Search This Blog

Sunday, 22 July 2012

نسلی امتیاز۔۔۔ایک عالمی بیماری

نسلی امتیاز۔۔۔ایک عالمی بیماری


بنی نوع انسان کو ترقی کی اونچی منزلوں کے حصول کے بعد بھی جہاں کرہ ارض سے گذر کر اب کائنات کے دوسرے سیاروں کی دریافت کامرحلہ در پیش ہے ،نسلی امتیاز کی اُلجھنوں میں پھنسا ہوا نظر آتا ہے، حالانکہ مختلف ممالک کے قوانین اساسی میں نسلی امتیاز کو ایک سماجی جرم اور ایک نا پسندیدہ عمل قرار دیا گیا ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ قانونی بندشوں کے باوجود نسلی امتیاز کی عیاں جھلکیاں دنیا بھر میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔چاہے وہ امریکہ کی کالی نسل ہو یا بھارت دیش میںسماج کا نچلاطبقہ جسے مہاتما گاندھی نے ہریجن یعنی بھگوان کا جنا ہوا طبقہ مانا ۔ اور تو اور بھارت میں ہندوتوا کے پجاری مسلمانوں کو بھی ملیچھ (پلیدہ۔گندگی سے پُر) مانتے ہیں بلکہ بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی، مسلمین کو بدیشی ہزار ایک سال سودیشی ہونے کے باوجود مانا جاتا ہے حالانکہ مسلمین ہند میں اکثریت ہندوستانیوں کی ہی ہے جو مسلمان بنے۔ ہاں کچھ باہر کے دیشوں سے ضرور آئے لیکن ہزار ایک سال سے یہی کے ہولئے۔بھارت میں نسلی امتیاز کے مطالعے سے پہلے ہمیں آج کی دنیا کے پیش رفتہ ترین ملک امریکہ پر نظر ڈالنی ہو گی جہاں ماضی میں نسلی امتیاز کی بد ترین روایات قائم ہوئیں جو آج بھی کسی نہ کسی صورت میں پائی جاتی ہیں اِس حقیقت کے باجود کہ امریکی صدر ایک سیاہ فام شخص ہے۔
نسلِ انسانی کے جبر و استبداد کی بد ترین داستان یورپی اقوام کی امریکی بر اعظم میں منتقلی کے بعدسننے کو ملتی ہے۔یورپ سے منتقلی کا یہ سلسلہ  کو لمبس کی 1492؁ء میںامریکہ کی دریافت کے بعد وقوع پذیر ہوا۔ ایک نیا بر اعظم جہاں کی زمیں پر کھیتی کرہ ارض کے وجود میں آنے کے بعد کبھی نہیں ہوئی تھی ،ظاہر ہے پہلی دفعہ ہل جوتنے پریہ زمین سونا اگلنے لگی۔ کم آبادی و وسیع زمین !سفید فام یورپی اقوام ،جو اِس لہلاتے ہوئے بر اعظم کو اپنا وطن بناتے گئے،نے افریقی منڈیوں سے سیاہ فام غلاموںکو خرید نے کاسلسلہ شروع کیا۔غلاموں کی یہ تجارت بنی نوع انسان پر ایک تاریخی دھبہ ہے جو ماضی میں ایک قابل قبول تجارت کا درجہ رکھتا تھا۔سیاہ فام افریقی غلاموں پرڈھائے مظالم سے امریکہ کی500 سالہ کوتاہ مدت کی تاریخ کے اوراق سیاہ ہوتے گئے لیکن مظالم کم نہیں ہوئے۔افریقی سیاہ فام غلاموں کے مختلف قبیلوں و فرقوں کے مابین جنسی تعلقات قائم کروا کے نسل سازی کے تجربات صرف اَس خاطر کروا ئے جاتے تھے تاکہ جسمانی اعتبار سے طاقتور ترین افرادکی ساخت کو ممکن بنایا جا سکے جواُنکے کھیت کھلیانوں میں تھکن کا نام لئے بغیرحل جوت کر اُن کے غلے کے گداموں کو بھرے کا بھرا رکھ سکیں۔ 1776میں امریکہ کی جنگ آزادی کا کامیابی سے ہمکنار ہوناصرف و صرف سفید فام امریکائی نسل کی اپنی ہم نسل برطانوی حکومت سے خلاصی تھی جس میں چانکیہ نیتی اَپناتے ہوئے جہاں دشمن کے دشمن کو دوست سمجھا و مانا جاتا ہے، فرانس نے امریکہ کا ساتھ دیا۔1860میں ابراہیم لنکن کو جنوبی ریاستوں سے یہ بات منوانے کیلئے جنگ چھیڑنی پڑی کہ سیاہ فام نسل کو بھی انسانوں کی مانند جینے کا حق ہے جبکہ جنوبی ریاستیں مراعات کے خلاف تھیں۔ 1860 میں اگر چہ سیاہ فاموں کو کچھ بنیادی حقوق حاصل ہوئے لیکن اُن کو قانونی طور پر برابری کیلئے ایک سو سال جدوجہد کرنی پڑی، تب جا کے کہیں 1960کے دَہے میں مارٹن لیوتھر کنگ کی قیادت میں اُنہیں قانونی مراعات حاصل تو ہوئیں گر چہ آج بھی سیاہ فاموں کو بہت سے سفید فام اپنے برابرکا نہیں سمجھتے بلکہ اُسی طرح جیسے ہندوستان میں کچھ اونچی ذات والے مانو وادی فلسفے کو لکشمن ریکھا مانتے ہوئے نئے قومی تقاضو ں کی روشنی میں بنے ہوئے قانون اساسی کی افادیت کے قائل نہیں ہو پاتے اور نسلی امتیاز کی خبروں سے مطبوعاتی پرچے بھرے پڑے رہتے ہیں بلکہ پرنٹ میڈیا کے علاوہ الکٹر انک میڈیا میں بھی نسلی امتیاز کی خبریں اکثر موضوع بحث بنی رہتیں ہیں۔
 نسلی امتیاز کے ڈسے ہوئے ہندوستان میں نسل پرستی کازہر مٹ جانا چاہیے تھا کیونکہ دو سو سال سفید فاموں نے بلالحاظ مذہب و بین الُمذہبی فرقے، صرف وصرف رنگ و نسل کی بنیاد پربرصغیر میں بسنے والے کو اپنے برابر کا نہیں سمجھااور مٹھی بھر انگریزوں کیلئے حکومت کرنایہاں کی فرقہ پرستی سے آساں ہوا۔ پنڈت نہرو نے اپنی تحریروں میں یہ بات واضح کی ہے کہ تقسیم و حکومت کے اصول پر عمل کرتے ہوئے       ابتدائی دنوں میں مسلمانوں کی سیاسی و فوجی طاقت توڑنے کا تھاتو مدد ہندؤں سے لی گئی لیکن جوں ہی اکثریتی فرقے نے سیاسی حقوق کا مطالبہ شروع کیا تو مسلمانوں کے خدشات کو ہوا دی گئی ۔ کہا جا سکتا ہے کہ در اصل یہاں کی سیاسی زمین اجنبی حکومت کے لئے زرخیز بنا دی گئی تھی اور اُس کی وجہ تاریخی محرکات تھے۔تاریخی جائزے میں ہندوستان زمانہ ْقدیم سے ہی سودیشی فلسفے پر رواں و دواںقومی زندگی کی تشکیل میں مصروف نظر آتا ہے اور اِس ساخت میں مذہبی تعلیمات حاوی رہیں۔ ویدک فلسفہ زندگی کے ہر گوشے کو سموئے ہوئے ایک عمیق و جاندار نظریہ حیا ت ہے جس نے اِس بھارت کی قدیم دھرتی کو صدیوں بنائے و سجائے رکھا لیکن زمانہ گذرنے کے ساتھ ساتھ مذہبی اطالیقوںکے اُبھرنے اورفلسفے کو اپنے مقام کی افزائش کے لئے حقیقت سے مختلف دلیلیں دینے سے درونی ضعف کے لئے جگہ بنتی گئی ۔منو سمرتی ایک ایسی ہی قانونی دلیل ثابت ہوئی جس سے سماجی طبقہ بندی وجود میں آئی۔ زمانہ قدیم سے ہی اِس کی افادیت میں تجزیہ نگاروں نے صفحوں کے صفحے سیاہ کئے اور آج تک یہ سیاہی خشک نہیں ہوئی حتَی کہ پنڈت نہرو جیسے مصنف بھی، جو سیکولرازم کو اپنا ایمان مانتے تھے ،محتاط انداز اپناتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ شایدزمانے کی ضرورت کے سبب قدیم ہندکے سماجی ڈھانچے میں طبقہ بندی وجود میں آئی۔ بہر حال سب سے اونچے طبقے کے برہمنوں کو وہ مراعات حاصل ہوئیں جس کی تمنا و کاوش حرم و دیرمیں پیشواؤں کے منصوبوںمیں ہمیشہ ہی رہی ہے بلکہ آج بھی ہے۔
برہمن کو آسمانوں کو چھوتا ہوا اونچا مقا م عطاکرنے کے بارے میں جہاں اور بھی کئی دلیلیں دی جاتی ہیں ،وہیں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایسا    کھشتریوں کی سیاسی و فوجی طاقت کے بیجا استعمال پراخلاقی و روحانی روک لگانے کے لئے کیا گیا۔ بہت حد تک یہ سچ بھی ہے کہ راجہ کسی بھی بڑے اقدام سے پہلے برہمنوں سے مشورہ کرنا اپنا منصبی فرض سمجھتے تھے البتہ اِس حقیقت کو بھی نہیں جھٹلایا جا سکتا کہ برہمنوںنے طبقہ بندی کو ایک سماجی ادارتی شکل دے کے ہزاروں سال جمع غفیر کو عزت نفس سے محروم کر کے اُن مسائل کوجنم دیا جو آج بھی اکثر سماجی ہیجان برپاکر کے سیاسی رسہ کشی کا سبب بنتے ہیں بلکہ دیکھا جائے تو پچھلے تیس ایک سال سے احزاب سیاسی اِسی مسئلے کو لے کر جنم لیتی ہیںاور چونکہ سماجی ڈھانچے کے ہر جز سے جڑا ہوا ہے اسلئے جو بھی اِس مسئلہ کولیکر سیاسی میداں میں کودتاہے ،اُسے زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی ،بہت جلدسیاسی دکان سجتی ہے اور کاروبارکو سرعت سے فروغ بھی حاصل ہوتا ہے ،چاہے وہ ملائم سنگھ یادو کی سیاسی دوکان ہو یا مایا وتی کی ،یہ سب سماجی طبقہ بندی کانتیجہ ہے اور آج کی بھارتی سیاست اِسی میں جوجھ رہی ہے۔
 برہمن ازم کی زیادتیوں کی فہرست طویل ہے۔اِس حقیقت کے باوجود کہ نچلی ذات کے لوگوں نے بھارتی سماج کو بہت کچھ دیا ہے۔ اونچی ذات کے افراد کے گھروں و مندروں میں پڑھی جانی والی رامائن کا لیکھک ایک نیچی ذات والا والمیکی تھا البتہ ستم ظریفی یہ کہ اُسی کی ذات کے لوگوں کو اُن مندروں میں جانے کی اجازت نہیںجہاں اُن کی سنسکرت میں لکھی ہوئی رامائن شب و روز پڑھی جاتی ہے ۔اب تو خیر سنسکرت یاد ماضی بن چکی ہے اور آج زیادہ تر تلسی داس کی ہندی میں لکھی ہوئی رامائن پڑھی جاتی ہے لیکن رامائن والمیکی کی پڑھی جارہی ہو یا تلسی داس کی ،اب بھی قانونی تحفظات کے باوجود مذہبی پیشوا نچلی ذات کے لوگوں کے مساویانہ مذہبی حقوق کے قائل نہیں ہو پاتے۔1947 میں آزادی ہند کے بعد جب ہندوستان کو قانون اساسی کی ضرورت پڑی تو بابا صاحب امبیدکر کو بروئے کار لایا گیا ۔یہ کام انجام دینے اور قانون اساسی ہند میں سماجی برابری کی شقوں کے باوجود جب کوئی قابل محسوس فرق نہیں پڑا تو بابا صاحب امبیدکر نے کہا کہ ہندو برادری کو رامائن کی ضرورت پڑی تو والمیکی کو بلایا گا اور قانون اساسی کی ضرورت پڑی تو مجھے بلایا گیا ۔سماجی نا برابری سے عاجز ہو کر بابا صاحب کو بدھ مت قبول کرنا پڑا جس بدھ مت کو ہزاروں سال پہلے برہمن ازم نے دیس نکالا دیا تھا جسے علامہ اقبال ؒ نے ایک جاذب پیرائے میں باندھا ہے:
قوم نے پیغا م گوتم کی پرواہ نہ کی     
قدر نہ جانی اپنے گوہر یک دانہ کی!
 اگر چہ اشوکا و کنشک کے دور حکومت میںبدھ مت کو سرکاری مذہب کی حیثیت اور سیاسی پشت پناہی حاصل ہوئی، اِس مناسبت سے سماجی اصلاح کی یہ کوششیں کچھ حد تک بار آور ثابت ہوئیںلیکن مانو وادیت کی جڑیں گہری ہونے کے سبب بدھ مت کو بقول ایک تاریخ داں کے بر آمد(ایکسپورٹ) کیا گیا اور برہمنوں کا دینی، سماجی و سیاسی تسلط پھر سے قائم ہوا۔ اِس تاریخی حادثے کو علامہ اقبال ؒنے یوں باندھا ہے:
برہمن سرشار ہے اب تک مئے پندار میں
شمع گوتم جل رہی ہے محفل اغیار میں!
گوتم بدھ ایک شاہی خاندان میں پیدا ہوئے اور اُنکا نام سدھارتھ رکھا گیا لیکن ہنگام جوانی ہی جو سرور و نشاط کا دور ہوتا ہے ،دنیا کی بے ثباتی اُن پہ ظاہر ہو گئی۔ محلوں کا عیش و آرام تیاگ کے گیان کے حصول کی راہ لی ۔انجام کار گیا کے مقام ایک پیڑ کی چھاؤں میں اُنہیں منزل مقصود حاصل ہو گئی ۔سچ تو یہی ہے کہ کچھ دیر شمع گوتم ہندوستان کو روشن و فروزاں کئے ہوئے غیروں کی محفل کی زینت بن گئی اور آج اپنی جنم بھومی میں بدھ مت کے نام لیواؤں کی ایک قلیل تعداد ہی باقی رہ گئی ہے جبکہ ہند سے متصل خطے جنوب مشرقی ایشیاکی اکثریت مطلق گوتم بدھ کے پیرو کاروں میں شمار ہوتی ہے۔ گوتم بدھ کی اصلاحی تحریک کے علاوہ جین ازم کا تاثر بھی مختصر ہی رہا ۔
 ہندو برادراں کی منو سمرتی کا شکار بھارتی سماج کی نچلی جاتیاں ہی نہیں بلکہ مسلمین ہند بھی ہیں۔نسلی امتیازاکثر ٹھوس تاریخی دلیلوں پر استوار نہیں ہوتاجیسے کہ ہندوستان میںکچھ انتہا پسند حلقے یہاں صرف ایک خاص فرقے کو تمام انسانی حقوق کی اساس پر رہنے کا حق دیناچاہتے ہیں، صر ف نظر از اینکہ تاریخی حقیقتوں پہ پرکھا جائے تو اُن کی اکثریت نسلی اعتبار سے ہندی ہے ہی نہیں اور بر صغیر میں یہ امتیاز وسط و شمال میں رہنے والی کچھ بستیوں کو حاصل ہے ا ور باقی بر صغیر کی اکثریت مطلق آگے پیچھے یہاں آکے سلسلہ کوہ ہمالیہ کی گود میںو بحر ہندکے کنارے اِس لہلہاتی ہوئی دھرتی کواپنی پناہ گاہ بناتی گئی۔ آنے والوں میںسب سے پہلے دراوڑ شمال مغربی دروں سے آئے جو آج جنوب ہند کے بسکین ہیں اور پھر آریائی نسل کے لوگ آئے۔شمالی برصغیر کی واضح اکثریت کے اجداد کے آنے کے سماں کو علامہ اقبالؒ نے اِس جذباتی پیرائے میں باندھا ہے:
اے آبرود گنگا  ! وہ دن ہیں یاد تجھ کو
ا ترا کنارے جب کارواں ہمارا!
تاریخ ہند نے آریاؤں کی آمد کے بعدسب سے بڑی کروٹ مسلمانوں کے آنے سے لی۔دیکھا جائے تودونوں کی حیثیت چند ہزار سالہ   وقفے کے باوجودمہاجرین کی تھی۔ آریاؤں کونئے وطن و نئی چراگاہوں کی تلاش تھی جبکہ آمد مسلمین کے اغراض و مقاصد میں کئی عنصر کار فرما تھے کچھ تو یہاں خالص تبلیغ دین کے لئے آئے اور کئی ایک کوسیاسی و فوجی مہم جوئی یہاں لائی۔ اقتصادی فوائد کی کشش بھی سبب بنی لیکن محمود غزنوی کے بعد سب اِس ملک کو وطن بنانے کی سعی میں مصروف رہے حالانکہ کچھ حضرات مثلاََ تاجدار اول سلطنت مغلیہ ظہیرالدین بابرکابل کے باغات و ہاں کی خنک اور تربوزے نہیں بھول پائے پھر بھی حصول سلطنت کے بعدہند کے ہی ہو لئے کیونکہ جھلسا دینے والی گرمی کے باوجود یہاں برکھارُت بھی ہے اور ساون کے گیت ،ملہار بھی جو امڈتے ہوئے جذباتی ہیجان پہ ٹھنڈی پھوار کی مانند گر تے ہوئے خنکی وجودکا باعث بنتے ہیں۔مسلمانوں کی آمد کے بعد ظاہر ہے سب کچھ پہلے جیسا نہیں رہا بلکہ سچ تو یہ ہے یہاں کا سماج تغیرات کا متلاشی تھا ۔ جو کام بدھ مت و جین مت جیسی دینی و سماجی تحریکیں وسیع پیمانے پہ نہیںکر سکیں وہ اگر چہ کاملاََ نہیں تو کچھ حد تک دین اسلام نے پورا کیا ۔۔راجاؤں کی جگہ سلطانوں نے لے لی جو اُنہی کی طرح مطلق العنان ہوتے ہوئے بھی برہمنی اثر و نفوذ سے آزاد تھے اگر چہ یہ بھی سچ ہے کہ سیاسی سطح پہ ہندوستان کے نئے حکمران ہند کے قدیم مذہب کے داخلی معاملات سے دور رہے۔ ظاہر ہے ملک کے اعلی ایوانوں میں نہ سہی لیکن عوامی سطح پہ سماج کے پُر اثر طبقات میں برہمنوں کا ا ثر و رسوخ قائم تھا اور اُس کو کسی دباؤ میںلاناسیاسی طور پہ سود مندثابت نہیں ہوتاوہ بھی ایسی حالت میں جبکہ ایرانی کاہنوں یا صلیبی جنگوں کے یورپی پادریوں کی طرح ہند کے برہمنوںنے اکا دکا واقعات کو چھوڑ کے مسلمانوں کے خلاف کسی منظم تحریک کی پشت پناہی نہیں کی اور مسلمین نے بھی ہندی سماجی ڈھانچے کو بدلنے کی بھر پور کوشش نہیں کی ۔انجام کا ہندوستان کی نچلی جاتیوں کی مانندمسلمین بھی سیاسی طاقت کھونے کے بعد اُسی نسلی امتیاز کا شکار ہوئے جس میں ہندو سماج کی نچلی جاتیاں ہزار ہا سال سے پسی جا رہی تھیں او ر قانونی ضمانتوں کے باوجود یہ سلسلہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔اللہ نگہباں!
یار زندہ صحبت باقی۔
Feedback on:Iqbal.javid46@gmail.com

No comments:

Post a Comment