مصر: منتخب صدر کے خلاف فوجی جنتا اور عدلیہ کا گٹھ جوڑ
پروفیسر شمیم اختر
30 جون کو مصر کے منتخب صدر نے اپنے عہدے کا حلف اٹھاتے ہوئے شہری آزادی اور جمہوریت کی بحالی کا عہد کیا تھا، ساتھ ہی فوج کو ملک کی سرحدوں کی حفاظت پر توجہ دینے کی ہدایت کی تھی (ڈان یکم جولائی 2012ئ)۔ لیکن عدلیہ اور فوجی جنتا نے انتخابی عمل کے آغاز سے ہی قدم قدم پر جمہوریت کی بحالی کی مزاحمت کرنی شروع کردی تھی۔ 10 اپریل کو پارلیمان کی منتخب کردہ 100 رکنی دستور ساز کمیٹی کو قاہرہ کی انتظامی عدالت نے کالعدم قرار دے کر اس معاملے کو عدالتِ عظمیٰ کے حوالے کردیا تھا، جب کہ انتخابی کمیٹی نے الحریہ والعدالہ (اخوان) اور النور (سلفی) کے صدارتی امیدواروں خیرت الشاطر اور حازم صلاح ابو اسمٰعیل کو نااہل، جب کہ اخوان کے منحرف امیدوار عبدالمنعم ابوالفتوح اور حسنی مبارک کی کابینہ کے وزیر عمرو موسیٰ اور اس کے سب سے آخری وزیراعظم جنرل احمد شفیق کو اہل قرار دے دیا۔ لیکن اخوان نے بڑے صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے اپنی توجہ انتخاب پر مرکوز کردی، جب کہ مصر کے سرکاری، امریکی اور اسرائیلی ذرائع اخوان اور اسلام کے خلاف مسموم پروپیگنڈہ کرتے رہے، لیکن ان سب رکاوٹوں کے باوجود مرحلہ وار انتخاب میں اخوان کے نمائندے ڈاکٹر محمد مرسی نے 51.73 فیصد ووٹ حاصل کر کے فوجی جنتا کے امیدوار احمد شفیق کو شکست دے دی۔ اسے 48.27 فیصد ووٹ مل سکے۔ لیکن جب صدارتی انتخاب کا آخری مرحلہ باقی تھا تو 15 جون کو فوجی جنتا کی تابع مصر کی عدلیہ نے 498 رکنی پارلیمان کے انتخاب کو کالعدم قرار دے کر اس کی تحلیل کا فیصلہ صادر کردیا۔ اس کا سہارا لیتے ہوئے فوجی جنتا نے جو 11 فروری کو ہی حسنی مبارک سے سارے اقتدار لے چکی تھی، پانچ فرامین (Decrees) کا اجراء کردیا جن کی رو سے مذکورہ پارلیمان توڑ دی گئی اور دستور سازی کا کام فوجی کونسل کو سونپ دیا گیا۔ مسلح افواج کو شہریوں کو گرفتار کرنے کے اختیارات دے دیے گئے۔ اور ایک ادارہ Secreteriat قائم کردیا گیا جس نے صدر کے اختیارات میں تخفیف کردی اور فوجی افسران پر مشتمل اعلیٰ دفاعی کونسل تشکیل دے دی گئی (ڈان 30 جون 2012ئ)۔ عوام میں اس کا شدید ردعمل ہوا، تاہم اخوان نے نظم و ضبط قائم رکھا۔ حیرت ہے کہ ایسے فسطائی اقدامات پر مغرب میں تقدیسِ جمہوریت کے ثناء خواں اور انسانی حقوق کے علم بردار خاموش تماشائی بنے رہے، جب کہ شام میں بشارالاسد کی شخصی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے باغیوں کو رقوم، اسلحہ اور سفارتی امداد فراہم کرتے رہے۔ گو یہ دوہرا معیار ہی سہی اور ان کی نیت کچھ بھی ہو، لیکن اس کے باوجود ہم امریکہ، فرانس، برطانیہ اور ترکی کے مؤقف کی حمایت کرتے ہیں، لیکن ان سے سوال کرتے ہیں کہ وہ منتخب پارلیمان کے خلاف فوجی جنتا کے اقدام کی مذمت کیوں نہیں کرتے؟ کیونکہ ان کے اس دوغلے پن کی وجہ سے شام کے بارے میں اُن کا مؤقف قانونی اور اخلاقی طور پر کمزور پڑجائے گا۔ جب فوجی جنتا اپنی حدود سے تجاوز کرکے حسنی مبارک کے نقشِ قدم پر چل پڑی تو تحریر چوک سے ملک کے طول و عرض میں برپا ہونے والی عوامی تحریک کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ جب پانی سر سے اونچا ہونے لگا تو ڈاکٹر محمد مرسی نے 8 جولائی کو جرأت مندانہ اقدام کرکے پارلیمان تحلیل کرنے کے فوجی جنتا کے تابع عدلیہ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا اور پارلیمان کی بحالی اور دستور سازی کے احکامات صادر کردیے۔ پارلیمان کے تیار کردہ مسودۂ آئین کو رائے شماری کے دو ماہ بعد پارلیمان کے انتخاب کے انعقاد اور اس کے ضوابط وضع کرنے کی ہدایت کردی (ڈان 9 جولائی 2012ئ)۔ اس کے بعد پارلیمان کا اجلاس پانچ منٹ تک جاری رہا جس میں اسپیکر سعد الکتاتنی نے اعلان کیا کہ ایوان کا اجلاس عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر نظرثانی کے لیے طلب کیا گیا ہے۔ اس عدالت کے فیصلے کی خلاف ورزی مقصود نہیں ہے بلکہ اس پر عملدرآمد کے طریقہ کار پر غوروخوض کے لیے منعقد کیا گیا ہے (اسلام 11 فروری 2012ئ)۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اخوان فوج سے تصادم نہیں چاہتی بلکہ جمہوریت کی بقا کی خاطر افہام و تفہیم کے ذریعے کوئی درمیانی راہ نکالنا چاہتی ہے۔ ادھر فوجی کونسل نے اعلان کیا ہے کہ وہ عدلیہ کے فیصلے کا ہر حال میں نفاذ چاہتی ہے اور اسے یقین ہے کہ تمام ریاستی ادارے آئین اور قانون کا احترام کریں گے۔ (اسلام 10 جولائی 2012ئ) فوج کے انتباہ کے بعد عوام پھر تحریر چوک پر جمع ہونا شروع ہوگئے ہیں جب کہ اخوان مخالف جماعتوں نے صدر ڈاکٹر محمد مرسی کے مؤقف کی حمایت کی ہے۔ (اسلام 10 جولائی 2012ئ) اب اس میں کوئی شک و شبہ نہیں رہا کہ فوج اور عدلیہ نے عوام کے منتخب نمائندوں کو اقتدار کی منتقلی روکنے کے لیے یہ کھیل کھیلا ہے جو عام بغاوت اور خوں ریزی کا موجب بنے گا۔ جہاں تک عدلیہ کے فیصلوں کے احترام کا تعلق ہے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتیں، لیکن عدلیہ اُس وقت تک قابلِ احترام ہے جب تک وہ آزاد ہو، لیکن اگر وہ انتظامیہ کی ماتحت ہو تو وہ سرے سے عدلیہ ہی نہیں ہے، احترام تو دور کی بات ہے۔ اب اس تناظر میں مصر کی عدلیہ کا جائزہ لیا جائے تو یہ امر مسلّم ہے کہ سابق آمر حسنی مبارک نے 11 فروری کو اقتدار فوج کی اعلیٰ کونسل SCAF کو سونپ دیا تھا۔ چنانچہ اس وقت سے ملک پر فوجی حکومت قائم ہے، جب کہ صدارتی انتخاب کے دوسرے مرحلے پر فوج نے صدر کے اختیارات بھی غصب کرلیے اور جنرلوں پر مشتمل دفاعی کونسل کو ملک پر مسلط کردیا اور ایک فوجی جنرل کو وزیردفاع بھی نامزد کردیا۔ کیا اب بھی اس بات میں کوئی شک رہ گیا ہے کہ اس وقت سارے ملک پر فوج کا راج ہے؟ اس نظام میں عدلیہ کے کیا اختیارات رہ جاتے ہیں؟ یہ قانون کا اٹل اصول ہے کہ فوجی ضوابط کے نفاذ پر شہریوں کے بنیادی حقوق اور عدلیہ کے اختیارات معرضِ تعطل میں پڑجاتے ہیں۔ اسے قانون کی حکمرانی نہیں بلکہ جنگل کا قانون تصور کیا جاتا ہے۔ مصر کی فوجی جنتا پر اوباما، کیمرون اور Francois Hollande کیوں خاموش ہیں؟ ان کی جمہوریت نوازی کہاں مر گئی؟ اب میں اوباما سے سوال کرتا ہوں کہ اگر وہ نومبر کے صدارتی انتخاب میں رو پیٹ کر جیت جاتا ہے لیکن امریکی فوج کا سربراہ ایک فرمان کے ذریعے صدر کے اختیارات اپنے ہاتھ میں اس بناء پر لے لے کہ وہ کسی کالے کو ملک کے سیاہ و سپید کا مالک نہیں بنا سکتے کیونکہ وہ ملک کا وفادار نہیں ہوسکتا۔ یہی نہیں بلکہ وہ فوجی سینیٹ اور ایوانِ نمائندگان کو تحلیل کردیتا ہے اور امریکہ کی عدالت عظمیٰ ان اقدامات کو ملک کی سلامتی کے لیے ضروری سمجھتی ہے تو کیا وہ عدلیہ کے فیصلے کو مانے گا؟ پھر وہ یہ کیوں سمجھتا ہے کہ مصری قوم جس کی 71 فیصد تعداد خواندہ ہے ایسے کالے قانون اور ایسی ’’ڈوگر کورٹ‘‘ کو مان لے گی؟ امریکہ کا حکمران طبقہ اپنے ملک میں جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کی حمایت کرتا ہے لیکن افرایشیائی لاطینی امریکی ریاستوں میں جابر، جلاد، ظالم، آدم خور حکمران دیکھنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تیونس میں زین العابدین بن علی، مصر میں حسین طنطاوی، الجزائر میں بوتفلکہ اور سعودی عرب میں موروثی ملوکیت کی سرپرستی کرتا رہا ہے تاکہ ان پٹھوئوں کی مدد سے ان ممالک کے قدرتی وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹے کھسوٹے اور ان کی لوٹی ہوئی دولت کو اپنی تجوریوں میں بھرے۔ یہ مصریوں کی غلطی تھی کہ حسنی مبارک کے اقتدار سے دست بردار ہونے کو انقلاب سمجھ بیٹھے اور تحریر چوک خالی کردیا۔ انہیں اس وقت تک اپنی جدوجہد جاری رکھنی چاہیے تھی جب تک کہ اقتدار امریکہ کی تابعدار مصری فوج سے عوام کو منتقل نہ ہوجاتا۔ 11 فروری کو یہ تبدیلی آئی کہ ایک قریب المرگ آمر کی جگہ تازہ دم ہتھیار بند فوجی ٹولہ برسراقتدار آگیا۔ حسین طنطاوی نے کس آئین کے تحت صدارتی انتخاب کے دوران صدر کے اختیارات سلب کرلیے اور آئین سازی کی ذمہ داری سنبھال لی؟ پھر تو فوج اور مقننہ میں کوئی فرق ہی نہ رہا۔ یہ کس قدر مضحکہ خیز بات ہے کہ فوجی چھائونی میں دستور، قانون، ضابطے، ترقیاتی منصوبے، داخلی اور خارجہ پالیسیاں وضع کی جائیں اور ملک کا دفاع بھی کیا جائے! دراصل مصر میں فوج 60 سال سے ہر شعبہ پر اجارہ داری قائم کیے ہوئے ہے۔ وہ کاروبار اور صنعتی شعبوں پر بھی حاوی ہے۔ اس کے مالی وسائل سول حکومت سے کہیں زیادہ ہیں۔ پھر اس کی سرپرستی امریکہ کرتا ہے، جب کہ اس کی حلیف اسرائیلی فوج ہے۔ امریکی سی آئی اے اور موساد مصر کی ایجنسیوں کے ساتھ مل کر جمہوریت پسند عناصر کی تطہیر کرتی رہی ہیں۔ جس دن ان کا احتساب ہوا ایسے ایسے انکشافات منظرعام پر آئیں گے کہ جن کا تصور محال ہے۔ اگر مصر کو فوج کی غلامی سے آزاد کرانا ہے تو اس کے لیے اخوان سمیت ملک کی ساری سیاسی قوتوں کو متحد ہوکر جدوجہد کرنی ہوگی۔
No comments:
Post a Comment