Search This Blog

Friday 27 July 2012

ظالم ابن ظالم، قاتل ابن قاتل…بشارالاسد

ظالم ابن ظالم، قاتل ابن قاتل…بشارالاسد

- اسد احمد

یہ رجب سنہ۱۳ہجری کا ذکر ہے ۔ صحابی رسول حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ کی قیادت میں اسلامی افواج نے دمشق کا چاروںطرف سے محاصرہ کرلیا تھا، شہر میں کافی فوج موجود تھی تاہم رومیوں کی جرات نہ ہوئی کہ وہ میدان میں نکل کر مسلمانوں کا مقابلہ کرتے۔یہ محاصرہ رجب ۱۳ ہجری سے۱۶ محرم ۱۴ ہجری تک ۶مہینے جاری رہا۔(بحوالہ :تاریخ اسلام از محمد اکبر شاہ نجیب آبادی،جلد اول)اسی دوران دمشق کے بطریق کے گھر بچے کی ولادت ہوئی اوراسی خوشی میں اہل شہر نے خوب جشن منایا اور ایسے بدمست ہوکر سوئے کہ کسی بات کا ہوش نہ رہا۔حضرت خالد بن ولید راتوں کو سوتے نہ تھے بلکہ گھوم پھر کر خبریں لیا کرتے تھے اسی لیے انہیں اس بات کی اطلاع ہوگئی ۔وہ کمند لگا کر مع چند جانبازوں شہر کی دیوار پر چڑھ کر اندر اُتر گئے اور پھاٹک کے محافظوں کو قتل کرکے پھاٹک کھول دیے۔مسلمان باہر منتظرتھے اور پھاٹک کھلتے ہی اندر داخل ہوگئے ،اہل شہر اس ناگہانی مصیبت سے گھبرا گئے اور سیدھے حضرت ابوعبیدہ کے پاس پہنچے جو دوسری سمت متعین تھے اور صلح کی درخواست کی ،انہیں صورت حال کا پوری طرح علم نہیں تھا اس لیے صلح قبول کرلی۔اب شہر کی ایک سمت سے خالد بن ولید فاتحانہ داخل ہوئے اور دوسری طرف سے ابوعبیدہ مصالحانہ۔ لیکن سپہ سالار ابوعبیدہ چونکہ مصالحت کرچکے تھے اسی لیے دمشق کی فتح مصالحانہ قرار دی گئی اور نہ مال غنیمت حاصل کیا گیا اور نہ کسی کو لونڈی غلام بنایا گیا۔ (بحوالہ:تاریخ اسلام از الدین معین شاہ ندوی، حصہ اول)بعض روایات کے مطابق حضرت خالد بن ولید بذریعہ بمصالحت اور حضرت ابوعبیدہ بن الجراح بذریعہ شمشیر شہر میں داخل ہوئے۔ شام و مصر کی فتح کے سلسلے میں مسلمانوں نے جو کارنامے انجام دیے وایران کی فتح سے کم حیرت انگیز نہیں تھے۔رومی سلطنت دنیا کی طاقتور ترین سلطنتوں میں شمار ہوتی تھی اور ہرقل کو اپنے وقت کا سب سے بڑا سپہ سالار سمجھا جاتا تھا۔ اسلامی افواج کی کامیابیوں کو دیکھ کر اس نے معزز اور صائب الرائے اشخاص کو بلا کر ان سے دریافت کیا کہ :جب عرب تم سے تعداد،اسلحے اور ساز وسامان غرض ہر چیز میں کم ہیں تو پھر تم ان کے مقابلے میں کامیاب کیوں نہیں ہوتے؟اس پر ایک تجربہ کار شخص نے جواب دیاکہ:عربوں کے اخلاق ہمار ے اخلاق سے اچھے ہیں،وہ رات کو عبادت کرتے ہیں اور دن کو روزہ رکھتے ہیں۔وہ کسی پر ظلم نہیں کرتے،ایک دوسرے سے برابری کا سلوک کرتے ہیں۔اس کے برخلاف ہمارا حال یہ ہے کہ ہم شراب پیتے ہیں،بدکاریاں کرتے ہیں،وعدے کی پابندیاں نہیں کرتے،دوسروں پر ظلم کرتے ہیں۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کے ہرکام میں جوش و استقلال ہوتا ہے اور ہمارے کام ان خوبیوں سے خالی ہوتے ہیں۔(بحوالہ: ملت اسلامیہ کی مختصر تاریخ ،حصہ اول،از ثروت صولت) اسلامی خلافت کا مدینے کے بعد دوسرا دارالخلافہ دمشق تھا، صلیبی حملہ آوروں کے خلاف مدافعت کا مرکز یہی خطہ تھا،اسلامی دنیا میں دارالحدیث کے نام سے پہلی عمارت بھی شام میں تعمیر کی گئی۔شام کی خاک میں کئی جلیل القدر صحابہ دفن ہیں ۔جن میں حضرت بلالؓ، حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ اور سیف الاسلام حضرت خالد بن ولیدؓ اور دیگر اصحاب شامل ہیں۔حضرت سیدہ زینبؓ کا مزار بھی یہیں ہے۔تاریخی اہمیت کی حامل جامع مسجد اموی آج بھی اموی دور کی یاد دلاتی ہے۔ جامع مسجد اموی کے نزدیک ہی عظیم جرنیل سلطا ن صلاح الدین ایوبی مدفون ہیں۔۲۰ویں صدی میں ملت اسلامیہ کی رہنمانی کرنے والی چند عظیم شخصیات جیسے علامہ رشید رضا اور مصطفی سباعی کا تعلق بھی شام سے ہی تھا۔ علامہ شکیب ارسلان بھی شام سے عثمانی پارلیمنٹ کے رکن رہے۔ دمشق ہمیشہ ہی سے مسلمانان عالم کیلیے ایک خاص کشش رکھتا آیا ہے۔معروف نومسلم اور عظیم اسکالر محمد اسد اپنی کتاب ’’روڈ ٹو مکہ‘‘ میں دمشق کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :اہل دمشق کی زندگی میں مجھے ایک روحانی سکون نظر آیا،باہم ایک دوسرے کے ساتھ ان کا جو رویہ اور معاملہ کرنے کا طریقہ تھااس میں یہ روحانی سکون اور باطنی طمانیت بخوبی دیکھی جاسکتی تھی۔جماعت اسلامی کے بانی سیدابواعلیٰ مودودیؒ جب پاکستا ن میں زیر عتاب تھے تو ۱۹۵۶ میں اخوانی رہنما سعید رمضان کی دعوت پر ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کے لیے دمشق پہنچے تو ایئرپورٹ پر استقبال کے لیے شام کے وزیراعظم ہبری العلی بذات خود تشریف لائے۔ معروف عالم دین مولانا ابوالحسن علی ندویؒ اپنے سفرنامے دریائے کابل سے دریائے یرموک تک میں دمشق کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :حرمین شریفین کے بعد اگر کسی شہر کو اپنا محبوب ترین شہر کہہ سکتاہوں تو وہ دمشق ہی ہے، میں اس کے بہت سے محلوں،سڑکوں اور باغات و مناظر سے واقف ہوں،دمشق میں میرے عزیزترین دوست و احباب تھے جن سے خاص فکری اتحاداور مناسبت تھی،اور دمشق کا قیام ہمیشہ میر ے لیے خوشگوار اور مسرت بخش ثابت ہوا،دل کو سکوں اور روح کو راحت نصیب ہوئی ،میں جب شوقی کا یہ شعر پڑھتا تو اس میں کوئی مبالغہ نظر نہ آتا:اللہ تعالیٰ پر میرا ایمان ہے،میں اس کی جنت کو مستثنٰی قرار دے کر کہتا ہوں کہ دمشق سراپا باغ وبہار اور روح وریحان ہے۔تاہم بعث پارٹی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد آپ دوربارہ ۷۰کی دہائی میں شام گئے تو منظر کافی حد تک تبدیل ہوچکا تھا۔ آپ لکھتے ہیں کہ :ہم کو دو نئی تبدیلیوں کا احساس ہوا، ایک تویہ کہ لوگوں کی گفتگو میں رازداری اور بڑھی ہوئی احتیاط محسوس ہوئی جیسے ہر آدمی کو یقین ہو کہ اس پر پہرہ ہے اور اس کی ہربات ریکارڈکی جارہی ہے۔دوسری تبدیلی تھی، بے محابا بے پردگی، وسیع پیمانے پرعجیب و غریب قسم کا جنسی اختلاط، راستوں اور سڑکوں پر ہرطرف فحش تصاویراور جنسی جذبات کو برانگیختہ کرنے والے اشتہارات چسپاں اور آویزاں تھے،ہم کو اندازہ ہواکہ جو شہر اپنی قدامت پسندی اور وضع داری کے لییمشہور تھا، آزادی، بے راہ روی اور اخلاقی انحطاط میںبہت آگے جاچکا ہے۔ شام میں بعث پارٹی کی بنیاد ایک عیسائی مائیکل عفلق نے ۱۹۴۰میںڈالی اور نصیر ی اور دروزی حامیوں کے ذریعے شامی فوج کے اندر اپنے خفیہ حلقے قائم کرلیے ۔عیسائیوں میں بھی اسکے نظریات کو پسند کیا گیا۔اس طرح بعث پارٹی نصیریوں ، دروزیوں اورعیسائیوں اور فوج کی مدد سے جس میں فرانسیسی دور سے ان فرقوں کی اکثریت چلی آرہی تھی ۱۹۶۳میں شام پر اپنا اقتدار قائم کرنے میں کامیاب ہوگئی۔شام پر ۱۹۴۴ تک فرانس اور برطانیہ کا فوجی قبضہ رہا ۔دسمبر ۱۹۴۱ میں شام کو آزادی دینے کا اعلان کردیا گیا تھا لیکن اس اعلان کو عملی جامہ پہنانے میں فرانس نے ۳سال تک لیت و لعل سے کام لیا ،بالآخر یکم جنوری ۱۹۴۴ کو جمہوریہ شام کو مکمل اختیارات منتقل ہوگئے اور اپریل ۱۹۴۶ میں فرانسیسی فوجوں نے ملک چھوڑدیا۔شام کی جدوجہد آزادی میں جن رہنماؤں نے غیر معمولی کردار ادا کیا ان میں ملک کے پہلے صدر شکری القوتلی کا نام سرفہرست ہے ۔ مارچ ۱۹۴۹ء میں شامی فوج نے شکری القوتلی کی جمہوری حکومت کا خاتمہ کرکے شام میں فوجی آمریت قائم کردی اور یہی شام کی بدقسمتی کا آغاز تھا۔تاہم عوامی تحریک کے نتیجے میں ایک بار پھر۱۹۵۵ء شام میں جمہوری اور آئینی حکومت قائم ہوئی اور شکری القوتلی ایک بار پھر ملک کے صدر بنے۔شام اس وقت نہایت پرآشوب اور نازک حالات سے گزر رہا تھا ،ایک طرف تو شکری القوتلی داخلی حالات پر قابوپانے کی کوشش کررہے تھے تو دوسری طرف فو ج پر حصول اقتدار کا جنون سوار تھا،اورسوشلسٹ نظریات کی حامی بعث پارٹی فوج کے ان عناصر کو غلط راہ پر ڈال چکی تھی جو نصیر ی اور دروزی فرقوں سے تعلق رکھتے تھے اورشام کو خالص سوشلسٹ ریاست میں تبدیل کرنا چاہتے تھے ۔ان حالات میں اشتراکیت مخالف حلقوں نے مناسب سمجھا کہ شام کا مصر سے الحاق کرلیا جائے اوریکم فروری ۱۹۵۸ء میں شام اور مصر میں اتحاد قائم ہوگیالیکن مصر اس اتحاد سے فائدہ نہ اٹھاسکا، اس لیے کے روس کی گود میں بیٹھے جمال ناصر پر خود عرب قوم پرستی کا بھوت سوار تھااور کچھ ہی عرصے بعد اس نے اُن فوجی عناصر کی پشت پناہی شروع کردی جن سے نجات پانے کے لیے شامی عوام نے یہ اتحادقائم کیا تھایوں مصر اور شام کا اتحاد تین سال سات ماہ کے اندر ختم ہوگیا۔ شام کی مصر سے علیحدگی کے بعد شامی پارلیمنٹ کا قیام عمل میں آیا۔انتخابات میں غیر اشتراکی عناصر زبردست اکثریت سے کامیاب ہوئے ۔بعث پارٹی کو بری طرح شکست کا سامنا کرناپڑا۔انتخابی نتائج بعث پارٹی اور سوشلسٹ عناصر کیلیے مایوس کن ثابت ہوئے، اس لیے فوج نے پھر سازش شروع کردی اور مارچ ۱۹۶۲ء میں ایک فوجی دستے نے دمشق پر قبضہ کرلیا۔ملک کی کشتی پھر بھنور میں دیکھ کر سابقہ پارلیمنٹ کے ارکان نے ہمت سے کام لیا اور نئی حکومت تشکیل دے دی اور نئے دستور پر وقت ضائع کرنے کے بجائے ۱۹۵۰ء کا دستور بحال کردیا اور ملک کو آمریت سے بچانے کے لیے ایک نیشنل چارٹر وضع کیا جس میں تمام طبقات کی نمائندگی تھی ۔۸مارچ ۱۹۶۳ء کو شامی ریڈیو سے اس چارٹر کا اعلان ہونے والا تھا کہ اس دن ایک اور فوجی انقلاب آگیا، یہ بعث پارٹی کا انقلاب تھا جو ناصر کی مدد سے اسلامی عناصر کی کوکمزور کرنے کی کوششوں کی غرض سے لایاگیا۔ابتدا میں ناصر کے حامیوں کو بھی حکومت میں شامل کیا گیامگر رفتہ رفتہ انہیں بھی حکومت سے بے دخل کردیا گیا ( بحوالہ:ملت اسلامیہ کی مختصر تاریخ حصہ سوم از ثروت صولت)۔ یوںبعث پارٹی کے نام پر نصیری اور دروزی عناصر پر مشتمل اقلیتی فرقے کی حکومت شام میں قائم ہوگئی ،کچھ ہی عرصے بعد نصیریوں نے دروزیوں کو بھی بے دخل کردیا۔ بعث پارٹی دراصل عرب قومی پرستی اورسوشلزم کی داعی تھی یہ لوگ مذہب دشمن یا سادہ الفاظ میں اسلام دشمن تھے۔ بظاہر اسرائیل کی مخالفت کرنے والی بعث پارٹی صہیونیت نواز ملک روس کی مسلم دنیا میں سب سے چہیتی جماعت ہے۔حالات و واقعات پر اگر غور کیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ فلسطین پر اسرائیلی قبضے کے بعد جب مصر میں حقیقی خطرے اخوان المسلمون کو بری طر ح کچل ڈالا گیا تو پھر عرب قوم پرستی اور سوشلزم کا جھانسہ دے کر بعث پارٹی کو عرب ممالک میں عربوں کا حقیقی نمائندہ کے روپ میں پیش کیا گیا۔یہ جماعت کسی عوامی انقلاب کے بجائے فوجی طاقت کے ذریعے برسر اقتدار آئیں اور زبردستی اپنے نظریات عوام پر تھونپے۔عرب ممالک میں آباد عیسائی اس جماعت کے بڑے کرتا دھرتا تھے۔صدام کا وزیر خارجہ طارق عزیز بھی عیسائی ہے اور آج تک اسی لیے زندہ ہے۔شام کی بعث پارٹی بھی نصیری اور عیسائیوں پر مشتمل ہے ۔ بعث پارٹی دراصل سنی اکثریتی خطے پر اقلیتی فرقوں اور لادین یا آزاد خیال سنی مسلمانوں کی حکومت ہے۔۶۰ ء کی دہائی میں شام میں اسلامی عناصر کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا۔مئی ۱۹۶۷ء میں جب ایک سرکاری ہفت روزہ نے اسلام پر کھلم کھلا حملے شروع کیے تو مسلمانوںنے سخت احتجاج کیا،جواب میں حکومت نے مظالم کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کردیااور اس انتقامی کارروائی کے دوران مساجد کی حرمت کا بھی خیال نہ کیا۔دمشق کی جامع مسجد پر گولہ باری کی اور عین حالت نماز میں نمازیوں کو شہید کیاگیا،لوگوں کی داڑھیاں نوچی گئیں اور ناخن اکھاڑے گئے۔جون ۱۹۶۷ء میں اسرائیل نے حملہ کردیا،ایسی صورت میں اسرائیل کا کس طرح مقابلہ کیا جاسکتا تھا ۔شامی فوجیں تو اپنے عوام سے لڑائی میں مصروف تھیں ۔نتیجہیہ ہوا کہ مصر اور اردن کی فوجوں کو شکست دینے کے بعداسرائیل نے شام کا رخ کیا اور جبل جولان کے علاقے میں کئی سو مربع میل کے رقبہ پر قبضہ کرلیا۔یوں اسلامی تحریکوں کے دشمن ، عرب قوم پرستی کے دعویدار ، مسلمانوں کے ازلی دشمن اور صہیونیت نواز ملک روس کے چہیتے جمال ناصر اور بعث پارٹی نے عرب اسرائیل جنگ میں بیت المقدس پر بھی صہیونی قبضہ کرادیا۔شام کے سابق صدر شکری القوتلی جنہیںدل کھول کر شام و مصر کے لادین عناصر نے بدنام کیا بیت المقدس پر اسرائیلی قبضے سے بہت دل گرفتہ تھے ۔کہا جاتا ہے کہ انہوں نے جب ٹیلیویژن کھولا تو ایک عرب مغنی مرثیہ گارہا تھا :ہائے پرانا بیت المقدس، اس گیت کو سن کر ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے اور اپنی اہلیہ سے کہاکہ سنا تم نے بیت المقدس اب ایک مرثیہ بن گیا ہے،آپ پر رنج و غم کا ایسا غلبہ ہوا کہ دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا۔ نومبر ۱۹۷۰میںحافظ الاسد ملک کا صدر بنا۔۱۹۷۴میں اسرائیل کے ساتھ ایک تصفیہ ہوا جس کے تحت گولان کے علاقے سے شام اور اسرائیل دونوں نے اپنی فوجیں بلالیں۔ ساری دنیا ہی اس حقیقت سے واقف ہے کہ اسرائیل کے دو ہی پشتیبان ہیں ایک امریکہ اور دوسراروس۔ایک عظیم ترک رہنما کے الفاظ میںاشتراکیت اور سرمایہ دارانہ نظام صہیونیت کے دو بازو ہیں۔اور ان ہی میں سے ایک بازو یعنی روس آج ظالم بشارالاسدکا ایران کے بعد سب سے بڑا ہمنوا بنا بیٹھا ہے۔ شامی افواج کو جدید ترین ہتھیاروں سے لیس کرنے میں بھی روس کا اہم کردارہے،اور شام کی نصیری حکومت یہ اسلحہ یقینا اسرائیل کے بجائے شامی کے سنی مسلمانوں کے خلاف استعمال کرتی آئی ہے اورکررہی ہے۔ یہ جماعت جس کی حکومت اب صر ف شام تک محدود ہے ہمیشہ ہی سے اسلامی تحریکوں کو اپنی مقاصد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتی آئی ہے۔۱۹۸۰ء کی دہائی کے آغاز میں جب شام کے سنی مسلمانوں نے بعث پارٹی کے مظالم سے تنگ آکر اس کے ناجائز اقتدار کے خلاف بغاوت کی تو شامی افواج نے طاقت کا اس قدر وحشیانہ استعمال کیا کہ اس کی مثال جدید مشرقی وسطٰی کی تاریخ میں نہیں ملتی۔سابق امیر جماعت اسلامی ،میاں طفیل محمد کے الفاظ میں :۱۹۸۴میںجب اخوان المسلمون کے نوجوانوں نے اسد کی بعث پارٹی کے ذلت آمیز طر حکومت کے خلاف احتجاج کے لیے آواز بلند کی تو اس کے بھائی رفعت اسد کی نگرانی میں آپریشن شروع ہواجس میں شام کے شہروں حلب، جسر اور انطاکیہ وغیرہ کو نشانہ بنایا گیا۔جبکہ حماہ شہرکو ،جواخوان المسلمون کے عابدوں اور زاہدوں کا مرکز تھا، فوج نے محاصرہ کیا،اور پھر ہوائی جہازوں ،توپوںاور میزائلوں سے گولہ باری کرکے پورے شہر کو ،شہریوں کے ساتھ کھنڈرات او ر قبروں کا ڈھیر بنادیا گیا۔ہزاروں نوجوانوں کو سنگینوں سے چھلنی اور گولیوں سے بھون ڈالا گیا۔ عفت ما ب اخوانی بہنوں کی عصمت دری کی گئی اور انہیں جیلوں میں سڑنے کے لیے پھینک دیا گیا۔جیلوں میں ان پاکباز خواتین پر ہولناک مظالم ڈھائے گئے۔ (مشاہدات از میاں طفیل محمد ،مرتب سلیم منصور خالد) سن ۲۰۰۰ ء میں ہزاروں مسلمانوں کا قاتل حافظ الاسد اپنے انجام کو پہنچاتو اقتدار اس کے بیٹے نے سنبھالا۔امریکا میں بارک اوبامہ برسراقتدار آیا تو اس کی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے ظالم اور ہزاروں معصوم مسلمانوں کے قاتل بشارالاسد کو مین آف ریفارمز قرار دیا، امریکی سینیٹ کی خارجہ کمیٹی کے چیئرمین جان کیری نے ظالم باپ کے قاتل بیٹے کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں میں اس کیلیے مثبت جملے استعمال کیے ۔۲۰۱۱ء میں جب تیونس سے بیداری کی لہر کا آغاز ہوا تو شام کے غیور مسلمانوں نے ایک بار پھر ظالم حکومت کے خلاف پرامن مظاہرے شروع کردیے۔یہ مظاہرے اور احتجاج پہلی بار شروع نہیں ہوئے تھے بلکہ اسلام اور مسلمان دشمن بعث پارٹی کے خلاف شام کے مسلمان کئی دہائیوں سے مسلسل جدوجہد کرتے آرہے ہیں ۔ ان مظاہروں کا آغاز ہونا تھا کہ ایک بار پھر شام کی ظالم افواج حرکت میں آئیں اور قتل عام کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع کیا جو آج تک جاری ہے۔اب تک شامی افواج کے ہاتھوں ہزاروں مسلمان شہید ہوچکے ہیں اور اب صورتحال یہ ہے کہ شام کی مساجد میتوں کے شناختی مرکز میں تبدیل ہوچکی ہیں اور ہزروں افراد ترکی ہجرت کرچکے ہیں۔ شام میں بشارالاسد کے خلاف مسلح جدوجہد اب زوروں پر ہے اور گزشتہ ہفتے ایک خودکش حملے میں بشارالاسد کو اپنی کئی قیمتی اور شیطان صفت ساتھیوں سے ہاتھ دھونا پڑا ہے ۔شامی حکومت کے مطابق مزاحمت کاروں کو قطر اور سعودی عر ب کی حمایت حاصل ہے ، ۔ترکی شام میں بشار الاسد مخالف عناصر کی میزبانی کررہا ہے۔ ہم یہاں آئندہ سطروں میں مسئلے میں بالواسطہ اور بلاواسطہ شریک ممالک اور تنظیموں کا کردار اور موقف پیش کررہے ہیں۔ ترکی اور شام گزشتہ عشرے میں اے کے پارٹی کی جانب سے ترکی کی حکومت سنبھالنے کے بعد ترکی اور شام کے تعلقات میں غیرمعمولی بہتری آئی۔ اور دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم ۲۲۷۰ ملین ڈالر تک جاپہنچا۔ ترک سرمایہ کاروں نے بڑے پیمانے پر شام میں سرمایہ کاری کی۔ بشار الاسد اور رجب طیب اردوگان کے درمیان خاصے خوشگوار تعلقات قائم ہوئے اور دونوں ممالک کے خفیہ اداروں کے سربراہوں کے درمیان باقاعدہ ملاقاتیں معمول بن گئیں۔یہی وجہ تھی کہ جب عرب ممالک میں عوام آمروں کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے تو ترکی نے جہاں حسنی مبارک اور معمرقذافی سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا وہیں شام میں بشار الاسد سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرنے کے بجائے اس سے ملک میں اصلاحات اور عوام کے مطالبات پر کان دھرنے کیلیے دباؤڈالا۔ ترک وزیر خارجہ نے اس کی وجہ یہ بیان کی کہ شام کے حالات مصر اور لیبیا سے مختلف اور عراق سے مشابہہ ہیں لہٰذا صورتحال سنگین ہونے کی صورت میں فرقہ ورانہ کشیدگی کا خطرہ ہے اور ترکی کی شام کے ساتھ نوسو کلومیٹر طویل سرحد ہے۔ مسئلے کے بات چیت کے ذریعے حل کے لیے ترک وزیر اعظم نے شامی صدر سے کئی مرتبہ اور بسا اوقات کافی طویل گفتگو بھی کی۔ مگر شامی حکام نے ملک میں اصلاحات کا آغاز کرنے کے بجائے روایتی جبرو تشدد کا رویہ اختیار کیے رکھا، جس کے نتیجے میں ترکی اور شام کے خوشگوار تعلقات بتدریج تلخ ہونا شروع ہوگئے۔ ہزاروں شامی مسلمان ترکی میں پناہ حاصل کرنے پر مجبور ہوئے تو یہ عمل بھی شامی حکا م کو ایک آنکھ نہ بھایا اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ جب شام نے بلا کسی عذر کے ترکی کا طیارہ مار گرایا جس کے بعد اب دونوں حکومتوں کے تعلقات تلخی کی حدوں کو چھورہے ہیں۔ ترکی بشار الاسد حکومت کا سب سے بڑا ناقد ہے اور اس کی ظالمانہ کارروائیوں کی کھلے الفاظ میں مذمت اور اپوزیشن گروپوں کی حمایت کررہا ہے ۔اس وقت ترکی میں چالیس ہزار سے زائد شامی باشندے پناہ لیے ہوئے ہیں ۔ حماس اور شام فلسطینی تنظیم حماس اور دمشق کے درمیان خوشگوار تعلقات کا کسے علم نہیں ۔شامی حکومت نے حماس کی قیادت کو ایک عرصے تک اپنے ملک میں نہ صرف پناہ دیے رکھی بلکہ حماس رہنماؤں کو شام میں خصوصی مراعات بھی حاصل تھیں۔مگر شام میں جیسے ہی حکومت مخالف تحریک کا آغاز ہوا تو حماس کے رہنماؤں کے لیے دمشق میں مزید قیام ناممکن ہوگیا اور انہوںنے دمشق سے نکل کر مصر اور قطر منتقل ہونے کافیصلہ کیا۔حماس نے موقف اختیار کیا کہ شام کی داخلی صورتحال کے پیش نظر حماس کے لیے مؤثر طریقے سے کام کرنا ممکن نہیں رہا تھا۔اسماعیل ہنیہ نے اپنے ایک خطاب میںکہا کہ ’’وہ آزادی ، جمہوریت اور اصلاحات کے لیے جدوجہد کرنے والے شامی عوام کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں‘‘۔حماس کے اس موقف کے نتیجے میں اس کے ایران کیساتھ تعلقات میں بھی پہلے والی گرم جوشی نہیںرہی ہے ۔ حماس کے رہنما موسیٰ ابومرزوق نے ایک انٹرویو میں اعتراف کیا کہ ’’ایران ہمارے مؤقف پر خوش نہیں ہے تاہم ہم ایران کے ساتھ تعلقات رکھنا چاہتے ہیں ‘‘۔ ایران اور حزب اللہ عرب دنیامیں شام کی موجود ہ حکومت کے خلاف نفرت کسی سے پوشید ہ نہیں ہے ، مگرایران اور لبنانی تنظیم حزب اللہ اس وقت بھی بشارالاسد کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں اور اس کی کھلی حمایت کررہے ہیں۔حزب اللہ جسے اسرائیل کے خلاف مزاحمت کے بعد عرب دنیا میں خاصی پذیرائی ملی تھی اب سنی آبادی میں اپنی مقبولیت تیزی سے کھورہی ہے اور لوگ کھلے عام یہ سوال کرتے ہیں کہ حزب اللہ اور ایران کن بنیادوں پر ایک ظالم اور قابض ٹولے کی اندھی حمایت کررہے ہیں ۔ اخوان المسلمون ،شام کا مؤقف اخوان المسلمون شام اس وقت ملک میں جاری تحریک میں اہم کردار ادا کررہی ہے ۔ یہ جماعت طویل عرصے تک شام میں زیر عتاب رہی ہے اور اس سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد کو شہید کیا گیا ہے ۔اخوان المسلمون شام بھی ایران کے کردار سے ناخوش ہے ۔حال ہی میں شامی اخوان المسلمون نے ایک سیاسی جماعت کی تشکیل کا فیصلہ بھی کیا ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ ملک میں شفاف انتخابات کی صورت میں وہ پچیس فیصد سے زائد نشستیں حاصل کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اخوان المسلمون ،مصر کا مؤقف مصر میں اخوان المسلمون اول روز سے ہی شامی عوام کی جدوجہد کی حمایت کرتی آرہی ہے ۔حال ہی میں تیونس کے صدر کے دورہ مصر کے دوران مصری صدر محمدمرسی نے شامی عوام کی جدوجہد کی کھلے الفاظ میں حمایت کی تاہم کسی غیر ملکی مداخلت کے امکان کو رد کیا ۔اخوان المسلمون مصر بھی ایران اور حزب اللہ کے کردار پر حیر ت کا اظہار کرچکی ہے ۔اخوان المسلمون کی ویب سائٹ اخوان ویب ڈاٹ کام پر ایک اداریے میں حزب اللہ اور ایران کے کردار پر تفصیلی گفتگو کی گئی ہے ۔ اداریہ نویس خالد حمزہ ایرانی حکام سے سوال کرتے ہیں کہ آخر عراق کی بعث پارٹی اور شام کی بعث پارٹی میںکیا فرق ہے ؟کیا بشار الاسد دوسرا صدام حسین نہیں ہے ؟کیا شامی حکومت کبھی بھی حزب اللہ کے ساتھ اسرائیل کے خلاف کسی کارروائی کاواقعتا خود حصہ بنی؟اورکیا شامی حکومت نے کبھی بھی اسلامی نظریات اختیار کرنے کی کوشش کی یا یہ ہمیشہ ہی بعث پارٹی کے نظریات پر عمل پیرا رہی؟ روس اور چین کا کردار روس اور چین اقوام متحدہ میں شام کے سب سے بڑے حامی کے طور پر سامنے آئے ہیں اور شام کے خلاف سلامتی کونسل میں پیش ہونے والی قراردادوں کو ویٹو کرچکے ہیں ۔ جیسا کہ ابتدا میں لکھا گیا کہ صہیونیت نواز ملک روس شامی حکومت کا سب سے بڑا حامی ہے اور شام کو حاصل بیشتر اسلحہ بھی روس کی جانب سے ہی فراہم کیا گیا ہے ۔ امریکہ ، نیٹو اور اقوام متحدہ امریکہ اور نیٹو نے افغانستان ،عراق اور لیبیا کو تباہ وبرباد کرنے میں بڑی پھرتیاں دکھائی تھیں ۔فی الوقت یہ دیکھو او ر انتظار کرو کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں ۔منٹوں اور سیکنڈوں میں افغانستا ن ، لیبیا اور عراق کو تاراج کرنے والے ان عناصر کو شام کے معاملے بہت زیادہ جلدی نہیں ہے ۔دراصل اوباما انتظامیہ شام میں اپوزیشن گروپوں کی حمایت تو کررہی ہے تاہم اسرائیل کی طرح یہ بھی اس پہلو پر نظر رکھے ہوئے ہیں کہ بشار الاسد کے بعد شام میں بھی کہیں فلسطین اور مصر کی طرح اسلام پسند حکومت میں نہ آجائیں ۔کوفی عنان نے شام کے مسئلے کے حل کے لیے امن منصوبہ ضرور پیش کیا ہے تاہم یہ مکمل ناکا می سے دوچار ہوا ہے۔ اس وقت شام میں اقوام متحدہ کے غیر مسلح مبصرین شام میں صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور ان کے وہاں قیام میں مزید توسیع کردی گئی ہے۔ 

No comments:

Post a Comment