راجیش کھنہ کے لیے آنسو‘برمایں مسلمانوں کے قتل عام پرخاموشی!
-خدارامیڈیاکو ایسا مت بنادو کہ لوگ ہم سے نفرت کرنے لگیں‘ ہمیں گالیاں دیں اورہمارے گریبانوں کو پکڑلیں۔ ریٹنگ اورپیسہ کے چکرمیں ہمیں اپنے آپ کو اتنانہیں گرانا چاہیے کہ اپنے دین کو ہی مذاق بنادیں اور ایسے کام کریں جو اللہ اور اللہ کے رسولؐ کی تعلیمات کے برخلاف اورکھلی ٹکرکے مترادف ہوں۔ آگے کیاکسرباقی تھی کہ ایک آزاد خیال اداکارہ سے متعلق خبرملی کہ وہ رمضان المبارک کے دوران رزانہ مذہبی پروگرام پیش کرے گی۔ پہلے تو یقین نہ آیا۔میںسوچتا رہا کہ یہ کیسے ممکن ہوسکتاہے۔ رمضان کے بابرکت مہینے میں تو اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رحمتوں سے نوازنے کا موقع دیتاہے مگر ہم ہیں کہ اس بات پر تلے بیٹھے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کے قہرکو دعوت دیں۔ نجانے اس پروگرام کا مقصدکیاتھا مگر کسی طوربھی اس مقدس مہینے میں ایک ایسی عورت کو روزہ داروں کے سامنے پیش کرنا جس نے پوری دنیا میں مسلمانوں اور پاکستانیوں کو اپنی فحاشی وعریانیت کی وجہ سے بدنام کیا‘ ایک انتہائی گھنائونا فعل ہوتا۔ اب اطلاع ملی ہے کہ عوامی ردعمل کے بعد مذکورہ پروگرام کو روک دیاگیاہے۔اللہ کرے ایسا ہی ہومگر اس واقعہ نے میڈیا کی مادر پدر آزادی‘ معاشرے میں بڑھتی ہوئی فحاشی وعریانیت میں اس کے کرداراورمتعلقہ محکموں کی نااہلی کو ایک بارپھرثابت کردیاہے۔ میڈیا کے ایک کارکن کی حیثیت سے مجھے اس بات کا یقین ہے کہ میڈیا خود اپنے آپ کو ریگولیٹ نہیں کرسکتا بلکہ اس کو ریگولیٹ کرنے کے لیے ایک آزاد اور خود مختار ادارے کی ضرورت ہے۔ اگرمیڈیا خود ذمہ دارنہیں تو اس کا کیا مطلب ہے کہ لوگوں کو میڈیا کے رحم وکرم پر چھوڑدیاجائے؟ کیا ریاست کی کوئی ذمہ داری نہیں؟رمضان سے چند روز قبل ایک ہندوستانی اداکارکی موت واقع ہوئی تو ہمارے میڈیا نے آسمان سرپراٹھالیا کہ نہ جانے کوئی کتنا بڑا شخص ہم سے جداہوگیا۔ راجیش کھنہ ہندوستان کا رہنے والا اس کا ہندومذہب سے تعلق اس کی ساری زندگی اور اس کی پہچان ناچ گانا رہی۔ گویا نہ کچھ اس نے مسلمانوں کے لیے کیا نہ پاکستان کے لیے مگر اس کے باوجود اس کے لیے ہمارے میڈیا نے گھنٹوں صرف کردیے۔ کہاں پیداہوا‘ کیا کیاکارنامے کیے‘ کتن بچے تھے‘ کتنی شادیاں کیں‘ کس کس فلم میں کام کیا‘ کون کون سے گانے گائے اور نہ جانے کیاکچھ۔ اس میڈیا سرکس میں کسی کو یہ تو توفیق نہ ہوئی کہ دیکھنے والوں کو یہ بھی بتادیتے کہ مرنے والے ’’ہیرو‘‘ نے ہمارے لیے کیاکیا۔ خیراس کی تومجھے توقع ہی نہیں کہ ایسے ’’ہیرو‘‘کے مرنے پرہمارامیڈیا کبھی اسلامی نقطہ نظربھی پیش کرے گا کہ اللہ کے دین کی نظرمیں ایسے ’’ہیروز‘‘ کی کیاحیثیت ہے‘ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا آخرت میں کیاوعدہ ہے اورکیا مسلمانوں کے لیے ایسے ’’ہیروز‘‘ کسی بھی لحاظ سے قابل تقلید ہوسکتے ہیں۔ مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اسلام کو بھلابیٹھیے۔ اگرایسا نہ ہوتا تو گھنٹوں راجیش کھنہ کو’’ہیرو‘‘ بناکر پیش کرنے والے برما میں مسلمانوں کے قتل وغارت پربھی کچھ نہ کچھ دکھادیتے ۔ بین الاقوامی میڈیا کو تومسلمانوں کے اس قتل وغارت پرخاموش رہنا ہی تھا مگر پاکستان کے میڈیا میں اس موضوع پرکیوں خاموشی طاری ہے۔ زرداری حکومت اور دفترخارجہ اس ظلم پرکیوں چپ سادھے بیٹھے ہیں ؟ شرم کی بات تو یہ ہے کہ ہم تو اس مسئلہ پرخاموش ہیں مگر ایمنسٹی انٹرنیشنل نے برمامیں مسلمانوں کے قتل عام پر اپنی آواز بلندکی ہے۔ ہم مسلمانوں کا توالمیہ یہ ہوچکاکہ ہم قومیتوں میں تقسیم ہوچکے جبکہ مسلم امہ کی سوچ کو مکمل طورپر ختم کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔اسلام دشمنوں کی سازش سے پہلے ہی مسلمانوں کو پاکستانی ‘ایرانی‘ افغانی‘ ترکی‘ کویتی‘ عراقی سعودی‘ اردنی وغیرہ میں تقسیم کیا جاچکا ہے ۔ اور اب تو حالات اتنے بدترہوچکے کہ ہم پاکستانی بھی نہیں رہے اور ہماری پہچان پنجابی‘ پختون‘ سندھی ‘مہاجر‘بلوچ‘ پٹھان‘ سرائیکی‘ ہزارہ بن چکی اور انہی بنیادوں پر ہماری دوستیاں اوردشمنیاں قائم ہیں۔ یہ حالات ہیں اسی تباہی کے جو ہم جیسے مسلمانوں کا مقدربن چکی ہے اور جس کی وجہ سے ہمیں ہرطرف سے ذلت ورسوائی سے جان چھڑانی ہے تو اس کا واحد حل اسلام ہے۔ صرف اسلام پاکستان کو اندرونی وبیرونی خطرات اور تقسیم درتقسیم سے بچاسکتاہے بلکہ اس دین محمدکی بناپر مسلم امہ کو دوبارہ متحدکیاجاسکتاہے اورمسلمانوں کا یہی اتحاد ان کو مشرکوں کے ہاتھوں قتل عام سے بچاسکتاہے۔ برما میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم وستم سے متعلقہ ایک ای میل میں مجھے کچھ تصویریں موصول ہوئیں جن کو دیکھ کر میرے رونگھٹے کھڑے ہوگئے اور میں یہ سوچتا رہاکہ کیاکوئی انسان کسی دوسرے انسان پر اس قدر ظلم کرسکتاہے۔ کوئی انسان اتنا سفّاک اور درندہ صفت ہوسکتاہے۔ راجیش کھنہ کی موت اور امریکا میں ایک فلمی شوکے موقع پر فائرنگ سے ہلاک ہونے والے چند امریکیوں پرآنسو بہانے ولے برمامیں اپنے دس ہزارسے بیس ہزارتک مسلمان بھائیوں ‘بہنوں اور بچوںکے قتل عام پرکیوں خاموش ہیں ؟؟۔
|
No comments:
Post a Comment