Search This Blog

Tuesday 12 June 2012

معمارانِ قوم اور معلّمینِ انسانیت سے


معمارانِ قوم اور معلّمینِ انسانیت سے


معلمی پیشے کی عظمت رفتہ کو پھر سے بحال کرنے کے لئے اساتذہ کو پھر سے اپنے سوچ میں بدلائو لانے کی ضرورت ہے۔ مالی اعتبار سے کمزور ہی سہی لیکن ماضی قریب تک سماج میں اس کی شان وشوکت اور قدرومنزلت کوکبھی قابل رشک سمجھا جاتا تھا ۔استادکودیکھ کر شاگرد جھک کر سلام کرتے تھے ۔ سماج کے ہرطبقے میں استاد کو اعلیٰ ترین مقام حاصل تھا۔ یہ وہی استاد تھاجو اُس وقت کے پرائمری اسکولوں میں اوّل سے پانچویں تک سینکڑوں بچوں کو صبح دس بجے سے شام چاربجے تک اپنا خونِ جگر دے کر زیورِ تعلیم سے آراستہ کرتا تھا ۔یہ وہی استاد تھا جسے نہ کوئی ماہر تعلیم فن تدریس (Padagogy)سے آراستہ کرتا تھا اور نا ہی اس کے لئے کسی Refresher Course کا کوئی انتظام تھا۔ پھر بھی اُس استاد کا پڑھایا ہوا دسویں پاس آج کے ایم اے پاس سے بہتر کیوں تھا،یہ ایک اہم نکتہ ہے۔ اس بات میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ وہ خدا ترس  معمار قوم پتھروں کو تراش کرنگینے تیار کرتا تھا اور وہی نگینے اس سماجی عمارت کو دلکش ، خوبصورت اور رنگین بنادیتے تھے ۔ یہ حقیقی معمارقوم ان معصوموں کو پڑھانے کے ساتھ ساتھ ان کی اخلاقی تربیت بھی کرتا تھا تاکہ حصول علم کے ساتھ ساتھ یہ انسانی سماج میں زندگی بسر کرنے کا گُر بھی سیکھ جائیں ۔ آج کے استاد کے لئے تربیت کامعقول انتظام ہے ، سال بھرماہرین کے ذریعہ ان کو Refresher Course کے ذریعے جدید تدریس(Modern Padagogy) سے آراستہ کیا جاتاہے ۔ آج کے اسکولوں میں انفراسٹرکچر کا قدرے بہترین اہتمام موجود ہے ، مرکزی سکیموں کے تحت اساتذہ اور بچوں کو معاونت کا خاصہ انتظام جبکہ قبل اس کے اسکول صرف کرایہ کے مکانوں میں ایک کمرے میں ایک استاد چلایا کرتا تھا۔ آج مرکزی معاونت والی مختلف اسکیموں کے تحت بچوں کو کتابیں ، وردی اور کھانا مفت مہیا ہے ۔ آج کے استاد کے لئے سیر وتفریح اور بچوں کے لئے سیروتفریح کا مربوط نظام ہے ۔ آ ج کے استاد کوترقی کے بہتر مواقع فراہم ہیں ۔آ ج کا استاد اچھی خاصی تنخواہ لیتاہے  پھر بھی ہمارا نظام تعلیم اکیسویں صدی میں بھی روبہ زوال کیوں ؟آپ میرے ساتھ اتفاق کریں   نہ کریں لیکن وجہ صاف ہی نہیں بلکہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہے  کہ  آج کے استادوں کے ایک گروہ نے اپنے فرض منصبی کو چھوڑ کر نظام تعلیم کو مکمل طور سیاست اور تجارت زدہ بنادیاہے ۔ یہ لوگ سرکاری اسکولوں میں زیر تعلیم مسکین اور معصوم ادھ کھلے پھولوں کے مستقبل پر اپنی مفاد ات کی عمارت تعمیر کرنے میں پیش پیش ہیں ۔انہوں نے اپنے مفاد کے خاطر معزز خودمعمار قوم کو ہر فتنے اور فساد کی علامت بنادیاہے ۔ وہی معمار قوم جسے محفلوں میں کبھی اعلیٰ مقام حاصل تھا، آج سڑکوں پر ہڑتالوں اور نعرہ بازی میں سب سے آگے نکل گیا ہے ۔اس کوششوں سے ذاتی اور سیاسی اغراض کے لئے استعمال کیا جاتاہے ۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ معمار قوم کو ایک ’’موالی‘‘ کے مقام پر لاکھڑا کیاگیاہے ۔ جب اس پر پولیس والے رنگ دار پانی چھڑکتے ہیں تو راہ گیر اور دوکاندار معمارِ قوم پر طنزاً ہنستے ہیں ۔اس طرح اِن لوگوں نے معمارِ قوم کو مقامِ عظمت سے گھسیٹ کر نیچے لا دیاہے ۔ کبھی معمار قوم کو دیکھ کر لوگ ادب سے جھک جاتے تھے لیکن آج حالات اس کے برعکس ہیں ۔اس ساری پریشانی کے لئے معمار قوم کی کج فہمی اور چند لوگوں کی خودغرضی ذمہ دار ہے ۔ اگر آ ج کا ٹیچر اور لیکچرر اپنے پیشے کے تقدس کو سمجھتے ہوئے اور اپنے فرض منصبی کو سمجھ کراپنے پیشے سے انصاف کرے تو یقیناًوہ اپنی عظمت رفتہ کو پھر سے بحال کرسکتاہے ۔ معمارانِ قوم کو چاہئے کہ وہ اپنے ذاتی مفاد اور اغراض سے اوپر اٹھ کر قوم اور نسل انسانی کے مستقبل کی تعمیر نو کو اپنا منشور بنائیں تو میرا یقین ہے کہ قوم استاد کو اسی مقام پر سرفراز کرے گی جس کا وہ حقیقی طور مستحق ہے ۔
اظہار کشمیری ……سرینگر

No comments:

Post a Comment