Search This Blog

Thursday 27 December 2012

ایران: اذان کے دوران مسافر طیاروں کی اڑان پر پابندی

روازوں کو نماز فجر کی اذان کے 30 منٹ بعد اڑنے کی اجازت

ایران: اذان کے دوران مسافر طیاروں کی اڑان پر پابندی

تہران ۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ ایران کی پارلیمان نے ملک میں نمازوں کے لیے اذان کے دوران مسافر طیاروں کی پرواز پر پابندی عاید کر دی ہے۔

ایران کی نیم سرکاری خبر رساں ایجنسی 'مہر' نے پارلیمان کی ثقافتی کمیٹی کے ترجمان علی طاہری کا ایک بیان نقل کیا ہے جس میں انھوں نے کہا کہ ''نئے حکم نامے کے تحت مسافر طیاروں کے اذان اور خاص طور پر نمازفجر کے اوقات کے دوران اڑان بھرنے پر پابندی ہو گی''۔

ایران کے محکمہ شہری ہوابازی کے سربراہ حامد رضا پہلوانی نے ایک بیان میں بتایا کہ ''پروازوں کو نماز فجر کی اذان کے تیس منٹ کے بعد اڑنے کی اجازت دی جائے گی تاکہ مسافر حضرات اپنا مذہبی فریضہ ادا کرسکیں''۔

طاہری نے کہا کہ ''ہوائی اڈوں یا فضائی کمپنیوں میں کام کرنے والی خواتین کے لیے اسلامی لباس کے ضابطے پر خصوصی توجہ مرکوز کی جائے گی''۔ایران میں نافذالعمل لباس کے ضابطے کے تحت خواتین اپنے سَروں کو ڈھانپنے اور تمام جسمانی نقوش کو چھپانے کے لیے مناسب شائستہ لباس پہننے کی پابند ہیں۔اس کی خلاف ورزی کی صورت میں انھیں کوڑے مارے جاسکتے ہیں،ان پر جرمانہ عاید کیا جا سکتا ہے یا پھر انھیں قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔

واضح رہے کہ ایران میں 1979ء کے انقلاب کے بعد سے    اسلام کے مطابق شرعی قوانین نافذ ہیں اور موجودہ صدر محمود احمدی نژاد کے 2005ء میں برسراقتدار آنے کے بعد سے شرعی قوانین کے نفاذ میں سختی کی جا رہی ہے۔

 

یک دہائی میں 240 اسرائیلی فوجیوں کی خودکُشی

راز منکشف کرنے والے بلاگر سے تفتیش

ایک دہائی میں 240 اسرائیلی فوجیوں کی خودکُشی

جمعرات 14 صفر 1434هـ - 27 دسمبر 2012م 
 
حیفا ۔ نائف زیدانی اسرائیلی فوج کے جاری اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ ایک عشرے میں مجموعی طور پر 240 فوجی اہلکاروں نے خودکشی کی۔ اس طرح سالانہ 24 اور ہر ماہ دو فوجی خود کو موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں۔ تاہم سرکاری سطح پر جاری اعداد شمار اور آزاد ذرائع سے آنے والی رپورٹس میں خودکشی کے واقعات میں نمایاں فرق بھی دکھائی دیتا ہے۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق کچھ عرصہ پیشتر اسرائیلی خفیہ اداروں نے ایک انٹرنیٹ بلاگر کو حراست میں لیا جس پر الزام تھا کہ وہ فوج میں ہونے والے خودکشی کے واقعات کو منظر عام پر لاتا رہا ہے۔ فوج کو یہ تشویش لاحق تھی کہ خودکشی کے جتنے واقعات کا سرکاری سطح پر اعتراف کیا جاتا ہے بلاگر اس سے کہیں زیادہ کیونکر مشتہر کر رہے ہیں؟۔ تفتیش کے دوران محروس بلاگر سے اس کے ذرائع اطلاعات کے بارےمیں پوچھ گچھ بھی کی گئی تاکہ یہ پتہ چلایا جا سکے کہ فوج کے اندر سے اسے خودکشی کے واقعات کی معلومات کون فراہم کر رہا ہے؟۔

اسرائیلی اخبار 'ہارٹز' نے عسکری ذرائع کے حوالے سے گزشتہ ایک عشرے میں فوج کی صفوں میں ہونے والی خودکشیوں کی تفصیلات شائع کی ہیں۔ ان تفصیلات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر سال خودکشی کی شرح ایک جیسی نہیں بلکہ اس میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے۔ سن 2005ء میں خودکشی کے سرکاری سطح پر36 واقعات رجسٹرڈ کیے گئے۔ اگلے سال 2006ء میں 28، سن 2007ء میں 18، 2008ء میں 22، 2009ء میں 21، سن 2010ء میں 27 اور گذشتہ برس2011ء میں 27 فوجیوں نے خودکشی کی۔

تاہم رپورٹس سے اندازہ ہوتا ہے کہ گزشتہ دہائی (1990 تا 2000) کی نسبت حالیہ عشرے میں خودکشی کی شرح میں قدرے کمی ضرور آئی ہے کیونکہ انیس سو نوے سے دو ہزار کے درمیان مجموعی طور پر سالانہ خودکشی کے چالیس واقعات رجسٹرڈ کیے گئے ہیں۔

فوج میں خودکشی کے واقعات کے کئی اسباب بیان کیے جاتے ہیں۔ ان میں فوج کی ناقص تربیت، کم عمری جیسے اسباب بھی شامل ہیں لیکن سب سے زیادہ خودکشی کے واقعات کا محرک فلسطینی مزاحمت کاروں کا نفسیاتی خوف بتایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فوجیوں کے نفسیاتی معالجے کے لیے بڑی تعداد میں ماہرین نفسیات کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اس کے علاوہ فوجی افسران نے خودکشی کے رحجان میں کمی لانے کے لیے خود بھی سپاہیوں کی نگرانی پرتوجہ دی، جس کے بعد خودکشی کے رحجان میں کسی حد تک کمی لائی گئی ہے۔

ایک دوسرے عبرانی اخبار 'معاریف' نے اپنی رپورٹ میں بتایا سن 2003ء میں فوجی اہلکاروں کی خود کشی کے واقعات کے بعد فوج میں بے چینی پیدا ہوئی لیکن اس بے چینی میں اس وقت اور بھی اضافہ ہوا جب سرکاری اور غیر سرکاری اعداد و شمار میں واضح فرق سامنے آیا کیونکہ فوج کی جانب سے سال میں خودکشی کے 37 واقعات کی تفصیل جاری کی گئی تھی جبکہ غیر سرکاری ذرائع سے ملنے والی اطلاعات میں یہ تعداد 43 تھی۔

اخبار کے مطابق فوج میں خودکشی کے رحجان کو عوامی سطح پر لانے سے گریز کی پالیسی اپنائی جاتی ہے۔ بہت سے فوجیوں کی خودکشی میں ہلاکت کے بعد ان کی موت کو خودکشی کا نتیجہ قرا دینے کے بجائے طبعی موت یا خودکشی کے مشابہ موت کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ خودکشی کرنے والے فوجیوں کے اہل خانہ کو سختی سے تاکید کی جاتی ہے کہ وہ اپنے بیٹے کی ہلاکت کو خودکشی کے طور پر متعارف نہ کرائیں بلکہ اسے خفیہ رکھیں۔

اسرائیلی فوج کے سائیکالوجیکل شعبے سے وابستہ پروفیسر آوی بلیئر کا کہنا ہے کہ فوج میں خود کشی کا موضوع ہر دور میں موضوع بحث رہا ہے۔ خودکشی کے واقعات کسی خاص ترتیب کے مطابق نہیں ہوتے بلکہ ان میں اتار چڑھاؤ بھی آتا رہتا ہے۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں میں فلسطینی مزاحمت کاروں کے حملوں کا خوف بھی خودکشی کا موجب ہے لیکن فوجیوں میں تقسیم کیا گیا اسلحہ بھی ان کی موت کا باعث بن رہا ہے کیونکہ اکثر فوجی اپنی ہی بندوق سے خود کو گولی مار کر قتل کر دیتے ہیں۔
 

Monday 24 December 2012

قوم کو اس کی تاریخ سے محروم کر دیاجائے تو وہ اپنی جڑ سے کٹ جاتی ہے ۔

قوم کو اس کی تاریخ سے محروم کر دیاجائے تو وہ اپنی جڑ سے کٹ جاتی ہے  ۔ ایاز الشیخ
کولہاپور میں شہید اشفاق اللہ خان کی یوم شہادت تقریب

کولہاپور (یو این این )'' مادرِ وطن ہندوستان کی آزادی اورغیر ملکی اقتدار سے نجات حاصل کرنے کی تحریک اور جدوجہد میں علماِ دین ،سرفروش مجاہدین اور صاحبِ غیر ت مسلمانوں کا قائدانہ اور سرفروشانہ کردار رہا ہے ۔  یہ ایک حقیقت ہے کہ اس ملک کی تاریخ سازی اور حصول آزادی میں مسلمانوں نے ایک عہد ساز کردار ا دا کیا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسلام نے آزادی کو ایک نعمت قرار دیا ہے ۔ اور غلامی کو فکرو عمل کے لیے بد ترین لعنت ۔یہی وہ تصور رہا ہے جس نے جد وجہد آزادی کے دور میں دینی درسگاہوں کے علما کو ، خانقاہوں کے مشائخین کو ، خلوص سے خاک نشینوں کو ، بزمِ سخن سے اردو شاعروں کو اور گھر کی چاردیواریوں سے مسلمان خواتین کو اس معرک جہاد میں لا کھڑا کیا ۔ جان و مال کی قربانیاں دیں، تحریکیں چلائیں تختہ دار پرچڑھے، پھانسی کے پھندے کو جرات وحوصلہ اورکمال بہادری کے ساتھ بخوشی گلے لگایا، قیدو بندکی صعوبتیں جھلیں اور حصولِ آزادی کی خاطرمیدا ن جنگ میں نکل پڑے، آخرانگریزملک سے نکل جانے پرمجبورہوئے۔''

ان خیالات کا اظہار ایاز الشیخ، چیرمین امام غزالی ریسرچ فاونڈیشن گلبرگہ نے کولہاپور مہاراشٹرا شہید اشفاق اللہ خان کی یوم شہادت کے ضمن میں منعقدہ تقریب میں ''جنگ ًزادی ہند میں مسلمانوں کا قائدانہ کردار'' کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا۔ کیشور روا بھوسلے ناٹیہ گرہ کے وسیع آڈیٹوریم میں منعقدہ اس تقریب کا انعقاد محکمہ تعلیم کولہاپور مہانگر پالیکا، کولہاپور ٹیچرس اسوسی ایشن، ہیڈماسٹرس اسوسی ایشن ، وای ایم سی ای او اور این سی پی یو ایل کولہاپور نے مشترکہ طور پر کیا تھا۔ کثیر تعداد میں مسلم و غیرمسلم دنشواران اورشعبہ تعلیم سے منسلک سامعین شریک تھے۔تقریب کی مہمان خصوصی مئیر کولہاپور محترمہ جئے شری سوناونے تھیں۔

ایاز الشیخ نے اپنے صدارتی نے اپنا خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا کہ حصولِ آزادی کی جدوجہد کو عام طور پر انڈین نیشنل کانگریس کے قیام کے ساتھ وابستہ کیا جاتا ہے ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کی ابتدا اٹھارویں صد ی کے نصفِ اول میں ہو چکی تھی۔ چونکہ تحریکِ آزادی میں مسلمانوں کا قائدانہ کردار رہا ہے اور انہوں نے ہی سب سے پہلے آزادی کی شمع روشن کی ہے ۔ شہید اشفاق اللہ خان کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہوںنے جدوجہد آزادی میں رام پرشاد بسمل کے ساتھ مل کر جدوجہد کی۔ بالاخر وطن کے لئے پھانسی کے تختہ پر چڑھا دئے گئے لیکن انگریز سے معافی طلب نہیں کی۔شہید اشفا ق اللہ خان جیسے ہزاروں مجاہدین آزادی کے اتنے زبردست رول کو نظرانداز کرنے کی دانستہ یا نادانستہ کوشش ہورہی ہے ۔ عہد وسطی کی تاریخ آج ہمارے مدارس اور جامعات میں اس لیے نہیں پڑھائی جاتی ہے کہ وہ فرقہ پرستوں کے حلق سے نہیں اترتی۔ اقبال نے کہا تھا کہ کسی قوم کی تاریخ اس کا اجتماعی حافظہ ہوتی ہے ۔ اگر کسی قوم کو اس کی تاریخ سے محروم کر دیاجائے تو وہ اپنی جڑ سے کٹ جاتی ہے ۔ اہل ملک اور خصوصا مسلمانوں کے سامنے اس داستانِ حریت کے مختلف پہلوں کو نئی نسل کے سامنے مستقل پیش کرنے کے ذریعہ  تاریخ آزادی میں مسلمانوں کی جدوجہد کو نہ صرف یاد کیا جائے بلکہ باقی رکھاجائے ۔ ابنائے وطن کو معلوم ہو کہ اس ملک کو آزاد کروانے میں اپنا خون بہانے اور اپنے مال و متاع کی قربانی کرنے میں مسلمان کسی سے پیچھے نہیں بلکہ آگے ہیں اور مسلمانوں کی نئی نسل اس احساس کمتری سے آزاد ہوکہ ہمارے اسلاف نے اس ملک کے لیے کچھ نہیں کیا ۔ اس سے ان کے اندر خود اعتمادی کاجذبہ پیداہوگا۔ اوراپنے اجداد کے سرفرو شانہ کارناموں پر ان کا سرفخر سے اونچا ہوگا۔انہوں نے مزید کہا کہ حقیقت یہی ہے کہ انگریزی سامراج کے خلاف لڑائی چھیڑنے والے بیشتر مسلمان، مصیبتیں اٹھانے والے مسلمان، قید و بند کی زندگی کاٹنے والے مسلمان اور جان پر کھیل جانے والے مسلمان رہے ہیں ۔ ان کی تعداد اور تناسب اتنا زیادہ ہے کہ مسلمان فخر کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اس ملک کے لیے سب سے زیادہ خون مسلمانوں نے ہی دیا ہے ۔ ہندوستان کی تحریک آزادی میں مسلمانوں کاحصہ قدرتی طورپربہت ممتازونمایاں رہا ہے،انھوں نے جنگ آزادی میں قائداوررہنماکاپارٹ اداکیا،اس کی وجہ یہ تھی کہ انگریزوں نے اقتدارمسلم حکمرانوں سے چھیناتھا،اقتدارسے محرومی کادکھ اوردردمسلمانوں کوہوا،انھیں حاکم سے محکوم بنناپڑا، اس کی تکلیف اوردکھ انھیں جھیلناپڑا، اسی لیے محکومیت وغلامی سے آزادی کی اصل لڑائی بھی انھیں کولڑنی پڑی۔مجاہدین آزادی کی یہ جدوجہد ہمیں اس بات کا درس دیتی ہے کہ ملک کی مختلف اکائیاں اپنی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے مذہبی تنگ نظریوں اور فرقہ وارانہ تعصبات سے بالا تر ہو کر مشترکہ جدو جہد کے اس روشن ورثہ کی نہ صرف حفاظت کریں بلکہ ہندوستانی معاشرہ کی ترقی کو صحیح سمت عطا کریں ۔  ہندوستانی مسلمانوں کی حب الوطنی کا روشن ترین مظہر ان کی وہ جدو جہد ہے جو انہوں نے اپنے وطن عزیز کو غیر ملکی تسلط سے آزد کرانے کے لیے کی ہے ۔

 قبل ازیں اردو اسکول کے طلباء نے شہید اشفا ق اللہ خان کی شہادت کے موضوع پر تقاریر اور نظمیں پیش کیں۔تقریب کے روح رواںانگریزی زبان کے محقق اور ماہر تعلیم پروفیسر امداداللہ شیخ صاحب نے اپنے تعارفی خطاب میں کہا کہ آج ملک کی آزادی کی خاطر جدوجہد کرنے والوں اور جان کی بازی لگانے والوں کو یاد بھی کیا جا تاہے اور جس انداز سے یاد کیا جا رہا ہے اس سے مسلم نوجوان، طلبا اور بچے یہی تاثر لے رہے ہیں کہ انگریزی سامراج کے خلاف آزادی کی لڑائی لڑنے والوں میں مولانا ابوالکلام آزاد کے علاوہ بس ایک دو مسلمان تھے ۔ ایسا تاثر لینے پر نوخیز نسل مجبور ہے کہ کسی اور مسلمان کا نام آتا ہی نہیں جس نے انگریزی سامراج کے خلاف سخت جدوجہد کی ہے ۔ شہید اشفاق اللہ ان میں سے ایک ہیں۔ آج بھگت سنگھ کو تو ہر ایک جانتا ہے لیکن ایسے کتنے مجاہدین و شیہدان آزاد ی ہیں جنہیں فراموش کردیا گیا ۔ انہوں نے زور دیا کہ تعلیمی اداروں میں ان شہیدان وطن کے متعلق معلومات طلباء کو فراہم کی جائیں۔ اس پروگرام کے منتظم بھی ہیں نے کہا کہ اس تقریب کے انعقاد کا مقصد بھی یہی ہے ۔
جناب ساونت، صدر کولہاپور ٹیچرس اسوسی ایشن نے کہا کہ مسلم مجاہدین آزادی کی قربانیوں سے ہی اس ملک کو آزادی ملی۔ اگر آج انہیں بھلایا جارہا ہے تو ارباب اقتدار کے ساتھ مسلمان بھی اسکے ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے دوسروں کے سامنے تو درکنار خود اپنے تعلیمی اداروں اور حلقوں میں ان مسلم مجاہدین و شھداء آزادی کا ذکر نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ مسلم اساتذہ سنہری تاریخ سے نئی نسل کو مطلع کریں ۔ صرف تدریس اور تنخواہیں حاصل کرنا ہی ان کا مقصد نہ ہونا چاہئے۔

جناب رسول پٹیل، اے پی او کولہاپور مہانگر پالیکا شکشن منڈل، شکشن منڈل کی چیرمین محترمہ جئے شری راجندر سابڑے، رکن شکشن منڈل مہیش جی جادھو، دیسائی سر، راج شری اور مومن سر نے بھی تقریب کو مخاطب کیا ۔ جناب کالے خان نے نظامت کے فرائض انجام دئے۔ کولہاپور میں اس نوعیت کی معقدہ اس پہلی تقریب ہوئی ہے اور سامعین نے کافی جوش و خروش کا مظاہرہ کیا۔ بعد ازاں مسلم دانشوروں نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے پروگرامس یہاں مستقل ہوتے رہنے چاہئے اس سے حوصلہ بلند ہوتا ہے اور ملک و ملت کی خدمت کا جزبہ ابھرتا ہے۔ 

Rape Cultures in India: Pratiksha Baxi

Rape Cultures in India: Pratiksha Baxi

December 23, 2012
Guest post by PRATIKSHA BAXI
Delhi has tolerated intolerable forms of sexual violence on women from all backgrounds in public spaces for decades. It is a public secret that women are targetted in streets, neighbourhoods, transport and workplaces routinely. There have been countless campaigns and appeals to all agencies concerned to think of safety of women as an issue of governance, planning and prevention. However, prevention of sexual violence is not something, which features in the planning and administration of the city. It is not seen as an issue for governance that extinguishes the social, economic, and political rights of all women.
 It is a public secret that rape of women in moving vehicles is popularly seen as a sport. The sexualisation of women’s bodies accompanies the projection of cars as objects of danger and adventure. Private buses now participate in this sexualisation of moving vehicles as a site of enacting pornographic violence. In this sense, safety is not seen as a commodity that can be bought, purchased or exchanged. Men consume images of a city tolerant of intolerable violence. City planners enable rapists to execute a rape schedule. Streetlights do not work. Pavements and hoarding obstruct flight. Techniques of surveillance and policing target women’s behaviour, movement, and clothing, rather than policing what men do. The city belongs to heterosexist men after all.
 The brutality of the assault on the 23 year old student who was gangraped and beaten mercilessly with iron rods when she resisted has anguished all of us—generating affect similar to the infamous Birla and Ranga murders decades ago. The nature of life threatening intestinal and genital injury has shockedresulting in angry protests in the city and elsewhere.Yet most remain unaware that the brutality accompanying sexual violence such as assault with iron rods, swordsand other objects; mutilating a woman’s body with acid;stripping and parading women; and burning them after a brutal gangrape routinelyscar the pages ofourbloodied law reporters. There is no political or judicial framework to redress such forms of aggravated sexual assault.
The judiciary, tall exceptions apart, construct rape as sex. This perspective from the rapist’s point of view, does not frame rape as political violence,which posits all women as sexual objects. Rape is repeatedly constructed as an act of aberrant lust, pathological sexual desire or isolated sexual deviancy.
Politicians for most part do no better. The parliamentary discourse on rape, after the brutal attack on the 23 year old woman who is fighting for her life, uses sexual violence as a resource for doing politics, and therefore re-entrenches rape culture. By arguing that rape is worse than death and rape should attract death penalty, rape survivors are relegated the space of the living dead. The social, political and legal mechanisms of shaming, humiliating, and boycotting rape survivors are not challenged. Nor are the mechanisms of converting rape narratives into a source of further titillation and excitement displaced. Rather most political actors convert rape into a technique of doing party politics. No one reflects seriously on why India sports a rape culture—surely the political and social toleration of intolerable sexual violence in everyday and extraordinary contexts of violence produces an effect of immunity and impunity to men who enjoy rape.
The right wing politician who is exhausting lung power on death penalty for rapists is not concerned with how a strident Hindu nationalism is built on violated bodies of women. Nor are such politicians concerned with what may happen to women if rape is punishable by death—surely there will be more murders and even more acquittals, since judges prefer to give lower than the mandatory sentence in rape cases. They have not marked the upsurge of the phenomena of burning and mutilating women after rape, as reported in the media, after a spate of such cases in Uttar Pradesh last year. Nor has any political party even acknowledged or apologised for the sexual violence during mass scale violence. Surely if chief ministers who get elected year after year dismiss mass scale sexual violence as a figment of imagination, this generates, endorses and even celebrates a new national rape culture.
The men (and even some women in positions of power) who lead India are successfully able to de-link the celebratory stories of neoliberalism, militarisation, nationalism,growth and development from the toleration of sexual violence as a sport, a commodity, as collateral damage, or a necessary technique to suppress women’s autonomy. Fact of the matter is that Surekha Bhotmange and her daughter were stripped, paraded, raped and killed in Khairlanji for expressing and asserting their autonomy. The men who assaulted and murdered them were not tried for rape.  Does anyone even remember that Bhanwari Devi’s appeal still languishes in the Rajasthan High Court? A courageous woman in whose debt all middle class women working in universities and everywhere else remain for the promulgation of the Vishaka judgment. We got the guidelines on sexual harassment in the workplace, but Bhanwari Devi did not get justice.  All of us remain in the debt of BilkeesBano who is perhaps the first survivor of mass scale sexual violence in Independent India to secure a prosecution in a rape and riot case but only after the trial was transferred. Manorama’s gangrape and murder by the army did not result in the withdrawal of AFSPA, which gives the army the licence to rape as ifto rape is in the line of duty. Can we de-link these issues from what Delhi protests today? Surely we must make these connections since we have benefited from the courageous litigation by women whose lives have been made absolutely abject.We must then equally resist the politics, which institutes public amnesia about these voices of suffering.
Alas, the brutality that Delhi witnessed is the effect of the toleration and celebration of rape cultures in India. Men and women, alike, from all classes, castes and communities must adopt a stance of solidarity that will not tolerate politicians, police officers, planners, judges and lawyers who build their careers on silencing the voices of raped women. Only a heightened intolerance for any kind of sexual violence as a social force will begin to chip away at the monumentalisation of rape cultures in India. Our collective melancholia must be far more productive.
Pratiksha Baxi is Assistant Professor, Centre for the Study of Law and Governance, Jawaharlal Nehru University
http://kafila.org/2012/12/23/rape-cultures-in-india-pratiksha-baxi/

Tuesday 11 December 2012

فیض احمد فیض

فیض احمد فیض

کردار میں گفتار میں وہ نا بغہ ٔ روزگار
فیض احمد فیض عظیم انقلابی،ترقی پسند اور باغی شاعر تھے۔ ان کی صد سالہ سالگرہ گزشتہ برس منائی گئی ہے۔ ان کی شخصیت، شاعری اور نظریات پرنہ صرف بے شمار مقالے لکھے گئے ہیںبلکہ متعدد کتب تحریر ہوئی ہیں لیکن پھر بھی ایک امرواقع جو بہت کم لوگوں کی نظرمیں آیاہیے، وہ ہے ان کے خاندانی محنت کشانہ حالات ، جنہوں نے انہیں انقلابی، ترقی پسند اور باغی بننے پر آمادہ کیا۔ بے شک ان کے والد بزرگوار خان بہادر سلطان محمد خان بیرسٹر، وائی افغانستان عبدالرحمان خان کے میر منشی رہے۔ لندن میں افغانستان کے سفیررہے لیکن ان کی ابتدائی زندگی انتہائی غربت کے کرب میں گزری۔ گردوپیش کے ظالمانہ وجابرانہ حالات کے علاوہ خانگی حالت نے بھی فیضؔ کو باغی اور انقلابی راستہ پرڈالاہے۔ اس حقیقت سے آگاہی بھی انتہائی ضروری  ہے۔
فیضؔ کی شاعری کے موضوع کی بنیاد محنت کش عوام اور سما ج کادباکچلا انسان ہے۔ اس کی وجہ صرف لینن یامارکس کا مطالعہ نہیں ہے بلکہ وہ مصائب ہیں جو فیض کے والدسلطان محمد خان نے اپنی زندگی میںبرداشت کئے۔سلطان محمد خان پنجاب کے ایک چھوٹے سے گائوںگالا قادر ضلع سیالکوٹ کے غریب ترین کسان گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ فیض نے موصوف کے بارے میںلکھاہے:
ـ’’ جب یہ پانچ سال کے ہوئے تو غرباء کی روایت کے مطابق انہیں پڑھنے کے بجائے روٹی کمانے کا فن سکھایاگیا۔ دیہات والوں نے ہمارے اباکو مویشی چرانے پرلگادیا ور اس خدمت کے معاوضہ میں ان کی روٹی کاخرچ برداشت کرلیا۔ اب ابا صبح سویرے ریوڑ لے کرجاتے ۔مویشی گھاس چرتے اور یہ کسی درخت کے سائے میں بیٹھے دور سے سکول اور وہاں کے طلباء کو حسرت بھری نظروںسے دیکھتے۔
 دیہات والوں نے فیض کے والد کی روٹی کا خرچ اس طرح برداشت کیاتھا کہ انہیںدوروپے ماہوار مویشی چرانے کامعاوضہ ملتاتھا۔ استحصال کی یہ زندہ مثال ان کے گھرانے میںموجود تھی۔ سکول کے ماسٹر صاحب کو جب یہ معلوم ہو ا کہ سلطان محمد پڑھنا چاہتاہے اور سکول ٹائم میں وہ مویشی چراتاہے تو ماسٹرصاحب نے کہا کہ تم آکر سبق لے لیا کرو اور پیڑ کے نیچے بیٹھ کر اپنے ریوڑ کی نگرانی کرتے ہوئے اپناسبق یاد کرلیا کرو ۔ اس طرح فیض کے والد نے پرائمری اور مڈل کے امتحانات دئیے۔ اس کے بعد وہ ہائی سکول کرنے لاہور چلے گئے ۔ ایک مسجد میں رہائش کی جگہ مل گئی۔ کھانااہل محلہ کی جانب سے آتا۔ فیض نے لکھاہے:
’’اب والد صاحب دن میںسکول جاتے،شام کو مسجد کاکام کرتے۔ کھانامحلے سے آجاتا اور پھر رات عشا کے بعد لاہور ریلوے سٹیشن چلے جاتے۔ رات گئے تک قلی گیری کرتے۔ اس طرح جو رقم جمع ہوتی وہ اپنے گھر والوں کوبھیج دیتے‘‘۔
خلیق انجم نے لکھا ہے:
’’فیض یہ بات کبھی نہیں بھول سکے کہ ان کے والد نے ایک چرواہے اورقلی کی خدمت انجام دی‘‘۔ بعد میں فیض احمد فیض کے والد سلطان محمد خان اپنی محنت، کوشش اورعلمی صلاحیت کی بناء پر انگلستان میں افغانستان کے سفیر رہے۔ نفسیاتی طورپر اگر تجزیہ کیا جائے تو یہ نتیجہ نکلتاہے کہ ان حالات کی وجہ سے مفلوک الحال طبقہ ان کی شاعری کاحصہ بنا اور یہی نہیں ان کی شاعری میںعاشق، محبوب، عشق ، رقیب ان سب کے مافہیم الگ ہیں۔اور تصورات بھی الگ ہیں۔ مثلاً عاشق ان کے وہاں مجاہد اور انقلابی ہے۔ محبوب وطن اورعوام ہیں۔ عشق انقلابی جنون اور کوشش ہے۔ ہجر وفراق جبر و ظلم اور استحصال ہے۔
تقسیم وطن کے بعد وہ پاکستان میں محکمہ ڈاک و تار اور ریلوے کے مزدوروں کی ٹریڈ یونین کے نائب صدر رہے۔ ان کی نمائندگی کانفرنسوںمیںکی۔ ’پاکستان ٹائمز‘ کے ایڈیٹر بھی رہے۔ اس زمانے میں انہوں نے حکومت پاکستان کی عوام دشمن پالیسی پر سخت تنقید کیں۔ راولپنڈی ساز ش کیس میں نواپریل 1951کوگرفتار کرلئے گئے اور 1955تک جیل کی صعوبتیں برداشت کیں۔ قید تنہائی میںقلم اور کاغذ اوراخبارات ان کے حکم ممنوعہ تھے۔ فیض نے اس کا ذکر بھی کیاہے  ؎
متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خون دل میںڈبولی ہیں انگلیاں میںنے
زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے
ہراک حلقہ زنجیر میںزبا ں میںنے
فیض کی دست صبا اور زنداں نامہ جیل
 یہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے کاکلام ہے جو زندانی ادب کی بہترین مثال ہیں۔
 دست صبا کے ابتدائیہ میںفیض نے کہاہے:
’’یوں کہے کہ شاعر کا کام محض مشاہدہ ہی نہیں مجاہدہ بھی اس پرفرض ہے۔ گردو پیش کے مضطرب قطروں میںزندگی کے دجلہ کا مشاہدہ اس کی بینائی پر ہے۔ اسے دوسروں کودکھانا اس کی فنی دستر س پر۔ اس کے بہائو میںدخل انداز ہوتا اس کے شوق کی صلابت اور لہومی حرارت پراور تینوں کام مسلسل کاوش اور جدوجہد چاہتے ہیں۔
 حیات انسان کی اجتماعی جدوجہد میں حسب توفیق شرکت کرنا زندگی کاتقاضہ ہے‘‘
 اورفیض حیات انسان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف جدوجہد کرتے رہے۔ قید تنہائی کامقصد یہ ہوتاہے کہ انقلابی اپنا ذہنی توازن کھودے اور یہی جابر چاہتے بھی ہیں لیکن فیض کی شاعری میں آنے والے دورکا بگل، مزدوروں کی آہیں اور ظلم وجبر واستبداد کا ذکر اس زمانے کی شاعری میں سب سے زیاد ہ ہے۔ملاحظہ ہو  ؎
نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھاکے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے جسم وجاں بچاکے چلے
فیض ؔجدوجہد انسان کے مصائب
اس کے استحصال اور دبے کچلے انسانوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔’’ شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں‘‘ میںیوںمخاطب ہیں۔
تم ناحق ٹکڑے چن چن کر
دامن میں چھپائے بیٹھے ہو
شیشوں کامسیحا کوئی نہیں
کیا آس لگائے بیٹھے ہو
شائد کہ انہیں ٹکڑوں میںکہیں
وہ ساغر دل ہے جس میںکبھی
صد ناز سے اترا کرتی تھی
صہبا ئے غم جاناں کی پری
پھر دنیا والوں نے تم سے
یہ ساغر لے کر پھوڑدیا
جو مے تھی بہادی مٹی میں
مہماں کا شہپر توڑ دیا
فیض کے وہاں عاشق، رقیب اورعشق کے مفاہیم بدل گئے۔اسی طرح ساغر ،مے اور شراب سماجی او رسیاسی بیداری کے ذرائع کے معنی میں استعمال کئے ہیں۔ ان کی نظم ودامن یوسف ’وفا‘ کے لفظ کا استعمال ملاحظہ ہو  ؎
قفس ہے بس میںتمہارے تمہارے بس میںنہیں
چمن میں آتش گل کے نکھار کاموسم
صبا کی مست خرامی تہہ کمند نہیں
امیر دام نہیں ہے بہار کا موسم
فیضؔ کی سیاسی شاعری کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ خالص غنائی یعنی داخلی شاعری کی طرح قارئین اور سامعین کو اپنے جذبات و احساسات میںشریک بنانے پر قادرہے۔ اگر کسی تخلیق کار کی تخلیق کوپڑھ کر یاسن کرایک لمحے کے لئے بھی عوام پرامید ہوجاتے ہیں بلکہ پوری قوم کے لئے ناقابل فراموش لمحہ بن جاتاہے۔ فیض کی نظمیں آج بازارمیں پابہ جولاں چلو ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے۔ ایک نغمہ کربلا ئے بیروت کے لئے فلسطینی بچے کے لئے لوری ’ول من مسافرمن ‘ شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں۔ ان منظومات میںدنیا کے مختلف ممالک کے لاکھوں انسانوں نے اپنے دل کی دھڑکنوں کو محسوس کیاہے۔ فیض کی شاعری کا کمال یہ ہے کہ ان کی سیاسی شاعری ہمارے اندر ویسا ہی رد عمل پیدا کرتی ہے، جیسا داخلی شاعری فیض کی شاعری کی معراج یہ ہے کہ لوگ ان کے سیاسی افکار سے اختلاف رکھتے ہوئے بھی اس کے سحر میں گم ہوجاتے ہیں۔فیض نے یہ ثابت کردیا کہ اگر شعر یا منظومات احساسات کو چھوٹے والی ہوںتوعقائد سے بالاتر ہوکر قاری صرف محفوظ ہی نہیں ہوتابلکہ وہ سوچتاہے کہ یہ وہ ہے جومیں چاہتاہوں یا میرے جذبات کی عکاسی ہے۔
 فیضؔ کے انقلابی شاعری دراصل ان کے انقلابی عشق سے پیوست ہے۔ ان کا انقلابی عشق تمام انسانوں کے لئے ہے لیکن فیض اور آگے بڑھے ہیں۔ ہوائوں پرندوں مناظر فطرت اور اپنی تنہائی سے بھی ہم کلام ہوئے ہیں۔ وہ ترکی کے شاعر ناظم حکمت، فلسطینی رہنما یاسر عرفات ایرانی طلباء اور افریقی جاں بازوں کی حمایت ہی نہیں کرتے بلکہ سب کے سب ان کی شخصیت کا حصہ بن گئے ہیں۔
فیض نے اردوکے علاوہ پنجابی میں بھی شاعری کی ہے لیکن وہ خند نظموںتک ہی محدود ہے۔ ان میںسے ایک نظم تحریر کی جاتی ے جس میںانہوں نے محنت کشوں کی زندگی بیان کرتے ہوئے با رگا ہ خدا وندی سے بھی شکوہ کیاہے۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ محنت کشوں کی زندگی کے متعلق ان کس قدر دردِ دل رکھتے تھے  ؎
رب سچیا ! فیض
رباسچیا! توں نے آکھیاسی
جااوے  بند یا جگ داشاہ ایں توں
ساڈیاں نعمتاں  تیریاں دولتاں نئیں
ساڈا نیب تے عالیماہ ایں تو
اس لار سے تے ٹور کد پچھاای
کہیہ ایس نمانے تے بتیاں نیں
کدی سار وی لئیی او رب سائیاں
تیرے شاہ نال جگ کہہ کتیاں نیں
کتے دھونس پولیس سرکاردی اے
کتے دھاندلی مال پٹوار دی اے
ایویں ہڈاں چ کھپے جان میری
جیویں پھاہی چ کونج کرلائوندی اے
چنگا شاہ بنا یاہی رب سائیاں
پولے کھاندیاں وارنہ آئوندی اے
مینوں شاہی نہیں چاہیدی رب میرے
میں تے غرت دا ٹکڑ منگدا ہاں
مینوں تانگ نیئں محلان ماڑیاں دی
میں تاںجیویں دانُکر منگدا ہاں
میری نئیں تے تیریاں میں منا ں
تیری  سومنہہ جے اک دی گل موڈاں
جے ایہہ مانگ نہیں پچدی تئیں ربا
فیر میں جاواں تے رب کوئی ہور لوڑاں
 ترجمہ:
 اے سچے خدا!
 اے سچے خدا تو نے کہاتھا کہ
اے بندے توجا۔ تو دنیاکابادشاہ ہے
 میری نعمتیں سب تیری دولت ہیں
ہمارانائب اور عالی جاہ توہے
 اس وعدے پر روانہ کرکے کبھی تو نے پوچھاہے
 کہ نادار پر کیا کیا بیتا ہے
اے رب مالک کبھی تو نے کبھی دریافت بھی کیاہے
 تیرے بادشاہ  کے ساتھ دنیا نے کیاکیاہے
کہیں پرپولیس اور سرکار کی دھونس ہے
 کہیں پر محکمہ مال اورپٹواری کی دھاندلی ہے
بلاوجہ ہڈیوں میں میری جان تڑپ رہی ہے
 جیسے پھانسی پر پھنسی ہوئی کونج شور وغوغا کرتی ہے
اے مالک حقیقی تونے اچھا بادشاہ بنایاہے
جوتے کھا کھا کر باری نہیںآتی ہے
اے میرے خدا! مجھے بادشاہ ہی نہیںچاہیے
میںتو عزت کی روزی کا طلبگا ہوں
 مجھے محل اور مارڈیوںکی خواہش نہیں ہے
میںزمین کاٹکڑا مانگتاہوں
 اگر تو میری مانے تو تیراسب کچھ مانوںگا
 تیر ی قسم جو تیری ایک بھی بات انکار کروں
اگر میرے خدا تجھے یہ مانگ منظور نہیںہے
 توتب میںجائوںگا اوردیگرخدا تلاش کروںگا

Aur Azadi mein Bahere Bekaran hai Zindagi اور آزادی میں بحر بیکراں ہے زندگی

  
courtesy: Munsif Hyderabad

Friday 7 December 2012

مسلمانوں کی دل آزاریاں

مسلمانوں کی دل آزاریاں
"آزادی ٔ اظہار ‘‘کی تلوار نہ چلاؤ
 دُنیا کے حالات پر نظر ڈالنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ مفادپرستی اور خود غرضی نے اپنے قدم ہر طرف جمالئے ہیں۔بعض اقوام اور افراد تو اپنے مفادات کے حصول کے لئے غلط بات کو بھی درست کرنے میں پیش پیش دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے لوگ مفادات کے حصول کے لئے لفظوں اور اصطلاحوں تک سے کھلواڑ کرتے ہوئے نظرآتے ہیں۔چنانچہ آج ایسے الفاظ کی ایک فہرست تیار کی جاسکتی ہے جن کے معانی ومفاہیم کولوگوںنے اپنے اپنے مطابق کرلیا۔ گو ایسے الفاظ کے معانی بظاہر کتنے ہی سادہ وآسان کیوں نہ ہوں لیکن جس طرح ان کے مفاہیم بیان کئے جارہے ہیں یا مراد لئے جارہے ہیں، ان سے الفاظ کی تشریح مشکل ہوکر رہ جاتی ہے۔ایسے جن الفاظ کو آج کل بڑے پیمانہ پراستعمال کیا جارہاہے ، ان میں’’ دہشت گردی‘‘،’’ بنیاد پرستی‘‘،’’رجعت پسندی‘‘ اور ’’اظہار ِخیال کی آزادی‘‘جیسے الفاظ کو سرفہرست رکھا جا سکتا ہے۔ دہشت گردی کے معنی ومفہوم ایک قوم کچھ لیتی ہے تو دوسری کچھ اور۔مثال کے طور پر فلسطین میں اسرائیل ایک طویل عرصہ سے اپنی جارحیت کو جاری رکھے ہوئے ہے۔اپنی جارحانہ کارروائیوںمیں وہ بوڑھوں، بچوں اور عورتوںکو بھی نشانہ بنادیتاہے۔فلسطینیوںکو ہلاک کرنے کے لئے کبھی وہ فضائی طاقت کا استعمال کرتا ہے اور کبھی بحری وبری طاقت کا۔کبھی وہ فلسطین کے شہروںکی ناکہ بندی کر ڈالتا ہے ، کبھی وہ فلسطین کے علاقوںپر قبضہ کرکے اپنی ناجائز بستیاں بسالیتا ہے۔ فلسطینی اور دیگرمتعدد ممالک کے عوام اسرائیل کی ان کارروائیوںکو دہشت گردی کہتے ہیں لیکن اسرائیل ، امریکہ اور اس کے حلیف ممالک اسرائیلی تشدد کو دہشت گردی نہیں قرار دیتے بلکہ اس کا دفاعی حق بتاتے ہیں، جب کہ فلسطینی عوام اگر اسرائیلی حملوں کے دفاع کے لئے پتھرپھینکتے ہیں تو انہیں دہشت گرد بتایاجاتاہے۔اسی طرح امریکہ اپنی جارحیت اور مظالم کو ’’امن پسندی ‘‘کا نام دیتاہے۔عراق میں امریکہ نے ایک عرصہ تک تشدد برپاکیا،ابوغریب اور گوانتاناموبے میں امریکہ نے بربریت کا مظاہرہ کیا،اس نے افغانستان اور عراق پر حملوںکے دوران جیلوں،اسکولوں، ،کالجوںاور اسپتالوںکو نشانہ بنایالیکن اس کے باوجودوہ خود کو امن کا علمبردار کہتے نہیں تھکتا۔
گزشتہ دنوں میانمارمیں مسلمانوںکاقتل عام کیا گیا،انہیں آگ سے بھون ڈالاگیا،انہیں بستیوںسے نکلنے پر مجبور کیاگیااور پورے میانمار میںان کا عرصۂ حیات تنگ کردیاگیا۔ انصاف کی بات تو یہ تھی کہ میانمار میں مسلمانوںکے خلاف ہونے والی اس جارحیت کو’’ دہشت گردی‘‘  کہاجاتااور میانمار کی موجودہ حکومت کی بھی سرزنش کی جاتی کیونکہ حکومت نے قاتلوں ودہشت گردوںکا پورا ساتھ دیالیکن امریکہ میانمار میں اس کھلے ظلم کو دہشت گردی تسلیم نہیں کررہاہے۔اگر امریکہ کی نظر میںیہ دہشت گردی ہوتی تو وہ میانمار پر مہربانی کرتے ہوئے نظرنہ آتا۔ورلڈ ٹریڈ سینٹر پرحملوںکے بعد اس وقت کے امریکی صدر جارج واکر بش نے عالمی دہشت گردی کے خلاف اعلان جنگ کیا تھا۔کیا دہشت گردی کے زمرے میں میانمار نہیں آتاہے؟پھر میانمار حکومت اور وہاں کے دہشت گردوںکو افغانستان اور عراق کی طرح نشانہ کیوںنہیں بنایاگیا؟حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ گزشتہ دنوںجب میانمارمیں مسلمانوںکا عرصہ حیات تنگ ہوا تو امریکہ میانمار حکومت پرفدا ہوگیا۔اس کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتاہے کہ امریکہ کے صدربراک اوبامہ نے میانمار کا دورہ کرڈالا اور میانمار کے خلاف لگی پابندیوںکو ہٹانے کا فیصلہ کرلیا۔ایسا لگتاہے جیسا کہ میانمارمیں جب مسلمانوںپر ظلم ہواتو امریکہ کو میانمار کی یہ حرکت پسند آئی اور اس کا پھل اس صورت میں دیاکہ پابندیاں ہٹادیں اور امریکی صدر خود چل کروہاں پہنچے تاکہ میانمار کی حوصلہ افزائی ہو۔دہشت گردی کے لفظ کا غلط استعمال کرنے میں صرف امریکہ اور اسرائیل ہی پیش پیش نہیں ہیں بلکہ فرانس، آسٹریلیا اور دیگر مغربی ممالک بھی اس لفظ کا بے جا استعمال کررہے ہیں۔
فی الوقت ’’ اظہار خیال کی آزادی‘‘ کا بھی بے جا استعمال کیاجارہا ہے۔ جس طرح کے خیالات کے اظہار کی آزاد ی ہونی چاہئے، اُن پر پابندی لگائی جارہی ہے اور جس طرح کے خیالات کے اظہار پر پابندی ہونی چاہئے ، اس کادھڑلے سے استعمال کیاجارہا ہے۔اس کی تازہ ترین مثال شیوسیناکے سپریمو بال ٹھاکرے کی موت کے بعد کئے جانے والے بند پر دولڑکیوںکا فیس بک پراپنے خیالات کا اظہار کرنااور پھر انہیں گرفتار کیاجانا ہے۔بال ٹھاکرے کی موت کے بعد مہاراشٹر میں شیوسینا کے ذریعہ بند کرایاگیا۔ اس کا اثر ممبئی جیسے شہر میں پورے طورپر دیکھاگیا، گویاکہ ممبئی کی نقل وحرکت کو بال ٹھاکرے کی موت پر سوگ منانے کے لئے روک دیاگیا۔ظاہر سی بات ہے کہ اس بند سے وہ لوگ بھی متاثر ہوئے جنہیں بال ٹھاکرے سے کچھ لینا دینا نہ تھا یا جو لوگ بال ٹھاکرے سے متفق نہ تھے،جو لوگ خود سوگ منانا چاہیں ،انہیں کون روک سکتا ہے لیکن جو لوگ سوگ نہ منانا چاہیں انہیں زبردستی سوگ منانے کیلئے مجبور کرنا قطعاً مناسب معلوم نہیں ہوتا،پھر بال ٹھاکرے کی زندگی قومی خدمات سے بھی خالی نظرآتی ہے۔انہوںنے اپنی زندگی میں اختلافی مسائل کو اٹھایا اور ایک خاص طبقہ کی ہی نمائندگی کی بلکہ اس طبقہ کے لئے انہوںنے دیگر طبقات کے نقصانا ت کی کبھی بھی پرواہ نہ کی،جس کے باعث ممبئی اور مہاراشٹر میں دوسرے صوبوںکے لوگوں کو زبردست ذہنی اور مالی نقصان سے دوچار ہونا پڑا۔ جس شخص کی زندگی اس طرح کی متنازعہ باتوں سے پُر ہو ، اسے ملک و قوم کا ہیروکیسے کہاجاسکتاہے ؟ایسے میں اگر دو لڑکیاں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اس بند کونامناسب قرار دیتی ہیں تو انہیں اس کی اتنی بڑی سزادی جاتی ہے کہ ان کے خلاف فوراً کارروائی کی جاتی ہے اور انہیں گرفتار کرلیاجاتاہے جب کہ بدنام زمانہ تس رشدی اورتسلیمہ نسرین کی مہمان نوازی کی جاتی ہے۔
تسلیمہ نسرین کھل کراسلام کے خلاف ایسی باتیں بولتی ہے کہ مسلمانوںکے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ تسلیمہ نسرین کو اس کے پراگندہ خیالات کی وجہ سے اس کے اپنے ملک بنگلہ دیش سے نکالاگیا لیکن ہمارے ملک نے اسے ویزا دیا ، وہ یہاں پر رہی تو ملک کے مسلمانوںکو شدید تکلیف پہنچی ۔ انہوں نے تسلیمہ نسرین کوملک سے باہر نکالنے کے لئے صدائے احتجاج بلند کی ، بڑے بڑے شہروںمیں زبردست مظاہرے کئے گئے مگر بجا ئے اس کے کہ اس سلسلے  میں مسلم اقلیت کے جذ بات کی قدر دانی کی جا تی الٹاتسلیمہ کی پذیرائی کی جاتی رہی اور اس کو بار بارویزا ملتا رہا۔رشدی جس سے ساری دنیا کے مسلمان نفرت کرتے ہیں ،چند ماہ قبل اسے جے پور میںایک ادبی پروگرام میںمدعو کیاگیاتھا جب ملک کے مسلمانوںکو اس کی خبر ہوئی تو انہوںنے احتجاج کیا۔ ایسے میں لازم یہ تھاکہ ملک کے کروڑوں مسلمانوںکے جذبات کو مدنظررکھتے ہوئے اس کے یہاں آنے پر پابندی لگائی جاتی لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔یہ ایک الگ بات ہے کہ رشدی نے اس وقت خود اپنے ارادے کو تبدیل کردیامگر کچھ وقت کے بعد وہ پھر ہندوستان آیا اور یہاں مختلف پروگراموںمیں شریک ہوکر چلاگیا۔مسلمانوںکو اس پر شدید تکلیف پہنچی ۔سوال یہ ہے کہ یہ آخر دوہرا معیار کیوںہے کہ ایک طبقے کے جذبات کا لحاظ نہیں کیاجاتا جب کہ دوسرے طبقہ کے جذبات کی پوری رعایت کی جاتی ہے؟ سوال یہ ہے کہ جن خیالات کا اظہار واقعی تکلیف پہنچانے والا ہے ،اس پر روک کیوںنہیں لگائی جاتی ؟ ہمارے ہی ملک میں بار بار ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں جومسلمانوںکے جذبات کو تکلیف پہنچانے والے ہوتے ہیں۔مثلاً متعدد بارکئی پبلی کیشنزنے شان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں گستاخی کرنے والے خاکوںکی اشاعت کی مگر اس طرح کا ارتکاب کرنے والے کسی پبلی کیشنز کو سزا نہیں دی گئی۔
یہ بڑا المیہ ہے کہ پوری دنیامیں اظہار خیال کی آزادی کے نام پر دل آزاری کے واقعات بڑی تعداد میں سامنے آرہے ہیں۔ مغربی دنیا تو اس معاملہ میںاور زیادہ آگے نظرآتی ہے۔وہاں مسلمانوںکے مذہبی جذبات کی رعایت نہیں کی جاتی، وہاں تعصب اور تنگ نظری کا یہ حال ہے کہ قرآن سوزی کے واقعات تک رونما ہوتے ہیں، وہاں اسلام کے خلاف فلمیں بنائی جاتی ہیں، وہاں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب نسبت کرکے العیاذ باللہ فرضی خاکے اخبارات میں شائع کئے جاتے ہیں،وہاں مسلمانوںپر انتہائی تکلیف دینے والے ریمارک پا س کئے جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ خیالات کے اظہار کی آزادی کی آڑ میں کیاجاتاہے لیکن اگر کوئی اور اس طرح کے خیالات کا اظہارکردے جس سے ان کے جذبات کوٹھیس پہنچے تو وہ آپے سے باہر ہوجاتے ہیں اور اس وقت خیالات کے اظہار کی آزادی کے دوسرے معنی مراد لیتے ہیں۔انصاف کا تقاضہ ہے کہ دوہرے معیار کے سلسلہ کو بند کیاجائے اور خیالات کے اظہار کی آزادی کو غلط معنی نہ دئیے جائیں۔
………
 نوٹ ـ: فاضل مقالہ نگار پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کے ممبر ہیں

MUSALMANON KO ACHHA INSAN BANANEY KI MAHENAT


Friday 16 November 2012

اسرائیل کے کے دباؤمیں مسجداقصی کے امام شیخ صیّام کو ویزا دینے سے انکار

اسرائیل کے کے دباؤمیں مسجداقصی کے امام شیخ صیّام کو ویزا دینے سے انکار
جمعہ کی نماز مولانا محمد یوسف اصلاحی صاحب حفظہ اللہ پڑھائیں گے 

جامعۃ الفلاح کی گولڈن جوبلی تقریبات کا آغا 16 nov کو جمعہ کی نماز سے ہورہا ہے ، اعلان کے مطابق مسجد اقصی کے سابق امام شیخ صیام کو جمعہ کی نماز پڑھا نی تھی جس کی منظوری بھی انہوں نے دے دی تھی اور ویزا کے لئے اپنا پاسپورٹ یمن میں ہندوستانی سفارتخانے میں جمع کرادیا تھا ، ویزا جاری کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی گئی لیکن عین وقت پر ویزا دینے سے انکار کردیا گیاجبکہ مرکزی سرکار کے سینئر وزراء سے رابطہ کیاگیا اور یہ بات واضح کی گئی کہ امام صاحب ایک معروف داعی ہیں اور اس سے پہلے بھی ہندوستان کا دورہ کرچکے ہیں اور ان کے خطابات سے لاکھوں لوگوں نے فائدہ اٹھایا ہے لیکن مرکزی سرکار پر کوئی اثر نہیں ہوا اور اپنی مسلم دشمنی کی پالیسی پر گامزن رہی۔سلمان رشدی کو ویزا مل سکتا ہے مگر امام صیام جیسی محترم شخصیت کو ویزا نہیں دیا جاسکا ،
اس غیر منصفانہ فیصلے کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے ،چونکہ قبلۂ اول سے مسلمانوں کو بے پناہ عقیدت و محبت ہے اس لئے حکومت کی اس حرکت پر عوام میں شدید ناراضگی اور غم و غصہ ہے ایسا لگتا ہے کہ مرکزی سرکار امریکہ اور اسرائیل کے اشارے پر چلتی ہے اور اسے مسلمانوں کے جذبات کی کوئی پرواہ نہیں ہے امام صاحب نے اپنے پیغام میں بڑھے دکھ کا اظہار کیا ہے اوریہ واضح کیا ہے کہ اس پروگرام میں شرکت کی دلی تمنا تھی جامعہ سے مجھے بہت لگاؤ ہے ، پہلے بھی ایک بار آچکا ہوں اس وقت بھی دل آپ لوگوں کے ساتھ ہے اور گولڈن جوبلی کی کامیابی کیلئے دست بدعا ہوں ۔ حکومت ہند کے فیصلے کے خلاف انہوں نے سخت احتجاج کیا ہے ۔
پروگرام کے منتظم کی حیثیت سے مجھے اس بات کا اچھی طرح احساس ہے کہ لوگوں کو بڑی مایوسی ہوگی اور امام صاحب کی اقتداء میں نماز پڑھنے کی خواہش پوری نہیں ہوگی اپنی طرف سے ہم لوگوں نے پوری کوشش کی اور ہمارے بہی خواہوں نے بھی بھرپور تعاون کیا لیکن سرکار کی ہٹ دھرمی اپنی جگہ قائم رہی اللہ کو جو منظور ہوتا ہے وہی ہوتا ہے اور کسی چیز میں کیا مصلحت ہے انسان نہیں جانتا ، لوگوں کو ہونے والی تکلیف کیلئے ہم معذرت خواہ ہیں ۔
ہم مولانا محمد یوسف اصلاحی صاحب کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ہماری درخواست قبول کی انشاء اللہ جمعہ کی نماز وہی پڑھائیں گے۔

محمد طاہر مدنی
( ناظم جامعۃ الفلاح)

Thursday 8 November 2012

AURAT KI AZMAT KO TARAZOO MEIN NA TOL

عورت کی عظمت کو ترازو میں نہ تول


…..افشاں مراد

کائنات کے حسین رنگوں، کومل جذبوں، مہکتے احساسات کی صلیب کاندھے پر اٹھائے رب ذوالجلال کی ایک ایسی تخلیق جوہر روپ اور ہر رشتے میں اپنا آپ منوالیتی ہے وہ ایک عورت ہی ہے۔
ان نازک جذبات واحساسات کے ساتھ ساتھ آج کی عورت آہنی اعصاب بھی رکھتی ہے۔ آج بدلتے زمانے کے تغیّرات نے ہر کس وناکس کو حیران اور متحیّر کردیا ہے۔ ایسے میں زندگی کے نظم ونسق کو اس کی ترتیب سے چلانا، ایک عورت ہی کے بس کی بات ہے۔ عورت اپنے آہنی اعصاب کے ساتھ (ایک عورت کو ہم آہنی اعصاب کا فائد ہی کہیں گے کیونکہ اپنی پوری زندگی میں عورت اپنے ساتھ جتنے رویے، جتنے رشتے اور جتنے حالات و واقعات سے کامیابی سے گزرتی ہے وہ کم از کم مردوں کے بس کی بات تو نہیں) اپنے گھر بار کو جس طرح سنبھالتی ہے اور اگر وہ ایک ملازمت پیشہ عورت بھی ہے تو پھر تو وہ دوہرے امتحان سے گزر رہی ہوتی ہے۔ جس میں اسے گھر کے ساتھ ساتھ باہر والوں کو بھی برداشت کرنا ہوتا ہے۔
گھر میں اگر وہ اپنے علیحدہ گھر، اپنی راج دھانی کی بلاشرکت غیرے مالک ہے تو پھر بھی اس کی آزمائش میں اتنا تنوع نہیں ہوتا جتنا مشترکہ خاندانی نظام کے تحت رہنے والی خواتین کو گزرنا ہوتا ہے۔ ان سب رشتوں میں توازن رکھنا بڑے ہی دل گردے کا کام ہے اور پھر ان کے اپنے ساتھ لے کر چلنا بھی ایک فن ہے۔ جو خواتین اپنے حالات ، اپنے رشتوں، اپنے رویوں میں توازن رکھ کر آگے بڑھتی رہتی ہیں وہ کامیابی سے اپنی منزل پر پہنچ جاتی ہیں۔ لیکن جو ہمت ہار بیٹھی ہیں۔ وہ خودکشی، طلاق، خلع یا پاگل پن کی لپیٹ میں آجاتی ہیں۔ کیونکہ آج مہنگائی، بے روزگاری، بدامنی، دہشت گردی نے جہاں مردوں کو متاثر کیا ہے وہیں گھر بیٹھی عورت یا ملازمت پیشہ خواتین بھی اس کے اثر سے بچ نہیں سکیں۔ ان خوفناک عفریتوں سے متاثرہ مرد اپنی ساری جھنجلاہٹ، بیزاری باہر ملی ہوئی توہین اور غصہ، گھر آکر بیوی، بہن، ماں یا بیٹی پر انڈیل دیتا ہے۔ کتنے ہی گھرانوں میں ایسا ہوتا ہے کہ وہاں رہنے والی خواتین گھر والوں کے ناروا سلوک کی بناء پر نفسیاتی عوارض کاشکار ہوجاتی ہیں۔ بے خوابی تو آج کل ویسے ہی عام مرض ہے، بلڈ پریشر، ڈپریشن اور فرسٹریشن یہ سب بھی ان خواتین میں زیادہ پایا جاتا ہے جو بے چاری اپنے مردوں کی ساری ٹینشن اپنے اوپر طاری کرلیتی ہیں۔ ایسی خواتین اپنے گھر کو جنت بنانے کی خاطر ہر دکھ، ہر غم ہنس کر جھیلنے کی خواہش میں خود ادھ موئی جاتی ہیں اور جواب میں بعض اوقات انہیں دو جملے ستائش بھی سننے کو نہیں ملتی۔
آج عورت نے اپنا آپ زندگی کے ہر شعبے میں منوایا ہے۔ خواہ وہ کوئی بھی شعبہ ہو، آج عورت کی کامیابیاں ان مردوں کے منہ پر طمانچہ ہیں جو عورت کو ناقص العقل کہتے ہیں۔ ان مردوں کے لیے باعث حیرت ہیں جو یہ سمجھتے تھے کہ عورت پیر کی جوتی ہے۔ آج وہی مرد اس پیر کی جوتی کو سر کا تاج بنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں کیونکہ ان کا آدھا معاشی بوجھ بانٹ لیتی ہے۔ آج کی عورت ایک ماں ، بہن، بیٹی، بیوی کے ساتھ ساتھ ایک بیوٹیشن، ایک اچھی استاد، ایک اچھی ایڈمنسٹریٹر، ایک اچھی وکیل، ایک اچھی اینکرپرسن وغیرہ بھی ہے۔ اس کی قابلیت میں کسی شک وشعبے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
آج اگر عورت کے مقام اور عورت کی عظمت پر مردوں سے کوئی بات کی جائے تو ان کے پاس الفاظ ختم ہوجاتے ہیں۔ انہیں یاد رہتا ہے تو اپنا ’’قوّام‘‘ ہونا۔ باقی عورت کی عزت وتکریم اور اسلام میں عورت کے احترام اور مقام پر کیا قرآن وحدیث میں آیا ہے۔ اس بارے میں ہمارے مردوں کو کوئی علم نہیں۔ اور نہ وہ جاننا چاہتے ہیں اور غالباً معاشرے میں بگاڑ کی ایک اہم وجہ بھی یہی ہے۔ یہ لاعلمی ہمارے گھروں کومنتشر کررہی ہے۔ نہ مرد عورت کو عزت واحترام کے لائق سمجھتے ہیں اور نہ ہی ان کے گھر والے، اور یہی ذلت عورت کو تباہ وبرباد کردیتی ہے اور ایسے لاعلم مرد جب گھر سے باہر جاتے ہیں تو بھی عورت کو اپنے سے کمتر کی حیثیت سے ہی ڈیل کرتے ہیں جس کی وجہ سے دفتروں کا ماحول بھی کشیدہ ہوجاتا ہے۔
اور ایسے مردوں کے سرپر اگر عورت باس بن جائے تو پھر…؟ ہم اور آپ ایسے لوگوں کی ذہنی کیفیت کو خوب اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ ایسے لوگ پھر دفتری کاموں میں بھی رکاوٹیں ڈالنا اور رخنہ ڈالنا اپنا فرض سمجھ لیتے ہیں اور دفتر کا غصہ اور فرسٹریشن گھر آکر بیچاری بیوی پر نکالتے ہیں۔
قصہ مختصر یہ کہ آج اگر عورت اپنا گھر بنانے میں اپنا تن، من، دھن وار رہی ہے تو اس کی قدر کریں اور اس کوا پنی محبت سے جیتنے کی کوشش کریں نہ کہ اس کو قربانیاں دیتا دیکھ کر اس کو اور رگڑ ڈالیں۔ عورت کا ضمیر محبت سے گندھا ہے، اسے محبت ہی تسخیر کرتی ہے، ظلم، زیادتی، جبر، تشدد، عورت کو توڑ ضرور دیتا ہے اسے جھکا نہیں سکتا اور پھر اسے جب موقع ملتا ہے وہ ایسی زنجیروں کو توڑنے کی کوشش کرتی ہے۔ لیکن محض محبت کے چند لمحے یا محبت سے کی گئی چھوٹی سی ستائش پر یہ پگلی اپنا آپ لٹانے پر تیار ہوجاتی ہے۔ گھر میں یا گھر سے باہر عورت کو دی گئی تھوڑی سی عزت، گھر اور معاشرے دونوں کو بہتر بنا سکتی ہے۔
یہ عورت ہی ہے جو ماں بن کر اپنے بچوں کی تربیت کرتی ہے، یہ عورت ہی ہے جو بیٹی بن کر خاندان کی عزت کا بوجھ اپنے نازک کندھے پر سہارتی ہے، یہ عورت ہی ہے جو بہن بن کر اپنے بھائیوں کے لیے مجسم دعا بن جاتی ہے، یہ عورت ہی ہے جو بیوی بن کر اپنے سائبان ، اپنے سرتاج، اپنے شوہر کی بہترین رفیق کار بن جاتی ہے۔ اس کی ہر مشکل، ہر پریشانی میں اس کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہوتی ہے۔
اس لیے عورت کو اس کے اصل روپ میں دیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کو پیار، محبت اور عزت کے ہتھیار سے تسخیر کرنے کی کوشش کی جائے، محض، ذلت، رسوائی اور غلامی کا طوق اسے باغی کردیتا ہے اور عورت کی بغاوت معاشرے میں ایسا بگاڑ پیدا کرتی ہے جس کا خمیازہ صدیوں پر محیط ہوتا ہے۔