فیض احمد فیض
کردار میں گفتار میں وہ نا بغہ ٔ روزگار
کامریڈکرشن دیو سیٹھی
کامریڈکرشن دیو سیٹھی
فیضؔ
کی شاعری کے موضوع کی بنیاد محنت کش عوام اور سما ج کادباکچلا انسان ہے۔
اس کی وجہ صرف لینن یامارکس کا مطالعہ نہیں ہے بلکہ وہ مصائب ہیں جو فیض کے
والدسلطان محمد خان نے اپنی زندگی میںبرداشت کئے۔سلطان محمد خان پنجاب کے
ایک چھوٹے سے گائوںگالا قادر ضلع سیالکوٹ کے غریب ترین کسان گھرانے سے تعلق
رکھتے تھے۔ فیض نے موصوف کے بارے میںلکھاہے:
ـ’’
جب یہ پانچ سال کے ہوئے تو غرباء کی روایت کے مطابق انہیں پڑھنے کے بجائے
روٹی کمانے کا فن سکھایاگیا۔ دیہات والوں نے ہمارے اباکو مویشی چرانے
پرلگادیا ور اس خدمت کے معاوضہ میں ان کی روٹی کاخرچ برداشت کرلیا۔ اب ابا
صبح سویرے ریوڑ لے کرجاتے ۔مویشی گھاس چرتے اور یہ کسی درخت کے سائے میں
بیٹھے دور سے سکول اور وہاں کے طلباء کو حسرت بھری نظروںسے دیکھتے۔
دیہات
والوں نے فیض کے والد کی روٹی کا خرچ اس طرح برداشت کیاتھا کہ انہیںدوروپے
ماہوار مویشی چرانے کامعاوضہ ملتاتھا۔ استحصال کی یہ زندہ مثال ان کے
گھرانے میںموجود تھی۔ سکول کے ماسٹر صاحب کو جب یہ معلوم ہو ا کہ سلطان
محمد پڑھنا چاہتاہے اور سکول ٹائم میں وہ مویشی چراتاہے تو ماسٹرصاحب نے
کہا کہ تم آکر سبق لے لیا کرو اور پیڑ کے نیچے بیٹھ کر اپنے ریوڑ کی
نگرانی کرتے ہوئے اپناسبق یاد کرلیا کرو ۔ اس طرح فیض کے والد نے پرائمری
اور مڈل کے امتحانات دئیے۔ اس کے بعد وہ ہائی سکول کرنے لاہور چلے گئے ۔
ایک مسجد میں رہائش کی جگہ مل گئی۔ کھانااہل محلہ کی جانب سے آتا۔ فیض نے
لکھاہے:
’’اب
والد صاحب دن میںسکول جاتے،شام کو مسجد کاکام کرتے۔ کھانامحلے سے آجاتا
اور پھر رات عشا کے بعد لاہور ریلوے سٹیشن چلے جاتے۔ رات گئے تک قلی گیری
کرتے۔ اس طرح جو رقم جمع ہوتی وہ اپنے گھر والوں کوبھیج دیتے‘‘۔
خلیق انجم نے لکھا ہے:
’’فیض
یہ بات کبھی نہیں بھول سکے کہ ان کے والد نے ایک چرواہے اورقلی کی خدمت
انجام دی‘‘۔ بعد میں فیض احمد فیض کے والد سلطان محمد خان اپنی محنت، کوشش
اورعلمی صلاحیت کی بناء پر انگلستان میں افغانستان کے سفیر رہے۔ نفسیاتی
طورپر اگر تجزیہ کیا جائے تو یہ نتیجہ نکلتاہے کہ ان حالات کی وجہ سے مفلوک
الحال طبقہ ان کی شاعری کاحصہ بنا اور یہی نہیں ان کی شاعری میںعاشق،
محبوب، عشق ، رقیب ان سب کے مافہیم الگ ہیں۔اور تصورات بھی الگ ہیں۔ مثلاً
عاشق ان کے وہاں مجاہد اور انقلابی ہے۔ محبوب وطن اورعوام ہیں۔ عشق انقلابی
جنون اور کوشش ہے۔ ہجر وفراق جبر و ظلم اور استحصال ہے۔
تقسیم
وطن کے بعد وہ پاکستان میں محکمہ ڈاک و تار اور ریلوے کے مزدوروں کی ٹریڈ
یونین کے نائب صدر رہے۔ ان کی نمائندگی کانفرنسوںمیںکی۔ ’پاکستان ٹائمز‘ کے
ایڈیٹر بھی رہے۔ اس زمانے میں انہوں نے حکومت پاکستان کی عوام دشمن پالیسی
پر سخت تنقید کیں۔ راولپنڈی ساز ش کیس میں نواپریل 1951کوگرفتار کرلئے گئے
اور 1955تک جیل کی صعوبتیں برداشت کیں۔ قید تنہائی میںقلم اور کاغذ
اوراخبارات ان کے حکم ممنوعہ تھے۔ فیض نے اس کا ذکر بھی کیاہے ؎
متاع لوح و قلم چھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خون دل میںڈبولی ہیں انگلیاں میںنے
زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے
ہراک حلقہ زنجیر میںزبا ں میںنے
فیض کی دست صبا اور زنداں نامہ جیل
یہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے کاکلام ہے جو زندانی ادب کی بہترین مثال ہیں۔
دست صبا کے ابتدائیہ میںفیض نے کہاہے:
’’یوں
کہے کہ شاعر کا کام محض مشاہدہ ہی نہیں مجاہدہ بھی اس پرفرض ہے۔ گردو پیش
کے مضطرب قطروں میںزندگی کے دجلہ کا مشاہدہ اس کی بینائی پر ہے۔ اسے دوسروں
کودکھانا اس کی فنی دستر س پر۔ اس کے بہائو میںدخل انداز ہوتا اس کے شوق
کی صلابت اور لہومی حرارت پراور تینوں کام مسلسل کاوش اور جدوجہد چاہتے
ہیں۔
حیات انسان کی اجتماعی جدوجہد میں حسب توفیق شرکت کرنا زندگی کاتقاضہ ہے‘‘
اورفیض
حیات انسان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف جدوجہد کرتے رہے۔ قید
تنہائی کامقصد یہ ہوتاہے کہ انقلابی اپنا ذہنی توازن کھودے اور یہی جابر
چاہتے بھی ہیں لیکن فیض کی شاعری میں آنے والے دورکا بگل، مزدوروں کی
آہیں اور ظلم وجبر واستبداد کا ذکر اس زمانے کی شاعری میں سب سے زیاد ہ
ہے۔ملاحظہ ہو ؎
نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھاکے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے جسم وجاں بچاکے چلے
فیض ؔجدوجہد انسان کے مصائب
اس
کے استحصال اور دبے کچلے انسانوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف
آواز بلند کرتے ہیں۔’’ شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں‘‘ میںیوںمخاطب ہیں۔
تم ناحق ٹکڑے چن چن کر
دامن میں چھپائے بیٹھے ہو
شیشوں کامسیحا کوئی نہیں
کیا آس لگائے بیٹھے ہو
شائد کہ انہیں ٹکڑوں میںکہیں
وہ ساغر دل ہے جس میںکبھی
صد ناز سے اترا کرتی تھی
صہبا ئے غم جاناں کی پری
پھر دنیا والوں نے تم سے
یہ ساغر لے کر پھوڑدیا
جو مے تھی بہادی مٹی میں
مہماں کا شہپر توڑ دیا
فیض
کے وہاں عاشق، رقیب اورعشق کے مفاہیم بدل گئے۔اسی طرح ساغر ،مے اور شراب
سماجی او رسیاسی بیداری کے ذرائع کے معنی میں استعمال کئے ہیں۔ ان کی نظم
ودامن یوسف ’وفا‘ کے لفظ کا استعمال ملاحظہ ہو ؎
قفس ہے بس میںتمہارے تمہارے بس میںنہیں
چمن میں آتش گل کے نکھار کاموسم
صبا کی مست خرامی تہہ کمند نہیں
امیر دام نہیں ہے بہار کا موسم
فیضؔ
کی سیاسی شاعری کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ خالص غنائی یعنی داخلی شاعری کی طرح
قارئین اور سامعین کو اپنے جذبات و احساسات میںشریک بنانے پر قادرہے۔ اگر
کسی تخلیق کار کی تخلیق کوپڑھ کر یاسن کرایک لمحے کے لئے بھی عوام پرامید
ہوجاتے ہیں بلکہ پوری قوم کے لئے ناقابل فراموش لمحہ بن جاتاہے۔ فیض کی
نظمیں آج بازارمیں پابہ جولاں چلو ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے۔ ایک
نغمہ کربلا ئے بیروت کے لئے فلسطینی بچے کے لئے لوری ’ول من مسافرمن ‘
شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں۔ ان منظومات میںدنیا کے مختلف ممالک کے لاکھوں
انسانوں نے اپنے دل کی دھڑکنوں کو محسوس کیاہے۔ فیض کی شاعری کا کمال یہ ہے
کہ ان کی سیاسی شاعری ہمارے اندر ویسا ہی رد عمل پیدا کرتی ہے، جیسا داخلی
شاعری فیض کی شاعری کی معراج یہ ہے کہ لوگ ان کے سیاسی افکار سے اختلاف
رکھتے ہوئے بھی اس کے سحر میں گم ہوجاتے ہیں۔فیض نے یہ ثابت کردیا کہ اگر
شعر یا منظومات احساسات کو چھوٹے والی ہوںتوعقائد سے بالاتر ہوکر قاری صرف
محفوظ ہی نہیں ہوتابلکہ وہ سوچتاہے کہ یہ وہ ہے جومیں چاہتاہوں یا میرے
جذبات کی عکاسی ہے۔
فیضؔ
کے انقلابی شاعری دراصل ان کے انقلابی عشق سے پیوست ہے۔ ان کا انقلابی عشق
تمام انسانوں کے لئے ہے لیکن فیض اور آگے بڑھے ہیں۔ ہوائوں پرندوں مناظر
فطرت اور اپنی تنہائی سے بھی ہم کلام ہوئے ہیں۔ وہ ترکی کے شاعر ناظم حکمت،
فلسطینی رہنما یاسر عرفات ایرانی طلباء اور افریقی جاں بازوں کی حمایت ہی
نہیں کرتے بلکہ سب کے سب ان کی شخصیت کا حصہ بن گئے ہیں۔
فیض
نے اردوکے علاوہ پنجابی میں بھی شاعری کی ہے لیکن وہ خند نظموںتک ہی محدود
ہے۔ ان میںسے ایک نظم تحریر کی جاتی ے جس میںانہوں نے محنت کشوں کی زندگی
بیان کرتے ہوئے با رگا ہ خدا وندی سے بھی شکوہ کیاہے۔ اس سے اندازہ ہوتاہے
کہ محنت کشوں کی زندگی کے متعلق ان کس قدر دردِ دل رکھتے تھے ؎
رب سچیا ! فیض
رباسچیا! توں نے آکھیاسی
جااوے بند یا جگ داشاہ ایں توں
ساڈیاں نعمتاں تیریاں دولتاں نئیں
ساڈا نیب تے عالیماہ ایں تو
اس لار سے تے ٹور کد پچھاای
کہیہ ایس نمانے تے بتیاں نیں
کدی سار وی لئیی او رب سائیاں
تیرے شاہ نال جگ کہہ کتیاں نیں
کتے دھونس پولیس سرکاردی اے
کتے دھاندلی مال پٹوار دی اے
ایویں ہڈاں چ کھپے جان میری
جیویں پھاہی چ کونج کرلائوندی اے
چنگا شاہ بنا یاہی رب سائیاں
پولے کھاندیاں وارنہ آئوندی اے
مینوں شاہی نہیں چاہیدی رب میرے
میں تے غرت دا ٹکڑ منگدا ہاں
مینوں تانگ نیئں محلان ماڑیاں دی
میں تاںجیویں دانُکر منگدا ہاں
میری نئیں تے تیریاں میں منا ں
تیری سومنہہ جے اک دی گل موڈاں
جے ایہہ مانگ نہیں پچدی تئیں ربا
فیر میں جاواں تے رب کوئی ہور لوڑاں
ترجمہ:
اے سچے خدا!
اے سچے خدا تو نے کہاتھا کہ
اے بندے توجا۔ تو دنیاکابادشاہ ہے
میری نعمتیں سب تیری دولت ہیں
ہمارانائب اور عالی جاہ توہے
اس وعدے پر روانہ کرکے کبھی تو نے پوچھاہے
کہ نادار پر کیا کیا بیتا ہے
اے رب مالک کبھی تو نے کبھی دریافت بھی کیاہے
تیرے بادشاہ کے ساتھ دنیا نے کیاکیاہے
کہیں پرپولیس اور سرکار کی دھونس ہے
کہیں پر محکمہ مال اورپٹواری کی دھاندلی ہے
بلاوجہ ہڈیوں میں میری جان تڑپ رہی ہے
جیسے پھانسی پر پھنسی ہوئی کونج شور وغوغا کرتی ہے
اے مالک حقیقی تونے اچھا بادشاہ بنایاہے
جوتے کھا کھا کر باری نہیںآتی ہے
اے میرے خدا! مجھے بادشاہ ہی نہیںچاہیے
میںتو عزت کی روزی کا طلبگا ہوں
مجھے محل اور مارڈیوںکی خواہش نہیں ہے
میںزمین کاٹکڑا مانگتاہوں
اگر تو میری مانے تو تیراسب کچھ مانوںگا
تیر ی قسم جو تیری ایک بھی بات انکار کروں
اگر میرے خدا تجھے یہ مانگ منظور نہیںہے
توتب میںجائوںگا اوردیگرخدا تلاش کروںگا
No comments:
Post a Comment