Search This Blog

Saturday 14 July 2012

روہنگیا مسلمانوں کی آہیں Rohangiya Musalmanon ki Aahein

روہنگیا مسلمانوں کی آہیں

محمد عامل عثمانی۔ مکہ مکرمہ 
-میانمار یا برما میں اپریل کے شروع میں الیکشن ہوا، الیکشن کا گھمسان اڑتالیس سیٹوں پر برسر اقتدار پارٹی اور حزب مخالف سومتی کے امیدواروں کے درمیان ہوا، حزب مخالف کے امیدوار جمہوری نیشنل فرنٹ کی طرف سے رانجوں کے قریب ’’کومو‘‘ حلقے کے لیے اتارے گئے۔ مغرب پرامید ہے کہ یہ الیکشن نومبر2010ء کی قرعہ اندازی کے بعد فوجی برسر اقتدار نظام کے لیے ایک طرح کا امتحان ہے کہ وہ اپنے کو عوامی حکومت کے پیرہن میں پیش کرے، اور یہ کہ وہ کس حد تک سیاسی اصلاحات کے نفاذ میں سنجیدہ ہے، دوسری جانب عالم اسلام میانمار کے مظلوم مسلمانوں کی آہوں اور آنسؤوں سے بالکل بے خبر ہے، میانمار کے مسلمان ملک کی مجموعی آبادی 5کروڑ، 45لاکھ، 84 ہزار کا چار فی صد ہیں جب کہ89 فیصد بودھ مذہب کے ماننے والے ہیں۔ بلاشبہ میانمار میں قانونی حکومت کے قیام کی کوشش یوروپی یونین کے زیر نگرانی ملک پر عائد پابندیوں کوکم کر نے کے لیے ہے، لیکن یہ کوشش ہر گز ان بیس لاکھ مسلمانوں کو نظر انداز کر کے بار آور نہیں ہوسکتی جن کو روہنگیا کا نام دیا گیا ہے جو چند سال سے ملک کو چھوڑنے پر مجبور ہیں اور صفایا و خاتمہ کی مہم سے دو چار ہیں، فوج ان مسلمانوں کو الیکشن میں حصہ لینے ہی سے نہیں روک رہی بلکہ انہیں شہری حقوق سے بھی محروم کر رہی ہے ان مسلمانوں کو وہاں کا نیشنل نہیں سمجھا جاتا ہے اور ان کے پاس پاسپورٹ بھی نہیں ہے اور انہیں اتری راحینی صوبہ سے میانمار کے دوسرے صوبے میں اجازت کے بغیر سفر کرنے کی اجازت بھی نہیں ہوتی، اس کے علاوہ پرسنل لا سے متعلق کارروائی جیسے شادی بیاہ، بچوں کے نام درج کرانے کے سلسلے میں ایسی کڑی شرطیں ہیں جس کی وجہ سے وہ لوگ پڑوسی ملکوں میں ہجرت کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں خاص طور سے بنگلہ دیش جو اکثریتی مسلم ملک ہے، اور ہزاروں لوگ بھارت میں بھی مہاجر کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس ملک کے مسلمانوں کی آہ و بکا اور پریشانیوں کے ساتھ ساتھ ہزارہا ہزار روہنگیا جو بنگلہ دیش میں ہجرت کر کے زندگی بسر کر رہے ہیں یا مہاجرین کے کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں وہ لوگ میانمار میں دوبارہ واپس آنے کے مقابلے میں موت کو ترجیح دیتے ہیں کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہاں موت ان کے انتظار میں کھڑی ہے۔ پناہ گزینوں میں حاجی عبد المطلب ہیں جو میانمار اور بنگلہ دیش کے علاقے میدا میں غیر سرکاری کیمپ میں رہ رہے ہیں ان کا کہنا ہے: میانمار میں فوج مسلم اقلیت مٹانے کے لیے کوشاں ہے، وہ انہیں بلا معاوضہ مشکل کام انجام دینے کے لیے مجبور کرتی ہے، اس کے ساتھ غصب و اغوا و قتل و غارت گری کا بازار پورے ملک میں گرم ہے جیسا کہ رائٹر کی 31 جنوری 2009ء کی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے۔ ایک دوسرے صاحب محمد نور بھی پناہ گزینی کی زندگی گزار رہے تھے وہ کسی طرح تکلیف دہ سفر کرکے انڈونیشیا پہنچے ان کو بلا قصور جیل میں ڈال دیا گیا تھا ان سے میانمار کی فوج کے مفاد میں کام لیا جاتا تھا، وہ مقام سخرہ میں کام کے دوران بے حد تکلیفوں سے گزرے چنانچہ وہ بنگلہ دیش بھاگنے پر مجبور ہوئے پھر وہاں سے انڈونیشیا پہنچے جہاں انڈونیشیا کی سمندری فوج نے پناہ گزینوں کی کشتی ڈوب جانے کے بعد انہیں نکالا۔ محمد نور کی آزمائش یہیں پر ختم نہیں ہوئی۔ محمد نور کہتے ہیں، اگر مجھے میانمار بھیجا گیا تو میں یہاں مر جانے کو ترجیح دونگا کیوں کہ مجھے یقین ہے کہ اگر میں وہاں پہنچا تو وہاں کی فوج مجھے دردناک حالت میں قتل کر دے گی انہوں نے مجھے قید کر رکھا تھا وہ مجھے مارتے تھے اور ادھ مرا کرکے چھوڑتے تھے۔ مسلم اقلیت جن پریشانیوں سے دو چار ہے ہیومن رائٹس نے اپنی سالانہ رپورٹ میں اس کی مذمت کی ہے اور ایک سے زائد بار مطالبہ کیا ہے کہ میانمار کی فوج روہنگیا کے نام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہی ہے اس کی بین الاقوامی تحقیق و تفتیش ہونی چاہیے چنانچہ 13جولائی 2011ء کے بیان میں کہا گیا ہے کہ میانمار حکومت کو عدالت میں پیش ہونا چاہیے کیوں کہ اس نے انسانوں کے ساتھ جانوروں والا معاملہ کیا ہے، برمی فوج قیدیوں پر ظلم کرتی ہے اور ان سے جانوروں والا کام لیتی ہے جن کی اکثریت مسلمان ہے، پھر بغیر کسی فیصلے کے انہیں پھانسی دے دی جاتی ہے اور ٹارچر کیا جاتا ہے اور ڈھال کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ برمی فوج کی شہریوں کے حقوق کی پامالی جس کا تذکرہ ہیومن رائٹس نے اپنی جنوری 2012ء میں شائع ہونے والی رپورٹ میں کیا ہے کہ یہ انسانی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے، وہاں بڑے پیمانے پر لوگوں کے لیے بارودوی سرنگوں کا استعمال، عورتوںکے ساتھ جنسی زیادتی، قتل و غارت گری، مارپیٹ، غذائی سامان کو نشانہ بنانا، زمین و جائداد کو ہڑپ کرنا اور بچوں سے زبردستی کام لینا، جس کی وجہ سے روہنگیا کے پناہ گزینوں کی تعداد بنگلہ دیش کے سرکاری کیمپوں میں (28) اٹھائیس ہزار ہو گئی ہے جب کہ چودہ ہزار لوگ تھائی لینڈ کے غیر سرکاری کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں اور دو لاکھ لوگ میانمار کے سرحدی علاقوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں جو وہاں سے ہندوستان یا سنگاپور میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔ امریکہ کے انسانی معاملات کو منظم کر نے والے ایک ادارے کے آفس نے23جنوری 2012ء کو یہ رپورٹ شائع کی ہے کہ روہینجیا کے چالیس ہزار بچوں کا نام درج نہیں کیا جا سکا ہے ان کڑی شرطوں کی وجہ سے جو وہاں کی اقلیت پر عائد ہیں اس میں سے ایک پابندی یہ ہے کہ دو سے زائد بچے نہ ہوں اور بیبیوں کے نام بھی نوٹ نہیں کیے جاتے ان شرطوں کی خلاف ورزی ایسا جرم ہے کہ جس کی سزا دس سال قید با مشقت ہے، 1982ء میں جاری شدہ میانمار حکومت کے قانون کے مطابق روہنگیا مسلمانوں کے تمام بچے خواہ نام نوٹ کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو برمی نہیں سمجھے جائیں گے انہیں غذا خورو نوش، صحت کی سہولتیں اور تعلیم کے مواقع فراہم نہ ہوں گے، اور انہیں فوج کے مفاد والے مشکل کاموں میں استعمال کیا جائے گا۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ انسانی حقوق کی محافظ تنظیموں کی رپورٹوں اور امریکن پناہ گزیں لوگوں کے حالات کو منظم کرنے والی تنظیموں کی مذمتوں کا دنیا کے بڑے ملکوں خاص طور سے ایشیا کے بڑے ملکوں پر کچھ بھی اثر نہیں ہو رہا ہے، جس کی واضح مثال یہ ہے کہ ایشیائی کانفرنس جو انڈونیشیا میں اپریل 2009ء میں میانمار کی اقلیت کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے منعقد کی گئی تھی وہ ناکام ہوئی تھی اس طرح ایشیائی ملکوں کے کھاتے میں ایک اور ناکام کانفرنس کا اضافہ ہوگیا جو میانمار کی اقلیت کی پریشانیوں میں تخفیف و کمی اور صوبائی حل پیش کرنے کے لیے منعقد کی گئی تھی، ناکامی کی حد تک معاملہ نہیں رہا بلکہ اب معاملہ بہت آگے بڑھ گیا ہے کہ چین میانمار کی اتھارٹی کو سیاسی و دینی تعاون پیش کر رہا ہے جس کی وجہ سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی روز بروز بڑھ رہی ہے، چین نے 22 فروری 2012ء کو ایک دستاویز پر دستخط کیے ہیں جو میانمار میں موجود بودھ مذہب والوں کی تقویت اور ان کے اثر ورسوخ کو بڑھانے کے لیے لینع قوانع بکین اور میانمار کے معبدوں کے درمیان دوستانہ تعلقات قائم کرنے کے لیے تیار کی گئی ہے، اور چین نے اسکول قائم کرنے اور طبی امداد دینے کے لیے فنڈ فراہم کیا ہے، جب کہ مسلم ممالک اس مظلوم اقلیت کے ساتھ کسی طرح کا تعاون کرنے سے قاصر ہیں، اسلامی تنظیم کے رکن ممالک اس اقدام کو نافذ کرنے کے لیے ذرائع و وسائل ڈھونڈ رہے ہیں جو مئی 2011ء میں سامنے آیا تھا جس اقدام کا مقصد یہ تھا کہ دوسرے ملکوں میں رہائش پذیر روہنگیا لوگوں کو متحد کیا جائے، اور اس اقلیت کے جائز مطالبات کا ایک منظم ڈھانچہ مرتب کیا جائے اور بین الاقوامی تنظیموں جیسے اسلامی کنوینشن تنظیم، امریکن تنظیم اور یورپی انجمن کو مسلمانوں کو جائز حقوق دلانے کے لیے آمادہ کیا جائے لیکن میانمار حکومت کی ملک میں اصلاحات کی کوششیں نا کام ہوگئیںجب کہ اس نے بہت سے سیاسی قیدیوں کو رہا کیا اور وہاں کی بعض جماعتوں جیسے کاربن شان، تشین اور کوکانج سے امن و سلامتی کے معاہدے پر دستخط بھی کیے، اور دوسری طرف مسلسل اپنے ان شہریوں کا صفایا اور خاتمہ کیا جن کا صرف اور صرف یہ قصور ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔ کونسا قانون ان کو یہ سزا دینے کا جواز فراہم کر تاہے۔ کیا ان حالات میں سیاسی اصلاحات ممکن ہیں؟

No comments:

Post a Comment