قوم کو اس کی تاریخ سے محروم کر دیاجائے تو وہ اپنی جڑ سے کٹ جاتی ہے ۔ ایاز الشیخ
کولہاپور میں شہید اشفاق اللہ خان کی یوم شہادت تقریب
کولہاپور میں شہید اشفاق اللہ خان کی یوم شہادت تقریب
کولہاپور (یو این این )'' مادرِ وطن ہندوستان کی آزادی اورغیر ملکی اقتدار سے نجات حاصل کرنے کی تحریک اور جدوجہد میں علماِ دین ،سرفروش مجاہدین اور صاحبِ غیر ت مسلمانوں کا قائدانہ اور سرفروشانہ کردار رہا ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اس ملک کی تاریخ سازی اور حصول آزادی میں مسلمانوں نے ایک عہد ساز کردار ا دا کیا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسلام نے آزادی کو ایک نعمت قرار دیا ہے ۔ اور غلامی کو فکرو عمل کے لیے بد ترین لعنت ۔یہی وہ تصور رہا ہے جس نے جد وجہد آزادی کے دور میں دینی درسگاہوں کے علما کو ، خانقاہوں کے مشائخین کو ، خلوص سے خاک نشینوں کو ، بزمِ سخن سے اردو شاعروں کو اور گھر کی چاردیواریوں سے مسلمان خواتین کو اس معرک جہاد میں لا کھڑا کیا ۔ جان و مال کی قربانیاں دیں، تحریکیں چلائیں تختہ دار پرچڑھے، پھانسی کے پھندے کو جرات وحوصلہ اورکمال بہادری کے ساتھ بخوشی گلے لگایا، قیدو بندکی صعوبتیں جھلیں اور حصولِ آزادی کی خاطرمیدا ن جنگ میں نکل پڑے، آخرانگریزملک سے نکل جانے پرمجبورہوئے۔''
ان خیالات کا اظہار ایاز الشیخ، چیرمین امام غزالی ریسرچ فاونڈیشن گلبرگہ نے کولہاپور مہاراشٹرا شہید اشفاق اللہ خان کی یوم شہادت کے ضمن میں منعقدہ تقریب میں ''جنگ ًزادی ہند میں مسلمانوں کا قائدانہ کردار'' کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا۔ کیشور روا بھوسلے ناٹیہ گرہ کے وسیع آڈیٹوریم میں منعقدہ اس تقریب کا انعقاد محکمہ تعلیم کولہاپور مہانگر پالیکا، کولہاپور ٹیچرس اسوسی ایشن، ہیڈماسٹرس اسوسی ایشن ، وای ایم سی ای او اور این سی پی یو ایل کولہاپور نے مشترکہ طور پر کیا تھا۔ کثیر تعداد میں مسلم و غیرمسلم دنشواران اورشعبہ تعلیم سے منسلک سامعین شریک تھے۔تقریب کی مہمان خصوصی مئیر کولہاپور محترمہ جئے شری سوناونے تھیں۔
ایاز الشیخ نے اپنے صدارتی نے اپنا خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا کہ حصولِ آزادی کی جدوجہد کو عام طور پر انڈین نیشنل کانگریس کے قیام کے ساتھ وابستہ کیا جاتا ہے ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کی ابتدا اٹھارویں صد ی کے نصفِ اول میں ہو چکی تھی۔ چونکہ تحریکِ آزادی میں مسلمانوں کا قائدانہ کردار رہا ہے اور انہوں نے ہی سب سے پہلے آزادی کی شمع روشن کی ہے ۔ شہید اشفاق اللہ خان کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہوںنے جدوجہد آزادی میں رام پرشاد بسمل کے ساتھ مل کر جدوجہد کی۔ بالاخر وطن کے لئے پھانسی کے تختہ پر چڑھا دئے گئے لیکن انگریز سے معافی طلب نہیں کی۔شہید اشفا ق اللہ خان جیسے ہزاروں مجاہدین آزادی کے اتنے زبردست رول کو نظرانداز کرنے کی دانستہ یا نادانستہ کوشش ہورہی ہے ۔ عہد وسطی کی تاریخ آج ہمارے مدارس اور جامعات میں اس لیے نہیں پڑھائی جاتی ہے کہ وہ فرقہ پرستوں کے حلق سے نہیں اترتی۔ اقبال نے کہا تھا کہ کسی قوم کی تاریخ اس کا اجتماعی حافظہ ہوتی ہے ۔ اگر کسی قوم کو اس کی تاریخ سے محروم کر دیاجائے تو وہ اپنی جڑ سے کٹ جاتی ہے ۔ اہل ملک اور خصوصا مسلمانوں کے سامنے اس داستانِ حریت کے مختلف پہلوں کو نئی نسل کے سامنے مستقل پیش کرنے کے ذریعہ تاریخ آزادی میں مسلمانوں کی جدوجہد کو نہ صرف یاد کیا جائے بلکہ باقی رکھاجائے ۔ ابنائے وطن کو معلوم ہو کہ اس ملک کو آزاد کروانے میں اپنا خون بہانے اور اپنے مال و متاع کی قربانی کرنے میں مسلمان کسی سے پیچھے نہیں بلکہ آگے ہیں اور مسلمانوں کی نئی نسل اس احساس کمتری سے آزاد ہوکہ ہمارے اسلاف نے اس ملک کے لیے کچھ نہیں کیا ۔ اس سے ان کے اندر خود اعتمادی کاجذبہ پیداہوگا۔ اوراپنے اجداد کے سرفرو شانہ کارناموں پر ان کا سرفخر سے اونچا ہوگا۔انہوں نے مزید کہا کہ حقیقت یہی ہے کہ انگریزی سامراج کے خلاف لڑائی چھیڑنے والے بیشتر مسلمان، مصیبتیں اٹھانے والے مسلمان، قید و بند کی زندگی کاٹنے والے مسلمان اور جان پر کھیل جانے والے مسلمان رہے ہیں ۔ ان کی تعداد اور تناسب اتنا زیادہ ہے کہ مسلمان فخر کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اس ملک کے لیے سب سے زیادہ خون مسلمانوں نے ہی دیا ہے ۔ ہندوستان کی تحریک آزادی میں مسلمانوں کاحصہ قدرتی طورپربہت ممتازونمایاں رہا ہے،انھوں نے جنگ آزادی میں قائداوررہنماکاپارٹ اداکیا،اس کی وجہ یہ تھی کہ انگریزوں نے اقتدارمسلم حکمرانوں سے چھیناتھا،اقتدارسے محرومی کادکھ اوردردمسلمانوں کوہوا،انھیں حاکم سے محکوم بنناپڑا، اس کی تکلیف اوردکھ انھیں جھیلناپڑا، اسی لیے محکومیت وغلامی سے آزادی کی اصل لڑائی بھی انھیں کولڑنی پڑی۔مجاہدین آزادی کی یہ جدوجہد ہمیں اس بات کا درس دیتی ہے کہ ملک کی مختلف اکائیاں اپنی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے مذہبی تنگ نظریوں اور فرقہ وارانہ تعصبات سے بالا تر ہو کر مشترکہ جدو جہد کے اس روشن ورثہ کی نہ صرف حفاظت کریں بلکہ ہندوستانی معاشرہ کی ترقی کو صحیح سمت عطا کریں ۔ ہندوستانی مسلمانوں کی حب الوطنی کا روشن ترین مظہر ان کی وہ جدو جہد ہے جو انہوں نے اپنے وطن عزیز کو غیر ملکی تسلط سے آزد کرانے کے لیے کی ہے ۔
قبل ازیں اردو اسکول کے طلباء نے شہید اشفا ق اللہ خان کی شہادت کے موضوع پر تقاریر اور نظمیں پیش کیں۔تقریب کے روح رواںانگریزی زبان کے محقق اور ماہر تعلیم پروفیسر امداداللہ شیخ صاحب نے اپنے تعارفی خطاب میں کہا کہ آج ملک کی آزادی کی خاطر جدوجہد کرنے والوں اور جان کی بازی لگانے والوں کو یاد بھی کیا جا تاہے اور جس انداز سے یاد کیا جا رہا ہے اس سے مسلم نوجوان، طلبا اور بچے یہی تاثر لے رہے ہیں کہ انگریزی سامراج کے خلاف آزادی کی لڑائی لڑنے والوں میں مولانا ابوالکلام آزاد کے علاوہ بس ایک دو مسلمان تھے ۔ ایسا تاثر لینے پر نوخیز نسل مجبور ہے کہ کسی اور مسلمان کا نام آتا ہی نہیں جس نے انگریزی سامراج کے خلاف سخت جدوجہد کی ہے ۔ شہید اشفاق اللہ ان میں سے ایک ہیں۔ آج بھگت سنگھ کو تو ہر ایک جانتا ہے لیکن ایسے کتنے مجاہدین و شیہدان آزاد ی ہیں جنہیں فراموش کردیا گیا ۔ انہوں نے زور دیا کہ تعلیمی اداروں میں ان شہیدان وطن کے متعلق معلومات طلباء کو فراہم کی جائیں۔ اس پروگرام کے منتظم بھی ہیں نے کہا کہ اس تقریب کے انعقاد کا مقصد بھی یہی ہے ۔
جناب ساونت، صدر کولہاپور ٹیچرس اسوسی ایشن نے کہا کہ مسلم مجاہدین آزادی کی قربانیوں سے ہی اس ملک کو آزادی ملی۔ اگر آج انہیں بھلایا جارہا ہے تو ارباب اقتدار کے ساتھ مسلمان بھی اسکے ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے دوسروں کے سامنے تو درکنار خود اپنے تعلیمی اداروں اور حلقوں میں ان مسلم مجاہدین و شھداء آزادی کا ذکر نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ مسلم اساتذہ سنہری تاریخ سے نئی نسل کو مطلع کریں ۔ صرف تدریس اور تنخواہیں حاصل کرنا ہی ان کا مقصد نہ ہونا چاہئے۔
جناب رسول پٹیل، اے پی او کولہاپور مہانگر پالیکا شکشن منڈل، شکشن منڈل کی چیرمین محترمہ جئے شری راجندر سابڑے، رکن شکشن منڈل مہیش جی جادھو، دیسائی سر، راج شری اور مومن سر نے بھی تقریب کو مخاطب کیا ۔ جناب کالے خان نے نظامت کے فرائض انجام دئے۔ کولہاپور میں اس نوعیت کی معقدہ اس پہلی تقریب ہوئی ہے اور سامعین نے کافی جوش و خروش کا مظاہرہ کیا۔ بعد ازاں مسلم دانشوروں نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے پروگرامس یہاں مستقل ہوتے رہنے چاہئے اس سے حوصلہ بلند ہوتا ہے اور ملک و ملت کی خدمت کا جزبہ ابھرتا ہے۔
No comments:
Post a Comment