Search This Blog

Sunday, 29 July 2012

بلائوں سے بچنے کا نسخہ

بلائوں سے بچنے کا نسخہ

- بینا صدیقی
’’یار بلائوں سے بچنے کا نسخہ ہے تو بڑا مہنگا، مگر میرے جاننے والے پیر صاحب ہیں۔ اُن سے بات کر کے تمہیں ذرا سستا دلوا دوں گا۔‘‘ شہریار نے رافع سے سرگوشی کی۔ ’’یار دنیا میں اس وقت مجھ سے زیادہ بلائوں سے بچنے کی ضرورت اور کسی کو نہیں۔ دنیا کی ہر بلا اور مصیبت میرا انٹرویو لینے پر تلی ہے۔‘‘ رافع بلبلا کر بولا۔ ’’آخر ایسا بھی کیا ہوگیا ہے؟‘‘ عثمان جو دیر سے دونوں کی باتیں سن رہا تھا، بالآخر بول پڑا۔ ’’یار میرے، تم تو جانتے ہو کتنی مصروف ترین زندگی ہے میری۔ نوکری اور پڑھائی ساتھ ساتھ کررہا ہوں۔ ایک طرف ظالم و خونخوار پروفیسرز ہیں جو مجھے نقل کرنے کی ذرا سی بھی سہولت دینے کو تیار نہیں۔ دوسری طرف انتہائی بدتمیز اور مکار باس حضرات ہیں جو میرا خون نچوڑ کر پیسے بنارہے ہیں۔ ان کو معلوم ہے کہ میں ایوننگ شفٹ میں ایم بی اے کررہا ہوں، لیکن جان بوجھ کر شام کے وقت ڈھیر سارا کام مجھ پر لاد دیا جاتا ہے۔ کام کے چکر میں شروع کی دو کلاسیں نکل جاتی ہیں اور ایوننگ شفٹ کے سارے پروفیسر اپنی اپنی بساط کے مطابق مجھے ذلیل و خوار کرتے ہیں۔ رہ گیا گھر، تو میرے گھر پر بھی ظلم کی سہولت موجود ہے۔ یعنی میرے خونخوار بھائی بھابھی، جو اپنے موٹے تازے بچوں کی پرورش میں میرا کردار بڑھاتے چلے جارہے ہیں۔ میرا ایک بھتیجا جنگلی ہے، دوسرا موٹا اور ہونق۔ دونوں الگ الگ طریقوں سے مجھے تنگ کرکے جینا حرام کرتے ہیں۔ امی ابو سعودیہ میں رہتے ہیں۔ آخر میں جائوں تو جائوں کہاں؟‘‘ رافع رو دینے کو تھا۔ ’’ارے بھائی رونے کی کیا بات ہے؟ کل ہی اپنے پہنچے ہوئے پیر صاحب سے تعویذ لادوں گا بلائوں سے بچنے کا۔ بس ایک صحت مند کالا بکرا اور دس ہزار روپے کیش چاہیے ہوگا نذرانے کے لیے۔‘‘ شہریار نے تسلی دی۔ ’’یار تمہارا پہنچا ہوا بزرگ کچھ زیادہ ہی اوپر پہنچا ہوا ہے۔ وہ کچھ نیچے نہیں آسکتا؟ میرا مطلب ہے یہ تم میرے پورے مہینے کی تنخواہ مانگ رہے ہو نذرانے کے لیے۔‘‘ رافع بوکھلا اٹھا۔ ’’یار مسئلے تیرے اتنے ہیں اور بلائیں بھی اتنی۔ پیسے بھی اتنے ہی لگیں گے۔ تُو اپنی بلائیں کم کرلے تو تعویذ بھی ہلکا اور سستا آجائے گا۔‘‘ شہریار برا مان گیا۔ ’’چلو یار کرتا ہوں کچھ۔ ویسے تو میں تنخواہ سے ہی اپنی فیس کے پیسے نکالتا ہوں، مگر خیر چلو۔‘‘ رافع ہونٹ دانتوں میں دباکر کچھ سوچنے لگا۔ ……٭٭٭…… بلائوں سے بچائو کا مہنگا تعویذ رافع کے گلے میں تھا اور وہ اعتماد سے چور چور ہوتا ہوا صبح آفس میں داخل ہوا۔ باس کے بلانے پر اعتماد سے ان کے آگے جاکھڑا ہوا۔ ’’رافع آپ کو دو پریزنٹیشن بنانی ہیں اور کل تک کلائنٹ کو جمع کرانی ہیں۔‘‘ باس نے مخصوص اکھڑ لہجے میں کہا۔ ’’اگر نہ جمع کرائوں تو؟‘‘ رافع خم ٹھونک کر بولا۔ ’’واٹ؟ آر یو ان یور سینس؟ ہوش میں تو ہیں آپ؟‘‘ باس چیخے۔ ’’میں کوئی گدھا نہیں جس پر آفس کا سارا کام ڈال کر آپ مزے کریں۔ کچھ کام آپ خود بھی کرلیا کریں۔ ورنہ مینجمنٹ آپ ہی کو فارغ کرنا چاہے گی۔‘‘ رافع اعتماد سے بولا۔ ’’واٹ؟ جسٹ گیٹ لاسٹ۔ میں آپ کی صورت بھی نہیں دیکھنا چاہتا۔ یا تو اس آفس میں مَیں رہوں گا یا آپ۔‘‘ باس حلق کے بل چلاّئے۔ ’’تو پھر اس کا مطلب ہے کہ یہاں میں رہوں گا۔‘‘ رافع خوش ہوکر بولا اور باہر نکل آیا، مگر اس وقت سناٹے میں آگیا جب سینئر سے بدسلوکی کرنے پر اسے ای میل پر نوٹس موصول ہوا۔ ……٭٭٭…… چھوٹو اور ببلو نے جیسے ہی آئسکریم، آئسکریم کا نعرہ بلند کرکے اس پر چھلانگ لگائی، ویسے ہی موٹے ببلو کو رافع نے کرارا ہاتھ لگادیا۔ چھوٹو کا کان ایسے مروڑا کہ وہ بلبلا اٹھا اور دونوں لاڈلے چاچو رافع کے اس نئے رویّے پر سناٹے میں آگئے پھر دھاڑیں مار کر رونے لگے۔ بھائی صاحب گھبرا کر اندر سے نکل آئے اور لاڈلوں کو روتا دیکھ کر خونخوار نگاہ رافع پر ڈالی: ’’یہ کیا کیا؟‘‘ وہ چلاّئے۔ ’’آپ کے جنّات بچوں کو قابو کرنے کا واحد طریقہ۔ جدید بچوں کی پرورش کا قدیم نسخہ۔ یعنی پٹائی اور دھلائی۔‘‘ رافع اعتماد سے بولا۔ ’’مگر یہ معصوم بچے ہیں۔ کیا بگاڑا تھا انہوں نے تمہارا؟‘‘ بھابھی جان شعلے برساتی نمودار ہوگئیں۔ ’’یہ جتنا بگاڑ سکتے تھے، بگاڑ چکے میرا۔ اب تو میری باری ہے۔‘‘ رافع ہنسا۔ ’’رافع، رافع تم…‘‘ بھائی جان غصے سے کچھ کہتے کہتے رک گئے اور اندر چلے گئے۔ ……٭٭٭…… توبہ، اس خبیث پریزنٹیشن میں کھپ کر رہ گیا میں تو۔‘‘ رافع سر پکڑ کر بولا۔ ’’پریزنٹیشن تو ہوتی رہے گی تیار، چلو چل کر ظہر تو پڑھ لیں۔‘‘ سمیر نے دراز سے اپنی ٹوپی نکالتے ہوئے پیار سے کہا۔ ’’یار میرے پاس مرنے کی فرصت نہیں، تُو کہتا ہے نماز پڑھ لوں؟ تُو جاکے پڑھ لے، بلکہ میرے حصے کی بھی پڑھ لینا۔‘‘ رافع جھنجھلا کر بولا۔ سمیر سر جھٹک کر نماز پڑھنے چلا گیا۔ ’’اس پریزنٹیشن میں اپنا دل، گردہ، جگر، پھیپھڑے بھی ڈال دوں گا ناں تب بھی باس کہے گا سم تھنگ از مسنگ (کوئی کمی ہے پریزنٹیشن میں) ہونہہ۔‘‘ رافع جلتے کڑھتے ہوئے کمپیوٹر کی بورڈ پر انگلیاں مار رہا تھا۔ ’’باس کے لاڈلے، مفت خورے، خوشامدی، جانے کون سا جادو منتر پڑھتے ہیں۔ ان کا تو ہر کام چوری کا ہے۔ انٹرنیٹ سے آئیڈیا چرایا، جھاڑ پونچھ کر اپنا بنا کے پیش کردیا، اور باس عش عش کر اٹھتے ہیں۔ چور کے بچے۔‘‘ رافع بڑبڑاتا رہا۔ ……٭٭٭…… یار یہ تیرا تعویذ… پتا نہیں کیوں الٹا اثر کررہا ہے! ساری بلائیں مجھ کو چمٹ گئی ہیں۔ جب سے دونوں بھتیجوں کی ٹھکائی شروع کی ہے ان کی خونخواری میں تو کوئی کمی نہیں آئی، الٹا بھائی صاحب جو نرم وملائم مزاج کے تھے وہ بھی خونخوار ہوگئے ہیں۔ دوسری طرف آفس میں باس صاحب ہیں جن کا پارہ 52 ڈگری سے نیچے ہی نہیں آتا کبھی۔ پہلے زبانی ذلیل کرتے تھے جس کا کوئی ریکارڈ نہ ہوتا۔ اب ذلیل کرنے کے لیے انٹرنیٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ ای میل پر ذلیل کرتے ہیں، اور یہ ذلت آن ریکارڈ آجاتی ہے۔ میری پروگریس رپورٹ کا حصہ بن جاتی ہے۔ تیسری طرف اس یونیورسٹی کے ایوننگ شفٹ کے تمام پروفیسر مجھ سے دگنی نفرت کرنے لگے ہیں۔ آخر میں کیا کروں؟ کیا فائدہ ہوا اس تعویذ کا؟‘‘ رافع آج شہریار پر پھٹ ہی پڑا۔ ’’یہ تو نہ کہہ یار۔ فائدہ تو ہوا ہے مگر تجھے نہیں۔ پیر صاحب کو۔‘‘ شہریار ہنسا۔ ’’ہنس کے میرا دل نہ جلائو۔ کوئی حل بتائو یا پھر اس لالچی پیر سے میرے پیسے واپس لاکر دو۔‘‘رافع چیخا۔ ’’لالچی پیر، پیسے واپس نہیں کرتے۔ یہ تو پتا ہی ہوگا تم کو۔ میرے پیر صاحب کے نذرانے نان ری فنڈ ایبل (ناقابل واپسی) ہیں۔‘‘ شہریار اطمینان سے کتابیں سمیٹتا چلتا بنا۔ رافع تعویذ نوچ کرکھولتا رہ گیا۔ ……٭٭٭…… ’’اندر مصیبت، باہر مصیبت، آگے مشکل، پیچھے مشکل۔ ایک لمحے کا سکون ہے نہ گھڑی بھر کی فرصت۔ لگتا ہے سارے شہر کی مصیبتیں میرے کھاتے میں آگئی ہیں۔ دن رات کام کرو پھر بھی سُکھ نہیں ملتا۔ منتشر سوچوں کے ساتھ رافع گھر میں گھسا ہی تھا کہ سامنے دوڑ کر آنے والے موٹے بھتیجوں سے ٹکراتے ٹکراتے بچا جو بھاگ کر ڈرائنگ روم میں جارہے تھے۔ ’’افوہ کیا مصیبت ہے نظر نہیں آتا؟‘‘ رافع غرایا اور لمحے بھر کو اس کی نگاہ بچوں کے ہاتھ میں موجود سپاروں پر پڑی۔ غالباً بچوں کے قاری صاحب آئے بیٹھے تھے اور بچے ان سے پڑھنے اندر جارہے تھے۔ لمحے بھر میں سپاروں پر نگاہ پڑتے ہی اس کے دل کو کچھ ہوا اور اسے ایک دم خیال آیا کہ اس کے انتہائی مصروف ترین شیڈول میں پیسے کمانے کا وقت تو تھا، مزید پیسے کمانے کے لیے پروفیشنل تعلیم حاصل کرنے کا وقت بھی تھا۔ بھائی، بھابھی اور بھتیجوں کے لیے بھی ٹائم تھا۔ یار دوستوں سے گپیں لڑانے کا وقت تھا۔ مگر اللہ کے لیے کوئی وقت نہ تھا۔ وہ ذہن پر زور ڈالنے لگا کہ آخری مرتبہ اس نے قرآن پاک کو کب کھولا تھا؟ شاید پچھلے برس کے رمضان میں… ساتھ ہی اس کی نگاہ الماری کے اوپر جا پہنچی جہاں سبز مگر گرد آلود مخمل میں لپٹا ہوا بلائوں سے نجات کا نسخہ، کب سے اس کی مدد کرنے کو تیار تھا۔

No comments:

Post a Comment