راز منکشف کرنے والے بلاگر سے تفتیش
ایک دہائی میں 240 اسرائیلی فوجیوں کی خودکُشی
جمعرات 14 صفر 1434هـ - 27 دسمبر 2012م
حیفا ۔ نائف زیدانی
اسرائیلی فوج کے جاری اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ ایک عشرے میں
مجموعی طور پر 240 فوجی اہلکاروں نے خودکشی کی۔ اس طرح سالانہ 24 اور ہر
ماہ دو فوجی خود کو موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں۔ تاہم سرکاری سطح پر جاری
اعداد شمار اور آزاد ذرائع سے آنے والی رپورٹس میں خودکشی کے واقعات میں
نمایاں فرق بھی دکھائی دیتا ہے۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق کچھ عرصہ پیشتر اسرائیلی خفیہ اداروں نے ایک انٹرنیٹ بلاگر کو حراست میں لیا جس پر الزام تھا کہ وہ فوج میں ہونے والے خودکشی کے واقعات کو منظر عام پر لاتا رہا ہے۔ فوج کو یہ تشویش لاحق تھی کہ خودکشی کے جتنے واقعات کا سرکاری سطح پر اعتراف کیا جاتا ہے بلاگر اس سے کہیں زیادہ کیونکر مشتہر کر رہے ہیں؟۔ تفتیش کے دوران محروس بلاگر سے اس کے ذرائع اطلاعات کے بارےمیں پوچھ گچھ بھی کی گئی تاکہ یہ پتہ چلایا جا سکے کہ فوج کے اندر سے اسے خودکشی کے واقعات کی معلومات کون فراہم کر رہا ہے؟۔
اسرائیلی اخبار 'ہارٹز' نے عسکری ذرائع کے حوالے سے گزشتہ ایک عشرے میں فوج کی صفوں میں ہونے والی خودکشیوں کی تفصیلات شائع کی ہیں۔ ان تفصیلات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر سال خودکشی کی شرح ایک جیسی نہیں بلکہ اس میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے۔ سن 2005ء میں خودکشی کے سرکاری سطح پر36 واقعات رجسٹرڈ کیے گئے۔ اگلے سال 2006ء میں 28، سن 2007ء میں 18، 2008ء میں 22، 2009ء میں 21، سن 2010ء میں 27 اور گذشتہ برس2011ء میں 27 فوجیوں نے خودکشی کی۔
تاہم رپورٹس سے اندازہ ہوتا ہے کہ گزشتہ دہائی (1990 تا 2000) کی نسبت حالیہ عشرے میں خودکشی کی شرح میں قدرے کمی ضرور آئی ہے کیونکہ انیس سو نوے سے دو ہزار کے درمیان مجموعی طور پر سالانہ خودکشی کے چالیس واقعات رجسٹرڈ کیے گئے ہیں۔
فوج میں خودکشی کے واقعات کے کئی اسباب بیان کیے جاتے ہیں۔ ان میں فوج کی ناقص تربیت، کم عمری جیسے اسباب بھی شامل ہیں لیکن سب سے زیادہ خودکشی کے واقعات کا محرک فلسطینی مزاحمت کاروں کا نفسیاتی خوف بتایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فوجیوں کے نفسیاتی معالجے کے لیے بڑی تعداد میں ماہرین نفسیات کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اس کے علاوہ فوجی افسران نے خودکشی کے رحجان میں کمی لانے کے لیے خود بھی سپاہیوں کی نگرانی پرتوجہ دی، جس کے بعد خودکشی کے رحجان میں کسی حد تک کمی لائی گئی ہے۔
ایک دوسرے عبرانی اخبار 'معاریف' نے اپنی رپورٹ میں بتایا سن 2003ء میں فوجی اہلکاروں کی خود کشی کے واقعات کے بعد فوج میں بے چینی پیدا ہوئی لیکن اس بے چینی میں اس وقت اور بھی اضافہ ہوا جب سرکاری اور غیر سرکاری اعداد و شمار میں واضح فرق سامنے آیا کیونکہ فوج کی جانب سے سال میں خودکشی کے 37 واقعات کی تفصیل جاری کی گئی تھی جبکہ غیر سرکاری ذرائع سے ملنے والی اطلاعات میں یہ تعداد 43 تھی۔
اخبار کے مطابق فوج میں خودکشی کے رحجان کو عوامی سطح پر لانے سے گریز کی پالیسی اپنائی جاتی ہے۔ بہت سے فوجیوں کی خودکشی میں ہلاکت کے بعد ان کی موت کو خودکشی کا نتیجہ قرا دینے کے بجائے طبعی موت یا خودکشی کے مشابہ موت کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ خودکشی کرنے والے فوجیوں کے اہل خانہ کو سختی سے تاکید کی جاتی ہے کہ وہ اپنے بیٹے کی ہلاکت کو خودکشی کے طور پر متعارف نہ کرائیں بلکہ اسے خفیہ رکھیں۔
اسرائیلی فوج کے سائیکالوجیکل شعبے سے وابستہ پروفیسر آوی بلیئر کا کہنا ہے کہ فوج میں خود کشی کا موضوع ہر دور میں موضوع بحث رہا ہے۔ خودکشی کے واقعات کسی خاص ترتیب کے مطابق نہیں ہوتے بلکہ ان میں اتار چڑھاؤ بھی آتا رہتا ہے۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں میں فلسطینی مزاحمت کاروں کے حملوں کا خوف بھی خودکشی کا موجب ہے لیکن فوجیوں میں تقسیم کیا گیا اسلحہ بھی ان کی موت کا باعث بن رہا ہے کیونکہ اکثر فوجی اپنی ہی بندوق سے خود کو گولی مار کر قتل کر دیتے ہیں۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق کچھ عرصہ پیشتر اسرائیلی خفیہ اداروں نے ایک انٹرنیٹ بلاگر کو حراست میں لیا جس پر الزام تھا کہ وہ فوج میں ہونے والے خودکشی کے واقعات کو منظر عام پر لاتا رہا ہے۔ فوج کو یہ تشویش لاحق تھی کہ خودکشی کے جتنے واقعات کا سرکاری سطح پر اعتراف کیا جاتا ہے بلاگر اس سے کہیں زیادہ کیونکر مشتہر کر رہے ہیں؟۔ تفتیش کے دوران محروس بلاگر سے اس کے ذرائع اطلاعات کے بارےمیں پوچھ گچھ بھی کی گئی تاکہ یہ پتہ چلایا جا سکے کہ فوج کے اندر سے اسے خودکشی کے واقعات کی معلومات کون فراہم کر رہا ہے؟۔
اسرائیلی اخبار 'ہارٹز' نے عسکری ذرائع کے حوالے سے گزشتہ ایک عشرے میں فوج کی صفوں میں ہونے والی خودکشیوں کی تفصیلات شائع کی ہیں۔ ان تفصیلات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر سال خودکشی کی شرح ایک جیسی نہیں بلکہ اس میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے۔ سن 2005ء میں خودکشی کے سرکاری سطح پر36 واقعات رجسٹرڈ کیے گئے۔ اگلے سال 2006ء میں 28، سن 2007ء میں 18، 2008ء میں 22، 2009ء میں 21، سن 2010ء میں 27 اور گذشتہ برس2011ء میں 27 فوجیوں نے خودکشی کی۔
تاہم رپورٹس سے اندازہ ہوتا ہے کہ گزشتہ دہائی (1990 تا 2000) کی نسبت حالیہ عشرے میں خودکشی کی شرح میں قدرے کمی ضرور آئی ہے کیونکہ انیس سو نوے سے دو ہزار کے درمیان مجموعی طور پر سالانہ خودکشی کے چالیس واقعات رجسٹرڈ کیے گئے ہیں۔
فوج میں خودکشی کے واقعات کے کئی اسباب بیان کیے جاتے ہیں۔ ان میں فوج کی ناقص تربیت، کم عمری جیسے اسباب بھی شامل ہیں لیکن سب سے زیادہ خودکشی کے واقعات کا محرک فلسطینی مزاحمت کاروں کا نفسیاتی خوف بتایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فوجیوں کے نفسیاتی معالجے کے لیے بڑی تعداد میں ماہرین نفسیات کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اس کے علاوہ فوجی افسران نے خودکشی کے رحجان میں کمی لانے کے لیے خود بھی سپاہیوں کی نگرانی پرتوجہ دی، جس کے بعد خودکشی کے رحجان میں کسی حد تک کمی لائی گئی ہے۔
ایک دوسرے عبرانی اخبار 'معاریف' نے اپنی رپورٹ میں بتایا سن 2003ء میں فوجی اہلکاروں کی خود کشی کے واقعات کے بعد فوج میں بے چینی پیدا ہوئی لیکن اس بے چینی میں اس وقت اور بھی اضافہ ہوا جب سرکاری اور غیر سرکاری اعداد و شمار میں واضح فرق سامنے آیا کیونکہ فوج کی جانب سے سال میں خودکشی کے 37 واقعات کی تفصیل جاری کی گئی تھی جبکہ غیر سرکاری ذرائع سے ملنے والی اطلاعات میں یہ تعداد 43 تھی۔
اخبار کے مطابق فوج میں خودکشی کے رحجان کو عوامی سطح پر لانے سے گریز کی پالیسی اپنائی جاتی ہے۔ بہت سے فوجیوں کی خودکشی میں ہلاکت کے بعد ان کی موت کو خودکشی کا نتیجہ قرا دینے کے بجائے طبعی موت یا خودکشی کے مشابہ موت کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ خودکشی کرنے والے فوجیوں کے اہل خانہ کو سختی سے تاکید کی جاتی ہے کہ وہ اپنے بیٹے کی ہلاکت کو خودکشی کے طور پر متعارف نہ کرائیں بلکہ اسے خفیہ رکھیں۔
اسرائیلی فوج کے سائیکالوجیکل شعبے سے وابستہ پروفیسر آوی بلیئر کا کہنا ہے کہ فوج میں خود کشی کا موضوع ہر دور میں موضوع بحث رہا ہے۔ خودکشی کے واقعات کسی خاص ترتیب کے مطابق نہیں ہوتے بلکہ ان میں اتار چڑھاؤ بھی آتا رہتا ہے۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسرائیلی فوجیوں میں فلسطینی مزاحمت کاروں کے حملوں کا خوف بھی خودکشی کا موجب ہے لیکن فوجیوں میں تقسیم کیا گیا اسلحہ بھی ان کی موت کا باعث بن رہا ہے کیونکہ اکثر فوجی اپنی ہی بندوق سے خود کو گولی مار کر قتل کر دیتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment