Search This Blog

Sunday, 22 July 2012

رمضان اور وینائیں


رمضان اور وینائیں


علی خان
قارئین کو سب سے پہلے تو رمضان کریم کی مبارکباد۔ اس ماہِ مبارک میں شیطان زنجیر کردیے جاتے ہیں‘ یہ مخبر صادقؐ کی دی ہوئی خبر ہے۔ لیکن چھوٹے ‘ موٹے شطونگڑے نہ صرف یہ کہ آزادانہ گھومتے ہیں بلکہ اپنے بڑوں کی کمی بھی پوری کرتے ہیں۔ ایسا ایک شطونگڑا ہر انسان کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگ اس بات پر افسردہ ہیں کہ فحاشی اور عریانیت میں سب پر بازی لے جانے والی وینا ملک کا ایک ٹی وی چینل پر جو رمضان پروگرام آنے والا تھا‘ وہ اب نہیں آئے گا۔ لیکن ایسے لوگ زیادہ افسردہ نہ ہوں کہ اور کئی ’’وینائیں‘‘ حاضر مارکیٹ میں دستیاب ہیں جو روزہ بہلانے کے کام پر لگائی جارہی ہیں۔ کچھ لوگ اسے روزہ بہلانا نہیں‘ روزہ بہکانا کہتے ہیں۔ پاکستانی عوام کو مژدہ ہو کہ جو کام علماء کرام کے سپرد تھا اب وہ فحش فلموں میں برہنہ اور نیم برہنہ ہوکر کام کرنے والی اداکارائوں اور ناچنے والیوں کے حوالے کردیا گیا ہے۔ کیوں نہ ہو‘ سنا ہے کہ کسی قوم کی تہذیب وثقافت(کلچر) کا تعین اس قوم کے عمائدین کے ذریعہ ہوتا ہے۔ عمائدین کا کلچر سب پر الم نشرح ہے لیکن اب ہمارے ٹی وی چینلز ہماری ثقافت کا تعین کررہے ہیں‘ یہ بھی عمائدین کی صف میں آگئے ہیں۔ شیطان کو زنجیر کرنے کی وعید پر کچھ لوگ خوش ہیں کہ اب فلاں‘ فلاں کم از کم ایک ماہ کے لیے قید ہوجائیں گے۔ ممکن ہے ایسا ہی ہو لیکن ان کے قید خانے تو دیکھیں۔ مرزا غالب نے روزہ رکھنے سے بچنے کے لیے یہ عذر تراشا تھا کہ جس پاس روزہ کھول کے کھانے کو کچھ نہ ہو روزہ نہ کھائے وہ تو ناچار کیا کرے حالانکہ مرزا کے دور میں ایسی حکومتیں نہ تھیں جو ہمیں میسر ہیں۔ رمضان میں انہیں کھاتے بلکہ پیتے دیکھ کر کسی نے اعتراض کیا تو فرمایا ’’شیطان غالب ہے‘‘۔ ایک بار کوٹھے پر بیٹھے تھے (یہ وہ والا کوٹھا نہیں ‘ جہاں سے اُتر کر کئی شخصیات کوٹھیوں اور کاجل کی کوٹھڑیوں میں براجمان ہیں‘ چھت پر بنے ہوئے کمرے کو کوٹھا کہتے ہیں‘ کوٹھے والیاں بھی دو بڑے کمروں میں براجمان ہوتی ہیں‘یاد رہے یہ صرف مشاہدہ ہے) مرزا کے کسی دوست نے کہا‘ مرزا صاحب رمضان میں تو شیطان بند کردیا جاتا ہے۔ جواب ملا ’’یہی وہ جگہ ہے جہاں شیطان قید ہے۔‘‘ گو کہ مرز اکا یہ قید خانہ بھی چیل کے گھونسلے کی طرح تھا تاہم ہمارے بڑے بڑے شیطانوں کے قید خانے بھی بڑے بڑے ہیں‘ آراستہ و پیراستہ۔ ایک صدا عدالت عظمیٰ کی طرف سے بلند ہوئی ہے‘ لگے رہو منا بھائی۔ اشارہ اس مُنے کی طرف ہے جو عدالت کے حکم پر کہتاہے کہ ’’آئین کی تشریح کرنے والے لگے رہیں‘ میں تو من مانی کروں گا۔‘‘ ’لگے رہو مُنا بھائی‘ بھارت کی ایک فلم ہے۔ آپ نے دیکھی ہی ہوگی۔ رمضان کریم کی وجہ سے ہم اس فلم کی تشہیر نہیں کریں گے‘ ویسے تو کچھ لوگ ٹی وی چینلز پر فلمیں اور ڈرامے دیکھ کر ہی روزہ کاٹتے ہیں‘ ہمارے گھر میں اس کا حکم چلتا ہے جو گھروالی کہلاتی ہے ‘ہم شاید باہر والے ہوئے۔ جمعہ کو ابھی چاند نظر نہیں آیا تھا‘ گمان ہی تھا کہ حکم صادر ہوگیا‘ ٹی وی نہیں کھلے گا۔ اب ہم عریاں فلموں میں کام کرنے والیوں کے ’’اسلامی پروگرام‘‘کیسے دیکھ پائیں گے روزہ کیسے کٹے گا؟ لگے رہو مُنا بھائی والی بات حکمرانوں پر تو صادق آتی ہی ہے لیکن ہمارے ٹی وی چینلز بھی مبرا نہیں بلکہ نقش قدم پر چلتے چلتے کئی قدم آگے نکل گئے ہیں۔ کچھ بھی کہتے اور لکھتے رہے‘ یہ منے بھائی اپنی ہی دھن میں لگے ہوئے ہیں۔ ایک ٹی وی چینل سے مسلسل اعلان ہوتا رہا کہ فحش فلموں کی معروف اداکارہ وینا ملک رمضان میں استغفار کے عنوان سے پروگرام پیش کیا کریں گی لیکن جانے کیوں اب یہ پروگرام نہیں ہوگا۔ استغفار کرنا بہت مستحسن ہے اور اس کو سراہا جانا چاہیے۔ کیا پتا وینا ملک پورے کپڑے پہن کر یہ کام کرتیں اور اس طرح ایک آدھ گھنٹے ہی کے لیے سہی‘ وہ ستر پوش ہوجاتیں‘ اس کا ثواب ہیرو کو بھی ملتا۔ لیکن تنقید کرنے والے باز کہاں آتے ہیں۔ کہا گیا کہ ٹھیک ہے‘ استغفار کرنا بہت اچھی بات ہے لیکن کیا ضروری ہے کہ یہ کام ٹی وی چینل پر ہی کیا جائے۔ انہوں نے فرمایا تھا کہ ’’ہر عورت کی مرضی ہے کہ وہ جو چاہے پہنے یا نہ پہنے۔‘‘ اعتراض پہننے پر نہیں‘ نہ پہننے پر ہے‘ یوں تو ہمارے معاشرے میں فرزانہ باری جیسی حقوق نسواں کی متعدد ایسی علمبردار ہیں جو ٹی وی اسکرین پر آکر اعلان کرتی ہیں کہ پردہ کرنا یا نہ کرنا میرا اختیار ہے۔ یعنی پردے کے بارے میں اللہ کے احکامات منسوخ۔ محترمہ عاصمہ جہانگیر بھی اپنے بنائے ہوئے قانون کو ترجیح دیتی ہیں۔ جنرل پرویز کے دور میں جب مردوں اور عورتوں کی مخلوط میراتھن پر زور دیا جارہا تھا تاکہ ہم مغرب کو بتاسکیں کہ ہم بھی انہی جیسے ہیں، اس پر جب دین دار طبقہ کی طرف سے احتجاج ہوا اور فساد کا خطرہ پیدا ہوگیا تو میراتھن ریس تو نہیں ہوئی لیکن عاصمہ جہانگیر نے اکیلے دوڑ لگانے کا اعلان کردیا اور پھر دوڑ لگا دی۔ لاہور کی سڑک پر وہ اکیلی بھاگتی رہیں جس پر کسی نے لکھا بھی کہ اس عمر میں ان کے اکیلے بھاگنے میں کوئی حرج نہیں، انہیں کوئی مڑ کر بھی نہ دیکھے گا اور اب کسی اور کے ساتھ بھاگنے کی ان کی عمر نہیں رہی۔ کوئی مسلمان اللہ کے احکامات پر عمل کرے یا نہ کرے اس کا گناہ، ثواب اس کی گردن پر۔ لیکن کوئی کھلم کھلا بغاوت کرے تو وہ اللہ کا باغی ہی کہلائے گا۔ باغیوں کو تو جمہوری حکومتیں بھی معاف نہیں کرتیں، خواہ کتنی ہی لبرل ہوں۔ لیکن یہاں حکومت ہے کہاں۔ کل کو کوئی مغرب کی تقلید میں یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ ننگا پھرنے میں کیا حرج ہے اور یہ میرا اختیار ہے کہ کپڑے پہنوں یا نہ پہنوں۔ نام نہاد دانشور بڑی ڈھٹائی سے کہہ رہے ہیں کہ یہ اللہ اور بندے کا معاملہ ہے۔ یعنی کوئی نماز نہیں پڑھتا، ستر پوشی کا اہتمام نہیں کرتا، شراب پیتا اور شراب نوشی وشراب فروشی کا پرچار بھی کرتا ہے تو کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ تو اس کا ذاتی فعل ہے۔ ایک بہت بڑی شخصیت کے ریٹائرڈ جج برخوردار تو فرما رہے تھے کہ قرآن کریم میں شراب پر پابندی کا ذکر کہاں ہے؟ اچھا ہوا کہ ان کے والد گرامی زندہ نہیں تھے۔ ہمارے بڑے پسندیدہ کالم نگار جناب ایاز امیر فرماتے ہیں کہ شراب پر پابندی تو جنرل ضیاء الحق نے عائد کی تھی۔ رمضان المبارک کے پروگرام طوائفوں، ناچنے والیوں اور برہنگی پر اصرار کرنے والیوں کے حوالے کرنے پر ایسا نہیں ہے کہ کوئی ردِعمل نہ آیا ہو۔ شدید ردِعمل ہی کی وجہ سے قوم وینا ملک کے جلوئوں سے محروم رہے گی اور اس کی جگہ شاہد مسعود اور عامر لیاقت حسین کو دیکھے گی۔ ردِعمل کے حوالے سے ’فیس بُک‘ پر ایک سخت تنقیدی مضمون چل رہا ہے جس کے مصنف کا پتا نہیں لیکن لکھنے والا قوم کی ’’ہیروئنوں‘‘ سے سخت نالاں معلوم ہوتا ہے۔ لکھتا ہے کہ ’’اس مقدس مہینے میں تقریباً تمام ہی ٹی وی چینلز نے ماہِ رمضان کی خصوصی نشریات کے پروگرام فحش فلموں میں برہنہ اور نیم برہنہ ہو کر کام کرنے والی اداکارائوں اور ڈانسرز کے حوالے کردیے ہیں۔ جب کوئی پاکستانی سحری یا افطار کے وقت ٹی وی لگائے گا اُسے عریاں فلموں میں کام کرنے والی اداکارائوں کا نظارہ کرنا پڑے گا۔‘‘ لیکن جن کے گھر میں ٹی وی نہیں ہیں، وہ کیا کریں گے؟ روٹی کپڑا اور مکان دینے کی دعویدار حکومت یہ کام تو نہ کرسکی لیکن عوام کی ایک بڑی تعداد کو احساس محرومی سے بچانے کے لیے جگہ جگہ بڑے بڑے اسکرین ہی لگوا دے۔ اس سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ حکمرانوں کے کرتوتوں کی طرف کسی کا دھیان نہیں جائے گا۔ ویسے تو یہ کام کرکٹ کے مقابلوں سے بھی لیا جاتا ہے، کھلاڑی بھی اسٹارز ہیں گو کہ سری لنکا میں جا کر ماند پڑجاتے ہیں، مگر ہماری فحش انڈسٹری کے سپراسٹارز کی کیا ہی بات ہے۔ مذکورہ ’فیس بُک‘ مضمون میں جو فیسز دکھائے گئے ہیں‘ ان میں نمبر ون وینا ملک ہیں۔ واضح رہے کہ ہمارے ایک اور اسٹار عبدالرحمن ملک سے اُن کا بظاہر کوئی تعلق نہیں ہے۔ وینا ملک کے بارے میں دل کی بھڑاس یوں نکالی ہے کہ ’’وہ برہنہ ہو کر فلمی رسالوں کے لیے تصاویر کھنچوانے میں مشہور ہیں، ایک بھارتی ٹی وی کے لیے کیمرے کے سامنے بعض جنسی افعال بھی ریکارڈ کرا چکی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اب وہ ازالہ کردیتیں۔ اُن کے نہ ہونے کا سب سے زیادہ افسوس بی بی سی کو ہوگا جس نے انہیں ہیرو بنا کر پیش کیا ہے۔ بی بی سی کے مطابق ’’جب علماء نے ان کے طرز عمل کو شرمناک اور غیر اسلامی قرار دیا تو وینا نے جس بے خوفی سے (بھارت میں بیٹھ کر) اپنا دفاع کیا اُس نے ہلچل مچا دی اور ان کو راتوں رات ہیرو بنا دیا۔‘‘ شاید اسی لیے ہیرو چینل کی نظر اُن پر پڑی کہ فحاشی وعریانی اپنی جگہ، اس وقت تو ریٹنگ کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ سٹیزنز فار ڈیموکریسی کے منصور رضا نے فرمایا کہ ’’وینا بمقابلہ مُلا نے وینا کو پاکستانی لبرلز کی جدوجہد کی علامت بنا دیا، وینا کا پاکستانی بائیں بازو کی پسندیدہ ہونا وقت کے بدلنے کی علامت ہے۔ اُس نے وہ سب کہہ دیا جو ہم کہنا چاہتے تھے۔‘‘ ہم نہیں جانتے کہ یہ منصور رضا کون ہیں اور کیا وہ اپنی ماں، بہنوں، بیٹیوں کو بھی وینا کی طرح لبرلز کی جدوجہد کی علامت کے طور پر دیکھنا چاہیں گے؟ ہاں، شاید۔ چلیے، یہ باب اس حد تک تو بند ہوا اور وینا ملک اس رمضان میں لوگوں کو یہ نہیں بتا سکیں گی کہ اسلام کیا ہے اور اس پر کس طرح عمل کرنا چاہیے۔ ممکن ہے وہ چپکے سے منصور رضا کو بتا دیں۔ لیکن ایک وینا ملک ہی نہیں ہیں۔ ایک ٹی وی پر سعدیہ امام بھی اسلامی پروگرام کررہی ہیں۔ انٹرنیٹ پر ان کی ’’اسلامی‘‘ تصاویر دیکھی جاسکتی ہیں۔ ٹی وی اسکرین پر وہ بھی لبرل سین کرنے کے لیے مشہور ہیں۔ پھر مایا خان ہیں جو سابق ڈانسر ہیں لیکن عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے اب خود نہیں ناچتیں اور یہ کام ترک کرکے اسلامی پروگرام کی طرف آگئی ہیں۔ ان کی دلکش تصاویر بھی انٹرنیٹ کی زینت ہیں جو رمضان گزر جانے کے بعد دیکھی جائیں۔ پاکستان کے ٹی وی چینلز امریکی پروگرام برائے میڈیا سے مالی‘ اور تکنیکی تعاون بی بی سی سے حاصل کرتے رہے ہیں۔ حکومتِ پاکستان کو کیا دوش دیں کہ وہ امریکی کاسہ لیسی کیوں کرتی ہے۔ مشہور ہے کہ جس کا کھائیں، اس کا گائیں۔ امریکی اور برطانوی اداروں کی طرف سے یہ دبائو ڈالا جارہا تھا کہ پاکستانی چینلز پر پیش کیے جانے والے اسلامی پروگرامز سے شدت پسندی پھیل رہی ہے، انہیں بند کیا جائے۔ اس کا حل یہ نکالا کہ ’’اسلامی پروگرامز‘‘ بند تو نہ کیے جائیں، ان کی میزبانی حسینان رنگین کو دے کر ان میں نیا رنگ بھر دیا جائے۔ ہمارے ایک ساتھی کہتے ہیں کہ ’’ان‘‘ کو تم حسینان رنگین کہتے ہو، ان کی عمریں تو دیکھو، رنگ کب کا چھوٹ چکا۔ دوستو، یہ وہی لبرل مزاج ہے جو کبھی بظاہر معزز خواتین وحضرات کو امریکی سفارت خانے کی ہم جنس پرستوں کی محفل میں لے جاتا اور غیر ملکیوں سے لبرل سلوک کرنے پر آمادہ کرتا ہے اور کبھی مہنگے ترین اسکولوں کی ایک چین کی مالکہ قصور کیمیتھی کی خوشبو پھیلانے کے بجائے اسلام آباد کے اسکول میں ہم جنس پرستی پر مذاکرے اور مباحثہ کا اعلان کرتی ہے اور سیاست میں بھی قدم دھرچکی ہے۔ عمران خان کیسے لوگوں کے نرغے میں آگئے ہیں۔ فوزیہ قصوری کوخواتین وِنگ کی سربراہی کا ’’پر‘‘ لگا سکتے ہیں تو شیخ رشید نے کیا بگاڑا ہے۔ چلیے، خواتین کا پیچھا چھوڑ دیتے ہیں گو کہ اب وہ خود رمضان کریم کی تقدس پر حملے کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ مردوں میں مذہبی پروگرام کرنے میں عامر لیاقت حسین نے بڑی شہرت پائی ہے۔ ان کے لیے ایک مشورہ ہے کہ کم ازکم رمضان میں تو اپنے نام کے ساتھ ’’ڈاکٹر‘‘ کا سابقہ لگانے سے گریز کریں کہ جھوٹ بولنے سے روزہ مکروہ ہو جاتا ہے۔ انہوں نے اشتہارات کے ذریعہ اپنی آمد کو مشتہر کرتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ میں کیوں آیا؟ سیدھی سی بات ہے کہ زیادہ پیسوں اور اختیار کے لیے۔ جنہوں نکالنے کے بعد واپس لیا ان کی بھی یہی مجبوری ہے۔ عامر لیاقت کے نام پر کروڑوں کے اشتہارات ملیں گے اور ریٹنگ بھی بڑھے گی۔ وینا ملک کو ’’دعوتِ تبلیغ‘‘ دینے والے چینل کا بھی تو یہی دعویٰ تھا کہ وہ عوام کی ضرورت پوری کررہا ہے۔ حالانکہ یہ اس کی اپنی ضرورت تھی۔ وینا ملک کو انکار کرنے کے باوجود نہ جاننے والے بھی اس ہیرو سے واقف ہوگئے۔ عامر لیاقت کے بارے میں ہم مزید کچھ نہیں لکھیں گے کیونکہ لبرل طبقہ اور قادیانیوں کی مخالفت نے ان کے لیے نرم گوشہ پیدا کردیا ہے۔ ایک اور بڑے مشہور اینکر شاہد مسعود ہیں۔ جو اپنے مطابق اپنے سیاسی تجزیے کرتے ہیں۔ لیکن کیا ضروری ہے کہ وہ دینی پروگرام بھی کریں۔ ہمیں تو وہ اچھے لگتے ہیں مگر ایک سینئر صحافی نصر اللہ ملک کچھ اور کہہ رہے ہیں۔ 20 جولائی کو ایک اخبار میں ان کا کالم چھپا جس کا عنوان ہے’’وینا ملک اور ڈاکٹر شاہد کا رمضان پر حملہ‘‘۔ لیکن اب وینا ملک تو پسپا کردی گئیں، شاہد مسعود کے ساتھ کسی اور کو لگایا گیا ہے۔ نصر اللہ ملک شاید شاہد مسعود کی مقبولیت سے ناخوش ہیں۔ لکھتے ہیں کہ ’’سحر وافطار سے دور، رکوع وسجود سے بیزار ڈاکٹر شاہد مسعود باآواز بلند اپنی لاکھوں کی تنخواہ کھری کرنے کے لیے اسلام کی ایسی ایسی تعبیر پیش کررہے ہوں گے کہ الاامان والحفیظ۔ اور پھر بریک کے دوران سرگوشی میں اپنے آس پاس موجود رفقاء سے کہہ رہے ہوں گے کہ کیسا اُلو بنایا‘ مولویوں کو کیسے لڑایا، دیکھا، دیکھا، بس دیکھتے جائیں ہماری ریٹنگ کیسے اوپر جاتی ہے۔ اپنے پروگراموں کے دوران میں قدر ے تیز گفتگو کرنے والوں کو ’’بھونکا‘‘ کا نام دینا ان کی پرانی عادت ہے… لیکن کیا کہیں کوئی ملی حمیت یا مذہبی غیرت آڑے آسکے گی؟ یہ سوچ کر میں پریشان ہوں کہ اگر اس یلغار کو یہیں نہ روکا گیا تو اگلا رمضان کیسا ہوگا؟‘‘ اس میں سوچنے کی کیا بات ہے۔ ممکن ہے کہ اگلے رمضان میں ہمارے ٹی وی چینلز ریٹنگ بڑھانے کے لیے بھارت سے کترینہ کیف، ملائکہ اروڑا، راکھی ساونت یا کسی اور آئٹم گرل کو بلوا لیں۔ آخر عمران خان نے بھی تو چندہ جمع کرنے کے لیے سشمیتا سین کو بلوایا تھا جن کی نیم برہنہ ٹانگوں کے طفیل زیادہ چندہ ملا ہوگا۔ سارا جھگڑا ریٹنگ ہی کا تو ہے۔ اس کے لیے صرف چینلز ہی کو کیوں ملامت کی جائے۔ یہی تو وہ ڈبہ ہے جس میں شیطان بند کیا گیا تھا مگر آپ کے ہاتھ میں موجود ریموٹ کے ذریعہ وہ آپ کے گھر میں بے تکلفی سے ناچتا ہے۔ مرزا ہوتے تو وہ اسی کو ’’غالب‘‘ قرار دیتے اور مسلمانوں کو مغلوب۔ ریٹنگ بڑھانے کے لیے تو ہمارے حکمران بھی ہاتھ پیر مارتے رہتے ہیں۔ نصر اللہ ملک نے شاہد مسعود کو نماز، روزے کا عملی باغی قرار دیا ہے۔ حضرت، ملک کی مقتدر ترین شخصیت کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ جنرل کیانی کا تو ہم کوئی تذکرہ نہیں کرتے، البتہ یہ سوچ کر پریشان ہوتے ہیں کہ سگریٹ سے سگریٹ سلگانے والا رمضان میں کیا کرے گا؟

No comments:

Post a Comment