Search This Blog

Sunday 29 July 2012

شدت پسندی کے اونٹ کی انگڑائیاں۔۔۔......۔ از...............شمس جیلانی


شدت پسندی کے اونٹ کی انگڑائیاں۔۔۔......۔ از...............شمس جیلانی
از ۔شمس جیلانی
 اسلام ایک سیدھا اور آسان مذہب ہے اور داعیِ اسلام محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ  (ص)ایک نرم خو اور اخلاق کی بلندیوں پر فا ئز انسان ہیں۔ اور ساتھ میں یہ بھی کہ اگر آپ (ص) سخت ہو تے تو لوگ آپ کو چھوڑ کر بھاگ جاتے، یہ میں نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ قرآن میں اللہ سبحانہ تعالیٰ فرما رہا ہے، اسلام اور داعیِ اسلام کاتعارف ان ہی جیسے الفاظ میں کرا رہا ہے! لیکن ہم اگر آج کے اسلام پر غور کریں تو جو ایک فرقہ سوائے اپنے فرقہ کے اور کسی کو مسلمان ہی نہیں مانتا وہ ہے، جو انتہائی سخت ہے، جبکہ دوسرا فرقہ جسے عوام الناس کہتے ہیں ۔ کسی اصول کا پابند ہی نہیں ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ وہ اخلاقی طور پر اتنا گر چکا ہے کہ وہ کبھی چھپ کر تو کبھی دن دھا ڑے جیبیں کا ٹ رہا ہے۔ انسان کی جان لینا اس کے لیئے کوئی اہمیت نہیں رکھتا ، رشوت لینا ،لوگوں کے مال جائیداد ،سر کاری املاک پر قبضہ کر نا اپنا حق سمجھتا ہے۔ جبکہ مسلمان ملکوں کی حکومتیں بیت المال کو ان معنی میں لیتی ہیں کہ بیت المال عوامی امانت نہیں چونکہ وہ ہمارے قبضہ میں ہے لہذا ہمارے باپ دادا سے وراثت میں ملا مال ہے، اس کو جس طرح چا ہیں ہم خرچ کر یں؟ یہ گروہ بھی اسلام کا نام گاہے بہ گاہے لیتا رہتاہے لیکن جب اس پر عمل کی بات کرو تو نہ یہ گروہ تیار ہے، نہ وہ گروہ تیار ہے کیونکہ حلوہ مانڈا دونوں کااسی پر چلتا ہے۔ جبکہ اسلام میانہ روی کا سبق دیتا ہے۔ اور ہمارے ہاں میانہ روی نامی کو ئی چیز سرے سے پائی ہی نہیں جاتی۔ اگر میانہ روی پر یقین رکھنے والا طبقہ کہیں ہے بھی تو پھر اتنی چھوٹی اقلیت میں ہے کہ جس کی طوطی سے بھی کم آواز ہے جو کہیں سنائی نہیں دیتی؟

 یہ ہے اس وقت کے عالم اسلام کی صورت ِ حال ؟ جبکہ شدت پسندی کا دیو اسے نگلنے کے لیئے تیزی سے اس کی طرف بڑھ رہا۔ جبکہ عوام کی اکثریت جب بھی کہیں کوئی تحریک چلتی ہے تو اس کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھتی ہے اور اس کے پیچھے چل پڑتی ہے اور شاطر اسے استعمال کر کے بیوقوف بنا  تے رہتےہیں۔ کیونکہ شیطان اِن کو اِن کے اعمال اچھے کر کے دکھا تا ہے اور ُا ن کو بھی ُان کے اعمال اچھے کر کے دکھا تا ہے۔
   آپ اسلام کی پوری تاریخ کو دیکھ جا ئیں تو آپ کو ایک ہی بات پایہ ثبوت کو پہونچتی ہو ئی نظر آئے گی کہ جب بھی شدت پسندی آئی تو اپنے ساتھ لا منتا ہی کشت و خون لیکر آئی اور جب وہ رخصت ہوئی جبھی اسلام پھیلا ۔تاریخ اسلام میں اس کی ابتدا خارجیوں سے ہوئی ۔ یہ خارجی کیوں کہلائے اس کی وجہ یہ تھی یہ سب باہر سے آئے تھے اور عربی زبان میں باہر سے آنے والی ہر چیز بشمول انسان سب خارجی ہیں، خارجیوں نے ہی مدینہ منورہ کا گھراؤ کیا، حضرت عثمان  (رض)کو شہید کیا؟ اس وقت ان کی تعداد سیکڑوں میں تھی، اس کے بعد جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ خلیفہ بنے تو وہ کل تک جو ان کے مداح تھے، انہوں نے ان کے خلاف بھی پہلے زبانی تحریک چلائی اور پھر وہ عملی طور پر بزعم خود ان سے جہاد کے لیئے کوفہ کے اطراف میں جمع ہوگئے، جنکی تعداد اب بیس ہزار سے تجاوز کرچکی تھی، جن میں ساتھ سو سے زیادہ حفاظ تھے اور انہیں کے رہنما ان کی قیادت کر رہے تھے۔ کیونکہ اس وقت تک حفاظ ہی عالم ِ دین سمجھے جاتے تھے اور ابھی دنیا کی دوسری قوموں کی طرح اسلام میں علماءکا طبقہ عالم وجود میں نہیں آیا تھا جوکہ بہت بعد میں آیا۔ اس سے پہلے صرف وہ  قرآں کےمفسرین تھے جن کی تربیت حضور (ص) نے فرمائی تھی جو کہ انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے اور زیادہ تر مدینہ منورہ میں مقیم تھے ۔اس زمانے میں جسے کوئی بھی مسئلہ در پیش ہوتا تو وہ انہیں سے رجوع کرتاتھا۔ 

 انہیں خارجیوں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ جیسے انتہائی متقی انسان کو بھی بہت تنگ کیا لیکن وہ انہیں مسلمان ہونے کی وجہ سے طرح دیتے رہے ، اور ان کو ہر طرح سمجھانے بجھانے کی کوشش فرماتے رہے حتیٰ کہ حضور (ص) کی پیشن گوئی کے مطابق انہوں (رض) نے ان میں وہ تمام خصائل  دیکھ لیئے جوکہ مخبر ِ صادق (ص) نے پہلے ہی بیان فر ما دیئے تھے اور یہ بھی فرمادیا تھا کہ انہیں تمہارے ہاتھوں مارا جانا ہے۔ پھر بھی پہلے تو انہوں نے عام معافی کا اعلان کیا کہ ً جو نہ لڑے یا یہاں سے چلا جا ئے تو اس کو امان ہے، اسے کچھ نہیں کہا جا ئے گا ً لہذا خارجیوں کی اکثریت ان کوچھوڑ گئی ۔اب صرف وہ رہ گئے جو کسی قیمت پر بھی انسان بننے کو تیار نہ تھے جنکی تعداد چار ہزار سے زیادہ نہ تھی تو انہیں ان پر حملہ کر نا پڑا کیوں کہ ایسے لوگوں کا دار الخلافہ کوفہ کے سامنے پڑاو انتہائی خطر ناک تھا جبکہ انہوں نے چاروں طرف لوٹ مار قتل اور غارت گری کا بازار بھی گرم کر رکھا تھا۔ جبکہ یہ پہلے مدینہ منورہ میں لوٹ مار اور قتل و غارت گری سے نہیں چوکے تو یہاں کیا چوکتے؟ مگر اس سے ان کا بظاہر زور تو ٹوٹ گیا مگر وہ پورے عالم ِ اسلام میں پھیل گئے اور صدیوں تک کبھی ایک اور کبھی دوسری شکل میں قتل اور غارت گری کا بازار گرم کیئے رہے ۔ اور انہیں میں سے ایک نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو شہیدکر دیا۔

 چونکہ یہ پوری دنیا میں پھیل گئے تھے اور آج کی طرح اسلام کی تشریح ان کی اپنی تھی۔ وہ یہاں تک گئے کہ حرم اور حجر اسود بھی ان کے ہاتھوں سے محفوظ نہیں رہ سکا کہ بقول ان کے اس سے بت پرستی کی بو آتی تھی جس کو ہم سب کے آقا (ص) نے بو سہ دیا تھا جس سے ہر حاجی طواف ِ کعبہ شروع کرتا ہے۔ 

اس کے بعد یہ شدت پسندی کسی نہ کسی شکل میں موجود رہی حتیٰ کہ ما ورا النہر کے ایک قلعہ پر قابض ایک گروہ نے کئی نسل تک دنیا پر دہشت گردی کے ذریعہ حکومت کی اس لیئے کہ اس کے پاس جان دینے والوں کی اچھی خاصی تعداد ہمیشہ رہتی تھی اور جو اس تحریک کی  یا اس کے شیخ کی مخالفت کرتا تھا وہ جان سے جاتا تھا۔ کیونکہ وہ جانثار ہر بادشاہ کی فوج میں ،ہر شیخ کے مریدوں، میں گھس جاتے تھے۔ اور جب انہیں حکم ملتا تو طاہر ہوکر قتل کر دیتے۔ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک کہ ہلا کو نے آخری عباسی خلیفہ اور تمام مسلم بادشاہوں کو ختم کر کے اپنا تسلط نہیں قائم کر لیا، کیونکہ منگولوں میں وہ گروہ اس لیئے رسائی نہیں پاسکا کہ وہ سوائے اپنی قوم کے غیر کو اپنے قریب نہیں پھٹکنے دیتے تھے۔

اس کے بعد شدت پسندی دم توڑ گئی اور اصفیائے عظام کے ذریعہ جہان میں اسلام پھیلنا شروع ہوا اور آہستہ آہستہ ان کے بلند کردار دیکھ کر وہ مشرف بہ اسلام ہو تا چلا گیا۔ پھر دوبارہ اس کڑوہ پھل دینے والے درخت کی نرسری انگریزوں نے سلطنت ِ عثمانیہ کو ختم کر نے کے لیئے نجد میں لگائی جو کہ ہمیشہ سے قریش کی بر تری کے خلاف تھے۔ شریف مکہ نے انہیں عمرہ کرنے کی اجازت دیدی اور انہوں نے عمرہ کی آڑ میں مکہ معظمہ پر قبضہ کر لیا۔ وہ اہلِ مکہ کے لیئے خارجی ہی تھے اس لیئے کہ یہ نجد سے آکر قابض ہو ئے تھے جوکہ تاریخ میں انہونی بات تھی۔ انہوں نے بھی آکر انہیں خارجیوں کی طرح بدعتی کہنا شروع کر دیا۔ چونکہ اسلام اب وہ نہ رہا جو حضور  (ص)لا ئے تھے اور ہمیشہ ہر دور کے مسلمانوں میں مجدد آتے رہے تھے لہذا ان کو بھی ویسا سمجھا اور اسلام کی نشاةِ ثانیہ کے لیئے ان کی طرف دیکھنے لگے۔ انہوں نے پہلے تو بدعت کے نام پر قریشی دور کے تمام قبرستان تک مٹا ڈالے اور پھر ان وقف مسافر خانوں کو بھی ڈھادیا جو تمام دنیا کے امرءاور روساءنے حجاج کی سہولت کے لیئے  اطراف ِ حرم میں بنوا ہوئے تھے ۔ اوران کے بجائے  وہاں شہزادوں کی سرپرستی میں جدیدہوٹل بن گئے ۔ جوکہ ان کے خیال میں عین اسلام تھا اور بد عت نہیں تھی۔ پھرانہوں نے دنیا ئے اسلام کی قیادت اپنے ہاتھوں میں لینے کے لیئے دنیا بھر کے مدرسوں کو مدد دی مساجد پر قبضہ کر نے کے لیئے اپنے ہم خیال لو گوں کو مالی اعانت کی ۔ کیونکہ ان کے پاس ڈالر کی کمی نہ تھی اور ان کے قبضے میں دونوں مقدس شہرمکہ معظمہ اور مدینہ منورہ  بھی تھے لہذا انہوں نے خادم ِ حرمین شریفین کا لقب اختیا کر لیا اور اس طرح وہ عالم اسلام کے چودھری بن گئے۔ پھر کچھ عرصہ کے بعد امریکہ کو روس کو شکست دینے کے لیئے اسلام کی ضرورت پڑگئی چونکہ روس سے مسلمان بھی ان کے الحاد کی وجہ سے خوش نہ تھے۔ لہذا ان کے زیر اثر تمام ممالک اور مدارس متحرک ہو گئے جو پہلے عالم اسلام کے لیئے امام بناتے تھے اب مجاہد بنانے لگے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ شدت پسندی کا اونٹ سب جگہ بے مہار کے نظر آنے لگا ۔ جن کا ذہن یہ تھا، جو کہ انہیں پڑھایا گیا ہے وہی اسلام ہے؟ اور باقی سب بد عتی ہیں اور واجب القتل بھی اور انہیں ہر اس جگہ مداخلت کر نے حق حاصل ہے جہاں وہ چاہیں۔ یہ انجام کبھی شدت پسندی کے اونٹ کو کھلا چھوڑنے والوں نے سوچا ہی  بھی نہ تھا۔ جب توپوں کا رخ انکی اپنی طرف ہوا تو انہوں نے سوچنا شروع کیا اور اس کا گلا گھوٹنا چاہا ؟مگر اب اس کی جڑیں اتنی گہری ہو گئی تھیں کہ اس شدت پسندی کے اونٹ کے نتھنوں میں نکیل ڈالنے کے لیئے پہلے کی طرح کسی چنگیز خان کی ہی ضرورت تھی جو اب دنیا میں کہیں موجود نہیں ہے۔ آج ان کی نرسری اگانے والوں کی سمجھ میں خود نہیں آرہا ہے کہ کیا کریں؟ کبھی ان سے مذاکرات کرتے ہیں تو کبھی ان پر حملہ آور ہو تے ہیں ،اس کشمکش میں اسلام بد نام ہو رہا ہے جس کا شدت پسندی سے دور کا بھی تعلق بھی نہیں ہے اور کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا ہے کہ دنیا کا بنے گا اسلامی ملکوں کیا بنے گا اور اسلام کا کیا بنے گا ۔ یہ صرف مسلمانوں کے لیئے ہی نہیں پوری دنیا کے لیئے لمحہ فکریہ ہے جس طرف بھی دیکھئے لاشیں ہی لا شیں دکھا ئی دیتی ہیں۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ خادم ِ حر مین شریفین کو نہ ان کی آہیں سنائی دیتی ہیں نہ سڑتی لا شیں دکھا ئی دیتی ہیں ۔ ابھی چند دنوں سے بر ما میں مسلمانوں کے قتل عام کی مسلمانوں کو خبر ہوئی جو کہ آج سے نہیں ستر سال سے جاری ہے تھا، مگر پاکستان کی وزارت ِ خارجہ کو اب خبر ہو ئی ہے کہ اس نے کل بیان مذمت میں داغا ہے؟ اس کی تاریخ بھی بہت لمبی اور پرانی  بھی یہ علاقہ بھی کبھی مسلم بادشاہت کے زیر ِنگین تھا ساڑھے تین سوسال تک رہا پھر انگیریزوں نے مہربانیکرکے  اسے بر ما میں شامل کردیا؟ 



The views expressed by the writers in  feature/article are entirly their own and not necessarily reflect my views. 

No comments:

Post a Comment