجھا جاتا ہے۔'روشن خیال' کہلانے کا یہ چسکا اتنا بڑا ہے کہ اسے ہمارا نام نہاد دانشوروں کا ایک مخصوص طبقہ گنوانا نہیں چاہتا، چنانچہ گاہے گاہے وہ اس پر اپنی تاویلات پیش کرتا رہتا ہے۔ ندافاضلی نے بھی مذہب اور مذہبیت کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرکے جو پیش کرنے کی کوشش کی ہے ، اسے بھی اگر "حیلۂ شرعی" کی ذیل میں رکھا جائے تو کچھ اتنا غلط نہ ہوگا ۔ ظاہر ہے کہ وہ مذہبیت سے مراد رسومیات سے لے رہے ہیں اور مذہب کو وہ صرف روحانیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ ایک ندافاضلی کیا ، اکثر مسلم معاشروں میں ایک طبقہ تصوف کا ذاتی تصور رکھتا ہے۔ اس طبقے کا خیال ہے کہ مذہب کو رسومات سے کیا کام؟ مذہب تو ایک باطنی احساس ہے اور اصل چیز یہی ہے اور اسے عقائد و عبادات اور اخلاقیات کے کسی نظام سے وابستہ کرنا درست نہیں۔ چنانچہ اس تصور کے حامل اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ نماز روزہ کے بغیر بھی ان کی زندگی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ اس سلسلے میں وہ بعض غیر مستند صوفیوں کے احوال اور ان کے افکار کی مثالیں بھی پیش کرتے ہیں۔ لیکن یہ تصور سرتاپا گمراہی ہے اور اس کا تصوف کی اصل روایت سے کوئی علاقہ نہیں۔ حضرت مجدد الف ثانی ؒ صوفیوں کے صوفی ہیں مگر ان کی زندگی میں شریعت کی اتنی سخت پابندی ہے کہ بعض علما کے یہاں بھی یہ اہتمام نہیں ملتا۔ امام غزالی ؒ اور شاہ ولی اللہ ؒ کی فکر اور زندگی کا غالب عنصر بھی تصوف ہے لیکن یہ ہستیاں عقائد وعبادات، اخلاق و کردار اور اعمال و افعال میں حسن کاری یا احسان کے بلند ترین مرتبے پر فائز ہیں ۔ یہ مثالیں تو خیر بڑی ہیں لیکن اوسط اور نچلے درجے پر بھی صورت حال ان سے مختلف نہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تصوف کے دائرے میں جو بے عملی کے نام سے سیکولر روش تلاش کی جاتی ہے، حقیقت میں اس کا کوئی وجود نہیں۔ پھر یہ بھی یاد رکھیے کہ دنیا کے مختلف معاشروں میں مذہبیت کے اظہار کے مختلف اسالیب موجود ہیں اور ان اسالیب کے وہاں کے معروضی حالات سے گہرا تعلق ہے۔ اس سلسلے میں تاریخی تجربوں اور ثقافتی اوضاع کا کردار بھی اہم ہے۔
ندا فاضلی ہوں یا کوئی اور ، دراصل یہ طبقہ مذہب اور روحانیت یا Religion اور Spirituality میں فرق کرتا ہے لیکن یہ فرق کیا ہے؟ اس کی وضاحت دشوار ہے۔ آسانی کے لیے اتنا سمجھ لیجیے کہ مذہب ان کے نزدیک ایک منظم روحانیت Organised Spirituality اور روحانیت ان کے لیے ایک بے چہرہ، ڈھیلا ڈھالا، غیر منظم، بے ضابطہ یا Unorganised Religion ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے کچھ دانشور حضرات ہندو ازم اور بدھ ازم میں پناہ ڈھونڈتے ہیں کیوں کہ انھیں اسلام بہت عملی (Practical) نظر آتا ہے لہٰذا اس کا یہ مطلب نکالا گیا کہ اس مذہب میں بھلا روحانیت کیسے ہوسکتی ہے، اس میں یا تو روحانیت ہے ہی نہیں اور ہے بھی تو بہت کم۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اسلام سے زیادہ منظم اور مربوط مذہب روئے زمین پر موجود نہیں۔ الٰہیات سے لے کر سونے جاگنے تک کے معاملات میں یہ ایک مکمل کائنات ہے۔ اس میں کمی وبیشی کا امکان بھی نہیں۔ لہٰذا ہمارے دانشوروں کو بھلا اسلام میں کیا کشش ہوسکتی تھی۔ اس کے برعکس ہندوازم اور بدھ ازم منظم ہونے کے باوجود اپنی تنظیم پر اصرار نہیں کرتے۔ یہاں گیان دھیان، ایک طرح کے مراقبے اور جاپ سے کام چل جاتا ہے۔ چنانچہ یہ اتفاق نہیں کہ مغرب میں ہپیوں کی تحریک چلی تو وہ چرس اور گانجے کے نشے میں ہرے کرشنا اور ہرے راما کا جاپ کرتے نظر آئے۔ یہ ایک طرح کا جعلی روحانی معاشقہ یا Spiritual Flirt تھا جسے ناکام ہونا ہی تھا۔
اس کے علی الرغم منظم مذہب ایک مکمل طرز فکر اور کامل طرز حیات ہے۔ اس کے عقائد ہیں، عبادت اور اخلاقیات کا نظام ہے اور اس میں وہ چیز ہے جسے ہمارے کچھ دانشور آج بھی حقارت سے "مذہبیت" کہتے ہیں جب کہ اس میں غضب کی ضابطہ بندی ہے۔ مثلاً اس دائرے میں خیر وشر کے طے شدہ تصورات ہیں۔ حلال و حرام کا واضح تصور ہے جس میں تبدیلی کی کوئی گنجائش نہیں۔ مذہب کا یہ تصور آج بھی بیشتر اہل دانش کو بار لگتا ہے اور وہ اسے ظاہر پسندی کہہ کر ٹال دیتے ہیں۔ مگر یہ ظاہر پسندی اسلامی روحانیت کا خارج ہے جو باطن کو متعین کرتا ہے۔ چنانچہ اس کے مقابلے پر ہمارے نام نہاد دانشوروں کو روحانیت پر کشش محسوس ہوتی ہے کیوں کہ اس میں کوئی ذمہ داری نہیں، اور ہے بھی تو برائے نام۔ چنانچہ آپ اس روحانیت کے ساتھ بڑی حد تک اپنی "پسند" کی زندگی گذار سکتے ہیں اور اس سے روحانیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ نام نہاد روحانیت دنیا کو بدلے بغیر اس کے ساتھ چلنے کا ایک فن ہے۔
یہ جو ندافاضلی اپنے مراسلے میں مذہب اور مذہبیت کی تفریق کی بنیاد پر انسان دوستی کی عمارت کھڑی کرنی کی کوشش کر رہے ہیں، اس کے پس منظر میں بھی اسی نام نہاد روحانیت کا "چکر" موجود ہے۔ مجھے شک ہے کہ ندافاضلی کے نزدیک بھی روحانیت کا وہی رول ماڈل ہے جو مغرب میں چل رہا ہے اور مقبول ہے۔ لیکن انھیں سمجھنا چاہیے کہ ہمارے روحانی تجربات اور ان کی تاریخ، مغرب کے روحانی تجربات اور ان کی تاریخ سے الگ ہے۔ ہم نے ان کی طرح مذہب کو کبھی مسترد نہیں کیا۔ ہماری مذہبی روایت کو ضعف کی شکایت ہو سکتی ہے لیکن یہ ان کی طرح کبھی انقطاع یا Discontinuity کے ہولناک تجربے سے دوچار نہیں ہوئی کیوں کہ ہمارا مزاج ایک Organised Religion کا مزاج ہے ، لہٰذا ہمیں کسی روحانی معاشقے یا Spiritual Flirt کی کوئی ضرورت نہیں۔ انسانی دردمندی کا ڈرامہ تو ویسے بھی کھیلا جاسکتا ہے اور کھیلا جارہا ہے۔ آخر امریکہ نے بھی عراق پر حملہ انسانی دردمندی کے ناطے ہی تو کیا تھا۔ یہاں میرا ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا ندافاضلی یا ان کے ہم خیال یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جو لوگ "مذہبیت " سے وابستہ ہوتے ہیں، ان میں انسانی دردمندی نہیں ہوتی؟ یا اسی سوال کو الٹ دیں کہ کیا جن لوگوں کا "مذہبیت" سے واسطہ نہیں ہوتا، وہ سارے کے سارے انسان دوست ہوتے ہیں؟ کیا پیغمبر اسلام کی انسانی درمندی پر کسی کو شک ہے؟ انھیں توبلا تفریق مذہب و ملت" محسن انسانیت "کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے لیکن کیا (نعوذباللہ) وہ ان چیزوں سے آزاد تھے جنھیں ندا فاضلی "رسمیات" یا "مذہبیت" سے تعبیر کررہے ہیں؟ کیا صحابہ کرام، خلفائے راشدین، محدثین، علماو فقہا کی "مذہبیت" نے" انسانی برادری کو فرقوں کے تفرقوں میں بانٹا یااس کے برعکس دنیا کے سامنے ایک مثالی اور غیر جانب دار فلاحی معاشرے کا رول ماڈل پیش کیا؟ یہ سب کے سب بھی مذہب اور مذہبیت دونوں سے وابستہ تھے۔ ندافاضلی کو انسانی درمندی کا حوالہ دیتے ہوئے سکھوں کی مقدس کتاب گروگرنتھ صاحب ،انجیل مقدس کی عبارتیںحتیٰ کہ قائم چاند پوری کا شعر تو یاد رہتا ہے لیکن انھیں نہ تو قرآن کریم کی وہ بے شمار آیتیں یاد آتی ہیں جو حقوق العباد سے عبارت ہیں اور نہ ہی اسلامی تاریخ کے وہ ذریں واقعات انھیں یاد رہتے ہیں جن میں انسان دوستی اور انسانی دردمندی کے بے شمار واقعات بھرے پڑے ہیں جنھیں دوسری قوموں نے اپنا وظیفۂ حیات بنا لیا۔ یہاں مجھے سکندر احمد کی یہ بات درست لگتی ہے کہ Politically Correct لوگ بوتل میں اُگے منی پلانٹ ہوتے ہیں جن کا اپنی زمین سے کوئی تعلق نہیں ہوتا"۔
اب ندافاضلی کی یہ بات کہ ادب انسان کو مذہب سے نہیں مذہبیت سے دور کرتا ہے، تاریخی اور منطقی دونوں اعتبار سے غلط ہے۔ کیا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جو ادیب مذہبیت سے دور نہیں ہوتا ، وہ ادیب ہی نہیں؟ لیکن الیٹ نے تولوگوں کو عیسائی ادب پڑھنے کی تلقین کی کیوں کہ اس کے قریب وہی عظیم ترین ادب ہے۔ اور پھر صرف الیٹ ہی کیوں، کئی مغربی ادیب اور شاعر عیسائی ادب کے ترجمان رہ چکے ہیں لیکن ذہنی قلاشی کی انتہا یہ ہے کہ انھیں تو آرٹ اور فنون کا بیش بہا نمونہ سمجھ کر قبول کرلیا جاتا ہے لیکن کسی اداریہ میں اسلام کا ذکر سنتے ہی شموئل احمد جیسے حضرات اس میں تضحیک کا پہلو تلاش کرلیتے ہیں۔ سوال اٹھتا ہے کہ یہ دوہرا معیار کیوں؟ پھر مغربی ادب ہی کیوں، مشرقی ادب میں بھی مذہب کا دخل کافی رہا ہے۔ کالی داس کی تصانیف میں "کمار سمبھو" اور "رگھوونش" اہمیت کی حامل ہیں۔ "کمار سمبھو" کا قصہ پرانوں سے مستعار ہے جس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ شیو اور ہمالیہ کی بیٹی پاروتی کا بیاہ کس طرح ہوا۔ دراصل خوبی کالی داس کے اعجاز اسلوب کی ہے جو اس تصنیف کو اعلیٰ معیار بخشتا ہے تو کیا ہم اسے "مذہبیت " کا طعنہ دے کر رد کردیں؟ اسی طرح"رگھوونش" میں کالی داس نے رام چندر جی کے خاندان کی تاریخ بیان کی ہے جس میں تاریخ کے ساتھ ساتھ اس عہد کے تمام تر تہذیبی و ثقافتی عناصر ابھر کر سامنے آگئے ہیں۔ ویدوں اور پرانوں کے قصے بیان کیے گئے ہیں جن کے ساتھ اس عہد کا طرز معاشرت بھی سامنے آگیا ہے۔اس کے علاوہ "میگھ دوت" جو کالی داس کی اہم ترین تصنیف ہے اس میں 112 چوپائیاں ہیںجن میں اس عہد کے دیوی دیوتاؤں کی عظمت و عقیدت اور غلام اور آقا کا تصور ابھر کر سامنے آتا ہے۔ عہد قدیم کی غزل نما شاعری میں سب سے اہم نام بھرتری ہری اور امرو کا ہے۔ بھرتری ہری کی چوپائیوں کے مطالعہ سے شیو پوجا اور اس کے عہد (17 ویں صدی عیسوی) کے تہذیبی، ثقافتی اور مذہبی پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے۔ لہٰذا میں نہیں مانتا کہ ادب انسان کو مذہبیت سے دور کرتا ہے۔ ادبیت ہو یا مذہبیت ، ان کا تعلق ایک شخص کی اس ایمان دارنہ وابستگی سے ہے جو وہ متعلقہ نظام سے رکھتا ہے۔کیا ایسا ممکن ہے کہ کوئی شخص ادیب تو ہو لیکن اس میں ادبیت نہ ہو؟ تو پھر ندافاضلی یا ان کے ہم خیال مذہب کے تعلق سے یہ پیمانہ کیوں مقرر کررہے ہیں کہ ایک شخص مذہبی تو ہو لیکن اس میں مذہبیت نہ ہو۔
جس طرح مذہب کے لیے مذہبیت اور ادب کے لیے ادبیت لازمی ہے، اسی طرح ندافاضلی کی ندافاضلیت ان کے متعدد اشعار کی نمائندگی کرتی ہے جو مذہب سے لاتعلقی کے پیداوار ہیں(جن کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے)۔ان اشعار میں انسان دوستی کی نمائش زیادہ اور حقیقی انسانی دردمندی کی بو باس کم ہے۔ دراصل وہ انسان دوستی وغیرہ کو محض مذہبی رویے کی تضحیک کی خاطر استعمال کرتے ہیں جس کا صوفیانہ شاعری کی تاریخ سے بھی دور دور کا واسطہ نہیں کیوں کہ ہمیں رابعہ بصری، فریدالدین گنج شکر، حافظ شیرازی، ابن عربی، جامی، جنید شیرازی، امیر خسرو، مرزا مظہر جان جاناں، رومی اور سعدی وغیرہ جیسے معتبر صوفی شاعروں کی تخلیقات میں مذہبی شعائر سے علیحدگی کا پہلو نظر نہیں آتا بلکہ اس طرح کی شاعری حق الیقین کی ٹھوس بنیادوں پر ہی قائم ہوتی ہے۔ اس کے برخلاف ندافاضلی کے یہاں پورا زور صرف شعائر مذاہب کے ردّ پر مبنی ہے اور یہ ردّ بھی بے جواز اور غیر منطقی ہے۔مثلاً ان کا ایک معروف شعر ہے ؎
گھر سے مسجد ہے بہت دور چلو یوں کرلیں
کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے
ندافاضلی کے اس شعر کو انسان دوستی کا مظہر کہا جاتا ہے جس پروہ کافی داد پاچکے ہیں۔ لیکن میرے نوجوان شاعر دوست شکیل اعظمی (جو اپنے تازہ شعری مجموعے پر میرے تبصرے کے بعد مجھ سے شدید ناراض ہیں) نے میری توجہ سب سے پہلے اس جا نب منعطف کی کہ یہ شعر انسان دوستی کا استعارہ نہیں بلکہ محض ایک اہم اور بنیادی مذہبی فریضے سے انکار کی حیلہ تراشی ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ دوسرے مصرعے کا پہلا لفظ"کسی" غور طلب ہے یعنی ایسا نہیں ہے کہ متکلم مسجد کے لیے نکلا ہو اور راستے میں اسے ایک روتا ہوا بچہ مل گیا ہو جسے ہنسانے کو وہ نماز پر ترجیح دے رہا ہو بلکہ یہاں یہ معمولی سا لفظ بتا رہا ہے کہ فی الحال کوئی روتا ہوا بچہ وہاں موجود ہی نہیں ہے لیکن چونکہ متکلم نماز پڑھنے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں ہے، لہٰذا وہ کسی روتے ہوئے بچے کی تلاش میں ہے۔اب اگر کوئی یہ کہے کہ کسی شعر کو پرکھنے کے لیے مذہبی معیار نہیں بلکہ ادبی معیار کی ضرورت ہوتی ہے تو پھر میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ اگر شاعر نے اپنا شعر مذہبی بنیادوں پر ایستادہ کیا ہے تو پھر اس کے استعاراتی یا فنی نظام سے پہلے اس کا محاکمہ بھی انھیں مذہبی نظام کی بنیادوں پر کیا جائے گا۔ چونکہ شعر مذکور کا متکلم بچے کے ہنسانے کو مسجد جانے پر ترجیح دے رہا ہے تو پھر اس کی نیت کا محاسبہ بھی ضرور ی ہوجاتا ہے کہ وہ واقعی مسجد جانا چاہتا ہے یا اس کی دوری کے بہانے اس کا نعم البدل پیش کرکے محض اپنی انسان دوستی کا ڈھنڈورا پیٹنا چاہتا ہے۔ دیکھا آپ نے انسان دوستی جیسی اصطلاحیں اپنے مخصوص افکار کی تشہیر کے لیے اور اپنے مقابل افکار کو زیر کرنے کے لیے کیسے استعمال میں لائی جاتی ہیں۔ اب ان کا یہ شعر دیکھیں ؎
بچہ بولا دیکھ کر مسجد عالی شان
اللہ تیرے ایک کو اتنا بڑا مکان
کبیر نے جب یہ کہا تھا کہ ؎
کنکر پتھر جوڑ کے مسجد لئی بنائے
وا چڑھ ملّا بانگ دے کا بہرو بھیو کھدائے
توممکن ہے کہ اسے یہ معلوم نہ ہو کہ موذن (ملّا) کی اذان (بانگ) خد ا کے لیے نہیں بلکہ اس کے بندوں کے لیے ہوتی ہے جو محض عبادت کے وقت کا اعلان ہے۔ لیکن یہ کیسے مان لیا جائے کہ ندافاضلی کو مسجد کے متعلق یہ علم نہیں کہ لغوی معنی میں یہ اللہ کا مکان نہیں بلکہ عبادت گاہ ہے اور مسجد کو اللہ کا گھر کنایتہ بولا جاتا ہے ۔ اس کے باوجود اگر ندافاضلی اللہ میاں کو one room kitchen میں ہی محصور کرنے کے خواہش مند ہیں تو انھیں اس کا جواز بھی پیش کرنا چاہیے تھا۔ انھیں یہ بتانا چاہیے تھا کہ آخر وہ مسجد پر مفلوک الحالی برستا کیوں دیکھنا چاہتے ہیں۔اقبال نے اسی موضوع کو جب چھوا تو وہاں تشکیک کا پہلو بالکل نہ تھا بلکہ انھوں نے مذہبی منافقت پر کاری ضرب لگائی ۔
مسجد تو بنا لی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا
اقبال کے اس شعر میں تضحیک نہیں طنز ہے جس میں اصلاح معاشرہ کی واضح جھلک موجود ہے۔ انھوں نے مسجد کے وجود پر سوالیہ نشان لگانے کے بجائے ضعف ایمان کو نشان زد کیا۔ اس کے برخلاف ندافاضلی مسجد کو ہی شک بھری نگاہ سے دیکھنا شروع کردیتے ہیں اور بچے کی زبان سے اپنے من کی بات کہہ جاتے ہیں۔ میں نے 'شک' اور 'تشکیک' جیسے الفاظ کا استعمال اس لیے کیا ہے کیوں کہ ندافاضلی اپنے ایک دوسرے شعر میںخود ہی مسجد کے وجود کی وضاحت بھی کردیتے ہیں۔
مسجدیں ہیں نمازیوں کے لیے
اپنے گھر میں کہیں خدا رکھنا
لیجیے صاحب! اللہ میاں کا وہ عالی شان مکان اب نمازیوں کے لیے مخصوص ہوگیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ندافاضلی شعری تقاضوں کی بنیاد پر مذہبی نشانیوں کے استعمال میں اپنی ترجیحات کو اولیت دیتے ہیں اور اس کے لیے وہ تضاد بیانی بھی روا سمجھتے ہیں۔ اسی ضمن میں ان کا ایک اور شعر ملاحظہ فرمائیں ؎
کیسی مسجد کہاں کا بت خانہ ہے
ہرجگہ اس کا آستانہ ہے
ایک بار پھر ندافاضلی نے قلابازی کھائی اور دوبارہ اپنے سابقہ موقف پر ڈٹ گئے۔لیکن انھوں نے اس بار ذرا نرم روی اختیار کرتے ہوئے خدا کو مسجد اور بت خانے سے آزاد کردیا۔ سوال اٹھتا ہے کہ انھوں نے کون سی اچھوتی بات کہہ دی۔ تقریباًتمام مذاہب میں خدا کے وجود کا تصور لا محدود اور لامتناہی ہے لیکن عملی زندگی میں جس طرح ہم نے ہر شعبۂ حیات کے لیے اس کی جگہ مخصوص کردی ہے، مثلاً کھانا بنانے کے لیے باورچی خانہ ، سونے کے لیے خواب گاہ ، نہانے کے لیے غسل خانہ اور رفع حاجت کے لیے بیت الخلا، حتیٰ کہ ندافاضلی جب مشاعرے پڑھنے جاتے ہیں تو ان کے لیے بھی مشاعرہ گاہوں کا استعمال ہوتا ہے ۔ تو پھر ندافاضلی صرف عبادت گاہوں سے اتنے ناراض کیوں نظر آتے ہیں جو سکون قلب کے لیے بنائے گئے ہیں جہاں انسان اپنی اپنی پسند اور اپنے اپنے اسالیب کی بنیاد پر اپنے خالق کے سامنے سجدہ ریز ہوکر اپنی احسان شناسی کا اظہار کرتا ہے۔ ندافاضلی کے یہاں مذہب کا صوفیانہ تصور نہیں ہے بلکہ سیاسی اور کسی قدر بچکانہ ہے۔ ان کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیں ؎
کسی گھر کے کسی بجھتے ہوئے چولھے میں ڈھونڈ اس کو
جو چوٹی اور داڑھی تک رہے وہ دین داری کیا
اس شعر میں چوٹی اور داڑھی کی متوقع تضحیک سے قطع نظر ایک بار پھر دین داری کی خود ساختہ تعبیر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ گویا ندا فاضلی یہ کہنا چاہتے ہیں کہ تمام دین دار اپنے معاشرتی فرائض ادا کرنے میں غیر ذمہ دار واقع ہوئے ہیںیا پھر وہ شاید یہ کہنا چاہتے ہیں کہ معاشرتی فرائض ادا کرنے کی ذمہ داری صرف دین داروں کے لیے مخصوص ہے۔ کیا وہ یہ نہیں جانتے کہ تمام مذاہب میں "دان" اور "خیرات" کا تصور موجود ہے۔ پھر یہ بھی غور طلب ہے کہ اگر کوئی شخص اس ضمن میں غیر ذمہ داری کا ثبوت دیتا بھی ہے تو اس میں دین داراور غیر دین دار کی تخصیص کیوں کر قائم کی جاسکتی ہے۔ اس طرح کے اشعار سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسانی دردمندی اور انسان دوستی کا مکمل ٹھیکہ غیر دین داروں کے ہاتھ لگ گیا ہے جس کی تشہیر کرکے وہ دین داروں کو ہدف ملامت بنا نے کا کوئی موقع گنوانا نہیں چاہتے۔ ایک اور شعر میں دیکھیے ندا کیا کہتے ہیں ؎
مندروں میں بھجن، مسجدوں میں اذاں ، آدمی ہے کہاں
آدمی کے لیے ایک تازہ غزل جو ہوا سو ہوا
چلیے صاحب قصہ ہی ختم ہوا۔ شاعر نے اس شعر میں صاف کردیاکہ جو مندروں میں بھجن گا رہے ہیں اور مسجدوں میں اذاں دے رہے ہیں ، ان کا شمار آدمیوں میں نہیں ہوتا۔ کیوں کہ مذہب(یا پھر مذہبیت) سے وابستہ ہو کر آدمی، آدمی نہیں رہتا۔ آدمی تو ندافاضلی کی تازہ غزل میں موجود ہے۔ یعنی انھوں نے اس شعر میں اس تکلف سے بھی کام نہیں لیا جو وہ محولہ بالا دوسرے اشعار میں لیتے رہے ہیں۔ یہاں تو ایک طرح کی قطعیت ہے کہ مذہبی لوگ آدمی ہوتے ہی نہیں ۔ اس سے زیادہ سفاکی اور شقاوت میں نے چوٹی اور داڑھی والوں میں بھی نہیں دیکھی کہ یہ "صفاچٹ" لوگوں کو ہی شاید زیب دیتی ہے۔ لیکن یہ بے رحمی اور شقی القلبی یہیں تک محدود نہیں رہتی بلکہ جب یہ اپنے اوج کمال پر پہنچتی ہے تو ایساشعر ظہور میں آتا ہے ؎
اٹھ اٹھ کے مسجدوں سے نمازی چلے گئے
دہشت گروں کے ہاتھ میں اسلام رہ گیا
میں اس شعر پر ندافاضلی کو مبارک باد دینا چاہوں گا کہ آج تک جو بات اتنا کھل کر بالا صاحب ٹھاکرے، پروین توگڑیا، نریندر مودی اور جارج بش بھی نہ کہہ پائے، انھوں نے کہہ کر اس میں اولیت حاصل کر لی ہے۔ لیکن یہاں میں ان سے صرف اتنا دریافت کرنا چاہوں گا کہ حیدرآباد، مالیگاؤں، عراق، افغانستان ، فلسطین وغیرہ کے متعلق ان کا کیا موقف ہے؟ یہ جو ہرروز نئے نئے انکشافات ہورہے ہیں کہ فلاں دہشت گری کے معاملے میں مسلمانوں کے بجائے کسی اور قوم کے مذہبی اور سیاسی رہنماؤں کے ہاتھ تھے، یا پھر وہ معصوم مسلم نوجوان جنھیں دہشت گربنا کر جیلوں میں سڑایا جارہا ہے، یا پھر وہ بابو بجرنگی جو عدالت سے ضمانت پا کر کھلے عام گجرات کی نسل کشی پر فخر یہ بیان دے رہا ہے، یا وہ شری کرشنا کمیشن جس کی رپورٹ پر دھول کی ایک موٹی تہہ جم چکی ہے لیکن اب تک نہ تو اس پر کوئی کاروائی ہوئی اور نہ اس کی کوئی امید ہے، یا پھر توہین رسالت کی گلوبلائزیشن، عراق میں 17 لاکھ عام شہریوں کا قتل عام، فلسطین میں اسرائیلی فوجوں کا قہر ، افغانستان میں امن اور انسان دوستی کے نام پر عورتوں، بوڑھوں اور بچوں کا قتل عام وغیرہ وغیرہ سے کیا ندافاضلی واقعی بالکل بے خبر ہیں ؟ مجھے نہیں پتہ کہ وہ روزانہ کون سا اخبار پڑھتے ہیں یا کون سا نیوز چینل دیکھتے ہیں ، اس سے کوئی فرق بھی نہیں پڑتا کیوں کہ ایک عام شخص بھی ان حقائق سے واقف ہے۔ میرے خیال میں ندافاضلی ہی بتاسکتے ہیں کہ ان دہشت گروں میں کتنوں کا تعلق اسلام سے ہے اور کتنوں کی داڑھیاں ہیں۔ مجھے نہایت افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑرہا ہے کہ ندافاضلی کے محولہ بالا افکار نہ صرف حقائق سے مکمل بے خبری کا ثبوت ہیں بلکہ دانشورانہ بددیانتی سے بھی عبارت ہیں جنھیں وہ محض زور بیان کے بل پر اپنے قارئین و سامعین سے داد وصول کرنے کے لیے پیش کرتے رہے ہیں۔ اس مقام پر اگر کوئی شخص یہ نتیجہ نکالتا ہے تو شاید غلط نہ ہوگا کہ انسان دوستی اور انسانی دردمندی ندافاضلی اور ان کے ہم خیالوں کا ایمان نہیں بلکہ ان کے لیے یہ صرف ایسے ادبی تقاضے ہیں جن کی بنیاد پر وہ محض ان کا تاثر پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، جب کہ وہ دانستہ یا غیر دانستہ طور پر لوگوں کی مقدس وابستگیوں ،ان کے عقائد اور ان کے مذہبی جذبات وغیرہ جیسی چیزوں کا مذاق اڑاتے رہے ہیںجو بقول وارث علوی، یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ انسانی دردمندی کا چشمہ اگر سوکھ جائے تو آدرش اور اخلاق سفاکیوں کی نقاب بن جاتے ہیں ۔ کلچر جس میں مذہب کا کردار خواہ کتنا ہی چھوٹا اور معمولی کیوں نہ ہو، قابل احترام ہے کہ وہ لوگوں کو حیات کا قرینہ بخشتا ہے ، اور اتنا تو خیر ندافاضلی تسلیم کرتے ہی ہوں گے کہ کسی بھی کلچر کو گزند پہنچانے اور تباہ کرنے کی کوشش انسانیت کے خلاف ہولناک جرم ہے۔

No comments:

Post a Comment