Search This Blog

Tuesday 31 July 2012

فرقہ وارانہ دنگے . کامریڈ کرشن دیوسیٹھی

فرقہ وارانہ دنگے
لڑ ائی میں جھگڑ ے میں کن کی بڑا ئی؟


نسل ، قومیت، کلیسا، سلطنت، تہذیب و رنگ
خواجگی نے خو ب چن چن کر بنائے مسکرات
                                    (اقبال)
گزشتہ دنوں اُترپردیش کے شہر بریلی ، فیض آباد اورآسام کے علاقہ کھوکھرا جھار سے فرقہ وارانہ دنگوں اور بلوئوں کی افسوس ناک اطلاعات آئیں۔ بعض عناصر ان المناک واقعات کو محض مقامی چپقلش قرار دے کر ان سے مفت میں دامن چھڑانے کی کوشش کر رہے ہیںلیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ دنگے فسادات والے واقعات پیش خاصہ ہیں آنے والے حالات کا اور یہ بلوے خود غرض اور مفاد خصوصی رکھنے والے عناصر کی کارستانیاں ہیں جو مظلوم اورمفلوک الحال عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹا کر فرقہ وارانہ ماحول خراب کرنے کے در پے ہیں۔
 فرقہ وارانہ دنگے اورفسادات قابل مذمت ہیں اور سرکار کی طرف سے انہیں روکنے اور انسدادی تدابیر اختیار کرنے کی فوری ضرورت ہے لیکن ان دنگوں اور فسادات کی اصل وجوہات کو سمجھنا اور ا س کے محرکین کو جاننابھی اشد ضروری ہے۔
ہم نے متعدد بار متعلقین کو منتبہ کیا ہے کہ لٹیرے حکمران طبقے اور ان کی نمائندہ پارلیمانی پارٹیاں عوام کی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹانے اور حصول اقتدار کی خاطر نہ صرف فرقہ وارانہ مناقشات ہی پید ا کریںگی بلکہ فرقہ وارانہ دنگے فسادات بھی کروائیں گی۔ چنانچہ  ایسا دکھائی دیتاہے کہ اس آ زمودہ تخریبی حکمت عملی پر عملدرآمد شروع ہوگیاہے۔ حال ہی میں اترپردیش میں زبردست فرقہ وارانہ دنگے فسادات اسی سلسلے کی کڑ ی ہیں۔ اگرچہ ان فسادات اور دنگوں کی فوری وجہ معمولی قسم کے ا شتعال انگیز انہ واقعات بتائے جاتے ہیں لیکن غور سے دیکھا جائے تویہ فسادات پیش خیمہ ہیں مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کا۔ لہٰذاان واقعات کو مقامی اور معمولی واقعات سمجھ کر نظرانداز نہیں کیا جاناچاہیے اور یہ بخوبی سمجھ لینا چاہیے کہ لٹیرے حکمران طبقے بحیثیت مجموعی عوامی بے چینی کا رُخ موڑنے اوران طبقوںکی نمائندہ پارلیمانی سیاسی پارٹیاں انتخابی اغراض کی تکمیل کے لئے پورے ملک میں اس قسم کے واقعات رونما کرواسکتے ہیں۔
غور سے دیکھئے توواضح ہوجاتاہے کہ خواہ موجودہ حکمران اتحاد ’’یونائٹیڈ پروگریسو الائنس‘‘ کی پارٹیاں کتنی ہی فارغ البالی کے گیت گائیں یا سابقہ حکمران ’’نیشنل ڈیمو کریٹک الأینس‘‘ سے جڑ ی پارٹیاں ’’خوشحال ، درخشاں اور چمکتے ہندوستان‘‘ کا راگ الا پیں، حقیقتاً ملک سیاسی ومعاشی بحران کا شکار ہے۔ ملک مکمل طورپر سامراج ،گماشتہ سرمایہ داری اور لٹیرے زمینداروں اور جاگیرداروں کی دسترس میںہے۔ قومی دولت کا غالب حصہ ان کی تجوریوں میںجمع ہورہاہے اور غریب و متوسط اورمحنت کش طبقے انتہائی کسمپرسی کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ ملک کی کثیر آبادی غربت کی حد سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور کردی گئی ہے۔بڑھتی ہوئی مسلسل مہنگائی اور گرانی نے عوام کاجینا ہی دو بھر ہی نہیں کیا ہوا ہے بلکہ ان کیلئے روح اور جسم کاتعلق قائم ودائم رکھنا مشکل بنادیاہے۔ عوام کی اکثریت کو پیٹ بھر کر دو وقت کاکھانا بھی میسر نہیںہے ، جسم ڈھانپنے کو کپڑا دستیاب نہیں ہے، سر چھپانے کے لئے جھونپڑی تک میسر نہیں ہے، بچے، بوڑھے ، نوجوان ،مستورات اور مرد بلا علاج موت کے منہ میں داخل ہورہے ہیں، جہات اور لاعلمی نے ڈیرا ڈال رکھاہے ، رشوت اور بھرشٹا چار کا بازار گرم ہے جس سے عوام میںزبردست بے چینی پائی جاتی ہے اور وہ آمادئہ بغاوت نظرآتے ہیں۔ لٹیرے حکمران طبقے لوٹ کھسوٹ بے شک مچائے ہوئے ہیںلیکن وہ خوفزدہ بھی ہیں کہ عوام کواس صورت حال کی اصل وجہ سمجھ میںآگئی اور انہوں نے مصائب سے خلاصی حاصل کرنے کا درست راستہ اپنا لیاتو لٹیرے طبقوں کی خیر نہیں ہے۔اس لئے ان طبقوں کے نظریہ دانوں اور ترجمانوں نے عوام کی توجہ اس صورت حال کے حقیقی پہلوئوں سے ہٹانے اور درست سمت اختیار کرنے سے روکنے کے لئے شعوری طورپر اپنے زر خرید ایجنٹوںکے ذریعہ فرقہ وارانہ اور زات برادری کے مناقشات پیدا کرنے اور انہیںہوا دے کر فرقہ وارانہ دنگے فسادات برپارکرنے کا منصوبہ بنارکھاہے۔ انہوں نے ’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کے اپنے برطانوی آقائوں کے اصول پر عمل کرنے کی مکمل منصوبہ بندی شروع کررکھی ہے۔ حالیہ فسادات کی نوعیت مقامی ہرگز نہیں ہے بلکہ وہ جزو ہے اس جا رحا نہ حکمت عملی کا جو لٹیرے حکمران طبقوں نے عوام کی تووجہ اصل مسائل سے ہٹانے کے لئے فرقہ وارانہ دنگے فسادات برپا کرنے کی مرتب کررکھی ہے۔ یہ امر اچھی طرح ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے۔ محض میڈیا کے پراپیگنڈا سے متاثر ہوکر ان واقعات کومقامی اورانتظامیہ قراردے کر ہر گز نظرانداز نہیںکیا جاسکتا۔
 علاوہ ازیں حصول اقتدار کی جنگ میں لٹیرے حکمران طبقوں کی پارلیمانی پارٹیوں نے بھی اپنا ووٹ بنک مضبوط کرنے کیلئے فرقہ واریت کو ہوادینے کا منصوبہ بنارکھاہے۔ بے شک بھارتیہ جنتاپارٹی اس سلسلہ میں پیش پیش ہے اور اس نے راشٹریہ سوئم سنگھ ، وشو ہندو پرشید، بجرنگ دل وغیرہ کے ذریعہ ’’ہندوتو‘‘ کے نام پر فرقہ روارانہ جذبات برانگیختہ کرنے میںکوئی وقیقہ فروگزاشت نہیں کیا ہے لیکن دیگر پارلیمانی پارٹیاں بھی اس سلسلہ میں برائے راست یابالواسطہ طورپر فرقہ واریت کا زہر پھیلانے میں ہرگز پیچھے نہیں ہیں۔ اگربھارتیہ جنتاپارٹی گرم ’’ہندوتو‘‘ کے ذریعہ اپنا ووٹ بنک مضبوط کرنے کے لئے کوشاں ہے تو کانگریس پارٹی نے بھی ’’نرم ہندوتو‘‘ کا موقف ا ختیار کررکھاہے اور اقلیتی ووٹ حاصل کرنے کے لئے اقلیتی فرقہ پرستی کو ہوا دے رہی ہے۔ دیگر پارلیمانی پارٹیوں کو بھی یہی حال ہے۔ اس لئے موجودہ جیسے دنگوں کے لئے ووٹ بنک کی سیاست بھی بہت حد تک ذمہ دار ہے۔ یہ امر بھی ذہین نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ بھارتیہ جنتاپارٹی نے توکھلم فرقہ واریت کا موقف اختیار کررکھاہے لیکن ملک کا کوئی قانون ، ضابطہ، الیکشن کمیشن، سپریم کورٹ یا کوئی ااور ادارہ اس کے ان مکردہ عزائم کوروکنے سے قاصر ہیں۔ اس صورت حال میں فرقہ وارانہ جنون کے بڑھنے کا مزید امکان ہے اور پارلیمانی سیاسی پارٹیاں اس کے لئے کلیتاً ذمہ دارہیں۔
بے شک اکثریتی فرقہ پرستی انتہائی خطرناک ہے جس کا اولاً مقابلہ کیا جانا چاہیے لیکن رد عمل کے طورپر اقلیتی فرقوں میںپائی جانے والی فرقہ وار انہ ذ ہنیت کوبھی نظرانداز نہیںکیا جاسکتا۔ اکثریتی فرقہ کی فرقہ پرستی کے مقابلہ کے نام پر اقلیتی فرقوں میں فرقہ پرستی کا زہر پھیل رہاہے۔ذی غرض افرادسیاسی اور پارلیمانی اغراض کے لئے باقاعدہ طور فرقہ وارنہ  کے میدان میںصف آائی ااور محاذ آرائی کی پالیسی پر گامزن ہیں جس سے فرقہ وارانہ تنائو اورکشیدگی میں زبردست اضافہ ہواہے۔
 تجربہ گواہ ہے کہ ایک طرف کی فرقہ پرستی دوسری طرف فرقہ پرستی کی تقویت پہنچاتی ہے۔ دونوں طرح کی فرقہ پرستیاں اصل میں جڑواں بہنیں ہیں۔ آج تک ایک طرح کی فرقہ پرستی نے دوسری طرح کی فرقہ پرستی کو طاقت ہی عطا کی ہے، اس کا انسداد نہیںکیا ہے۔ اس لئے اکثریتی فرقہ کی فرقہ پرستی اور اقلیتی پرستی دونوں لعنت ہیں۔ دونوں لوٹ کھسوٹ کرنے والے حکمران طبقوں اور فرقہ پرستی کے سوداگر پارلیمانی گروہوں کے مفادات اور اغراض کو پورا کررہی ہیں۔ اس لئے دونوں طرح کی فرقہ پرستی کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ بے شک کوئی زیادہ ضرر رساں ہویا کوئی کم ضر ررساںلیکن ہیں تودونوں ضرر رساں۔ اور دونوں لٹیرے حکمران طبقوں اور ان کی نمائندہ پارلیمانی پارٹیوں کی اغراض کو پورا کرتی ہیں۔
کچھ بھدر پرش اور نیک دل انسان محض اپدیشوں اور واعظوں سے فرقہ پرستی کا ختم کرکے فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور یگانگت قائم کرنے کے خواہاں ہیں اور محض امن کمیٹیاں قائم کرکے فرقہ وارانہ میل ملاپ بڑھانے کے متمنی ہیں۔ ان کا جذبہ تو بلا شک نیک ہے اور انہیں ایسا کرنے کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہے لیکن محض اس طریقہ سے فرقہ پرستی اور فرقہ واریت کاانسداد نہیںکیا جاسکتا۔ اس مقصد کے حصول کے لئے سائنٹفک طریقہ کار اور لائحہ عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ بے لوث، مخلص، قربانی، مجسم ، دیانتدار اور صاف ذہن کے سیاسی کارکنوں کوآگے آنا چاہیے اور عوام کو مہنگائی ، بھوک، افلاس، بے روزگاری، رشوت ، بھرشٹاچار ، کنبہ پروری ، بدعنوانیوں، بے ضابطگیوں ، بے قاعدگیوںکے مسائل پر منظم کرکے مشترکہ جدوجہدیں شرو ع کرنی چاہیں۔ ان جدوجہدوں کے دوران مختلف فرقوں اور برداریوں کے درمیان جو اتحاد پیدا ہوگا وہ دائمی اور دیرپا بھی ہوگا اور لٹیرے حکمران طبقوںاوران کی نمائندہ پارلیمانی سیاسی پارٹیوں کی طرف سے شاطرانہ طریقہ سے پھیلائی جانے والی فرقہ واریت کامقابلہ بھی کرسکے گااور مصائب سے نجات دلانے کاموجب بھی بن سکے گا۔
اس موقعہ پر یہ امر ذہن نشین کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ ملک میں سامراج ، گماشتہ سرمایہ داری اور لینڈ لارڈ ازم کے مشترکہ اتحاد کا ثلاثہ کی حکومت ہے۔یہ تینوں لٹیرے طبقے طبقاتی لحاظ سے برسر اقتدار ہیں۔ موجودہ پارلیمانی سبھی پارٹیاں ان تینوں طبقوں کی ہی نمائندہ ہیںاور ان تینوں طبقوںکے مفادات کی نگہبان اورمحافظ ہیں۔ ان میں سے کوئی پارٹی یا پارٹیوں کا استحصال بھی جاری رہے گا۔ جب تک ان طبقوں کی لوٹ کھسوٹ جاری رہے گی اورمحنت کش عوام کا استحصال بھی جاری رہے گا، جب تک ان طبقوں کا اقتدار ختم ہوکر عوامی جمہوریت قائم نہیںہوتی تب تک عوام لوٹ کھسوٹ سے نجات حاصل نہیں کرسکتے۔ موجودہ پارلیمانی نظام کے متعلق ابہامات پیدا کرکے لٹیرے حکمران طبقے محنت کش عوام کو گمراہ کررہے ہیں۔ عوام کی نجات کے لئے موجودہ لٹیرے نظام کا خاتمہ شرط اول ہے۔
پارلیمانی ابہامات کے علاوہ لٹیرے حکمران طبقے اور ان کی نمائندہ پارلیمانی پارٹیاں عوام میں نفاق منافرت اورجھگڑے پیدا کرکے لٹیرے نظام کی عمر میںاضافہ کر نے کا رْص نیم بسمل کررہے ہیںاور عوام کو اس نظام کے خاتمہ کی جدوجہد سے توجہ ہٹارہے ہیں۔ فرقہ واریت، فرقہ پرستی اورفرقہ وارانہ بنیادوں پردنگے اور فسادات دراصل لٹیرے طبقوں کے ہاتھ ایک شاطرانہ ہتھیار ہے جس کوکند کرنا محنت کش عوام کے لئے لازمی بن گیاہے۔ برطانوی اقتدار بھی عوام میں تقسیم در تقسیم کرکے اس ملک پر طویل مدت تک قابض رہاہے اور اب دیسی لٹیرے حکمران اوران کی سرپرست سامراجی بھی وہی حربہ بروئے کار لاکر اپنے اقتدار کی مدت میںاضافہ کررہے ہیں۔
 اندریں حالات محنت کش عوام کے لئے لازم ہے کہ اس نظام کے مکمل خاتمہ کے لئے بھی اور روزمرہ کے مصائب اور مشکلات کے خاتمہ کے لئے بھی متحدہوکر جدوجہد کریں۔ اس جدوجہد کے دوران جو اتحاد پیدا ہواگااسی سے فرقہ واریت کابھی خاتمہ ہوگانیز مشکلات ومصائب کا بھی ازالہ ہوگا۔ اس نظام کے خاتمہ میں ہی نجات اور فرقہ وارانہ اتحاد دنوں کا عمل کارفرماہے اور یہ دونوں لازم وملزوم ہیں۔ اس لئے عوام کوا س نظام کے خلاف متحد ہ جدوجہد کرکے اس نظام کا خاتمہ کرکے فرقہ وارانہ یگانگت قائم کرنی چاہیے۔
krishandevsethi@gmail.com 

No comments:

Post a Comment