Search This Blog

Tuesday 26 June 2012

محمد مُرسی کی کامیابی

محمد مُرسی کی کامیابی

- آخر کار مصر میں ایک طویل دور آمریت کا خاتمہ ہوگیا۔ جمال عبدالناصر کی بغاوت کے بعد سے اب تک مصر پر فوج ہی قابض تھی جس کی آخری علامت حسنی مبارک نے 30 سالہ تک اس ملک پر حکومت کی اور بظاہر انتخابات بھی کروائے۔ لیکن یہ انتخابات یکطرفہ ہی ہوتے تھے جس میں وہ بھاری اکثریت سے جیت جاتے تھے۔ مخالفین کو انہوں نے کبھی آزادی سے انتخابات میں حصہ لینا تو درکنار‘ آزادی سے زندہ رہنے کا حق بھی نہیں دیا۔ مصر کی مقبول ترین جماعت اخوان المسلمون ہے لیکن اس پر زندگی تنگ کردی گئی۔ اس کے رہنمائوں کو پھانسیاں دی گئیں اور بے شمار افراد کو جیلوں میں ٹھونس دیا گیا۔ آخر کار اللہ نے اپنی رسی کھینچ لی اورمصر بھی بہار انقلاب کی زد میں آگیا۔ تیونس سے اٹھنے والے عوامی طوفان نے مصر کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا‘ تیونس میں عوامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اہل تیونس نے یہ نعرہ لگایا تھا ’’مصریو‘ اب تمہاری باری ہے۔‘‘ اور پھر مصر کے عوام بھی سڑکوں پر نکل آئے۔ ہر چوک کو میدان التحریر یا آزادی چوک بنادیا گیا۔ حسنی مبارک نے آخری وقت تک قدم جمانے کی کوشش کی لیکن عوام کا پیمانہ صبر کب کا لبریز ہوکر چھلک اٹھا تھا۔ فروری 2011 ء میں انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا۔ جب عوام بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئیں تو پھر تبدیلی آکر رہتی ہے۔ مصر کی حکومت کے پیچھے بھی فوج کا ہاتھ تھا لیکن عوام کا سیلاب دیکھ کر وہ بھی کچھ نہیں کرسکی۔ البتہ عوام کو ٹھنڈا کرنے اور اقتداراپنی مٹھی میں رکھنے کے لیے حسنی مبارک کی برطرفی کے بعد ایک فوجی کونسل بنادی گئی جس کے سربراہ فیلڈ مارشل حسین طنطاوی تھے۔ فوجی کونسل کو شاید یہ گمان ہو کہ حسنی مبارک کی برطرفی کے بعد عوام کا غصہ ٹھنڈا ہوجائے گا اور وہ اپنی من مانی کرتی رہے گی۔ پارلیمنٹ کا انتخاب کرایا گیا جس میں اکثریت اخوان المسلمون کے پاس آگئی۔ گزشتہ دنوں پارلیمنٹ کے آدھے ارکان کو فارغ کردیا گیا۔ صدارتی انتخابات ہوئے تو ان میں محمد مُرسی نے اکثریت حاصل کی مگر ان کی کامیابی کے اعلان میں دانستہ تاخیر کی گئی۔ آخر کار ایک بار پھر عوام نے سڑکوں پر دھرنا دیا۔ گزشتہ اتوار کو الیکشن کمیشن کے سربراہ نے محمد مُرسی کی کامیابی کا اعلان کردیا۔ ان کے مقابلہ میں حسنی مبارک کے دور کے وزیراعظم احمد شفیق تھے جو فوج کے لیے پسندیدہ تھے کیونکہ وہ بھی ایک ریٹائرڈ جنرل ہیں۔ ان کی کامیابی فوج ہی کی کامیابی ہوتی۔ مگر ایسا ہو نہیں سکا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ عالم عرب کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک مصر میں ایک دیندار مسلمان ایوان صدر میں داخل ہوا ہے اور اسلام پسندوں نے کامیابی حاصل کی ہے۔ یہ کامیابی اخوان المسلمون کی کامیابی ہے جو کئی عرب ممالک کے عوام میں مضبوط جڑیں رکھتی ہے لیکن لادین حکمرانوں کی سختیوں کی سب سے زیادہ شکاربھی وہی رہی ہے۔ صدارتی انتخاب میں 5کروڑ سے زائد افراد نے ووٹ ڈالے جن میں سے محمد مُرسی نے 51.73 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ 16-17 جون کو ہونے والے انتخابات میں معلوم ہوگیا تھا کہ محمد مُرسی جیت گئے ہیں مگر احمد شفیق اور دیگر صدارتی امیدواروں نے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ بہرحال ان کی یہ کوشش بھی ناکام ہوگئی مگر اب مغربی ذرائع ابلاغ اور لادین عناصر ایک دیندار مسلمان کی کامیابی کو نیا رنگ دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قوم تقسیم ہوگئی ہے۔ قبطی چرچ کے سربراہ نے اسلام پسندوں کی کامیابی کو مصر کے لیے خطرہ قرار دیا۔ احمد شفیق کے حامیوں پر سوگ طاری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ مصر کے لیے ایک افسوسناک دن ہے کہ اس ملک کی نمائندگی محمد مُرسی اور ان کا گروپ کرے گا۔ اسلام کے مخالفین ابھی سے یہ پروپیگنڈا کررہے ہیں کہ اخوان المسلمون شخصی آزادی پر قدغن لگادے گی اور سیاست میں مذہب کا دخل ہوگا۔ حیرت ہے کہ ان لوگوں نے حسنی مبارک کی آمریت کو تو قبول کرلیا جس نے شخصی آزادی کا تصو رہی ختم کردیا تھا اور مذہب کو سیاست ہی نہیں معاشرت سے بھی بے دخل کردیا تھا۔ شخصی آزادی کا یہ عالم تھا کہ مصریوں کو ڈاڑھی رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ جب حسنی مبارک برسراقتدار آیا تو اس نے کالجوں اور جامعات کے باہر فوجی دستے تعینات کردیے تھے جو باریش طلباء اور اساتذہ کی ڈاڑھیاں مونڈ کر ان کو اندر جانے کی اجازت دیتے تھے۔ حسنی مبارک نے اپنے عوام خاص طو رپر اسلام پسندوں کے ساتھ جو کچھ کیا اس پر کسی قبطی چرچ نے آواز اٹھائی نہ نام نہاد سیکولر عناصر نے۔ حسنی مبارک کی آمریت کے خلاف اسلام پسند اور دین دار طبقہ ہی میدان میں آیا جس کا نعرہ اسلامی نظام ہی تھا اور اللہ اکبر کے نعرے لگتے تھے۔ تاہم محمد مُرسی نے کامیابی کے بعد سب کو ساتھ لے کر چلنے کا اعلان کیا ہے اور مصر کو حقیقی جمہوری ملک بنانے کا وعدہ کیا ہے لیکن سیکولر عناصر اور عیسائیوں کا خوف دور کرنے ‘ خود کو جمہوریت کا علمبردار ثابت کرنے کے لیے محمد مُرسی شریعت پر کوئی سمجھوتا کرنے سے باز رہیں۔ یہ عزت ان کو اللہ نے اسلام کا نام لینے پر دی ہے۔اگر انہوں نے اللہ کے بجائے بندوں کو خوش رکھنے کی کوشش کی تو اللہ تعالیٰ ان سے یہ منصب واپس بھی لے سکتا ہے۔ اخوان المسلمون نے کئی عشروں پر مشتمل یہ جدوجہد کسی سیکولر نظام یا مغربی جمہوریت کے لیے نہیں کی ہے۔ بعض عرب رہنما کامیابی کے بعد شریعت نافذ کرنے کے اپنے ارادوں سے ہٹتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جمہوریت اسلام اور شریعت نہیں ہے۔ اگر کوئی اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کی غرض سے اسلامی نظام کے نفاذ سے انحراف کرتا ہے تو شاید وہ حسنی مبارک کی طرح 30 سال گزارلے لیکن اس کا انجام کچھ مختلف نہیں ہوگا۔ بہار عرب کے نتائج دیکھتے ہوئے ان حکمرانوں کو بھی سبق حاصل کرنا چاہیے جو عوام کو تنگ کرنے اور ان کے حقوق غصب کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ وہ شاید اس گمان میں ہیں کہ ان کے خلاف عوام باہر نہیں نکلیں گے اور ان کے ملک میں میدان تحریر نہیں سجے گا۔ یہی گمان تیونس‘ لیبیا اور مصر کے حکمرانوں کو بھی تھا اور شاید یہی شام کے حکمرانوں کو ہے۔ جن ممالک میں عوامی انقلاب کامیاب ہوا ہے وہاں کے حکمرانوں کو امریکا کی سازشوں سے بھی ہوشیار رہنا چاہیے جس کا اختیار اپنے غلاموں کے خلاف عوامی تحریکوں پر چاہے نہ ہو لیکن وہ عوام کی کامیابی کو اپنی کامیابی میں بدلنے کی کوشش ضرور کرسکتا ہے اور کررہا ہے۔

Monday 25 June 2012

محنت کا پھل

محنت کا پھل
مرسلہ :شکور احمد ملک

 ایک امیر تاجر تھا۔ اس کا ایک بیٹا تھا جو نہایت ہی سست اور کاہل تھا۔وہ تاجر چاہتا تھا کہ اس کا بیٹا محنتی اور کام کے قابل بن جائے۔ وہ اس کو محنت کی اہمیت سمجھانا چاہتا تھا۔ اس مقصد کے لیے اس نے ایک دن اپنے بیٹے کو بلایا اور کہا:" آج تم گھر سے باہر نکل کر جاؤ اور کچھ کما کر لاؤ۔ اگر تم نہ کما سکے تو آج رات کا کھانا تمہیں نہیں ملے گا۔"لڑکا اناڑی تھا اور کوئی ہنر وغیرہ بھی نہیں جانتا تھا اور نہ ہی کوئی محنت کا کام پہلے کبھی کیا تھا۔ اس کے باپ کے حکم نے اس کو پریشان کر دیا اور وہ رونے لگا اور اپنی ماں کے پاس چلا گیا۔ماں کا دل پگھل گیا اور اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ بے چین ہوگئی۔ اس کا حوصلہ بڑھانے کے لیے اس نے اس کو اپنے پاس سے ایک سونے کا سکہ دے دیا۔شام کو جب باپ گھر آیا تو بیٹے سے کمائی کا پوچھا ، بیٹے نے جھٹ سے ایک اشرفی سامنے رکھ دی۔ باپ نے کچھ دیر سوچا اور پھر کہا کہ اس سکے کو لے کر کنویں مییں پھینک دو۔ بیٹے نے بلا ججھک پھینک دیا۔ تاجر باپ کی عقل نے اس کو سمجھایا کہ ہو نہ ہو یہ اشرفی اس کو اس کی ماں نے دیا ہے۔ ا س نے اگلے دن اپنی بیوی کو اس کے میکے بھجوا دیا۔ اور اب کہا کہ اب جاؤ اور پھر کچھ کما کر لاؤ ورنہ آج تمہیں کھانا نہیں ملے گا۔اب کی بار لڑکا روتا ہوا اپنی بہن کے پاس گیا جس نے اس کی دل کی حالت کو سمجھتے ہوئے اس کو اپنے بچائے ہوئے میں سے ایک اشرفی دے دی۔ جب باپ گھر آیا تو اس نے بیٹے سے پوچھا لاؤ کیا کما کر لائے ہو۔ تو بیٹے نے وہ اشرفی سامنے کر دی۔ باپ نے اس سکے کو بھی کہا کہ اس کو کنویں میں پھینک دو۔ باپ نے دیکھا کہ بیٹے نے یہ سکہ بھی آرام سے پھینک دیا۔ باپ کی تجربہ کار نگاہوں نے بھانپ لیا کہ یہ سکہ اس لڑکے نے خود نہیں کمایا ہے۔ اس نے اپنی اس بیٹی کو اس کے سسرال بھجوا دیا۔ اور اب اس لڑکے کا کوئی ساتھ دینے والا نہیں تھا۔ باپ نے اگلے دن کے کھانے کے لیے بھی کہا کہ جب کما کر لاؤ گے تو ہی کچھ ملے گا۔ اب لڑکا بے سہارا حالت میں مجبور تھا کہ گھر سے نکل کر واقعی کوئی کام ڈھونڈے۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے بالآخر اس کو ایک دکان دار کے پاس ایک کام ملا۔ دکان دار نے اس کو کہا کہ " دیکھ لڑکے ، میں تمہیں دو روپے دوں گا۔اگر تم یہ صندوق میرے گھر تک اٹھا کر پہنچا دو۔ امیر تاجر کے بیٹے نے ججھک کر دیکھا اور پھر کام میں لگ کیا اور کسی طرح سامان گھر پہنچا کر دو روپیہ حاصل کیا۔مگر اس کے پیر تھک چکے تھے اور گردن اور کندھے بری طرح درد کر رہے تھے۔ پھر اس کے پیٹھ پر بھی سامان اٹھانے کی وجہ سے نشان پڑ گئے تھے۔ یہ ایک ہی کام کر کے جب وہ گھر پہنچا تو وہاں باپ کے سامنے پیشی ہوئی تب باپ نے سب سے پہلے اس سے آج کی کمائی کا پوچھا۔ تو اس نے اپنی مٹھی باپ کے سامنے کھول دی جس میں وہ دو روپے موجود تھے۔ باپ نے دیکھتے ہی کہا کہ یہ کنویں میں پھینک دو۔ تو لڑکا اپنی تکلیف کو یاد کر کے چلا اٹھا کہا: اباجان، میرا پورا جسم دکھ رہاہے۔ میری پیٹھ پر نشان پڑ گئے ہ?ں۔ مزدوری کر کے۔ اتنی محنت کر کے میں نے کمایا ہے اور آپ اپنی آسانی سے اسے کنویں میں پھینکنے کے لیے کہہ رہے ہیں۔ "تب وہ باپ مسکرایا اس نے اس کو بتایا کہ ہر انسان اس وقت بڑی ہی تکلیف محسوس کرتا ہے جب اس کی محنت کی کمائی ضائع ہو جائے۔ گزشتہ دو دن سے تم جو اشرفی مجھے دکھا رہے تھے جو کہ تمہیں تمہاری ماں اور بہن نے دیے تھے۔ اور ان کو کنویں میں پھینکتے ہوئے تمہیں کوئی پریشانی محسوس نہیں ہوئی۔ مگر آج جب اپنی محنت کی کمائی کنویں میں پھینکنے کاو قت آیا تو تم چلا اٹھے۔ تمہاری تکالیف میں اضافہ ہونے لگا۔ کیوں ؟۔تب بیٹے نے محسوس کیا کہ دنیا میں اپنے ہاتھ سے محنت کرنے میں ہی عزت و عظمت ہے۔ یہ احساس ہوتے ہی اس نے اپنی کام چوری اور سستی کو چھوڑدیا اور اپنے باپ سے وعدہ کیا کہ اب وہ آئندہ باپ کی کمائی اور دولت کو سنبھالے گا اور کام چوری نہیں کرے گا۔۔ تب باپ نے اپنے کاروبار کی تمام چابیاں بیٹے کے ہاتھ میں رکھا اور اس کو کہا کہ میں باقی زندگی بھی تمہارا ساتھ اسی طرح دیتا رہوں گا۔
سبق:زندگی کے بعض اسباق انتہائی مشکل حالات سے ہی حاصل ہوتے ہیں۔٭٭٭

آپ بڑھاپے میں کتنے جوان ہیں؟

آپ بڑھاپے میں کتنے جوان ہیں؟


سوالات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔صحیح۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غلط
۱۔ ہر عمر رسیدہ مرد یا عورت جلد یا بدیر سٹھیا جاتا /جاتی ہے۔
۲۔ امریکی گھرانوں نے مجموعی طور اپنے بوڑھے رشتہ داروں کو چھوڑ دیا ہے۔
۳۔ ہندوستان میں اب سبھی بوڑھے لوگ ’’اولڈ ایج ہومز‘‘ میں رہتے ہیں۔
۴۔ کشمیر میں اب نوجوان بوڑھے والدین کی طرف توجہ نہیں دیتے ہیں۔
۵۔ عمر رسیدہ لوگوں کے لئے ڈپریشن ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔
۶۔ بڑھاپے میں ذہنی انتشار ناگزیر ہے۔ اس کا سامنا تو کرنا ہی پڑتا ہے۔
 ۷۔ عمر رسیدہ لوگوں کی تعداد میں روزبہ روز اضافہ ہوتا جارہاہے۔
۸۔ عمر رسیدہ لوگوں کی اکثریت خود کفیل ہے۔
 ۹۔ عمر گذرنے کے ساتھ ساتھ ذہانت اور قابلیت میں نمایاں کمی واقع ہوتی ہے۔
۱۰۔55سے 60برس کے درمیان اور اس کے بعد جنسی خواہش ختم ہوتی ہے۔
۱۱۔ کوئی شخص 50برس کی عمر تک تمباکو نوشی کرتا رہا ہے اب اسے ترک کرنا کیا فائدہ!اب وہ تمباکو نوشی کرتا رہے۔
۱۲۔ عمر رسیدہ لوگوں کو ورزش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
۱۳۔ بڑھاپے میں زیادہ سے زیادہ وٹامن اور معدنیات کی ضرورت پڑتی ہے۔
۱۴۔ صرف بچوں کو چاہئے کہ وہ ہڈیوں اور دانتوں کی طرف خصوصی توجہ دیں، عمر رسیدہ لوگوں کو نہیں۔
۱۵۔حد سے زیادہ گرمی یاسردی بوڑھے لوگوں کے لئے خطرناک ہے۔
۱۶۔ کئی عمر رسیدہ لوگ ایسے حادثات میں زخمی ہوتے ہیں، جن سے بچا جاسکتاہے۔
۱۷۔ مرد، خواتین کی نسبت زیادہ دیر تک زندہ رہتے ہیں۔
۱۸۔ بزرگوں میں دماغ اور دل کی بیماریوں میں کمی آرہی ہے۔
۱۹۔ عمر رسیدہ لوگ نوجوانوں سے زیادہ دوائیاں استعمال کرتے ہیں۔
۲۰۔ عمر کے ساتھ ساتھ شخصیت بھی بدل جاتی ہے جیسے کہ بالوں کا رنگ اور جلد کی ساخت میں تبدیلی آتی ہے۔
۲۱۔ عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ بینائی بھی کم ہوتی جاتی ہے۔
۲۲۔ ہر عمر رسیدہ فرد کو بات بات پر غصہ آتا ہے اور یہ نارمل ہے۔
 ۲۳۔ عمر رسیدہ افراد کو سخت پرہیز کرنا چاہئے، اُنہیں بہت کم کھانا چاہئے، کیونکہ اُن کا نظامِ ہاضمہ کمزور ہوتا ہے۔
۲۴۔ ہر عمر رسیدہ عورت کو ہڈیوں کا ایکسرےکروانا چاہئے اگرچہ وہ تندرست بھی ہو۔
۲۵۔ بڑھاپا ایک لاعلاج بیماری ہے۔
(جوابات)
۱غلط: جو لوگ زیادہ طویل مدت تک زندہ رہتے ہیں اُن میں سے 20فیصد لوگ رعشہ کی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں۔ بعض لوگ کچھ دماغی بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ مگر ’’سٹھیا جانا‘‘ ایک بے معنی اصطلاح ہے، جسے اب ترک کرنے کی ضرورت ہے۔
 ۲غلط:امریکی خاندان اپنے بزرگوں کی نگہداشت کرنے میں اول درجے پر ہیں۔ بیشتر بزرگ اپنے بچوں کے نزدیک ہی رہتے ہیں اور انہیں اکثر دیکھا کرتے ہیں۔ کئی لوگ اپنی بیوئیوں کے ساتھ رہتے ہیں۔
 ۳غلط:ہندوستان میں اب ’’اولڈ ایج ہومز‘‘ کا تصور عام ہورہا ہے لیکن ابھی تک بزرگوں کی اکثریت اپنے بچوں کے ساتھ ہی گزارہ کرتی ہے۔
 ۴غلط:کشمیرمیں اب بوڑھے والدین کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی جاتی ہے لیکن آج بھی اکثریت اُن افراد کی ہے جو اپنے بوڑھے والدین کا خاص خیال رکھتے ہیں۔
 ۵غلط: عمر رسیدہ لوگوں میں ڈپریشن ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ احساس تنہائی، متحرک زندگی سے زیٹائرمنٹ، عزیز واقارب کی موت اور دیگر بحران ڈپریشن کے لئے راہ ہموار کرتی ہیں۔ بعض عمر رسیدہ افراد شدید ڈپریشن میں مبتلا ہونے کے بعد خودکشی کرتے ہیں اور بعض لوگ ڈپریشن میں مبتلا ہوکر اس کے علامات کے ساتھ لڑتے رہتے ہیں۔ خوش قسمتی سے بڑھاپے کا ڈپریشن سو فیصد قابل علاج ہے اس لئے اگر کوئی عمر رسیدہ مرد یا عورت ہر وقت اداس، پریشان یا حالتِ اضطراب میں ہو، بار بار آپے سے باہر ہو تا ہواور بھوک کی کمی یا کمزوری محسوس کرتا ہو تو اسے کسی ماہر معالج کے علاج کی ضرورت ہے تاکہ وہ ادویات کا استعمال کرے اور ڈپریشن سے نجات حاصل کرکے ایک خوشحال زندگی بسر کرسکے۔
 ۶غلط: یہ ضروری نہیں کہ ہر بوڑھا آدمی ذہنی انتشار کا شکار ہو جائے۔ جن عمر رسیدہ افراد کو اپنے عزیز و اقارب کا سہارا میسر ہوتا ہے وہ ذہنی انتشار کے شکار نہیں ہوتے ہیں۔ اگر کوئی عمر رسیدہ فرد ذہنی انتشار کا شکار ہے تو اُسے علاج کی ضرورت ہے تاکہ وہ اس صورت حاصل سے چھٹکارا حاصل کرسکے۔
۷صحیح:
 آج ہر ملک میں اوسط عمر میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس لئے عمر رسیدہ لوگوں کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق امریکہ کی آبادی کا 12فیصد65سال یا اس سے زیادہ کی عمر کا ہے۔ 2030تک پانچ میں سے ایک آدمی 65برس کا ہوگا۔
۸صحیح:
امریکہ میں پانچ فیصد بوڑھے لوگ نرسنگ ہوموں میں رہائش پذیر ہیں اور باقی بنیادی طور پر صحت مند اور خودکفیل ہیں۔ ہندوستان میں عمر رسیدہ بزرگوں کی اکثریت خودکفیل نہیں ہے۔ وہ اپنے بچوں یا رشتہ داروں کے سہارے زندگی گزارتے ہیں۔
 ۹غلط:کسی کی ذہانت اور قابلیت کسی وجہ کے بغیر کم نہیں ہوسکتی ہے۔ اکثر لوگوں کی ذہانت اور قابلیت برقرار رہتی ہے یا بڑھاپے کے ساتھ ساتھ اس میں بہتری آجاتی ہے۔ بڑھاپے کی ذہانت اور قابلیت کو اگر بروئے کار لایا جائے تو سماج پر خوشگوار اثرات پڑ سکتے ہیں۔
 ۱۰غلط:یہ سچ ہے کہ 60برس کی عمر میں مردانہ ہارمون ٹیسٹوسٹیرون کی سطح میںکمی واقع ہوتی ہے لیکن اس کا باضابطہ علاج ہے۔ عمر رسیدگی اور جنسی زندگی کا اب کوئی خاص رابطہ نہیں ہے کیونکہ اب ایسا علاج و معالجہ دستیاب ہے کہ بڑھاپے میں بھی اکثر لوگ ایک فعال اور خوشگوار جنسی زندگی گزارتے ہیں۔ جنسی زندگی کا دورومدار انسان کی جسمانی اور دماغی صحت پر ہے۔ اگر65برس کی عمر میں ایک فرد جسمانی اور ذہنی طور صحت مند ہے تو وہ ایک صحت مند جنسی زندگی گزار سکتا ہے۔
 ۱۱غلط:جہاں جاگو وہیں سویرا۔ زندگی کے کسی بھی موڑ پر سگریٹ اور تمباکو نوشی ترک کرنے سے صحت پر مثبت اثرات پڑتے ہیں۔ سگریٹ نوشی یا تمباکو نوشی ترک کرنے سے پھیپھڑوں کے سرطان اور دل کی بیماریوں میں مبتلا ہونے کے امکانات بہت کم ہوجاتے ہیں۔
 ۱۲غلط:عمر رسیدہ لوگوں کو بھی اسی طرح ورزش کی ضرورت ہے، جس طرح نوجوانوں کو اسکی ضرورت ہے۔ اس عمر میں ورزش کرنے سے وہ خوشحال رہتے ہیں۔ اُن کے دل اور پھیپھڑوں کی بیماریوں میں مبتلا ہونے کے امکانات بہت کم ہوجاتے ہیں۔ وہ ڈپریشن سے آزاد زندگی گذارتے ہیں اور اُن کے ہائی بلڈپریشن میں نمایاں کمی ہوتی ہے۔ ہڈیوں پر مثبت اثرات پڑنے کے علاوہ جوڑوں کے تکالیف میں کمی ہوتی ہے۔ عمر رسیدگی میں ورزش کرنے سے پہلے کسی ماہر معالج سے مشورہ کرنا بہتر ہے۔ بزرگوں کو ورزش کرنے کی طرف راغب کرنا ضروری ہے۔
  ۱۳غلط:بڑھاپے میں بھی وٹامن اور معدینات کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی نوجوانوں میں ہوتی ہے۔ بعض جسمانی ضروریات کے مطابق دھوپ سے حاصل شدہ وٹامن ڈی میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ بزرگوں کو تعین شدہ مقدار کے مطابق وٹامن، نمکیات اور معدنیات دینا ضروری ہے ورنہ وہ ان کی کمی میں مبتلا ہوکر مختلف امراض اور اُن کی پیچیدگیوں میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔
 ۱۴غلط:
ا
س طرح بچوں اور نوجوانوں کو ہڈیوں کی طرف خصوصی توجہ دینی چاہئے بالکل اسی طرح عمر رسیدہ لوگوں کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ دانتوں اور ہڈیوں کا خاص خیال رکھیں۔ دانتوں کے ڈاکٹر سے معائینہ کروا کے اُس کی ہر بات پر عمل کریں اور ہڈیوں کی مضبوطی کے لئے غذا میں کیلشیم فاسفورس اور میگنشیم کی تعین شدہ مقدار شامل کریں۔ بزرگوں کو اپنی غذا میں دودھ، دہی، پنیر، میوہ جات اور تازہ سبزیاں وافر مقدار میں شامل کرنی چاہئیں تاکہ اُنہیں کیلشیم کی برابر مقدار مہیا ہوسکے۔ عورتوں میں سن یاس کے بعد زنانہ ھارمونوں کی کمی سے ہڈیوں پر مضر اثرات پڑتے ہیں اور وہ ہڈیوں کی بیماری اور سٹیوپوروسس میں مبتلا ہوجاتی ہے۔ اس لئے انہیں ہڈیوں کی طرف خاص توجہ دینی چاہئے۔ سن یاس کے بعد ہڈیوں کا حجم اور تراکم جانچنے کے لئے بون ڈیکساٹیسٹ ضروری ہے۔
۱۵صحیح:
بڑھاپے میں جسمانی حرارت کو اعتدال میں رکھنے والا نظام کمزور پڑجاتا ہے اس لئے عمر رسیدہ لوگ حد سے زیادہ گرمی یا سردی برداشت نہیں کرسکتے ہیں۔
 ۱۶صحیح:
اکثر عمر رسیدہ افراد ایسے حادثات کے شکار ہوتے ہیں جن سے بچنا ممکن ہے۔ بوڑھے لوگ گر پڑنے کی وجہ سے زخمی ہوتے ہیں یا کوئی ہڈی ٹوٹ جاتی ہے۔ اچھے حفاظتی انتظامات جن میں ، کمرے میں موزوں روشنی کا انتظام، بغیر پھسلن کے قالین اور آمدورفت کے راستے کو رکاوٹوں سے آزاد رکھا جانا شامل ہے۔ اس طرح حادثات کے وقوع پذیر ہونے میں کمی ہوگی۔
 ۱۷غلط:خواتین مردوں کی نسبت اوسطاً تقریباً8برس دیر تک زندہ رہتی ہیں۔ اس وقت ہر سو مردوں کے مقابلے میں 150خواتین موجود ہیں جن کی عمر65برس ہے۔ اس طرح سے 85برس کی عمر کے زمرے میں بھی 250خواتین کے مقابلے میں سو مرد موجود ہیں۔
۱۸صحیح:
گزشتہ دہائیوں میں عمر رسیدہ بزرگوں کے دل اور دماغ کی بیماریوں میں مبتلا ہونے کے امکانات میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے۔ اس کی وجہ بروقت تشخیص، صحیح تغذیہ، الٹرا، ڈرن ٹیکنالوجی اور صحت سے متعلق جانکاری ہے۔
۱۹صحیح:
عمر رسیدہ بزرگ تمام ادویات کا 25فیصد استعمال کرتے ہیں۔ اسکی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ عمر رسیدہ لوگ بیماری اور اسکی پیچیدگیوں سے ڈر محسوس کررہے ہوں یاپھر زیادہ ادویات کی وجہ منفی ردعمل ہو۔ یا صرف نفسیاتی وجوہات ہوں۔
 ۲۰غلط:عمر کا سورج ڈھلنے کے ساتھ ساتھ شخصیت تبدیل نہیں ہوتی ہے البتہ ظاہری رنگ و روپ بدل جاتا ہے۔ جب تک ایک انسان زندہ ہے وہ بدلتا نہیں۔اگر عمر رسیدگی میں چڑچڑاپن، جھگڑا کرنے کی لت یا عجیب و غریب حرکتیں کرنے کی عادت ظاہر ہو تو یہ شخصیت بدلنے کی وجہ سے نہیں بلکہ نفسیاتی اور دماغی امراض کی وجہ سے ہوسکتا ہے۔ جن کا بروقت اور مناسب علاج ضروری ہے۔ بڑھاپے میں مثبت تبدیلیاں آسکتی ہیں ۔ اگر فرد جسمانی، ذہنی، روحانی اور سماجی طور صحت مند ہو۔
۲۱صحیح:
عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ سماعت اور بصارت میں کمی واقع ہوتی ہے مگر اس سے روز مرہ کی زندگی متاثر نہیںہونی چاہئے کیونکہ آج کل آنکھوں کی بینائی برابر کرنے اور سماعت کو دوبارہ برابر کرنے کے لئے متبادل ذرائع دستیاب ہیں۔ اگر بڑھاپا شروع ہوتے ہی آنکھوں اور کانوں میں کوئی ’’پرابلم‘‘ ہو تو فوری ڈاکٹروں سے مشورہ کرنا چاہئے۔ آنکھوں اور کانوں کی بیماریوں کو بڑھاپے کے لازمی جز ماننا صحیح نہیں۔
 ۲۲غلط:ہر عمر رسیدہ بزرگ چڑچڑاپن کا شکار نہیںہوتا ہے۔ اگر کوئی بزرگ ہر وقت غصے میں رہتا ہو، چیختا چلاتا ہو تو اُسے ضرور کوئی سماجی یا نفسیاتی مسئلہ درپیش ہے، اُسے کسی ماہر نفسیات کے مشاورت کی ضرورت ہے۔
 ۲۳غلط:عمر رسیدہ افراد کو بلاوجہ کھانے پینے کی چیزوں کا ’’پرہیز‘‘ کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ وہ ہر قسم کی غذا کھا سکتے ہیں۔ انہیں بھی نوجوانوں اور بچوں کی طرح کاربوہائیڈریٹ، پروٹین، چربی کے علاوہ تمام قسم کے وٹامن اور نمکیات کی ضرورت ہے۔ اگر وہ کسی خاص قسم کی بیماری میں مبتلا ہوں تو کسی ماہر تغذیہ کی خدمات حاصل کریں۔ عمر رسیدہ برزرگوں کو معقول غذا دینی چاہئے تاکہ وہ صحت مند رہ سکیں۔
۲۴صحیح:
ہر عمر رسیدہ عورت کو سنِ یاس میں قدم رکھنے کے بعد ہڈیوں کا ایکسرے کرونا چاہئے تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ ماہواری دائمی طور بند ہونے سے اُسکی ہڈیوں پر منفی اثرات تو مرتب نہیں ہوئے ہیں۔ عمر رسیدہ عورتوں کی ہڈیوں کی بیماری ایک خاموش قاتل ہے اس لئے اس کا پتہ لگانا بے حد ضروری ہے۔
 ۲۵غلط:بڑھاپا، زندگی کا ایک سنہری دور ہے۔ یہ کوئی مسئلہ، بیماری یا بوجھ نہیں ہے بلکہ انسان کی زندگی کا وہ آخری پڑائو ہے جس میں وہ اپنے تمام تجربات بروئے کار لاکر سماج میں ایک اہم ترین رول ادا کرسکتاہے۔ یہ تمام انسانی معاشروں کا ایک اہم حصہ ہے جو نہ صرف حیاتیاتی تبدیلیوں بلکہ ثقافتی اور معاشرتی روایات کی عکاسی کرتا ہے اسے ایک سنہری موقعہ کے طور پر قبول کرنا چاہئے۔ بڑھاپے میں اپنی صحت کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے تاکہ یہ بوجھ نہ بن جائے۔ ایک مرتب و منظم طرز زندگی (جس میں باقاعدہ عبادات، معتدل غذا، ہلکی پھلکی ورزش مطالعہ شامل ہو) بڑھاپے کی تکلیفوں سے دور رکھنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔یہ انسان کی اپنی ذات پر منحصر ہے کہ وہ اپنی عمر کے اس آخری پڑائو کو کس نظر سے دیکھے اور کس طرح اپنی زندگی کے شب و روز گزارے۔ اگر عمر کے اس خاص اور اہم حصے میں ایک فرد جسمانی، ذہنی، نفسیاتی اور روحانی طور توازن میں ہو تو وہ ایک ’’کامیاب بڑھاپا‘‘ گذار سکتا ہے اور وہ پیری میں بھی جوانی کا لطف اُٹھا سکتا ہے۔
بہ شکرءیہ کشمیر عظمی

Sunday 24 June 2012

عافیہ زندہ ہے اور قوم ؟؟؟

 احوال پاکستان

 

عافیہ زندہ ہے اور قوم ؟؟؟

مظفر اعجاز  
- پورے پاکستان میں بلکہ بیرونِ ملک بھی یہ افواہ گردش کررہی تھی کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے جان جانِ آفریں کے سپرد کردی ہے۔ لیکن شام کو وہی ہوا جو عام طور پر ہوتا ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کے گھر والوں نے بھی اس خبر کی تردید کردی اور سرکاری ذرائع سے بھی تردید ہوگئی۔ دو روز بعد امریکی حکومت اور امریکا میں پاکستانی سفارت خانے نے بھی اس خبر کی تردید کردی… اور یوں سب مطمئن ہوگئے کہ ڈاکٹر عافیہ خیریت سے ہیں۔ اس خیریت کی اطلاع میں امریکی حکومت نے حسب معمول جھوٹ کا استعمال کیا ہے۔ یہ بتایا گیا ہے کہ عافیہ کی 19 جون کو اپنے گھر والوں سے کراچی میں بات چیت ہوئی ہے۔ پاکستانی سفارت خانے نے تو گویا امریکی مؤقف کو ہی آگے بڑھا دیا ہے۔ امریکی جس طرح عافیہ کے بارے میں جھوٹ بولتے ہیں، سفارت خانے کی وضاحت میں بھی وہی زبان استعمال ہوئی ہے۔ سفارت خانے کی وضاحت میں کہا گیا ہے کہ ’’پاکستانی نژاد خاتون سائنسدان‘‘۔ اس جملے سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ عافیہ پاکستانی نژاد امریکی ہیں… اور سائنسدان ہیں۔ ایک اعتبار سے وہ سائنسدان ضرور ہیں، لیکن اس لفظ کے استعمال سے اس الزام کو تقویت ملتی ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ عافیہ نیوکلیئر سائنسدان ہیں۔ وہ ماہرِ تعلیم ہیں لیکن سوشل سائنسز کو نیوکلیئر سائنس بنایا جاتا ہے۔ قونصل خانہ کہتا ہے کہ ہم جیل حکام سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ اگر ہمارا قونصل خانہ مسلسل رابطے میں رہتا تو اسے عافیہ کی صحت کے بارے میں ایک ایک بات پتا ہوتی۔ عافیہ کی صحت اگر ٹھیک ہوتی تو یہ افواہیں بھی نہ پھیلتیں۔ انہیں تو اس افواہ سے پتا چلا ہوگا کہ عافیہ جیل میں ہیں، اور اب تو امریکا میں خاتون سفیر ہیں، شاید وہ یہ جانتی ہوں کہ عورت ہونے کے ناتے جیل میں رہنا، اور غیر ملکی جیل میں رہنا کیا معنی رکھتا ہے! دوسرا بڑا جھوٹ یہ بولا گیا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے ساتھ کراچی میں اُن کے اہلِِ خانہ ٹیلی فون پر بات کرتے رہتے ہیں۔ ہماری اطلاع کے مطابق فروری میں جب ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے جنوبی افریقہ کا دورہ کیا اور نیلسن منڈیلا کے ساتھ جیل کاٹنے والے رہنما احمد کتھراڈا سے ملاقات کی اور انہوں نے امریکی سفارت خانے سے رابطہ کیا تو دبائو میں آکر امریکی حکام نے منٹ بھر کی ٹیلی فون کال کراچی میں کروادی۔ اور اب بھی افواہ کی وجہ سے جیل حکام نے امریکی حکومت کے کہنے پر مختصر گفتگو کروا دی۔ ورنہ ’’ٹیلی فون پر بات کرتے رہتے ہیں‘‘ سے یہ تاثر دیا گیا ہے کہ عافیہ کو جیل مینوئل کے مطابق سہولتیں حاصل ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کو جس ناکردہ گناہ کی سزا دی گئی ہے اس سزا کے مطابق بھی انہیں جیل مینوئل کے تحت سہولیات نہیں دی جارہیں۔ پاکستانی قونصل خانے کے افسر کی ڈاکٹر عافیہ سے ملاقات کے حوالے سے جو بات کہی گئی ہے وہ تو بہت ہی بڑا جھوٹ ہے۔ خود ان کے اپنے بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی قونصلیٹ کے ایک افسر باقاعدگی سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ملاقاتیں کرتے ہیں، لیکن پھر بتایا گیا ہے کہ آخری ملاقات اپریل 2012ء میں ہوئی تھی۔ گویا تین ماہ گزرنے کو ہیں باقاعدہ ملاقاتیں کرتے رہنے والے کی ملاقات کو۔ تین ماہ میں تو عام صحت مند آدمی کا حلیہ بگڑ سکتا ہے۔ عافیہ جیسی خاتون کی صحت تو ہر روز نگرانی کی متقاضی ہے۔ یہ تو سارے جھوٹ وہ ہیں جو عموماً امریکی اور پاکستانی حکام بولتے رہتے ہیں۔ یوسف رضا گیلانی عافیہ کو امریکی قرار دیتے دیتے خود چلے گئے۔ جنرل پرویز عافیہ کو بیچ گئے اور بعد میں کہتے ہیں کہ میں تو جانتا تک نہیں۔ پاکستانی سفارت خانے کا بیان امریکی بیان کی فوٹو کاپی ہے، لہٰذا اس پر تو کوئی یقین کرنے کو تیار نہیں۔ یہاں چند سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ ایک سوال تو حکمرانوں سے ہے جو پاسبان پاکستان کے صدر نے پوچھا ہے کہ کیا تعزیت کے انتظار میں ہیں؟ لیکن ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ شاید پاکستانی قوم بھی تعزیت کے انتظار میں ہے، جنازے کو کاندھا دینے کے لیے پہنچنے کے انتظار میں ہے۔ افواہ پر مشتمل ٹیلی فون پیغام پڑھ کر لوگ تشویش میں مبتلا ہوگئے، فون کر کرکے خیریت معلوم کرتے رہے اور خیریت کی پریس کانفرنس کی اطلاع پاکر سب اپنے اپنے دھندوں میں لگ گئے۔ حکومت سے تو کوئی توقع نہیں۔ حکومت تو اب بھی نئے وزیراعظم اور عدلیہ کی جنگ کے چکر میں ہے۔ نام نہاد اپوزیشن اس جنگ کا حصہ بن کر سب کی توجہ دوسری جانب مبذول کرارہی ہے۔ کاش ملک ریاض نے ٹی وی اینکرز کو عافیہ کا معاملہ اٹھانے کے لیے بھی دو دو کروڑ دے دیے ہوتے تو شاید یہ مسئلہ حل ہوچکا ہوتا۔ لیکن اب تو ملک ریاض کو بھی اپنے لیے وکیل نہیں مل رہا۔