Search This Blog

Friday, 7 December 2012

مسلمانوں کی دل آزاریاں

مسلمانوں کی دل آزاریاں
"آزادی ٔ اظہار ‘‘کی تلوار نہ چلاؤ
 دُنیا کے حالات پر نظر ڈالنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ مفادپرستی اور خود غرضی نے اپنے قدم ہر طرف جمالئے ہیں۔بعض اقوام اور افراد تو اپنے مفادات کے حصول کے لئے غلط بات کو بھی درست کرنے میں پیش پیش دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے لوگ مفادات کے حصول کے لئے لفظوں اور اصطلاحوں تک سے کھلواڑ کرتے ہوئے نظرآتے ہیں۔چنانچہ آج ایسے الفاظ کی ایک فہرست تیار کی جاسکتی ہے جن کے معانی ومفاہیم کولوگوںنے اپنے اپنے مطابق کرلیا۔ گو ایسے الفاظ کے معانی بظاہر کتنے ہی سادہ وآسان کیوں نہ ہوں لیکن جس طرح ان کے مفاہیم بیان کئے جارہے ہیں یا مراد لئے جارہے ہیں، ان سے الفاظ کی تشریح مشکل ہوکر رہ جاتی ہے۔ایسے جن الفاظ کو آج کل بڑے پیمانہ پراستعمال کیا جارہاہے ، ان میں’’ دہشت گردی‘‘،’’ بنیاد پرستی‘‘،’’رجعت پسندی‘‘ اور ’’اظہار ِخیال کی آزادی‘‘جیسے الفاظ کو سرفہرست رکھا جا سکتا ہے۔ دہشت گردی کے معنی ومفہوم ایک قوم کچھ لیتی ہے تو دوسری کچھ اور۔مثال کے طور پر فلسطین میں اسرائیل ایک طویل عرصہ سے اپنی جارحیت کو جاری رکھے ہوئے ہے۔اپنی جارحانہ کارروائیوںمیں وہ بوڑھوں، بچوں اور عورتوںکو بھی نشانہ بنادیتاہے۔فلسطینیوںکو ہلاک کرنے کے لئے کبھی وہ فضائی طاقت کا استعمال کرتا ہے اور کبھی بحری وبری طاقت کا۔کبھی وہ فلسطین کے شہروںکی ناکہ بندی کر ڈالتا ہے ، کبھی وہ فلسطین کے علاقوںپر قبضہ کرکے اپنی ناجائز بستیاں بسالیتا ہے۔ فلسطینی اور دیگرمتعدد ممالک کے عوام اسرائیل کی ان کارروائیوںکو دہشت گردی کہتے ہیں لیکن اسرائیل ، امریکہ اور اس کے حلیف ممالک اسرائیلی تشدد کو دہشت گردی نہیں قرار دیتے بلکہ اس کا دفاعی حق بتاتے ہیں، جب کہ فلسطینی عوام اگر اسرائیلی حملوں کے دفاع کے لئے پتھرپھینکتے ہیں تو انہیں دہشت گرد بتایاجاتاہے۔اسی طرح امریکہ اپنی جارحیت اور مظالم کو ’’امن پسندی ‘‘کا نام دیتاہے۔عراق میں امریکہ نے ایک عرصہ تک تشدد برپاکیا،ابوغریب اور گوانتاناموبے میں امریکہ نے بربریت کا مظاہرہ کیا،اس نے افغانستان اور عراق پر حملوںکے دوران جیلوں،اسکولوں، ،کالجوںاور اسپتالوںکو نشانہ بنایالیکن اس کے باوجودوہ خود کو امن کا علمبردار کہتے نہیں تھکتا۔
گزشتہ دنوں میانمارمیں مسلمانوںکاقتل عام کیا گیا،انہیں آگ سے بھون ڈالاگیا،انہیں بستیوںسے نکلنے پر مجبور کیاگیااور پورے میانمار میںان کا عرصۂ حیات تنگ کردیاگیا۔ انصاف کی بات تو یہ تھی کہ میانمار میں مسلمانوںکے خلاف ہونے والی اس جارحیت کو’’ دہشت گردی‘‘  کہاجاتااور میانمار کی موجودہ حکومت کی بھی سرزنش کی جاتی کیونکہ حکومت نے قاتلوں ودہشت گردوںکا پورا ساتھ دیالیکن امریکہ میانمار میں اس کھلے ظلم کو دہشت گردی تسلیم نہیں کررہاہے۔اگر امریکہ کی نظر میںیہ دہشت گردی ہوتی تو وہ میانمار پر مہربانی کرتے ہوئے نظرنہ آتا۔ورلڈ ٹریڈ سینٹر پرحملوںکے بعد اس وقت کے امریکی صدر جارج واکر بش نے عالمی دہشت گردی کے خلاف اعلان جنگ کیا تھا۔کیا دہشت گردی کے زمرے میں میانمار نہیں آتاہے؟پھر میانمار حکومت اور وہاں کے دہشت گردوںکو افغانستان اور عراق کی طرح نشانہ کیوںنہیں بنایاگیا؟حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ گزشتہ دنوںجب میانمارمیں مسلمانوںکا عرصہ حیات تنگ ہوا تو امریکہ میانمار حکومت پرفدا ہوگیا۔اس کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتاہے کہ امریکہ کے صدربراک اوبامہ نے میانمار کا دورہ کرڈالا اور میانمار کے خلاف لگی پابندیوںکو ہٹانے کا فیصلہ کرلیا۔ایسا لگتاہے جیسا کہ میانمارمیں جب مسلمانوںپر ظلم ہواتو امریکہ کو میانمار کی یہ حرکت پسند آئی اور اس کا پھل اس صورت میں دیاکہ پابندیاں ہٹادیں اور امریکی صدر خود چل کروہاں پہنچے تاکہ میانمار کی حوصلہ افزائی ہو۔دہشت گردی کے لفظ کا غلط استعمال کرنے میں صرف امریکہ اور اسرائیل ہی پیش پیش نہیں ہیں بلکہ فرانس، آسٹریلیا اور دیگر مغربی ممالک بھی اس لفظ کا بے جا استعمال کررہے ہیں۔
فی الوقت ’’ اظہار خیال کی آزادی‘‘ کا بھی بے جا استعمال کیاجارہا ہے۔ جس طرح کے خیالات کے اظہار کی آزاد ی ہونی چاہئے، اُن پر پابندی لگائی جارہی ہے اور جس طرح کے خیالات کے اظہار پر پابندی ہونی چاہئے ، اس کادھڑلے سے استعمال کیاجارہا ہے۔اس کی تازہ ترین مثال شیوسیناکے سپریمو بال ٹھاکرے کی موت کے بعد کئے جانے والے بند پر دولڑکیوںکا فیس بک پراپنے خیالات کا اظہار کرنااور پھر انہیں گرفتار کیاجانا ہے۔بال ٹھاکرے کی موت کے بعد مہاراشٹر میں شیوسینا کے ذریعہ بند کرایاگیا۔ اس کا اثر ممبئی جیسے شہر میں پورے طورپر دیکھاگیا، گویاکہ ممبئی کی نقل وحرکت کو بال ٹھاکرے کی موت پر سوگ منانے کے لئے روک دیاگیا۔ظاہر سی بات ہے کہ اس بند سے وہ لوگ بھی متاثر ہوئے جنہیں بال ٹھاکرے سے کچھ لینا دینا نہ تھا یا جو لوگ بال ٹھاکرے سے متفق نہ تھے،جو لوگ خود سوگ منانا چاہیں ،انہیں کون روک سکتا ہے لیکن جو لوگ سوگ نہ منانا چاہیں انہیں زبردستی سوگ منانے کیلئے مجبور کرنا قطعاً مناسب معلوم نہیں ہوتا،پھر بال ٹھاکرے کی زندگی قومی خدمات سے بھی خالی نظرآتی ہے۔انہوںنے اپنی زندگی میں اختلافی مسائل کو اٹھایا اور ایک خاص طبقہ کی ہی نمائندگی کی بلکہ اس طبقہ کے لئے انہوںنے دیگر طبقات کے نقصانا ت کی کبھی بھی پرواہ نہ کی،جس کے باعث ممبئی اور مہاراشٹر میں دوسرے صوبوںکے لوگوں کو زبردست ذہنی اور مالی نقصان سے دوچار ہونا پڑا۔ جس شخص کی زندگی اس طرح کی متنازعہ باتوں سے پُر ہو ، اسے ملک و قوم کا ہیروکیسے کہاجاسکتاہے ؟ایسے میں اگر دو لڑکیاں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اس بند کونامناسب قرار دیتی ہیں تو انہیں اس کی اتنی بڑی سزادی جاتی ہے کہ ان کے خلاف فوراً کارروائی کی جاتی ہے اور انہیں گرفتار کرلیاجاتاہے جب کہ بدنام زمانہ تس رشدی اورتسلیمہ نسرین کی مہمان نوازی کی جاتی ہے۔
تسلیمہ نسرین کھل کراسلام کے خلاف ایسی باتیں بولتی ہے کہ مسلمانوںکے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ تسلیمہ نسرین کو اس کے پراگندہ خیالات کی وجہ سے اس کے اپنے ملک بنگلہ دیش سے نکالاگیا لیکن ہمارے ملک نے اسے ویزا دیا ، وہ یہاں پر رہی تو ملک کے مسلمانوںکو شدید تکلیف پہنچی ۔ انہوں نے تسلیمہ نسرین کوملک سے باہر نکالنے کے لئے صدائے احتجاج بلند کی ، بڑے بڑے شہروںمیں زبردست مظاہرے کئے گئے مگر بجا ئے اس کے کہ اس سلسلے  میں مسلم اقلیت کے جذ بات کی قدر دانی کی جا تی الٹاتسلیمہ کی پذیرائی کی جاتی رہی اور اس کو بار بارویزا ملتا رہا۔رشدی جس سے ساری دنیا کے مسلمان نفرت کرتے ہیں ،چند ماہ قبل اسے جے پور میںایک ادبی پروگرام میںمدعو کیاگیاتھا جب ملک کے مسلمانوںکو اس کی خبر ہوئی تو انہوںنے احتجاج کیا۔ ایسے میں لازم یہ تھاکہ ملک کے کروڑوں مسلمانوںکے جذبات کو مدنظررکھتے ہوئے اس کے یہاں آنے پر پابندی لگائی جاتی لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔یہ ایک الگ بات ہے کہ رشدی نے اس وقت خود اپنے ارادے کو تبدیل کردیامگر کچھ وقت کے بعد وہ پھر ہندوستان آیا اور یہاں مختلف پروگراموںمیں شریک ہوکر چلاگیا۔مسلمانوںکو اس پر شدید تکلیف پہنچی ۔سوال یہ ہے کہ یہ آخر دوہرا معیار کیوںہے کہ ایک طبقے کے جذبات کا لحاظ نہیں کیاجاتا جب کہ دوسرے طبقہ کے جذبات کی پوری رعایت کی جاتی ہے؟ سوال یہ ہے کہ جن خیالات کا اظہار واقعی تکلیف پہنچانے والا ہے ،اس پر روک کیوںنہیں لگائی جاتی ؟ ہمارے ہی ملک میں بار بار ایسے واقعات پیش آتے رہتے ہیں جومسلمانوںکے جذبات کو تکلیف پہنچانے والے ہوتے ہیں۔مثلاً متعدد بارکئی پبلی کیشنزنے شان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں گستاخی کرنے والے خاکوںکی اشاعت کی مگر اس طرح کا ارتکاب کرنے والے کسی پبلی کیشنز کو سزا نہیں دی گئی۔
یہ بڑا المیہ ہے کہ پوری دنیامیں اظہار خیال کی آزادی کے نام پر دل آزاری کے واقعات بڑی تعداد میں سامنے آرہے ہیں۔ مغربی دنیا تو اس معاملہ میںاور زیادہ آگے نظرآتی ہے۔وہاں مسلمانوںکے مذہبی جذبات کی رعایت نہیں کی جاتی، وہاں تعصب اور تنگ نظری کا یہ حال ہے کہ قرآن سوزی کے واقعات تک رونما ہوتے ہیں، وہاں اسلام کے خلاف فلمیں بنائی جاتی ہیں، وہاں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب نسبت کرکے العیاذ باللہ فرضی خاکے اخبارات میں شائع کئے جاتے ہیں،وہاں مسلمانوںپر انتہائی تکلیف دینے والے ریمارک پا س کئے جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ خیالات کے اظہار کی آزادی کی آڑ میں کیاجاتاہے لیکن اگر کوئی اور اس طرح کے خیالات کا اظہارکردے جس سے ان کے جذبات کوٹھیس پہنچے تو وہ آپے سے باہر ہوجاتے ہیں اور اس وقت خیالات کے اظہار کی آزادی کے دوسرے معنی مراد لیتے ہیں۔انصاف کا تقاضہ ہے کہ دوہرے معیار کے سلسلہ کو بند کیاجائے اور خیالات کے اظہار کی آزادی کو غلط معنی نہ دئیے جائیں۔
………
 نوٹ ـ: فاضل مقالہ نگار پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کے ممبر ہیں

No comments:

Post a Comment