سرِ راہ چلتے چلتے شفیع احمد
ایک پرانی کہانی ہے کہ کسی دیہاتی نے پیڑ کے نیچے آرام کرتے ہوئے راہ چلتے ایک ذہین شخص سے پوچھا کہ ’’میں کتنی دیر میں شہر پہنچ جائوں گا؟‘‘۔اس کے جواب میں ذہین شخص نے چلنے کی ہدایت دی۔دیہاتی اسے کوئی سرپھراہ سمجھ کر چلنے لگا تو پیچھے سے آواز آئی کہ تم آدھے دن میں شہر پہنچ جائو گے۔اصل میں ذہین آدمی دیہاتی کی رفتار سے اندازہ لگانا چاہتا تھاکہ اسے کتنا وقت درکار ہے۔خیر یہ تو ان دنوں کی بات ہے جب موٹر گاڑیاں معرض وجود میں نہیں آئی تھیں ،اس لئے رفتار کا اندازہ پیدل چلنے پر منحصر تھا لیکن آج کل رفتار گاڑیوں کی رفتار ہے اور ان کی خوبیاں دیکھ پرکھ کر پتہ لگایا جاتا ہے کہ کتنی دیر میں کوئی متعین فاصلہ طے ہوگا۔البتہ گاڑیوں کی تعداد نے اس قدر الجھن میں ڈال دیا ہے کہ مسافتیں طے کرنے کے بارے میں آسانی سے اندازہ لگانا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے کیونکہ یہ کسی بھی صورت میں آپ کی اپنی گاڑی کی رفتار پرنہیں بلکہ اس بات پر منحصر ہے کہ دوسری گاڑی آپ کو کس قدر چلنے کی آزادی دے گی۔
اگر آپ اپنی گاڑی چلا رہے ہیں تو آپ کو بخوبی اندازہ ہوگا کہ آگے پیچھے دائیں بائیں گاڑیاں چل نہیں رہیں بلکہ بھنبھنا رہی ہیں جیسے بھِڑوں کا چلتا پھرتاچھتہ ہو اور اس میں سے اڑ کر آنے والی زہریلی بھڑِ کسی بھی صورت آ پ کوکچھ نہ کچھ پیار ضرور کرے گی جو چومنے، چٹکی لینے، رگڑنے،زور کا دھکا دھیرے سے مارنے وغیرہ کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔آپ کے سامنے ، پیچھے، دائیں بائیں جو مختلف گاڑیاں دوڑتی ،معاف کیجئے رینگتی ہیں وہ چھوٹی گاڑی،مسافر بس، مال بردار، موٹر سائیکل وغیرہ پر مشتمل در ماندہ کارواں ہو تا ہے۔موٹر سائیکل گو کہ سب سے چھوٹی گاڑی ہے لیکن بہت شرارتی ہے اور ادھر ادھر گھومتی نہیں بلکہ لہراتی ہے۔گویا گاڑی نہ ہوئی کسی حسینہ کا دوپٹہ ہوا ، جو ہوا کے ہلکے جھونکے سے سرکتا ،الجھتا، بھڑکتا،اٹکھیلیاں کرتا نظر آتا ہے۔موٹر سائیکل اپنے سائیڈ پر کسی بھی صورت نہیں چلتا بلکہ جیسے ہوا کے دوش پر عبور و مرور کو اپنا نشانہ بناتا پھرتا ہے اور یوں آپ کبھی نہیں اندازہ لگا سکتے کہ اس کا اصل ہدف کون ہے۔
چھوٹی مسافر بس جسے کشمیر میں ایک بھدا سا نام دیا گیا ہے، یہ چلتی تو ہے لیکن پہنچتی کہیں نہیں۔اس کا ایک ہی اصول ہے کہ نہ خود چلو نہ کسی اور کو چلنے کے لئے جگہ دو۔رکے تو بیچ سڑک کہ کچھ مسافر بٹھانے تھے اور چلے تو یوں محسوس ہو کہ کسی نے زندگی کے دو بوند نہیں پلائے ۔
سیکورٹی گاڑی کے ہمراہ چلنا تو آ بیل مجھے مار والی کہاوت ہے۔اس کے آگے چلو تو سوار وردی پوش کو چیلنج لگتا ہے اور اس کا ماتھا ٹھنک جاتا ہے۔پیچھے چلو تو شک کرتا ہے جب کہ دائیں بائیں تو اس کے نام پوری سڑک کب کی بہی کھا تے میں منتقل ہو چکی ہے ۔ صرف زمین منتقلی کے کاغذات تصدیق کرانے کی دیر ہے،اس لئے سڑک کو اپنی ہی جائیداد سمجھ کر اپنے حساب سے اس کا استعمال کرتا ہے، بھلے ہی استعمال ویساہی ہو جو دانابندر نے ادرک کا کیا تھا ۔
وی آئی پی کی گاڑی تو با رعب ہوتی ہے، اس لئے اس کے قریب پھٹکنا جائز نہیں۔یہ اس قدر سینہ پھلائے چلتی ہے کہ کسی بھی موڑ پر اس کے ہاتھوں ٹکر کھانے کا ڈر رہتا ہے۔ اس کی آن بان شان ہی کچھ دلچسپ ہوتی ہے کہ خود ہارن بھی نہیں بجاتی بلکہ اس کا وہ کام بھی آگے چلنے والی سکورٹی جپسی بُرے پو ں پو ں پا ں پا ں سے کرتی ہے۔
تین پہیوں والی چھوٹی گاڑی تھری ویلر یا آٹو کہلاتی ہے ۔اس کا چلنے کا انداز بھی دلچسپ ہوتا ہے اور رکنے کی چال بھی۔ اس میں دارا سنگھ کے مضبو ط پٹھوں کا رعب دا ب نہ سہی لیکن سڑ ک پر جب یہ سر پٹ دوڑ ے تودارا سنگھ اس کے سامنے کمزور چھو کرا لگتا ہے۔ اس میں ایک قابل دید خو بی یہ ہے کہ جام میں اس کے پہئے را جیش کھنہ کی گردن کی طر ح کو ئی نہ لچک دکھا کر دوسری گا ڑ ی والو ں کو یہ سجھا ؤ ضرور دیتا ہے کہ بچو عیش کر نے ہیں تو جا ؤ اس گاڑی کا کہیں نیلام کرو ایک دو تین اور پھر ڈرائیو نگ انجو ائے کر نے کے لئے ایک آ ٹو خر ید لا ؤ ، دنیا تمہا ری مٹھی میں نہ آ ئے تو کہنا۔ اب دار اسنگھ اور راجیش کھنہ یکے بعد دیگرے پرلو ک سدھا ر گئے ، ان کا کھیل کا انتم سنسکار ہو ا لیکن اپنے آ ٹو کا کھیل تما شہ اورراج تاج کم ازکم ہماری دنیا میں تا نگے کی طر ح کبھی ختم نہ ہو گا… اس کے چلتے بلی کا گمان ہوتا جس کا منہ کسی جگہ میں فٹ ہوجائے تو پھر اپنا راستہ بنا ہی لے اور چاروناچار اپنا پورا بدن گھسیٹ کر اندر کر کے یہ بتا ئے ابے اوپہلو انو !ذرا میرا مقابلے میں آ ؤ ،چا روں شانے چت نہ گراؤں تو میری مو نچھ کا ٹنا۔آٹو صاحب اپنا منہ دو گاڑیوں کے بیچ تو کیا کسی معذور شخص کی بیساکھیوں کے بیچ بھی بنا لیتا ہے۔ بڑی گاڑی کے نیچے سے، کسی کے صحن سے ، کسی کے کچن سے، پھولوں کی کیاری سے،دلہن کی الماری سے سوئی کے نا کے سے ، کہیں سے بھی اس نامرادکے لئے راستہ بنانا بائیں ہاتھ کا نہیں چھنگلی کا کام ہے۔
اپنی بڑ ے تاؤ والی مال بردار گاڑی جب چلتی ہے تو گمان ہوتا ہے کہ سڑ ک پر سونامی یا کسی بڑے طوفان کا قہر بپا ہے کہ اپنے سامنے آنے والی ہرچیز کو خس و خاشاک کی مانند بہا لینا اس کا شیوہ ہے۔چونکہ اس کی اپنی باڈی سخت ترین فولاد سے بنی ہوتی ہے، اس لئے اسے خود کسی نقصان کا ڈر نہیں ہو تا کسی اور کو اس سے کوئی گزند پہنچے اس کی ہرگز پرواہ نہیں۔
سر راہ چلتی مشینوں میں ایک ہلکی دو پہیو ں والی سادہ مشین سائیکل بھی ہے۔اس مشین سے اتنا ڈر نہیں لگتا جتنا اس کے اوپر بیٹھے سوا سے لگے کیونکہ مشاہدے میں آیا ہے کہ وہ اپنے ہی دُھن میں مگن سائیکل چلاتا ہے۔ اس بیچ کوئی اپنے گھر کا حساب کرنے میں مشغول ہے، کوئی اپنی نوکری کے سلسلے میں اپنے مغرور افسر کے ساتھ خیا ل خیا ل میںلڑتا جھگڑتا ہے،کوئی شیخ چلی کی صورت میں اپنے خیالی پلائو بناتا اپنی ہی دنیا میں کھویا کھو یا جا رہا ہے۔ دائیں بائیں کا ہوش نہیں اور کون اس کی وجہ سے بے ہوش ہوجائے اس کی بھی کوئی فکر نہیں! اور…اور… اور اگر یہ آ پ کی کم نصیب گاڑ ی سے ٹکرا ئے تو آپ کی شامت آ ہی گئی… اندھے ہو کیا ، بنک قرضے کی ادھار گا ڑی کا نشہ ہے ، ذرا اس کھٹا رے سے ہا ہر تو آ، لفنگے لچھے چور بدمعا ش ، تمہیں ایک ہی جا نپڑ سے نا نی یا د نہ کرا ئی تو میرا نام نہیں … گا لی گلوچ کی اس فری اسٹائل کشتی کے بعد اگر آ پ کوتھو ڑ ا بہت بھی اپنی عزت بچا نے کافن آ تا ہے تو سر پر پیر رکھ کر وہا ں سے رفو چکر ہو جا ئیں گے، یہ سمجھ کر زیادہ ہی پر یشانی کا دورہ پڑے گاکہ کسی جا ن پہچا ن والے نے دیکھ لیا تو’’ایر ی پیر ی‘‘ اُتر جا ئے گی۔ بھا گو ، دوڑو، چلو تم ادھر کو جہاں ہو نہ سائیکل۔
(wani.shafi@rediffmail.com)
cortesy: |Kashmir Uzma Srinagar |
Search This Blog
Saturday, 21 July 2012
سرِ راہ چلتے چلتے Sare Rah Chalte Chalte
Labels:
SELECTED ARTICLES
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment