Search This Blog

Tuesday 10 July 2012

انقلاب ِمصر کا تیسرا رائونڈ

انقلاب ِمصر کا تیسرا رائونڈ

رؤف عامر پپابریار 
- ٹیگور کا قول ہے کہ غلطی کو غلطی جان کر اس کی اصلاح نہ کرنے والا ایک اور گمبھیر ترین غلطی کررہا ہوتا ہے جو قوموں کو تباہی و بربادی کے گڑھوں میں درگور کردیتی ہے۔ پچھلے چند مہینوں میں مشرق وسطیٰ اور عرب دنیا میں انقلابی طوفانوں کا ایسا برق رفتار سلسلہ شروع ہوا کہ نامور بادشاہوں کے تخت الٹ گئے۔ مصر میں عوامی ازدحام نے ایک طرف حسنی مبارک کی آمریت کا دھڑن تختہ کرڈالا تو دوسری طرف مصریوں نے صدارتی الیکشن میں ماضی کی جہادی تنظیم اخوان المسلمون کے سربراہ ڈاکٹر مرسی کو51.70 فیصد ووٹوں سے صدارت کے سنگھاسن پر فروکش کرکے مغرب میں ہلچل پیدا کردی۔ حسنی مبارک کی گوشمالی کے بعد ریاستی اختیارات فوجی کونسل کے سپرد تھے جس نے صدارتی اختیارات میں کمی لانے اور نیا بجٹ بنانے کا کام اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ فوجی کونسل، مصری افواج کے جرنیل اور اہم ترین بیوروکریٹس حسنی مبارک کی باقیات ہیں جنہیں نکالے بغیر نہ تو انقلابِ مصر کا منشور عملی شکل ڈھال سکتا ہے اور نہ ہی مصری عوام کے وہ خواب شرمندۂ تعبیر ہوں گے جو انہوں نے حسنی مبارک کی30 سالہ خونخوار ڈکٹیٹرشپ کے خاتمے کی جدوجہد اور تحریک کے دوران دیکھے تھے۔ اسلام پسندوں کی کامیابی پر فلسطینی خوشی سے باغ باغ ہوگئے، کیونکہ مصر عرب لیگ اور مسلم دنیا کا واحد ملک ہے جس کے معزول اور سزایافتہ سابق صدر مبارک نے نہ صرف اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرکے تحریک آزادی فلسطین کی لاثانی جہدِ مسلسل پر نہ صرف منفی اثرات مرتب کیے بلکہ امریکی کٹھ پتلی سابق آمر مبارک نے تل ابیب کا دورہ کرکے دراصل اسرائیلی وجود کو تسلیم کرنے کی سند جاری کردی۔ مبارک نے اسرائیلی مظالم پر ہمیشہ خودغرضانہ و مجرمانہ خاموشی اختیار کیے رکھی، جس نے یہودیوں کو فلسطینیوں کے خلاف سفاک ترین درندگی کا جواز بخشا۔ ڈاکٹر مرسی کا تعلق شہرت یافتہ تنظیم الاخوان المسلمون سے رہا ہے۔ اخوان کی عظیم فتح پر لاکھوں مصری التحریر چوک پر جشن منارہے تھے۔ یہ وہی چوک ہے جہاں سے اٹھنے والی انقلابی تحریک نے عالم عرب کا پانسہ پلٹ دیا۔ مصریوں کا جشن ہر مسلمان کے لیے باعث ِاطمینان و آسودگی تھا، مگر راقم الحروف کو مصریوں کی سادہ لوحی پر رنج ہوا اور ساتھ ہی دل کے نہاں خانوں میں یہ سوال ٹھاٹھیں مارنے لگا کہ کیا انقلابِ مصر مکمل ہوچکا؟ کیا امریکا کی اندھی آنکھوں میں کھٹکنے والی جہادی جماعت اخوان سامراجی سازشوں کی بھرمار میں ریاستی معاملات کو ہینڈل کرسکے گی؟ ڈاکٹر مرسی کی کامیابی اور اس کے خطے پر یورش کرنے والے اثرات کا تجزیہ کرنے سے پہلے یہ جانناضروری ہے کہ اخوان المسلمون کس چڑیا کا نام ہے؟ اس کی تاریخ پر سرسری نگاہ ڈالنے سے مصر کا مستقبل حقیقت بن کر ہمارے سامنے آسکتا ہے۔ اخوان کی بنیاد معمولی استاد سمجھے جانے والے معلم حسن البناء نے1928ء میں رکھی۔ سادہ لوح دکھائی دینے والا استاد ہمت، جنون اور جرأت کا کوہِ گراں تھا۔ اس کی بلاغت، جنون اور دانشورانہ اور فلسفیانہ فکر و آگہی نے اخوان کو گراس روٹ لیول اور گلی کوچوں تک پہنچادیا۔ یہ وہ دور تھا جب مصر میں اسلام سے بیزاری اور روشن خیالی کا دور دورہ تھا۔ مصریوں کو خدائی تعلیمات کی طرف راغب کرنے اور بیت المقدس کی آزادی کے نعرے لگانے پر حسن البناء پر بدترین ریاستی تشدد کیا گیا۔ وہ ریاستی اور سامراجی فرعونوں کے سامنے ڈٹ گئے، جس کی پاداش میں آخرکار انہیں شہید کردیا گیا۔ تینوں مصری صدور جمال عبدالناصر، انورالسادات اور حسنی مبارک کے ادوار میں اخوان کے کارکنان پر پھانسیوں، قید و بند کی صعوبتوں اور جان لیوا تشدد کے پہاڑ توڑے گئے۔ حسن البناء کے قریبی ساتھیوں اور اسکالرز کو پھانسی کی سزائیں دی گئیں۔ اخوان کے کارکنوں کی تربیت دیگر اسلامی تحریکوں کے مقابلے میں مختلف انداز میں ہوئی۔ اخوان نے عوامی بھلائی کے شعبوں میں خوب نام کمایا۔ اخوان کی میڈیکل ٹیم ٹرسٹ بن چکی ہے جس نے روئے ارض کے ہر کونے میں انسانیت کی آواز و صدا پر اپنی خدمات کا لوہا منوایا۔ اخوان نے اقتدار تک رسائی کو اپنا ہدف نہیں بنایا بلکہ نئی نسل کی تعلیم و تربیت، دعوت ِدین اور احترامِ انسانیت کا بیڑہ اٹھایا، جس نے اخوان کو ہر مصری کے دل کی دھڑکن بنادیا۔ اخوان کے ترجمان نے بتایا کہ جیت میں سیاسی جدوجہد صرف پانچ فیصد تھی جبکہ بقیہ95 فیصد کامیابی دینی تعلیم و تربیت اور عوام الناس کی تعمیری اور فلاحی کاوشوں کا طرہ امتیاز ہے۔ حسنی مبارک کے بعد پہلے پارلیمانی جمہوری الیکشن میں اخوان بڑی پارٹی بن گئی اور ڈاکٹر مرسی اخوانی صدر بن گئے۔ مسلم دنیا کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ کسی مسلمان ملک کے اندر کوئی اسلامی تحریک الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوئی۔ اخوان کی جیت اپنی جگہ، مگر اسٹیبلشمنٹ، جرنیل اور بیوروکریسی منتخب حکومت کو زیادہ اختیارات دینے کی راہ میں مزاحم ہیں۔ دوسری طرف اخوان بھی دھڑوں میں بٹی ہوئی ہے، جب تک اخوان کے سارے دھڑے یکسو نہیں ہوتے تب تک کسی نیک شگون کا اظہار دیوانے کی بڑ ہوگا۔ ڈاکٹر ابومنعم ایک گروپ کے مہاراج ہیں۔ اخوان سے الگ ہونے والا ایک دھڑا سلفیوں کا ہے جو شدت پسند سمجھے جاتے ہیں۔ سلفیوں نے النور کے نام سے الیکشن میں حصہ لیا اور 25 نشستیں جیت کر ہر کسی کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ ایک گروہ حسنی مبارک کے مقربین اورخوشہ چینوںکا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ڈاکٹر مرسی ان منقسم گروہوں کو کب اور کیسے جوڑ پاتے ہیں۔ ڈاکٹر مرسی کو بڑے چیلنج درپیش ہیں۔ معیشت کا پہیہ ڈانواڈول ہے۔ سیاسی انتشار اور افراتفری زوروں پر ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کا خاتمہ سنگین چیلنج ہے۔ ڈاکٹر مرسی نے منتخب ہونے کے 20 منٹ بعد اپنی جماعت کو چھوڑ دیا کہ وہ اب پورے مصر کے صدر ہیں۔ منتخب صدر کو مغرب، اسرائیل اور عالمی قاتل امریکا سے کسی قسم کے تعاون کی نہ تو امید کرنی چاہیے اور نہ ہی ڈالروں کی خیرات کے لیے سامراجیوں کے سامنے جھولی پھیلانا چاہیے۔ مصری صدر کو رابرٹ فسک کی اس پیشن گوئی پر دھیان دینا ہوگا کہ وائٹ ہائوس مرسی کو صدر تسلیم نہیں کرتا۔ امریکا اخوان حکومت کو گرانے کا مکروہ کھیل ضرور کھیلے گا۔ انقلابِ مصر ابھی مکمل نہیں ہوا، مصریوں کو جرنیلوں اور بیوروکریٹس کے خلاف جدوجہد کا ایک اوررائونڈ کھیلنا ہوگا۔ یاد رہے عسکری اور دفاعی اداروں پرحسنی مبارک کے مریدین کی بڑی تعداد مسلط ہے جن کو نکالے بغیر انقلاب کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ آمریت کی باقیات جرنیلوں، افسر شاہی اور سرمایہ داروں کے خلاف ٹیگور کے محولہ بالا قول کی روشنی میں مصریوں کو فائنل رائونڈ کھیلنے کی تیاری کرنی ہوگی۔ اگر تیسرا رائونڈ ملتوی کرنے کی غلطی کی گئی تو پھر انجامِ گلستاں وہی ہوگا جس کا تذکرہ ٹیگور نے برسوں قبل اپنے قول میں کردیا تھا۔

No comments:

Post a Comment