Search This Blog

Wednesday 25 July 2012

تو اسرائیل اور شام میں کیا فرق ہے؟ Then what's the difference between Isrtael and Syria?


---تو اسرائیل اور شام میں کیا فرق ہے؟
M Wadood Sajid

دنیا پر مقدس ترین مہینہ سایہ فگن ہے لیکن کرہ ارض پر دو ممالک کے بے قصور مسلمان ‘ظالموں اور جابروں کے نرغہ میں ہیں۔وہ طاقتیں جنہوں نے پہلے افغانستان کو اور پھر عراق کو برباد کیا ‘شام کے حالات کو سنبھالنے کیلئے وقفہ وقفہ سے کچھ کوششیں کرتی ہیں لیکن سپرپاور کے خواب کوشرمندہ تعبیرکرنے میں ناکام دو ممالک‘ چین اور روس ان کوششوں کو تہہ وبالا کردیتے ہیں۔برماکے بے کس مسلمانوں کی توخیر کون سنے گا؟کیا آپ نے وہ تصویریں دیکھی ہیں جن میں برما کے خستہ حال انسانوں کوپہلے برہنہ کیا گیا ‘پھر ان کو مختلف ہتھیاروں سے ہلاک کیا گیا اور اس کے بعد بجلی کے بڑے بڑے تووں پر ان کی لاشوں کو ڈال کربھون دیا گیا۔فرقہ وارانہ ظلم کی اتنی کریہہ اورناقابل بیان شکل شاید مہذب دنیا نے کہیں اور نہ دیکھی ہو۔برما کے صدر کی درندگی دیکھئے کہ وہ اپنے مسلمان شہریوں کی حفاظت سے تو دستبردار ہوہی گیا ہے ‘ان کی لاشوں کے ساتھ ہونے والے اس سلوک کی تصویریں ساری دنیا کے سامنے پیش بھی کر رہا ہے۔
برما کا صدر انسانوں کے بنائے ہوئے اس مذہب کا پیروکار ہے جس کی بنیاد ہی اخوت ومحبت پر رکھی گئی تھی۔لیکن برمی مسلمانوں کے تعلق سے اس کے خیالات سننے کے بعد اسے انسان توکیا بلکہ آدم خور درندوں کا سرغنہ کہنے سے بھی دل کو سکون نہیں ملتا۔روئے زمین پر کون سا ملک ایسا ہے کہ جس کے شہریوں میں دوسرے مقامات پر پیدا ہونے والے انسان بھی شامل نہ ہوں۔امریکہ‘برطانیہ‘جرمنی‘اٹلی’جاپان‘انڈونیشیااورملیشیا جیسے ممالک میں بھی خالص انہی ملکوں کی آبادی نہیں ملے گی۔خود ہندوستان میں تو نیپال کے شہری آج بھی اس طرح آکرآبادہوجاتے ہیں کہ جیسے یہ انہی کا ملک ہو اور ان کے آباواجدا دنے اس کی تعمیر میں حصہ لیا ہو۔کون سے ملک میں اپنے شہریوں کے ساتھ یہ سلوک کیا جاتا ہے جیسا برما کے مسلمانوں کے ساتھ کیا جارہا ہے۔مذکورہ بالا تمام ممالک میں ایک دوسرے کے شہری بھی آباد ہوگئے ہیں اور کسی کے ساتھ ایسی زیادتی روا نہیں رکھی جاتی۔پھر دنیا برما کے ان انسانوں پرظلم کے خلاف کیوں آواز نہیں اٹھاتی؟ایک سوال جو ابھی تک کسی عالمی طاقت یا بین الاقوامی پلیٹ فارم نے برمی حکومت سے نہیں کیا ہے ‘یہ ہے کہ آخر ا ن برباد حال انسانوں سے خطا کیاسرزد ہوئی ۔چند سو یا چند ہزار لوگوں سے غلطی ہونے اور انہیں سزا دینے کی بات کو تسلیم کربھی لیں تب بھی لاکھوں لوگوں سے آخر کیا غلطی ہوئی ہوگی؟برما کے معاملہ میں شاید عالمی طاقتیں اس لئے دلچسپی نہیں لے رہی ہیں کہ بہ حیثیت ملک خود برما بھی عالمی نقشہ پرپسماندہ اور قلاش ملک ہے۔ظاہر ہے وہاں کے مسلمانوں کا حال تو اور بھی برا ہوگا۔ایسے میں کون ان غریب اور مفلوک الحال انسانوں کیلئے ایسے ملک میں مداخلت کرے گا جہاں حاصل کرنے کیلئے ’کچھ‘بھی نہیں ہے۔برما کے مسلمانوں کی بدقسمتی کی انتہایہ ہے کہ دو دہائی قبل انہوں نے جس ’خاتون جمہوریت‘کو اپنا سمجھ کر ووٹ دیا تھا آج وہ بھی انہیں اپنا کہتے ہوئے جھجک رہی ہے۔
تاریخی عرب ملک ’شام ‘کا معاملہ تو اور بھی عجیب وغریب ہے۔اظہار رائے اور انتخاب کی آزادی کا جمہوری اور شرعی حق مانگنے کی جرات کرنے والے شامی شہریوں کو جس شدت کے ساتھ بددین آمرحافظ الاسدنے کچلا تھا اس سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ آج اس کا بیٹاان بے گناہ نفوس تک کو کچل رہا ہے جن کا جمہوری مطالبہ میں کوئی عمل دخل بھی نہیں۔بھلا دواور تین سال کے معصوم بچوں نے بشارالاسد سے کیا مانگ لیا تھا؟ان نقاب پوش بچیوں نے آخر کیا مطالبہ کردیا تھا جنہوں نے اپنے گاؤں اور قصبات سے کبھی باہر نکل کر نہیں دیکھا۔ان لرزتے کانپتے بوڑھوں نے کیسی بغاوت کردی تھی جن کے اندر اب مسجد اور گھرکے سواکہیں اور آنے جانے کی ہمت بھی نہیں ہے۔بشار الاسد کے جابر باپ نے تو دس ہزار ’اخوان‘ کو بلڈوزروں سے کچل دیا تھا لیکن خوداس نے اب تک 30ہزار شہریوں کو ہلاک کردیا ہے جن میں بڑی تعداد انہی بچوں‘ بوڑھوں اور نوجوان عورتوں کی ہے۔عراق پر چڑھائی کا فیصلہ کرنے میں اقوام عالم کو کیا اتنا ہی وقت لگا تھا؟اور کیا عراق کے سابق صدر صدام حسین نے اپنا اقتدار باقی رکھنے اور مخالفین کو خاموش کرنے کیلئے اتنی ہی تعداد میں اپنے شہریوں کو ہلاک کروایا تھا؟عراق پر چڑھائی اور اس کی بربادی کے واحد جوازکے طورپر’عوامی تباہی والے ہتھیار‘کے قصے پیش کئے گئے تھے۔ لیکن حیرت ہے کہ آج تک ایسا ایک بھی ہتھیار نمودار نہیں ہوسکا ہے۔جبکہ شام میں نہتے اور امن پسند شہریوں کا خون بہاکر دجلہ وفرات کے بہتے پانی کو شرمندہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ایک سوال اور نمودار ہوا ہے کہ ایسے میں جب بشارالاسد کی فوج دوردراز کے قصبات میں جاکر گھروں میں لوگوں پربمباری کررہی ہے ‘کیسے کابینہ کے اجلاس میں باغی گھس کر وزیر دفاع اور دوسرے اعلی حکام کو ہلاک کردیتے ہیں؟
روس اور چین انہی ممالک میں شامل ہیں جو فلسطینیوں پراسرائیل کے مظالم کے خلاف پیش ہونے والی ہر قرارداد کو مسترد کردیتے ہیں۔اب وہ بشار الاسد کے خلاف پیش ہونے والی تجویز کو ویٹو کر رہے ہیں۔آخر اسرائیل اور شام میں ہونے والے ان مظالم میں روس اور چین کیلئے کیا قدر مشترک ہے؟روس کا شیوہ ہمیشہ ’بلیک میلنگ ‘کا رہا ہے۔ایران کے ساتھ امریکی چشمک کے معاملہ میں وہ بظاہر ایران کا ساتھ دیتا ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ وہ ’میز کے نیچے سے‘اس کی قیمت بھی وصول کرتا ہے۔اس کو یوں سمجھئے کہ ۱۹۹۸میں جب میں عراق کے دورہ پر تھا تو روس کا وزیر خارجہ صدام حسین سے ملنے کی خاطر ایک ہفتہ سے بغداد کے ایک ہوٹل میں ٹھہراہوا تھا۔میں نے ایک اعلی افسر سے پوچھا کہ روس تو عراق کا ساتھی ہے ‘پھر اس کے وزیر خارجہ کو اتنا انتظار کیوں کرایا جارہا ہے؟تو اس نے بتایا تھا کہ وزیر خارجہ روسی حمایت کی قیمت وصول کرنے آیا ہے۔صدام حسین کا عراق ‘ امام خمینی کے ایران سے نظریاتی اور سیاسی طورپربالکل مختلف تھالیکن روس نے بیک وقت دونوں سے دوستی ’گانٹھ ‘رکھی تھی۔یہ دونوں مسلم ممالک ایک دوسرے کے دشمن تھے لیکن روس دونوں کا دوست تھا۔آج اگر شام میں محض ۱۲فیصد علویوں کی جابر حکومت ۷۴فیصد سنیوں پر مظالم ڈھارہی ہے تو روس وہاں ظالم حکمراں کا ساتھ دے رہا ہے۔چین اور روس ‘بشارالاسد کا ساتھ اس لئے بھی دے رہے ہیں کہ موخرالذکر کا اسلامی شعائرسے کوئی لینا دینا نہیں اور وہ کمیونزم کے زیادہ قریب ہے۔عزت سادات کو تمام ممکنہ خطرات مول لے کر یہ کہنے میں مجھے کوئی تکلف نہیں کہ اتنا ظلم تو نہتے فلسطینیوں پر اسرائیل نے بھی نہیں ڈھایا ہے لیکن فلسطینیوں کی خاطراسرائیل سے نفرت کا دعوی کرنے والا ایران ‘شام کے ان بے کس وبے بس مسلمانوں کی خبر گیری کی بجائے اس بشارالاسد کا ساتھ دے رہا ہے جس کو وہاں کی اکثریت ‘جھوٹا‘مکار‘فریبی‘قاتل اور قصاب تک کہہ کر پکار رہی ہے۔
اس موقع پر ایک اور فطری سوال ذہن کو مہمیزلگاتاہے۔آخراتنے سارے عرب ممالک ‘شام کے مسلمانوں کو مرتا کٹتا کیسے دیکھے جارہے ہیں؟کیوں وہ ان کی مددکو نہیں آتے؟کیوں عرب لیگ کو اقوام عالم کا انتظار ہے؟اور کیوں وہ اپنے طور پر بشارالاسد کے خلاف مشترکہ کارروائی نہیں کرتی؟شاید اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ اکثر عرب ممالک میں آمریت ہے۔وہاں جمہوری طورپرمنتخب حکمراں بہت کم ہیں۔جمہوریت جہاں ہے بھی وہاں تماشا زیادہ ہے حقیقت بہت کم ہے۔ایسے میں خود انہیں بھی آج نہیں تو کل ایسی ہی عوامی بے چینی کے اٹھنے کا خوف ہے۔اس لئے وہ ظالم بشارکے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرنا چاہتے۔لیکن وہ بھولے ہوئے ہیں کہ مظلوموں کی آہ براہ راست عرش تک جاتی ہے۔خالق کائنات اپنی سنت کے مطابق ظالموں کو ڈھیل دے کر تماشائیوں کا امتحان لیتا ہے۔اور جب اس کی پکڑ آتی ہے تو پھرکوئی طاقت اس سے نہیں بچ سکتی


-- 
M Wadood Sajid
Editor-in-chief
Inquilab

No comments:

Post a Comment