Search This Blog

Sunday, 29 July 2012

مٹھی بند ریت کے قیدی

مٹھی بند ریت کے قیدی

- امبر مصعب

’’ایک توتم اسی بات پر اٹک جاتی ہو کہ موت ابھی بہت دور ہے۔ تم ایسا کیوں سوچتی ہو! جبکہ موت کا تو کوئی بھروسہ ہی نہیں، کسی بھی وقت کسی کو بھی سیکنڈوں میں دبوچ لے گی۔‘‘ رابعہ نے منہ بسورتے ہوئے افشاں سے کہا۔ رابعہ افشاں کو سمجھا رہی تھی، جبکہ افشاں یہ سوچنے کے لیے بھی تیار نہیں تھی کہ میں یا کوئی بھی شخص مسلمان ہو یا نہ ہو، اسے موت اتنی جلدی پلک جھپکتے آئے گی، روح قبض کرلی جائے گی، اورہم منوں مٹی تلے چلے جائیں گے! بلکہ وہ یہ سوچتی کہ ابھی تو ہماری جوانی ہے، ابھی موت اور موت کی باتیں کیوں؟ کھائو پیو، گھومو پھرو، جب ہم بوڑھے ہوں گے تو بڑھاپے میں اللہ اللہ کرلیں گے، پھر کہیں جاکے موت ہمیں آواز دے گی اور ہم قبر کی آغوش میں جاسوئیں گے۔ رابعہ جو کہ افشاں کی بڑی بہن تھی اس سے اکثر اس بات پر بحث ہوجاتی۔ رابعہ بڑی ہونے کے ساتھ سمجھدار بھی تھی۔ افشاں چھوٹی تھی اور اس کا دھیان نت نئے فیشن کے ملبوسات پر تھا۔ اور میگزین اور فلمیں دیکھنے کا تو اس کو جنون کی حد تک شوق تھا۔ ٭٭٭٭ دونوں بہنوں کے امتحانات ختم ہوچکے تھے۔ چھٹیوں کا اعلان بالخصوص افشاں کے لیے کسی بڑی خوشی سے کم نہ تھا۔ ’’آپی سب سے پہلے تو میں اپنے لیے نئے فیشن کے ملبوسات سلوائوں گی۔‘‘ افشاں نے رابعہ سے خوشی سے جھومتے ہوئے کہا۔ ’’اور ہاں آپی ایک سوٹ تو ود آئوٹ سلیوز سلوانا ہے جو کہ مجھے بہت پسند ہے۔‘‘ ’’ہونہہ… ہونہہ… کیا کہہ رہی ہو!‘‘ رابعہ نے چونک کر کہا۔ ’’امی سلیولیس کبھی نہیں پہننے دیں گی اور ننگا پہناوا کہہ کر ڈانٹ دیں گی۔‘‘ امی کا نام سن کر افشاں افسردگی سے بولی ’’واقعی آپی ہمارے والدین نہیں پہننے دیں گے۔ مجھے تو اس خواہش کو مارنا پڑے گا۔‘‘ اچانک افشاں کے ذہن میں ایک اور پلان آیا:’’آپی کیوں نا ہم چھٹیوں میں اسلام آباد پھوپھو کے گھر چلیں اور وہاں اپنی چھٹیاں گزاریں۔ پھوپھو کے گھر بڑا مزا آئے گا۔‘‘ رابعہ جو کہ ابھی تک سوچوں میں گم تھی، صوفے پر ٹیک لگاتے ہوئے بولی: ’’تم اس لیے بھی خوش ہورہی ہو ناکہ وہاں تمہاری پھوپھی زاد سمیرا تمہاری ہم عمر اور ہم خیال موجود ہے، جس کے ساتھ تمہاری چھٹیاں تمہارے مزاج کے مطابق گزر جائیں گی۔‘‘ ٭٭٭٭ افشاں نے منانے کے انداز میں رابعہ کے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے کہا: ’’آپی! امی اور ابو سے اجازت کا مرحلہ آپ طے کریں گی۔‘‘ رابعہ نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا: ’’اچھا بھئی رات کے کھانے پر بات کریں گے۔‘‘ ٭٭٭٭ ’’ارے آپی سامان بھی پیک کرنا ہے، جلدی کرو، کھانا ختم بھی کرو‘‘۔ افشاں جس کا خوشی کے مارے کھانا بھی حلق سے نہیں اتررہا تھا دستر خوان سے اٹھتے ہوئے بولی۔ ’’ارے بھئی کھانا تو آرام سے پورا کرلو۔‘‘ ابو اجازت دینے کے بعد سوچ رہے تھے کہ دونوں بیٹیوں کو ٹرین سے بھیجا جائے یا ہوائی جہاز سے! ٭٭٭٭ رات کو بستر پر لیٹتے ہوئے رابعہ نے افشاں سے کہا: ’’سونے کی دعا کے ساتھ کلمہ بھی پڑھ لیا کرو، نہ جانے صبح نصیب ہو یا نہ ہو، ہمارے سوتے ہوئے ہی ہماری موت کا وقت آجائے۔‘‘ افشاں جو کہ ابھی فلم پوری کرنے کے بعد بستر پر نیم دراز ہوئی تھی اور سونے کی کوشش کررہی تھی رابعہ کی بات پر بیزاری سے بولی ’’اچھا بھئی ٹھیک ہے نا‘ ویسے آپی آپ بھی کسی موت کے فرشتے سے کم نہیں‘‘۔ یہ کہتے ہی افشاں نے اپنا منہ چادر میں کرلیا۔ ٭٭٭٭ دوسرے دن ابو نے آفس سے آکر امی سے کہا کہ یہ ٹکٹ رکھ لو اور ان کو بھیجنے کی تیاری کرو۔ یہ سن کر دونوں بہنوں کا خوشی سے برا حال تھاکہ ہم جہاز سے اسلام آباد پھوپھو کے گھر جارہے ہیں۔ افشاں دل ہی دل میں پلان بنارہی تھی کہ وہاں جاکر بہت گھومیں گے، اور میں تو سمیرا کے ساتھ بہت مزا کروں گی۔ نئی موویز دیکھوں گی۔ اور… اور … بہت کچھ۔ امی کی آواز نے افشاں کا پلان بیچ میں ادھورا چھوڑ دیا: ’’افشاں سواری کی دعا یاد ہے نا؟‘‘ ’’جی جی امی‘‘۔ افشاں نے بیزاری سے جواب دیا ’’امی میں جہاز میں بیٹھ کر پڑھ لوں گی۔‘‘ ’’ابو ہمیں ایئرپورٹ چھوڑنے آپ جائیں گے یا ہم بھائی کے ساتھ جائیں؟‘‘ افشاں نے ابو سے پوچھا۔ رابعہ کو جانے کی خوشی بھی تھی اور امی ابو سے کچھ عرصہ دور رہنے کا غم بھی۔ خوشی اور غم دونوں کے ملے جلے تاثرات اس کے چہرے سے نمایاں تھے اور اس کی آنکھوں میں نمی تھی۔ امی کی آواز نے اسے چونکا دیا ’’ارے بھئی ہم سب تمہیں ایئرپورٹ چھوڑنے جائیں گے۔‘‘ رابعہ امی کے گلے لگ کر رو رہی تھی ’’امی مجھے آپ اور ابو بہت یاد آئیں گے، آپ لوگ اپنا بہت خیال رکھنا۔‘‘ ٭٭٭٭ گلزار صاحب نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے صبیحہ بیگم سے چائے کے ایک کپ کی فرمائش کی اور ساتھ ہی ٹی وی کا ریموٹ مانگا۔ ٹی وی کھولتے ہی اچانک بریکنگ نیوز پر نظر پڑی کہ کراچی سے اسلام جانے والی فلائٹ بھوجا ایئرلائن کا طیارہ اسلام آباد کے قریب گر کر تباہ ہوگیا ہے۔ یہ خبر سنتے ہی گلزار صاحب نے دل پر ہاتھ رکھ لیا۔ بس زبان سے ایک ہی لفظ نکل رہا تھا کہ ’’یااللہ خیر‘‘ چائے کا کپ لاتی ہوئی صبیحہ بیگم سے کپ چھوٹ کر فرش پر بکھر چکا تھا۔ وہ بوجھل قدموں سے گلزار صاحب کے نزدیک پہنچیں جنہیں دل کا اٹیک آچکا تھا۔ ایک طرف شوہر اور دوسری طرف بیٹیاں… صبیحہ بیگم کے منہ سے ’’یااللہ مدد‘‘ کے سوا اور کچھ نہ نکل سکا۔ ٭٭٭٭ گلزار صاحب کو دل کا دورہ تو آیا لیکن ابھی مہلتِ زندگی باقی تھی، مگر دوجوان بیٹیاں جہاز کے حادثے کی نذر ہوچکی تھیں۔ یہ مہلتِ زندگی کوئی اصول نہیں رکھتی۔ نہ عمر کی قید ہے نہ صحت کی قید۔ بس مہلت مٹھی میں بند ریت کی ماند ہے۔ اِدھر مٹھی کھلی اور اُدھر یہ پھیلی۔

No comments:

Post a Comment