Search This Blog

Sunday 29 April 2012

جدوجہد


جدوجہد

شاہ نواز فاروقی 
-روایات میں آیا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالنے کے لیے آتشِ نمرود دہکائی جارہی تھی تو فرشتوں نے دیکھا کہ ایک چڑیا چونچ میں پانی بھرکر لاتی ہے اور آگ کے پاس جہاں تک جاسکتی ہے، جاتی ہے اور پانی انڈیل کر مزید پانی لانے کے لیے لوٹ جاتی ہے۔ فرشتوں نے چڑیا سے کہا: ’’تُو کیا سمجھتی ہے تیرے چونچ بھر پانی سے آتشِ نمرود بجھ جائے گی؟‘‘ چڑیا نے کہا: ’’مجھے معلوم ہے کہ میرے چونچ بھر پانی سے آتشِ نمرود نہیں بجھے گی لیکن میں چاہتی ہوں کہ جب آگ بھڑکانے اور آگ بجھانے والوں کی فہرستیں بنیں تو میرا نام صرف آگ بجھانے والوں کی فہرست میں ہو۔‘‘ اس روایت کی سند کے بارے میں وثوق سے کچھ کہنا دشوار ہے، لیکن اس کے بارے میں سو فی صد یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ جدوجہد کی نوعیت کو واضح کرنے کے لیے یہ ایک بہترین مثال ہے۔ اس مثال سے ثابت ہے کہ جدوجہد صحیح نیت اور کامل اخلاص کے ساتھ تواتر سے کی جانے والی ایسی کوشش کو کہتے ہیں جو صرف اللہ کی خوشنودی کے لیے نتیجے کی پروا کیے بغیر کی جائے۔ انسانی تاریخ میں جدوجہد کی اعلیٰ ترین مثالیں انبیا و مرسلین نے پیش کی ہیں۔ مثال کے طور پر حضرت نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو سال تبلیغ کی۔ لیکن بعض لوگ کم علمی اور کم فہمی کی بنیاد پر سمجھتے ہیں کہ حضرت نوح علیہ السلام کی جدوجہد بے نتیجہ رہی کیونکہ ان کی ساڑھے نو سو سال کی جدوجہد کے باوجود چند ہی لوگ ایمان لائے۔ لیکن یہ خیال درست نہیں۔ حضرت نوح علیہ السلام کی جدوجہد پوری طرح کامیاب رہی، کیونکہ آپؑ کی جدوجہد نے واضح اور ثابت کیا کہ قومِ نوح ایک قوم کی حیثیت سے روئے زمین پر زندہ رہنے کے لائق نہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ حضرت نوح علیہ السلام کی جدوجہد نے قومِ نوح کے تمام امکانات کو کھنگال ڈالا۔ حضرت نوح علیہ السلام کی جدوجہد نہ ہوتی تو قوم نوح کے امکانات کیسے واضح ہوتے اور عذاب کے لیے حجت کیسے تمام ہوتی؟ یہ صرف قومِ نوح علیہ السلام کا معاملہ نہیں۔ قومِ عاد اور قومِ ثمود کا بھی یہی معاملہ ہے۔ قومِ لوط علیہ السلام کا بھی یہی قصہ ہے۔ ان قوموں کے لیے آنے والے انبیا کی جدوجہد نے واضح کیا کہ ان قوموں کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کی فطرتیں مسخ ہوچکی ہیں چنانچہ ان کے ایمان لانے کا کوئی امکان نہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جدوجہد تمام انبیا میں شدید ترین ہے۔ لیکن فرشتے عذاب کے لیے سوال کرتے ہیں تو آپؐ کبھی فرماتے ہیں کہ ان لوگوں کو علم نہیں کہ یہ کیا کررہے ہیں، کبھی آپؐ فرماتے ہیں کہ ان کی آئندہ نسلیں ضرور ایمان لائیں گی۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ آپؐ کی قوم فطرت کی کجی میں مبتلا نہیں تھی۔ اس کی گمراہی ماحول کے جبر کا نتیجہ تھی۔ ماحول کا جبر ٹوٹا تو اس کی فطرت ِسلیم سامنے آگئی اور ایک گمراہ قوم نے صحابہ کرامؓ کی وہ عظیم الشان جماعت تیار کی جس کی مثال پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ لیکن یہ کام آپؐ کی بے مثال جدوجہد ہی سے ممکن ہوا۔ جدوجہد کا نتیجہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں نہیں تھا تو کسی اور کے ہاتھ میں کیا ہوگا؟ مطلب یہ کہ نتیجہ اللہ تعالیٰ ہی پیدا فرماتے ہیں، مگر وہ نتیجہ پیدا کرنے کے لیے جدوجہد کو دیکھتے ہیں، اس کی پشت پر موجود نیت کو ملاحظہ کرتے ہیں، اس جدوجہد میں کارفرما اخلاص کا جائزہ لیتے ہیں، جدوجہد کے لیے کی جانے والی انتھک محنت کو دیکھتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جدوجہد ان تمام حوالوں سے مثالوں کی مثال ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی جدوجہد کو قیامت تک وسعت عطا کردی اور اللہ تعالیٰ کی عنایت و برکت سے آپؐ کی جدوجہد قیامت تک مؤثر رہے گی، اس کا حسن و جمال کبھی زائل نہ ہوگا۔ انسانی تاریخ میں جدوجہد کی مثالوں کی کمی نہیں۔ ہندوئوں کی تاریخ میں ’’مہا بھارت‘‘ خیر و شر کی معرکہ آرائی کی علامت ہے۔ اس معرکہ آرائی میں ایک جانب پانڈو تھے جو خیر کی علامت تھے اور دوسری طرف کورو تھے جو شر کی علامت تھے۔ کورو کی طاقت زیادہ تھی اور پانڈو کی طاقت کم تھی۔ لیکن اس سے بھی بڑا مسئلہ یہ تھا کہ یہ ایک ہی خاندان کی جنگ تھی۔ کورو اور پانڈو ایک باپ مگر مختلف مائوں کی اولاد تھے اور کورو کے ساتھ خاندان کے دوسرے لوگ بھی تھے۔ چنانچہ پانڈو کے سپہ سالار ارجن نے میدانِ جنگ میں دونوں فوجوں کی صفوں کا معائنہ کیا تو دیکھا کہ دونوں طرف ایک ہی خاندان کے لوگ کھڑے ہیں۔ چنانچہ اس نے ہتھیار رکھ دیے اور کہاکہ میں ’’اقتدار‘‘ کے لیے اپنوں کا خون نہیں بہا سکتا۔ اس موقع پر کرشن نے ایک طویل تقریر کی اور ارجن سے کہا کہ یہ اقتدار کی جنگ نہیں ہے، یہ خیر و شر کا معرکہ ہے، چنانچہ شر کے خلاف حق کی جدوجہد ناگزیر ہے، یہی ہمارا ’’دھرم‘‘ ہے۔ اس نے ارجن کو سمجھایا کہ حق کے سامنے رشتوں ناتوں کی کوئی اہمیت نہیں۔ اس نے ارجن کو بتایا کہ روح باقی رہنے والی ہے اور جسم فنا ہوجانے والا ہے، اور تمہاری عزیزوں کی محبت دراصل جسم یا ظاہر کی محبت ہے جو ٹھیک نہیں۔ کرشن کی یہ تقریر ہندوئوں کی تاریخ میں گیتا کہلاتی ہے۔ اس تقریر نے ارجن کی بے عملی کو دور کرکے اسے جدوجہد پر آمادہ کردیا اور ہندوئوں کی تاریخ کا سب سے بڑا معرکہ برپا ہوا۔ انگلینڈ کی تاریخ میں ’’کنگ بروس‘‘ جدوجہد کی ایک عمدہ مثال ہے۔ بروس کو پے درپے معرکہ آرائیوں میں بدترین شکست ہوئی اور وہ سلطنت ہی نہیں حوصلہ بھی ہار بیٹھا۔ وہ جان بچانے کے لیے جنگلوں میں نکل گیا اور اس نے ایک غار میں پناہ لی۔ اس کا سب کچھ لٹ چکا تھا۔ اس کی تنہائی اور مایوسی بیکراں تھی، اور اس سے نکلنے کی کوئی صورت اسے نظر نہ آتی تھی۔ ایک دن اچانک بروس نے دیکھا کہ ایک چیونٹی منہ میں غذا کا ریزہ اٹھائے دیوار پر چڑھ رہی ہے مگر وہ زیادہ دور نہ جاسکی اور نیچے گرگئی۔ لیکن اس نے ہمت نہ ہاری، اس نے اپنی غذا پھر تلاش کی اور پھر آمادۂ سفر ہوئی۔ لیکن اِس بار بھی قسمت نے یاوری نہ کی۔ ایسا کئی بار ہوا لیکن چیونٹی جدوجہد کرتی رہی اور بالآخر وہ اپنی جدوجہد میں کامیاب ہوئی۔ اس مشاہدے نے بروس کی قلب ِماہیت کردی۔ اس نے سوچا: ایک چیونٹی اتنی جدوجہد کرسکتی ہے لیکن میں انسان ہوکر یہاں منہ چھپائے بیٹھا ہوں۔ اسے خود پر شرم آئی اور اس نے عزم کرلیا کہ خواہ کچھ بھی ہو، میں جدوجہد جاری رکھوں گا۔ اس عزم کے ساتھ بروس غار سے نکلا۔ اس نے اپنی شکستہ فوج کو جمع کیا، اسے حوصلہ دیا اور بالآخر اپنے دشمنوں کے سامنے جاکھڑا ہوا اور انہیں شکست دے کر اپنی سلطنت واپس لے لی۔ زندگی کے عمومی دائرے میں کسان جدوجہد کی سب سے جامع اور بڑی مثال ہے۔ روایتی کسان زمین کو فصل کے لیے تیار کرتا ہے، اس میں بیج بوتا ہے، بیج کے نمو پانے کا انتظار کرتا ہے، بیج پودا بن جاتا ہے تو وہ اسے سینچتا ہے، کھاد فراہم کرتا ہے، کھیت کو غیر ضروری پودوں سے پاک کرتا ہے تاکہ وہ حقیقی پودوں کی غذا اور پانی پر ہاتھ صاف نہ کرسکیں۔ فصل تیاری کے مراحل میں ہوتی ہے تو کسان کی زندگی ان معنوں میں مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہوتی ہے کہ ذرا سی تیز بارش اس کی فصل تباہ کرسکتی ہے۔ ذرا سی تیز سردی اس کی فصل کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا سکتی ہے۔ چنانچہ بارش تیز ہونے لگتی ہے تو کسان کانپ کر رہ جاتا ہے، سردی کی شدت بڑھتی ہے تو کسان لرز کر رہ جاتا ہے۔ کام کرنے والے تمام لوگوں کی زندگی میں تعطیل کا دن ہوتا ہے، مگر روایتی کسان کی زندگی میں کوئی دن آرام کا دن نہیں ہوتا۔ اسے کچھ اور نہیں تو اپنے پالتو حیوانات کے کھانے پینے کا انتظام کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح کسان کے لیے جدوجہد طرزِ حیات بن جاتی ہے۔ اسلام میں جدوجہد کی اہمیت یہ ہے کہ وہ معاشی جدوجہد کو بھی عبادت قرار دیتا ہے۔ اسلام میں جدوجہد کا بلند ترین مقام جہادِ اصغر اور جہادِ اکبر ہے۔ جہادِ اصغر خارج کا تزکیہ اور جہادِ اکبر باطن کا تزکیہ ہے۔ جہاد کی ان دونوں صورتوں کے بغیر نہ انسان انسان بنتا ہے، نہ زندگی زندگی کہلانے کی مستحق قرار پاتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جدوجہد کی معنویت کیا ہے؟ انسانی زندگی تقدیر اور تدبیر کی رہین منت ہے، لیکن تقدیر کو جاننا دنیا کا مشکل ترین کام ہے، البتہ انسان کی جدوجہد تقدیر کو آشکار کردیتی ہے۔ جدوجہد سے معلوم ہوجاتا ہے کہ کیا ممکن ہے اور کیا ناممکن ہے؟ جدوجہد کا ایک حاصل یہ ہے کہ جدوجہد سے جب تقدیر آشکار ہوجاتی ہے تو اسے قبول کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ جدوجہد کے بغیر انسان کے لیے تقدیر کو قبول کرنا مشکل ہوتا ہے۔ مثلاً اگر بیمار کے علاج کے لیے ہر ممکن کوشش کرلی جائے اور اس کے بعد بھی مریض صحت یاب نہ ہو بلکہ اس کا انتقال ہوجائے تو اس کی رحلت کو قبول کرنا سہل ہوجاتا ہے۔ جدوجہد انسان کے امکانات کو سامنے لانے کی واحد صورت ہے۔ جدوجہد نہ صرف یہ کہ انسان کے امکانات کو سامنے لاتی ہے بلکہ انہیں مستحکم بنیادوں پر استوار بھی کرتی ہے۔ دنیا کا ہر فن مشق کا طالب ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا شاعر بھی اگر دوچار سال جان بوجھ کر شاعری نہ کرے تو اس کے لیے شاعری دشوار ہوجائے گی۔ دنیا کا سب سے بڑا بلے باز اگر تین ماہ تک کرکٹ نہ کھیلے تو وہ اوسط درجے کے بولر کا مقابلہ کرتے ہوئے بھی دشواری محسوس کرے گا۔ جدوجہد انسانی کردار کی تشکیل کا واحد ذریعہ ہے۔ صرف جدوجہد کے ذریعے ہی شخصیت اور کردار کا فرق عیاں ہوتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ شخصیت اور کردار میں کیا فرق ہے؟ انسان کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ ہم اپنے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟ اور دوسرا یہ کہ ہم اصل میں کیسے ہیں؟ ہم اپنے بارے میں جو رائے رکھتے ہیں وہ شخصیت ہے، اور ہم اصل میں جیسے ہیں وہ ہمارا کردار ہے۔ مثلاً ایک فوجی سمجھتا ہے کہ وہ بہت بہادر ہے، لیکن جب وہ جنگ میں شریک ہوتا ہے تو اس پر انکشاف ہوتا ہے کہ وہ کافی بزدل ہے۔ جدوجہد کا کمال یہ ہے کہ وہ شخصیت کے غلبے کو ختم کرکے ہمارے کردار کو سامنے لاتی ہے۔ اس طرح جدوجہد ہماری اپنی ذات کی آگہی کا ایک بہت بڑا وسیلہ ہے۔

دل کے رشتے

دل کے رشتے

افشاں مراد
رشتوں کے تانے بانے بُنتے‘ ان کی الجھی ڈوروں کو سلجھاتے‘ مانو جیسے صدیاں بیت گئی ہیں۔ پر یہ ایسے الجھے ہوئے ہوتے ہیں کہ چاہ کر بھی ان کا کوئی سرا ہاتھ نہیں آپاتا۔ زندگی ایسے گزرتی جارہی ہے جیسے ریت ہاتھوں سے پھسلتی جارہی ہو۔ پر ان رشتوں ناتوں کو سمجھنا غالباً سب سے اوکھا کام ہے۔ آپ بھی یہ بات مانیں گے کہ رشتہ چاہے قریبی ہو یا دور کا، اس کو سمجھنے اور نبھانے کے لیے اُلّو کا دماغ اور شیر کا سا جگر چاہیے، کیونکہ ہم سب ہر رشتے سے اتنی توقعات وابستہ کرلیتے ہیں کہ پھر جب وہ توقع پوری نہیں ہوتی اور بھرم ٹوٹتا ہے تو بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ ہم خود بھی نہ جانے کتنے لوگوں کی توقعات کا مرکز ہیں‘ لیکن اس میں سے شاید پچاس فیصد ہی ہم ان کو نبھا پاتے ہوں گے۔ آپ کے عزیز رشتہ دار‘ دوست احباب‘ سسرال‘ میکہ‘ ددھیال‘ ننھیال ہر ایک سے آپ کا تعلق علیحدہ علیحدہ خانوں میں بٹا ہوا ہوتا ہے۔ کچھ خانے آپ کے دل میں بنے ہوئے ہوتے ہیں‘ کچھ دماغ میں، اور کچھ کو آپ صرف دنیاداری کے لیے نبھا جاتے ہیں۔ لیکن بعض اوقات حالات و واقعات آپ کے ان خانوں کو بالکل الٹ پلٹ کردیتے ہیں اور جو لوگ آپ کے دل سے بہت قریب ہوتے ہیں‘ وہ آپ سے بہت دور، اور جو آپ سے بہت دور ہوتے ہیں وہ آپ کے دل کے نزدیک آجاتے ہیں۔ یہی دنیا ہے اور یہی رشتوں کی سچائی۔ بعض دفعہ آپ اپنے قریبی رشتوں مثلاً شوہر‘ بیوی‘ بچوں یا بہن بھائیوں سے اتنی توقعات وابستہ کرلیتے ہیں کہ شاید آپ ان کے بغیر سانس بھی نہیں لے سکتے۔ لیکن خصوصی حالات کے تحت آپ کو پتا چلتا ہے کہ ’’جن پہ تکیہ تھا وہی پتّے ہوا دینے لگے‘‘ جن پر آپ بہت بھروسا کرتے ہوں وہی آپ کا ساتھ چھوڑ جائیں، تو یہ انسانی فطرت ہے کہ ہم اندر سے بالکل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں، رشتوں پر سے ہمارا بھروسا‘ اعتبار ختم ہوجاتا ہے، ہم اللہ سے گلے شکوے کرنے لگتے ہیں۔ ایسے میں اچانک ہی وہ لوگ جن سے بظاہر آپ کی صرف سلام دعا ہوتی ہے یا صرف جان پہچان ہوتی ہے وہ آگے بڑھتے ہیں اور آپ کا ہاتھ تھام کر آپ کو سہارا دیتے ہیں‘ آپ کا یقین واپس لوٹاتے ہیں‘ آپ کو زندگی کی طرف واپس لاتے ہیں تو اچانک ہی یہ لوگ ہماری زندگیوں میں کتنے اہم‘ کتنے معتبر ہوجاتے ہیں۔ اللہ ہی انہیں ہمارا رفیق بناتا ہے۔ ہمارے دل میں، ہماری زندگیوں میں انہیں شامل کرتا ہے۔ اور جو بظاہر ہمارے قریب ہوتے ہیں‘ وہ ہم سے اتنی دور چلے جاتے ہیں کہ ہم ان کی شکل دیکھنا بھی نہیں چاہتے، لیکن ہمیں ان کو دیکھنا بھی پڑتا ہے اور برداشت بھی کرنا پڑتا ہے، کیونکہ یہ ہمارے رشتے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اپنے رشتوں کو آج تک برت کر ہم تو یہ سیکھ سکے ہیں کہ آپ کسی سے کوئی توقع وابستہ نہ کریں، سب کچھ اللہ پر چھوڑ دیں۔ رشتہ چاہے قریب کا ہو یا دور کا‘ کسی بھی وقت آپ کو کوئی غیر متوقع جھٹکا دے سکتا ہے۔ اپنی محبتوں کو اللہ کی محبت میں رشتے داروں اور قرابت داروں پر نچھاور کریں اور بدلے میں کچھ نہ چاہیں، البتہ رشتوں میں اعتدال رکھنا ضرور سیکھنا چاہیے، جو کہ غالباً تجربے سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ جس رشتے کی جو جگہ ہے اس کو وہیں رکھیں‘ کسی کو گنجائش سے زیادہ جگہ دے دی جائے تو وہ اس کا غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی لیے ہر رشتے کی اپنے ذہن میں ایک حد ضرور مقرر کرنی چاہیے، اس سے ہم کو بھی آسانی ہوجاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ دل میں رہنے والے دل سے نہیں نکلتے، موسم ہزار بدل جائیں مگر رشتے نہیں بدلتے۔ یہ بات آپ اپنے والدین یا بہت قریبی دوستوں کے بارے میں تو کہہ سکتے ہیں، باقی کسی رشتے کے بارے میں یہ یقین نہیں کیا جاسکتا کہ وہ زمانے اور حالات کے حساب سے تبدیل نہیں ہوگا۔ دوستوں کا ساتھ جتنا پرانا ہوتا جاتا ہے اُن سے رشتہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ والدین تو وہ متاعِ حیات ہیں جس کا کوئی نعم البدل ہو ہی نہیں سکتا۔ باقی ہر رشتے میں اتار چڑھائو اور بدلائو آتے رہتے ہیں، لیکن اہم یہ ہوتا ہے کہ آپ وقت کے ساتھ کیا سیکھتے ہیں اور اپنی آئندہ زندگی میں اس کو کیسے کارآمد بناتے ہیں۔ کیا یہ بدلائو‘ اتار چڑھائو ہماری زندگی میں مؤثر تبدیلی لایا یا ہماری زندگی کو تباہ و برباد کرگیا… دونوں صورتوں میں ہم کچھ سیکھیں نہ سیکھیں ایک ناقابلِ فراموش سبق ضرور سیکھ جاتے ہیں، اور اگر ہم اس سبق سے اپنی آئندہ زندگی کو سدھار لیں تو یہ ہماری کامیابی ہے۔ رشتہ چاہے جو بھی ہو، اس کو اس کی جگہ پر رکھ کر ہم زیادہ بہتر زندگی جی سکتے ہیں۔ اسی لیے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ’’یہ دل میں رہنے والے جب دل سے نکلتے ہیں تو پھر کبھی اپنی جگہ دوبارہ نہیں بناسکتے۔‘‘ چاہے کتنے ہی موسم بیتیں‘ رتیں بدلیں‘ دل میں چبھی پھانس نہیں نکلتی۔ پھر زندگی کے کسی موڑ پر چاہے ایک دوسرے کو معاف کردیا جائے لیکن وہ عزت‘ وہ مقام اور وہ رتبہ کبھی نہیں بحال ہوسکتا جو ایک بار چلا جائے۔ اس لیے ہر رشتے کو اس کے مقام پر رکھ کر ہی نبھانا سب سے بہتر حکمت عملی ہے۔

مغرب سے مکالمہ


مغرب سے مکالمہ

2
-نیاز سواتی
اسلام اور مغرب کے مابین تہذیبی اختلافات نے تصادم کی شکل اختیار کرلی ہے۔ اس جنگ میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال نے انسانی جانوں کے اتلاف کو تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچادیا ہے۔ جنگ میں زندہ بچ جانے والے افراد پر پڑنے والے مضر نفسیاتی اثرات اور ہجرت کی صعوبتیں اس پر مستزاد ہیں۔ اس صورت حال نے جنگ کے دونوں فریقوں یعنی اسلام اور مغربی معاشروں کے سنجیدہ اذہان کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ اس تصادم سے مسلم امہ زخم زخم ہے تو مغربی معاشرے بھی محفوظ نہیں رہے۔ عراق اور افغانستان سے واپس جانے والے فوجیوں کے تابوت، زخمی فوجی اور پھر بڑھتے ہوئے جنگی اخراجات نے مغربی معاشروں کو بددل کرکے رکھ دیا ہے۔ مغربی معاشروں میں پائی جانے والی آزادانہ فضا اب ماضی کا قصہ بن چکی ہے۔ مشہور امریکی مصنف اور صحافی امریکا کو پولیس اسٹیٹ قرار دے رہے ہیں۔ ان جنگوں کی طوالت اور جنگی اخراجات کے نتیجے میں مغربی عوام کی سہولتوں میں کمی نے ان جنگوں سے بیزاری کو جنم دیا ہے۔ دوسری طرف مسلم معاشرے چونکہ ان جنگوں کے اصل متاثرین میں سے ہیں، لہٰذا یہاں مکالمے کی اہمیت پر زیادہ زور دیا جارہا ہے۔ اسلام اور مغرب کے مابین مکالمے کی شدید ضرورت اور بظاہر ہموار فضا کے باوجود اس مکالمے کی عدم موجودگی حیران کن محسوس ہوتی ہے، مگر معاملے کا بغور جائزہ لیا جائے تو صورت حال سمجھ میں آنے لگتی ہے اور اس مکالمے کی رکاوٹوں کا ادراک ممکن ہوجاتا ہے۔ اس مکالمے کے ضمن میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ مکالمہ وہاں ممکن ہوتا ہے جہاں دونوں فریقوں کے مابین بنیادی امور مشترکہ ہوں اور اختلافات کی بنیادیں گہری نہ ہوں۔ اسلام اور مغرب کے درمیان بنیادی تصورات یعنی تصورِ انسان، تصور کائنات اور تہذیبی اقدار میں اس قدر اختلاف ہے کہ یہ دونوں شجر اپنی جڑوں سے شاخوں تک ایک دوسرے کی مکمل ضد ہیں۔ اس لیے یہاں دو طرفہ بات چیت (Dialogue) ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے، البتہ یک طرفہ گفتگو (Monologue) یعنی دعوت کی کامیابی کا امکان ضرور موجود ہے کہ یا تو مسلمان مغربی تہذیب اور اقدار کو اپنالیں یا پھر مغربی معاشرے دعوت کے نتیجے میں اسلام قبول کرلیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب جدید مسلم دانش وروں نے مغرب کی بنیادی آدرشوں کو نہ صرف یہ کہ اپنا لیا ہے بلکہ ’’آئیڈیالائزڈ‘‘ بھی کرلیا ہے تو مغرب اسلام سے کیوں مذاکرات کرے! جب کہ عالم اسلام نے مادر پدر آزادی (Freedom)، انسانی حقوق (Human Rights)، جمہوریت (Democracy)، سرمایہ داری (Capitalism)، ترقی (Development) اور مساوات (Equality) کے مغربی تصورات کو قبول کرلیا ہے تو مغرب اسلام سے مکالمہ کرنے کے بجائے اپنی تہذیبی اقدار کو مسلم معاشروں پر بزور بازو کیوں نہ نافذ کرے! اور مغرب اس وقت یہی کررہا ہے۔ افغانستان جیسے ممالک میں یہ کام جنگ کے ذریعے ہورہا ہے تو پاکستان اور سعودی عرب جیسے ممالک میں دوستی کے پردے میں… اور پردہ بھی وہ جس کے متعلق شاعر نے کہا: خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں مغرب ایسے گروہ سے مکالمے کا قائل ہے جو مغرب کی عسکری طاقت کو اپنے نظریے، طرزِ زندگی اور ایمانی جذبے کے ذریعے چیلنج کردے اور مغرب اپنی ٹیکنالوجیکل برتری کے باوجود اس گروہ کے مقابلے میں شکست سے دوچار ہوجائے۔ حالیہ تاریخ میں یہ صورت حال افغانستان میں موجود ہے۔ افغان قوم نے مغرب کی تین مختلف سپر پاورز یعنی برطانیہ، روس اور امریکا کو جنگ کے میدان میں شکست دے کر یا تو مکالمے پر مجبور کردیا، یا پھر علی الاعلان شکست تسلیم کرنے کی راہ دکھا دی۔ معرکۂ خیر و شر کی تاریخ ازل تا امروز یہی ثابت کرتی ہے کہ جب بھی طاقت کسی ایسے شخص یا نظام کے ہاتھ میں مرتکز ہوجائے جو وحی الٰہی کا پابند نہ ہو تو زمین پر فساد برپا ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں طاقتور فریق دلیل، مکالمے اور معقولیت کے بجانے نہ صرف اپنی طاقت پر بھروسا کرتا ہے بلکہ اپنا مؤقف غلط ثابت ہوجانے کے باوجود ہر دلیل کا جواب طاقت سے دینے کی کوشش کرتا ہے۔ یہاں تفصیل کا موقع نہیں، لہٰذا تاریخ سے چند مثالیں پیش کرنے پر اکتفا کروں گا۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو دلیل کے میدان میں شکست دے دی تو فرعون نے معقولیت اور استدلال کے بجائے طاقت استعمال کی، مگر بالآخر اپنے بدانجام کو پہنچ کر وہ رہتی دنیا کے لیے عبرت کا سامان بن گیا۔ ابراہیم علیہ السلام نے دلیل اور مکالمے کے ذریعے نمرود کو غلط ثابت کردیا تو اس نے اپنی طاقت استعمال کرتے ہوئے ابراہیم علیہ السلام کو آگ کے الائو میں پھینک دیا، مگر نصرت ِالٰہی نے انہیں وہاں سے بھی بحفاظت باہر نکال کر ایک بار پھر انؑ کی اخلاقی برتری ثابت کردی، تب بھی نمرود نے دلیل ماننے کے بجائے طاقت کے استعمال کو ہی بہتر جانا۔ یورپ کی تاریخ کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ قرونِ وسطیٰ تک یورپ بڑی حد تک عیسائیت کی تعلیمات کے ماتحت تھا۔ اس دور میں معقولیت، مکالمے اور دلیل کو کبھی رد نہیں کیا گیا۔ مگر عیسائیت کے بتدریج زوال کے نتیجے میں یورپ مکمل طور پر سیکولر ہوگیا تو یورپی قوموں نے آپس میں بھی مکالمہ کرنا پسند نہ کیا بلکہ طاقت کو اپنا بہترین ہتھیار جانا۔ اس صورت حال نے دنیا کو یکے بعد دیگرے دو عالم گیر جنگوں سے دوچار کیا۔ مشرق وسطیٰ میں مغرب نے دلیل اور مکالمے کو مکمل طور پر رد کرتے ہوئے فلسطینیوں کو ان کے وطن سے بے دخل کردیا اور دنیا بھر کے یہودیوں کو فلسطین میں جمع کرکے اسرائیل کی ناجائز ریاست بزور بازو قائم کردی۔ مغرب نے فلسطینی مقبوضہ علاقوں یعنی مغربی کنارے اور غزہ کی تحریک مزاحمت ’’حماس‘‘ کو پوری دنیا سے کاٹ کر دنیا کی سب سے بڑی انسانی جیل تشکیل دی۔ اس ’’انسانی جیل‘‘ پر اسرائیل نے سترہ دن تک بارود اور آہن کی بارش کی، مگر حماس کی استقامت اور اسرائیل پر راکٹ حملوں سے بوکھلا کر مذاکرات کی میز سجائی گئی، مگر شروع میں دلیل اور مکالمے کو سختی سے رد کردیا گیا۔ 9/11 کے بعد امریکا نے افغانستان کی طالبان انتظامیہ اور شیخ اسامہ کو ٹوئن ٹاور پر حملے کا مجرم گردانتے ہوئے حملے کا ارادہ ظاہر کیا تو طالبان انتظامیہ نے  اسامہ کے خلاف ثبوت مانگے اور  اسامہ کو کسی غیر جانب دار ملک کے حوالے کرنے پر آمادگی ظاہر کردی۔ اس معقول استدلال کو رد کرتے ہوئے افغانستان کو خاک و خون میں نہلا دیا گیا۔ گزشتہ گیارہ سال سے یہ خونیں کھیل جاری ہے۔ ڈیزی کٹر بموں، کارپٹ بمبنگ اور قرآن کی توہین جیسے ہتھکنڈوں کی ناکامی اور مجاہدین کی مسلسل استقامت کے بعد امریکا نے طالبان سے مذاکرات کے لیے بے چینی کا اظہار کیا، مگر شاید تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دوہرانے والی ہے کہ سپر پاور افغانستان میں شکست کھانے کے بعد دنیا کے نقشے سے سوویت یونین اور عظیم سلطنت برطانیہ کی طرح غائب ہوجاتی ہے۔ اب ریاست ہائے امریکا کا یہی انجام قریب ہے۔ تقدیر امم کیا ہے کچھ کہہ نہیں سکتا مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارہ...............
 .......... فلسطین میں جبراً آباد کی جانے والی ہر یہودی بستی، افغانستان میں دم توڑتی ہر معصوم بچی، عافیہ صدیقی کیس، گوانتاناموبے کا اذیت کدہ اور          سے بلند ہونے والی بہنوں کی آہ و بکا اس مکالمے کی ناکامی کا اعلان ہے۔ مغرب سے مکالمہ جرم نہیں، مگر اس مکالمے کی کسی پائیدار بنیاد کا ہونا ضروری ہے۔ اس وقت مغرب مکالمے کے بجائے تصادم کی راہ پرگامزن ہے۔ یہ گھڑی فضول مکالمے میں وقت ضائع کرنے کے بجائے عمل کی طلب گار ہے۔ یہ گھڑی محشر کی ہے تُو عرصۂ محشر میں ہے پیش کر غافل کوئی عمل اگر دفتر میں ہے تہذیبی تصادم کی اس فضا میں ایک اور قابلِ غور غلط فہمی یہ ہے کہ چونکہ دنیا بھر میں ہونے والی قتل و غارت گری میں مختلف مذاہب کے ماننے والے باہم برسرپیکار ہیں لہٰذا ایک عالمی بین المذاہب مکالمے (INTER FAITH DIALOGUE) کی ضرورت ہے تاکہ بین المذاہب مفاہمت کے نتیجے میں دنیا امن کا گہوارہ بن جائے۔ اس خیال کی بنیادی خامی یہ ہے کہ یہ بات برسرزمین حقائق کے خلاف ہے۔ اس وقت دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں حکومتوں کا ڈھانچہ سیکولر ہے اور زمامِ کار بھی سیکولر قوتوں کے ہاتھ میں ہے۔ اس وقت دنیا میں کہیں بھی ایسی اسلامی، عیسائی اور یہودی ریاست موجود نہیں جس نے اپنے مذہب کے ریاستی و معاشرتی سطح پر احیاء کو ممکن بنایا ہو۔ اور تو اور دنیا کی نظریاتی مملکت کہلانے والے دو ممالک پاکستان اور اسرائیل بھی اپنی چند مذہبی رنگ کی حامل دستوری شقوں کے باوجود عملاً محض سیکولر ریاستیں ہیں۔ ایسی صورت میں جب دنیا کے متحارب گروہ مسلم، عیسائی اور یہودی بنیادوں پر متصادم ہی نہیں (بلکہ اصل جنگ سیکولر مغربی اور اسلامی تہذیب کے درمیان جاری ہے) تو بین المذاہب مکالمہ محض ایک لاحاصل ذہنی عیاشی ہی کہلا سکتا ہے۔ مغربی دانش ہر قسم کی مذہبی قوت اور علامت کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپی یونین نے اپنے مشیروں میں ہیبرماس جیسے فلسفی کو شامل کیا، مگر عیسائیت کی سب سے بڑی شخصیت یعنی پوپ کو شامل نہیں کیا۔ اس پر پوپ نے سخت احتجاج کیا، مگر یہ احتجاج حقارت کی نگاہ سے ٹھکرا دیا گیا۔ اس معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ مغرب کے پس پشت کارفرما ذہن لبرل ازم یعنی مغربی تہذیب کے مخالفوں سے مذاکرات کے بجائے ان کا صفایا کرنے کا قائل ہے۔ رالز کے نزدیک لبرل سرمایہ داری کے انکاری، معاشرے کے لیے ایک بیماری کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کو اسی طرح کچل دینا چاہیے جس طرح ہم مضر کیڑے مکوڑوں کو کچل دیتے ہیں۔ ایک اور لبرل مفکر ڈربن کے مطابق… ''I am ready to agree any one who is liberal, if he is not liberal, I am not going to agree with him, I am going to shoot him,'' اس وقت جب کہ امریکا مکالمے، امن اور مذاکرات نام کی ہر چیز کو روندتا ہوا نہ صرف عراق اور افغانستان کے لاکھوں مسلمانوں کو قتل اور ان سے زیادہ کو اپاہج بنارہا ہے، اسی امریکا نے عراق کے اسپتالوں میں دوائیوں کی رسد منقطع کرکے دولاکھ سے زائد عراقی بچوں کو تڑپ تڑپ کر مرنے پر مجبور کردیا۔ اسی مغرب کے ٹھیکیدار کی طفیلی ریاست اسرائیل نے غزہ شہر کا محاصرہ کرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو شعب ابی طالب میں محصورکرنے کی یاد تازہ کردی۔ کہاں گئے بین المذاہب مذاکرات، کہاں ہے نام نہاد مکالمہ! اس مکالمے کی حقیقت معلوم کرنی ہو تو غزہ میں شہداء کی مائوں سے ملیے، جن کے معصوم بچوں کے جسموں کے چیتھڑے بتارہے ہیں کہ یہ مکالمہ محض فریب اور امت ِمسلمہ کی رہی سہی غیرت اور مزاحمت کے خاتمے کا عنوان ہے۔ امن کا درس محض جہاد کے خاتمے کی ناآسودہ خواہش کا نام ہے۔ امریکا کے ہاتھوں امتِ مسلمہ پر ظلم کی داستان میں کہیں بارود کی بو ہے تو کہیں معصوم بچوں کے لہو کی بوندیں ہیں، کہیں ہچکیوں اور سسکیوں کی گھٹی ہوئی آوازیں ہیں تو کہیں شہیدوں کی بیوائوں کے بہتے آنسوئوں کی نمکینی ہے، اور کہیں ان باحیا عورتوں کی برہنہ لاشیں ہیں جنہیں آفتاب و ماہتاب کی کرنوں کے سوا کسی غیر نے نہ دیکھا تھا۔ یہ داستاں ایک خوں چکاں تحریر ہی نہیں آتش فشاں تاریخ بھی ہے جو امریکی دہشت اور وحشت کے ہتھیاروں سے امت ِمسلمہ کے افق پر تحریر کی جارہی ہے۔ مکالمے کے ضمن میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ مکالمہ کہاں ممکن ہے اور اس کی ضرورت کہاں ہے؟ غور سے دیکھا جائے تو زیرنظر مکالمے کے ضمن میں ہمارا رویہ مضحکہ خیز ہے۔ ہم مغرب سے ایک غیر منطقی اور بے نتیجہ مکالمے کے لیے بے چین ہیں جب کہ امت ِمسلمہ کے مختلف مکاتب فکر سے مکالمے کے سرے سے انکاری ہیں۔ جس قدر تگ و دو اسلام و مغرب کے مکالمے کے لیے کی جارہی ہے اگر اس کا عشر عشیر بھی عالم اسلام کی تحریکات اور مزاحمتی گروہوں کے درمیان مکالمے کے لیے کی جائے تو امت مقابلے اور مکالمے دونوں کے لحاظ سے ایک بہتر پوزیشن میں آسکتی ہے۔ امت ِمسلمہ کے راسخ العقیدہ مکاتب فکر کے جتنے بھی فروعی اختلافات پائے جاتے ہوں، بہرحال وہ سب اللہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، قرآن و سنت، خلافت ِراشدہ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اسلامی طرزِ زندگی کے احیاء پر متفق ہیں۔ ایسی صورت میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ان مشترکہ امور کی بنیاد پر امت کے مختلف مکاتبِ فکر، تحریکاتِ اسلامی اور مزاحمتی گروہ باہم مکالمے کا آغاز کریں تاکہ ان سب کے درمیان پائے جانے والے جزوی اختلافات کے باوجود یہ ایک دوسرے کے معاون و مددگار بنیں۔ تحریکاتِ اسلامی کی مشترکہ حکمت عملی مغرب پر مربوط ضرب لگانے کے ساتھ ساتھ مغرب کی ذہنی مرعوبیت ختم کرنے میں بھی مددگار ہوگی۔ اسی طرح مغربی استعمار کے گماشتوں یعنی اسرائیل اور بھارت وغیرہ کے خلاف برسرپیکار مزاحمت کاروں کے درمیان مکالمے کی ضرورت ہے تاکہ عالمی سطح پر عالمی استعمار کے مقابلے کے لیے مربوط عسکری حکمت عملی ترتیب دی جاسکے۔ اس وقت مغرب کی طرف سے امت ِمسلمہ سیاسی، علمی اور عسکری ہر سطح پر چیلنج سے دوچار ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ امت اور اس کی تہذیبی اقدار کو صفحہ ہستی سے مٹانے پر تیار مغرب کے خلاف دنیا بھر کی اسلامی تحریکات، مزاحمتی گروہ اور دین کے اصل وارث یعنی علماء کرام باہمی مکالمے کے ذریعے ایک دوسرے کے مددگار اور پشتی بان بنیںاور امت کو تاریخ کے اس نازک ترین دور سے نکال کر آگے لے کر جائیں۔ یہ دور اپنے تمام تر چیلنجز کے ساتھ ساتھ امکانات کی ایک لامحدود کائنات بھی رکھتا ہے۔

Friday 27 April 2012

پاسبان مل گئے…لیکن اپناکیاحال ہے

احوال پاکستان


پاسبان مل گئے…لیکن اپناکیاحال ہے

مظفر اعجاز 

-ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں بتایاہے کہ یورپ میں مسلمانوںکو تعصب کا سامناہے۔ مسلم خواتین کو حجاب اورمردوں کو داڑھیاں رکھنے کی وجہ سے نوکریوں سے برخاست کیا جارہاہے ایمنسٹی کی خاتون رکن اورگروپ میں اسپیشلسٹ مارکوپروبتی نے کہاہے کہ حجاب کو سیکورٹی رسک قرارنہیں دیا جاسکتا۔ یہ امتیاز ختم کیاجائے۔ یورپی حکومتیں مسلمانوں کے ساتھ تعصب ختم کریں۔ دلچسپ امریہ ہے کہ یہ حال صرف یورپ کا نہیں بلکہ حجاب‘ داڑھی اورمسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کرنے والوں کے سرخیل امریکا کا بھی یہی حال ہے وہاں بھی کبھی حجاب کے خلاف کارروائی ہوتی ہے تو کبھی مسلمانوں ہی کے خلاف۔ یہاں تک کہ اس امریکا میں مسلمانوں کو اور مساجدکو دھمکی آمیزخطوط لکھے جارہے ہیں۔ ایک دھمکی تو یہ دی گئی ہے کہ مسلمانوں کو قتل کرنا ہمارے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ تو ٹیمپل یونیورسٹی میں اسلام کے خلاف ہی کانفرنس منعقدکردی گئی۔ ساری دنیا میں مسلمانوں ‘اسلامی شعائر حجاب داڑھی وغیرہ کو تنقید کانشانہ بنایاجاتاہے لیکن اسلامی ملکوں میں بھی کالے انگریزوں کے پالے ہوئے لوگ روشن خیالی کے نام پر یہی کچھ کررہے ہیں۔ پاکستان میں ملازمتوں سے حجاب اورداڑھی کی بنیادپرنکالتے نہیں تو امتیازی سلوک ضرورکرنے لگے ہیں۔ میڈیا میں تو یہ الفاظ کھل کر استعمال ہوتے ہیں کہ یار ابھی کچرا بھرلو نو جماعتی ‘نوملا نو داڑھی والا…یار یہ لوگ آگے چل کر مصیبت کرتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے یہ غلط ہے یہ نہیں چلے گا یہ کرو یہ نہ کرو…وغیرہ وغیرہ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ میڈیاسے لوگوں کو محض داڑھی‘ اسلام نمازوغیرہ کی وجہ سے فارغ کیا جارہا ہے ۔ پارٹی تعلق کو بہت بعد میں خاطرمیں لایا جاتاہے۔ لیکن ایک اہم پیش رفت ہورہی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ خود امریکا اوریورپ سے ہی آواز اٹھ رہی ہے۔ امریکا میں بھی لوگ اس امتیازی سلوک کے خلاف آوازاٹھارہے ہیں گویا پاسبان مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے…لیکن کعبے کا کیا حال ہے‘ اس جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اسلام کے نام پروجود میں آنے والے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں دین کو دہشت گردی بنایاگیاہے۔ مسلمان کو ملا اور بنیاد پرست بنادیاگیاہے۔ پردے کو مذاق بنایاجارہاہے بے حیائی بے ہودگی عام ہے‘ میڈیا اس میں سب سے زیادہ استعمال ہورہاہے۔ تازہ مثالیں امریکاکی ہیں۔ امریکی شہرہالی ووڈ میں عیسائی طالبات فٹبال ٹیم کی مسلمان کپتان ارم خان کو اسکارف پہننے پر امتیازی سلوک اورتنقیدکا نشانہ بنانے پر اس سے اظہاریکجہتی کے لیے اسکارف پہن کر میدان میں اتریں۔انہوں نے ریمارکس دیے ہیں وہ بھی بڑے دلچسپ ہیں وہ کہتی ہیں کہ ہمیں چندگھنٹے اسکارف پہننے سے سرمیں گرمی محسوس ہوئی اور لوگوںکی عجیب چبھتی ہوئی نگاہوں کا سامنا کرنا پڑا ہم سارادن اسکارف پہننے پر ارم کو مبارکباد دیتے ہیں۔ اسی طرح سینیٹ لوئس کی ایک جیل میں چندگھنٹوں کے لیے بھیجی جانے والی مسلمان خاتون کے سرسے اسکارف نوچنے کا نوٹس لیاگیا تو نہ صرف جیلرنے معذرت کاخط لکھا بلکہ اب یہ اصول طے ہوگیا ہے کہ کسی مسلمان خاتون کو جیل میں اسکارف سے محروم نہیں کیاجائے گا۔ پتانہیں عافیہ کو کب اسکارف دیاجائے گا۔ اس سے بھی تو بھری عدالت میں اسکارف چھیناگیاتھا۔ تازہ ترین خبریہ ہے کہ ٹیمپل یونیورسٹی میں اسلام کے خلاف ہونے والی کانفرنس کا عام امریکیوں نے جوغیرمسلم ہیں نہ صرف بائیکاٹ کیا بلکہ شرکاء کو اس کانفرنس میں شریک ہونے پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ یہ سب کچھ امریکا میں ہورہاہے ۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کی غیرمسلم گروپ اسپیشلسٹ مارکوپرولینی حجاب اور داڑھی کے خلاف امتیازپر اٹھ کھڑی ہوئی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ یورپی حکمران مسلمانوں سے امتیاز اور تعصب ختم کریں۔ لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کیاہورہاہے۔ یہاں تو عورت کو بے حجاب ہی نہیں بے لباس کیاجارہاہے۔ کس چیز کے لیے ؟ چند ٹکوں کی خاطر۔طرح طرح کے اشتہارات آرہے ہیں ایک سے بڑھ کر ایک آئیڈیا لایاجارہاہے کپڑوں کا اشتہاربھی بے لباس عورت کے ساتھ ہے اور بلیڈاورشیونگ کریم کابھی بے لباس عورت کے ساتھ۔ ایسی اشیا کے اشتہارات بھی آنے لگے ہیں جن کانام بڑے بڑے لوگ بھی نجی محفلوں میں لیتے ہوئے شرماتے ہیں ۔ان کا ذکر رازداری سے کرتے ہیں۔ یہ سب تو صنم خانے کا احوال ہے لیکن اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں جس کو مولانا حسین احمدمدنی نے بھی قیام کے بعد مسجد کا درجہ دیاتھا اس میں یہ سب ہورہاہے۔ اصلاح معاشرہ کی مہم بھی چلائی جارہی ہے۔ علمائے کرام سے اپیل کی جارہی ہے کہ فحاشی وعریانی کے اس سیلاب کے خلاف میدان میں آئیں۔ لیکن ہم سمجھتے ہیںکہ علماء کے خطبوں سے اور اصلاح معاشرہ مہم سے اصلاح نہیں ہوگی۔جب تک پاکستان کے ایک ایک خاندان کا سربراہ اپنی اولاد کے مستقبل کے حوالے سے تشویش میں مبتلا نہیں ہوجاتا جب تک وہ خود اس بے حیائی کو نہیں روکتا اس وقت تک کچھ نہیں ہوگا۔ حجاب کے حق میں پاکستان میں کس منہ سے مہم چلائی جاسکے گی۔ پاکستانی عوام عافیہ کو اسکارف واپس لوٹانے کی مہم کیسے چلائیں گے۔ ان کے ملک میں عورت کو بے لباس کیاجارہاہے یہ سائن بورڈز سلامت کیسے ہیں جہاں لاکھوں روپے میں عورت کو ٹکے کی جنس بنایاجارہاہے۔ خود اصلاح نہیں کریں گے تو پاکستان سے بڑا صنم خانہ کوئی نہیں رہے گا۔

سوڈان میں تیل کی جنگ…چشم کشا حقائق

سوڈان میں تیل کی جنگ…چشم کشا حقائق

-پروفیسر شمیم اختر

10 اپریل کو جنوبی سوڈان کی افواج نے شمالی سوڈان (جسے سوڈان کہا جاتا ہے) کے تیل پیدا کرنے والے علاقے Heglig پر قبضہ کرلیا تو سوڈان نے اپنا علاقہ واگزار کرنے کے لیے فوجی کارروائی اور جنوبی سوڈان کی قابض فوج پر بمباری کردی تو جنوبی سوڈان کی فوج کو وہ علاقہ خالی کرنا پڑا۔ خبروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ سوڈان کی فوجوں نے پسپا ہوتی ہوئی دشمن فوج پر فضائی حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ استعماری ٹولے نے مسلم ممالک کے ٹکڑے کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ یہ سلسلہ جو جنگِ عظیم اول میں سلطنت ِ عثمانیہ کے حصے بخرے کرنے سے شروع ہوا تھا، برابر جاری ہے۔ چنانچہ مشرقی بنگال کی پاکستان، مشرقی تیمور کی انڈونیشیا، اور جنوبی سوڈان کی سوڈان سے علیحدگی بظاہر الگ الگ واقعات ہیں لیکن یہ ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ سوڈان افریقہ کا سب سے وسیع و عریض ملک تھا جس کی اکثریت مسلمان ہے، لیکن جنوب میں کچھ وحشی بت پرست قبائل اور عیسائی آباد ہیں جنہیں امریکہ، برطانیہ اور یورپی طاقتوں نے مرکزی حکومت کے خلاف بغاوت پر اکساکر ریاست سے علیحدگی پر آمادہ کرلیا اور ان کی چھاپہ مار فوج (سوڈان عوامی آزاد فوج) کو تربیت اور اسلحہ فراہم کرکے مرکزی حکومت سے خانہ جنگی کے لیے تیار کردیا، جب کہ مرکز میں حکومت کو کمزور کرنے کے لیے اس کے صدر عمرالبشیر اور دیگر پر غیر مسلم اقلیت اور دارفور میں آباد قبائل کی نسل کشی کے الزام میں بین الاقوامی تعزیراتی عدالت کے ذریعے ان کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کرادیا اور ان پر سفری پابندیاں بھی عائد کردیں۔ لیکن 54 رکنی افریقی یونین نے سوڈان کے رہنمائوں کے خلاف کارروائی کرنے سے انکار کردیا۔ اس کا کہنا تھا کہ جب سے یہ عدالت قائم ہوئی ہے اس نے صرف افریقی رہنمائوں کو ہی نشانہ بنایا ہے۔ اس کا رویہ متعصبانہ ہے۔ (اکانومسٹ 23-17 مارچ 2012ئ، صفحہ 57) یہ سب استعمار باَلفاظ ِدیگر صلیبی صہیونی ٹولے کی ریشہ دوانیاں ہیں کہ دوسری ریاستوں پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لیے ان کی قیادت کی کردار کشی کرکے، خاص کر مسلم ممالک پر مذہبی انتہاپسندی کا الزام لگاکر ان کے وسائل تیل، گیس، یورینیم اور دیگر معدنیات کو لوٹنے کے لیے انسدادِ دہشت گردی کے نام پر ان پر فوج کشی کرکے قبضہ کرلیا جائے۔ چین میں برطانوی سفارت خانے سے افیون کی اسمگلنگ روکنے پر برطانیہ نے فوج کشی کرکے ہانگ کانگ پر قبضہ کرلیا۔ اسی طرح پرتگال نے مکائو پر قبضہ کرکے وہاں منشیات کا کاروبار شروع کردیا۔ 1989ء میں امریکہ نے پناما کے حکمران نوریگا پر کوکین کی اسمگلنگ کا الزام لگاکر اس چھوٹی سی ریاست پر فوج کشی کردی، اور عراق پر وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اسلحہ کی موجودگی کا جھوٹا الزام لگاکر قبضہ کیا، جبکہ افغانستان پر اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کے الزام میں وحشیانہ فضائی اور زمینی حملے کرکے قبضہ کرلیا، کیونکہ امریکہ نے وہاں ایک کھرب ڈالر کی لاگت کی معدنیات کا سراغ لگا لیا تھا اس لیے اس پر حملہ ضروری ہوگیا تھا، اب ایران پر جوہری اسلحہ کے حصول کا چرچا کرکے اس پر حملے کے لیے پرتول رہا ہے۔ استعمار دو صدی سے ایسی مذموم چالیں چل رہا ہے۔ اس کی نیت سوڈان میں چار لاکھ اسّی ہزار تیل پیپے یومیہ کی نکاسی پر خراب ہوگئی تو اس نے جنوبی سوڈان میں بسنے والی غیرمسلم اقلیت کو مسلح کرکے علیحدگی کے لیے اکسایا اور سوڈان کے صدر عمرالبشیر کو بلیک میل کرکے انہیں 1995ء میں اپنے ملک کو تقسیم کرنے پر مجبور کردیا۔ اس معاہدے کی رو سے جنوبی سوڈان کے باشندوں کو9 جولائی 2011ء کو رائے شماری کے ذریعے اپنی علیحدہ آزاد ریاست بنانے کا اختیار دیا گیا۔ اور اس دوران جنوبی سوڈان کے قبائل کو ڈالر تقسیم کرکے علیحدگی کے حق میں ووٹ دینے پر آمادہ کرلیا۔ چاروناچار عمرالبشیر کو کڑوا گھونٹ نگلنا پڑا، کیونکہ ان کے سر پر تعزیری عدالت کی شمشیر لٹک رہی تھی جس نے ان کی گرفتاری کا پروانہ جاری کردیا تھا۔ لیکن سوڈان کی تقسیم غیر فطری تھی کیونکہ شمال اور جنوب کے درمیان کوئی قدرتی حدِّ فاصل مثلاً دریا، پہاڑ یا صحرا نہیں ہے، نیز جنوب میں ڈِنکا، Lou Nuer اور Murle قبائل آپس میں برسر پیکار ہیں۔ Murle قبیلہ سوڈان کی مرکزی حکومت کی جانب سے علیحدگی پسندوں سے لڑتا رہا ہے۔ علاوہ ازیں ڈِنکا اور Lou Nuer کے لوگ جو جنوبی سوڈان کی حکومت میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں بیرونی امداد ہتھیا لیتے ہیں، خاص کر ڈِنکا جو سب سے بڑا قبیلہ ہے۔ Murle اور Lou Nuer قبائل میں پشتینی دشمنی ہے، جو Jongli ریاست میں اپنے عروج پر ہے۔ یہ قبائل مویشیوں کو چھین کر لے جاتے ہیں۔ چنانچہ اگست2011ء میں Murle قبیلے نے Jongli ریاست کے Pieri نامی قصبے پر چھاپہ مار کر Nuer قبیلے کے 600 افراد کو قتل،200 لڑکوں کو اغوا کرلیا اور پچیس ہزار گائیں لوٹ لیں۔ بعد ازاں Luer نے Pibor میں Murle قبیلے کے چار سو آدمیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ یہ قبائلی لڑائی تقسیمِ سوڈان سے پہلے سے جاری ہے اور 2009ء میں اس نے شدت اختیار کرلی۔ اس میں دارفور سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے۔ (اکانومسٹ 10 ستمبر 2011ء صفحہ 47) قارئین کو حیرت ہوگی کہ دارفور میں سوڈان کی فوج کی جانب سے کی گئی قتل و غارت گری کی داستانوں کا میڈیا میں اتنا چرچا ہوا کہ بین الاقوامی تعزیراتی عدالت نے سوڈان کے سربراہ کے خلاف پروانۂ گرفتاری جاری کردیا، لیکن جنوبی سوڈان میں غیر مسلم قبائل کی خونریزی پر پردہ ڈال دیا گیا۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ہم عمرالبشیر کے خلاف قانونی کارروائی کے مخالف ہیں بلکہ ہمارا مؤقف تو وہی ہے جو افریقی یونین کا ہے کہ اس بارے میں امتیازی سلوک کیوں برتا جاتا ہے؟ یہاں یہ بات بے محل نہیں ہوگی کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کینیڈا کی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ امریکہ کے سابق صدر جارج واکر بش کو جنگی جرائم کے ارتکاب کی پاداش میں گرفتار کرے، کیونکہ وہ برٹش کولمبیا کے مقام Surrey میں اقتصادی سربراہ کانفرنس منعقدہ 20 اکتوبر 2011ء کو وہاں موجود ہوگا۔ ایمنسٹی کی نمائندہ Susan Lee کا کہنا تھا کہ یہ اقدام امریکہ کو کرنا چاہیے تھا کیونکہ جارج بش نے اقوام متحدہ کے کنونشن برائے انسداد ایذا رسانی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سی آئی اے کے خفیہ قید خانوں میں زیر حراست افراد سے اقبالِ جرم کرانے کے لیے ان کے سر کو پانی میں ڈبونے جیسے انتہائی پُرتشدد طریقوں کو دورانِ تفتیش استعمال کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ (ڈان 13 اکتوبر 2011ئ) غرض عمرالبشیر اور جارج بش دونوں پر جنگی جرائم کے ارتکاب کا مقدمہ چلایا جانا چاہیے، ورنہ صرف سوڈان کے حکمران کو ہدف بنانا ناانصافی ہوگی، اور اگر جارج بش کے ساتھ ٹونی بلیئر، بارک اوباما، ڈیوڈ پیٹریس، لیون پیناٹا وغیرہ کو بھی انسانیت کے خلاف جرائم کی سزا نہیں دی جاتی تو یہ بھی ناانصافی ہوگی، کیونکہ قانون یا تو سب کے لیے یا کسی کے لیے نہیں۔ دراصل سوڈان کی تقسیم کا مسئلہ تو امریکہ کی سازش کا نتیجہ تھا، ورنہ شیشان میں روس، سنکیانگ میں چین کے مظالم کیا کم ہیں کہ ان کے حکمرانوں کو عدالت کے کٹہرے میں نہ کھڑا کیا جائے! جنوبی سوڈان نے سوڈان کو تیل کی فراہمی سے محروم کرنے کے لیے جنوری 2012ء میں تیل کی نکاسی کو مکمل طور پر بند کرنے کا اعلان کردیا، جب کہ کینیا سے اس کے لامو بندرگاہ تک پائپ لائن بچھانے کی یادداشتِ مفاہمت پر دستخط کردیے (اکانومسٹ 17-11 فروری 2012ء ص 45)۔ جب کہ خام تیل لے جانے کے لیے سوڈان میں پائپ لائن موجود تھی جو کارخانے میں تیل کی صفائی کے بعد درآمد کے لیے اسے ٹرمینل تک لے جاتی تھی۔ جنوبی سوڈان کا حکمران متبادل پائپ لائن بچھانے کے لیے امداد حاصل کرنے کی خاطر Heglig سے اپنی فوج کے انخلا کے بعد چین کے چھ روزہ دورے پر گیا ہوا ہے۔ اس صورت حال نے چین کو بڑے مخمصے میں ڈال دیا ہے جو سوڈان کا دیرینہ حلیف رہا ہے۔ جیسا کہ قرائن شاہد ہیں کہ تیل کی پیداوار کی بندش، اس کی ترسیل کے لیے متبادل پائپ لائن بچھانے کا منصوبہ اور بالآخر 10 اپریل کو سوڈان کے تیل پیدا کرنے والے علاقے Heglig پر قبضہ سوڈان کی اقتصادی حالت تباہ کرنے کا معاندانہ اقدام تھا۔

دنیا میں تشدد کا بڑھتا ہوا رجحان…اسباب کیا ہیں؟

دنیا میں تشدد کا بڑھتا ہوا رجحان…اسباب کیا ہیں؟



-شاہنواز فاروقی

اسلام کہتا ہے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے۔ لیکن دنیا میں کروڑوں انسانوں کو حیوانوں سے بدتر زندگی بسر کرنے پر مجبور کردیا گیا ہے۔ عیسائیت کہتی ہے: اگر کوئی تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تم دوسرا گال بھی تھپڑ کے لیے پیش کردو۔ لیکن دنیا میں ہو یہ رہا ہے کہ کروڑوں انسان دوسرے انسانوں کے ایک گال پر تھپڑ مارتے ہیں اور حسرت کرتے ہیں کہ انہیں دوسرے گال پر تھپڑ مارنے کا موقع کیوں فراہم نہ ہوا۔ ہندوازم شرک کی حد تک انسان کی تکریم میں غلو کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ انسانوں کے آگے سر جھکانے کی تعلیم دیتا ہے۔ لیکن دنیا میں کروڑوں انسان دوسروں کے سروں کو اپنے آگے جھکانے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ دنیا کے منظرنامے کو دیکھا جائے تو دنیا میں عسکری جنگیں برپا ہیں، معاشی جنگوں نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے، ابلاغی جنگوں نے دنیا کا حشرنشر کردیا ہے۔ دنیا میں قومی تعصبات کے معرکے جاری ہیں۔ گھروں میں ساسیں اور بہوئیں ایک دوسرے کے مقابل ہیں۔ جگہ جگہ شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے مقابل آگئے ہیں۔ غور کیا جائے تو یہ سب تشدد ہی کی مختلف صورتیں ہیں، فرق یہ ہے کہ کہیں جسمانی تشدد کی حکمرانی ہے اور کہیں نفسیاتی‘ جذباتی‘ ذہنی اور لسانی تشدد کا غلبہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس صورتِ حال کے اسباب کیا ہیں؟ تاریخ بتاتی ہے کہ انسان کو صرف ایک چیز انسان بنا سکتی ہے اور وہ ہے اسلام۔ دنیا میں تشدد کی پہلی بدترین واردات قابیل کے ہاتھوں اپنے بھائی ہابیل کا قتل تھا۔ دیکھا جائے تو ان دونوں بھائیوںکے درمیان بنیادی فرق یہ تھا کہ ہابیل خدا کے قریب تھا اور قابیل خدا سے دور تھا۔ ہابیل خدا کے قریب تھا اور اس نے صرف اس چیز کی خواہش کی جس کی اجازت خدا نے دی تھی۔ قابیل خدا سے دور تھا اس لیے اس نے خدا کے حکم پر اپنی خواہش کو ترجیح دی۔ ہابیل کو خدا سے محبت تھی اس لیے اس نے خدا کے حضور قربانی کے لیے بہترین چیز پیش کی۔ قابیل کو خدا سے محبت نہیں تھی اس لیے اس نے قربانی کے لیے کمتر شے کا انتخاب کیا۔ ہابیل خدا کا فرماں بردار تھا اس لیے اس نے موقع اور استعداد ہونے کے باوجود قابیل پر ہاتھ اٹھانے سے انکار کردیا۔ قابیل خدا کا نافرمان تھا چنانچہ اس نے موقع ملتے ہی اپنے بھائی کو قتل کردیا۔ تجزیہ کیا جائے تو پوری انسانی تاریخ کی تعبیر کے لیے یہ ایک واقعہ کافی ہے۔ ماہرینِ نفسیات کہتے ہیں کہ انسان کو جو کچھ بننا ہوتا ہے‘ دس سال کی عمر تک بن جاتا ہے، اس کے بعد اس کے وجود کی تفصیل سامنے آتی ہے۔ اور یہ بات غلط نہیں ہے۔ انسان پانچ سے دس برسوں کے درمیان جو کچھ بنتا ہے ساری زندگی اس کی اسیر ہوجاتی ہے۔ لیکن اللہ کے دین میں یہ طاقت ہے کہ وہ بیس‘ تیس‘ چالیس‘ پچاس اور ساٹھ سال کے وحشیوںِ کو بھی انسان بناسکتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل عربوں کا حال ابتر تھا۔ ان میں ذرا ذرا سی بات پر جنگیں شروع ہوجاتیں اور کئی کئی نسلوں تک جاری رہتیں۔ وہ رزق کی قلت اور شرمندگی دونوں وجوہ سے لڑکیوں کو زندہ دفن کردیتے تھے۔ عورتیں ان کے لیے پائوں کی جوتی سے بھی کم تر تھیں۔ کفر‘ شرک‘ شراب اور قمار بازی نے انہیں جکڑا ہوا تھا۔ لیکن اسلام نے صرف دو دہائیوں میں ان کی قلب ِ ماہیت کردی۔ وہ دنیا کے مہذب ترین لوگ بن گئے۔ ان کے علم کے آگے ساری دنیا کا علم حقیر ٹھیرا۔ وہ اتنے نرم خو بن گئے کہ چیونٹی کو بھی ناحق مارنے سے خوف کھاتے۔ ان کی جیسی گرم جوشی نایاب تھی۔ ان کی خدمت گزاری کی مثال تاریخ پیش کرنے سے قاصر تھی۔ اس کی صرف ایک وجہ تھی، ان کا جینا اور مرنا صرف اللہ کے لیے تھا۔ عصرِ حاضر کا المیہ یہ ہے کہ اس میں انسانوں نے اپنے اور دوسرے انسانوں کے درمیان تعلق سے خدا کو بے دخل کردیا ہے۔ انسانوں کے تعلق میں خدا کی موجودگی انسانوں کے تعلق کی ہر منفیت کو ختم کرکے اس منفیت کی توانائی کو بھی تعلق کے مثبت یا اثباتی پہلو کے حوالے کردیتی ہے۔ یہ صورتِ حال دشمنوں کو بھی دوست بنادیتی ہے۔ لیکن خدا انسانوں کے باہمی تعلق سے نکل جائے تو دوست بھی دشمن بن جاتے ہیں۔ اس لیے کہ خدا کے درمیان سے نکلتے ہی انسانی تعلق مقابلے‘ مسابقے‘ محاذ آرائی اور فتح کی نفسیات کا تعلق بن جاتا ہے۔ پھر لوگ ایک دوسرے کو جاننے کی نہیں ایک دوسرے کو زیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘ ان سے محبت نہیں کرتے بلکہ ان پر حکم چلاتے ہیں، اور انسان کی فطرت خدا کے سوا کسی کے حکم کو تسلیم نہیں کرتی، اس لیے کہ صرف خدا کے تصور میں خوف اور امید بیک وقت موجود ہوتے ہیں۔ خوف اور امید کے درمیان ایمان ہے، اور خوف اور امید سے کامل اطاعت جنم لیتی ہے۔ لیکن عصرِ حاضر میں اکثر انسانوں نے خدا کو باہمی تعلق سے خارج کردیا ہے، اور جہاں خدا موجود بھی ہے وہاں اس کی نوعیت ’’تصور‘‘ سے زیادہ نہیں۔ مذہب بالخصوص اسلام کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہ انسان کو تصور کی سطح پر ایک بلند مقام عطا کرتا ہے۔ چونکہ اسلام کا انسان خدا کا عارف اور اس کا مطیع ہے اس لیے اسلام انسان کو اشرف المخلوقات کہتا ہے۔ اسے فرشتوں سے بھی افضل گردانتا ہے۔ اسلام کی روحانی اور علمی روایت انسان کو ’’کائناتِ اصغر‘‘ کہتی ہے۔ ہماری روایت میں انسان کعبے سے زیادہ محترم ہے۔ ایک انسان کی جان بچانا پوری انسانیت کی جان بچانے کے مترادف ہے، اور ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے برابر ہے۔ انسان کا یہ بلند تصور جب معاشرے میں راسخ ہوجاتا ہے تو بڑے بڑے گناہوں سے ہی نہیں چھوٹے چھوٹے گناہوں، یہاں تک کہ معمولی لغزشوں سے بھی حقیقی معنوں میں شرم محسوس ہونے لگتی ہے۔ لیکن ہمارے دور میں ایک ایسا تصورِ انسان رائج اور انسانوں کے ذہنوں میں راسخ ہوگیا ہے جس میں انسان حیوان کی سطح سے بلند نہیں ہوپاتا۔ مثلاً کوئی کہتا ہے کہ انسان ایک سماجی حیوان ہے‘ کسی کا خیال یہ ہے کہ انسان ایک معاشی حیوان کے سوا کچھ نہیں۔ جدید علمِ سیاسیات میں انسان کو سیاسی حیوان بھی کہا جاتا ہے۔ جدید حیاتیات کہتی ہے کہ انسان صرف حیاتیاتی یا Biological وجود ہے۔ جدید نفسیات کہتی ہے کہ انسانی حقیقت کے تعین میں جبلتوں کا کردار مرکزی ہے اور حیاتیات اور جبلتوں کی سطح پر انسان اور حیوان میں کوئی فرق نہیں۔ ظاہر ہے کہ اس تصورِ انسان میں انسان کی حقیقی عزت اور اس سے حقیقی محبت کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ چنانچہ انسانی تعلقات میں ہر سطح پر جبر و تشدد کا درآنا یقینی ہے۔ عہدِ حاضر کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ انسان کے سامنے انسانِ کامل کا کوئی نمونہ ہی نہیں ہے۔ اس عہد کے نمونے یا Icons اداکار ہیں۔ مگر اداکاری محض ایک فن ہے اور اداکار پوری زندگی بسر کرنے کے لیے ہرگز نمونہ نہیں ہیں۔ ہمارے دور کا ایک نمونہ کھلاڑی ہیں، مگر کھیل ایک ہنر ہے اور یہ ہنر زندگی کا ایک معمولی سا حصہ ہے، چنانچہ کھلاڑی بھی انسانیت کے لیے نمونے کا کردار ادا نہیں کرسکتے۔ ہمارے زمانے کے نمونوں میں گلوکار اور سیاست دان بھی شامل ہیں۔ بہت سے لوگ شاعروں‘ ادیبوں کو بھی نمونہ سمجھتے ہیں، مگر یہ تمام لوگ بھی زندگی کی کلّیت یا Wholeness کا احاطہ نہیں کرسکتے۔ یہ کام صرف رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ ہی انجام دے سکتی ہے، اور انسانوں کی اکثریت رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ سے آگاہ ہی نہیں ہے۔ انسانوں کے تعلق کے مابین خدا کی موجودگی میں انسانوں کے تعلقات محبت سے اپنی تعریف متعین کرتے ہیں۔ محبت ایک ہمہ گیر‘ ہمہ جہت اور انسان کے پورے وجود کا احاطہ کرنے والی حقیقت ہے۔ لیکن جب خدا انسانوں کے تعلق کے درمیان سے نکل جاتا ہے تو محبت کی جگہ طاقت لے لیتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ طاقت محبت کی طرح جامع حقیقت تو نہیں ہے مگر وہ محبت کی طرح جامع ہونے کا ’’ڈراما‘‘ کرسکتی ہے۔ معاصر دنیا میں اس وقت یہی ہورہا ہے۔ طاقت انفرادی زندگی سے اجتماعی زندگی تک اور اجتماعی زندگی سے بین الاقوامی زندگی تک ہر دائرے میں مرکزیت کی حامل ہوگئی ہے۔ چنانچہ ہمارے تعلقات طاقت کے تعلقات ہیں۔ ہمارے دلائل طاقت کے دلائل ہیں۔ ہمارا نظام طاقت کا نظام ہے۔ اس صورت حال میں تشدد نہیں بڑھے گا تو اور کیا ہوگا! اصول ہے کہ جیسا عمل ہوتا ہے ویسا ہی ردعمل بھی سامنے آتا ہے۔ چنانچہ طاقت کے جواب میں بھی ہمیشہ طاقت ہی سامنے آسکتی ہے۔ زندگی کا مذہب کے تابع نہ ہونا ایک المیہ ہے، لیکن اگر زندگی مذہب کے بعد دلیل کے بھی تابع نہ رہے تو یہ المیہ اور گہرا ہوجاتا ہے۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین ساٹھ سال سے دنیا کے نقشے پر موجود ہیں اور کروڑوں لوگوں کے نفسیاتی و ذہنی توازن کو عدم توازن میں بدل رہے ہیں، لیکن بالادست طاقتیں نہ مذہبی اخلاق کو خاطر میں لارہی ہیں، نہ وہ اس سلسلے میں ’’دلیل‘‘ کو مؤثر ہونے دے رہی ہیں۔ چنانچہ یہ تنازعات غصے اور نفرت کا پھیلائو بن گئے ہیں۔ پاکستان کے حکمران طبقے نے نائن الیون کے بعد امریکہ کی ’’وار آن ٹیرر‘‘ میں امریکہ کی حمایت کا فیصلہ کیا، مگر اس فیصلے کی پشت پر نہ اخلاقی قوت تھی نہ دلیل کی طاقت۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم دس سال میں پانچ ہزار فوجیوں اور بیس ہزار سے زائد عام افراد سے محروم ہوگئے۔ 65 ارب ڈالر سے زیادہ کا معاشی نقصان اس کے سوا ہے۔ طاقت کا عمل دخل ہماری زندگی میں اتنا بڑھ گیا ہے کہ تشدد ہمارے دور میں ایک ’’طرزِ اظہار‘‘ بن کر سامنے آیا ہے۔ کروڑوں لوگ ہیں جو تشدد کے ذریعے اپنے وجود کو ’’محسوس‘‘ کرتے ہیں‘ کروڑوں لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ اگر وہ تشدد کی زبان نہیں بولیں گے تو ان کو گونگا سمجھا جائے گا۔ کروڑوں لوگ ہیں جو خیال کرتے ہیں کہ اگر انھوں نے تشدد کی زبان میں بات نہ کی تو کوئی ان کی بات نہیں سنے گا۔ کروڑوں لوگ ہیں جو تشدد کی زبان بول کر سمجھتے ہیں کہ یہ ’’مکالمے‘‘ کی زبان ہے۔ اس طرح تشدد انسان کے اظہار کے پورے منظر نامے پر چھا گیا ہے۔ ہمارے دور کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کوئی ایک زبان نہیں بلکہ بحیثیت ِمجموعی زبان سکڑ رہی ہے اور اس کی گہرائی اور گیرائی میں نمایاں کمی واقع ہورہی ہے۔ زبان اظہار کا سانچہ اور مذہب کے بعد انسان کے خیالات و جذبات کی تہذیب کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ انسان کے خیالات و جذبات زبان کے ذریعے اظہار میں آتے ہیں تو ان کی شدت بھی کم ہوجاتی ہے اور ان کی لسانی حد بندی بھی ہوجاتی ہے۔ یعنی زبان کے سانچے میں آکر خیالات و جذبات کاتند رو دریا ایک حد میں بہنے لگتا ہے۔ لیکن ہمارے دور میں کروڑوں لوگوں کو مناسب لسانی سانچہ فراہم نہیں۔ چنانچہ بہت سے خیالات و جذبات کی شدت جسمانی قوت کے ذریعے اپنا اظہار کررہی ہے۔ لیکن تشدد زبان کا معقول سانچہ رکھنے والوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ایسے لوگوں کے یہاں زبان اخلاقی حس یا اخلاقی تصورات سے یکسر یا بڑی حد تک بیگانہ ہوجاتی ہے، اور ان لوگوں کے لیے زبان محض زبان یا صرف ایک تکنیکی حقیقت بن کر رہ جاتی ہے۔ 

Tuesday 24 April 2012

Imam Muslim: Great scholar of Hadith By ABU TARIQ HIJAZI

Imam Muslim: Great scholar of Hadith

By ABU TARIQ HIJAZI
Hadith is the great wealth of Islamic literature. This is the collection of pearls of wisdom from orations and actions of the Holy Prophet (peace be upon him).
There are hundreds of companions of the Prophet who preserved this knowledge through oral transmission. Later tens of scholars spent their lives in searching, recording and refining this treasure. There are more than 14 famous compilations of Hadith out of which six books called Al-Sihah Al-Sittah are on the top of authenticity and popularity. These are:  Jame Al Sahih by Imam Bukhari, covering 7274 Hadiths; Jame Al Sahih by Imam Muslim covering 7190 Hadiths; Sunan Abi Dawood by Sulaiman bin Ash'ath covering 4,800 Hadiths; Sunan Abi Majah by Ibn Maajah Rubaii covering 4,000 Hadiths; Jame Al Tirmizi by Abu Eisa Tirmizi and Sunan Al Nasaii by Ahmad bin Shoeb.
The first two compilations are considered the most authentic sources of Hadith. Whenever we study we find occasionally the phrase Rawaho Shaikhan. It means that this Hadith has been attested by Imam Bukhari as well as by Imam Muslim. Thus Imam Muslim is the second champion of Hadith science.
Imam Muslim belonged to the Qushayr tribe of the Arabs, an offshoot of the powerful clan of Rabee'ah.
Imam Muslim was born in 202 AH. He belonged to a very religious family and was raised in a pious society. He learned the Holy Qur'an and took basic Islamic education from his parents. He started higher studies at an early age of 14. Nishapur, with great personalities like lmaam Rahiwe and lmaam Zohri was a seat of learning in those days.
Imam Muslim was a man of high caliber much interested in Hadith. After completing his education at home he traveled extensively in Hijaz, Egypt, Syria and Iraq collecting Hadith and attending discourses of leading scholars like Ahmad bin Hanbal, Ishaq bin Rahwaih, 'Ubaydullah Al-Qawariri, Qutaiba bin Sa'id, Abdullah bin Maslama, Imam Shafeii's disciple Harmalah bin Yahya and others. He visited Baghdad several times and had the opportunity of delivering lectures there. His last visit to Baghdad was two years before his death.
After collecting Hadith he settled at Nishapur where he came into contact with Imam Bukhari. Seeing his vast knowledge and deep insight into the Hadith of the Prophet (peace and mercy of Allah be upon him) Muslim remained attached with Imam Bukhari until the end of imam Bukhari's life.
It is said that he collected about 300,000 Hadith from hundreds of narrators. He began the tiresome task of refining the collected material.
Imam Muslim was very strict in examining the Hadith from all aspects. Thus he extracted approximately 4,000 for his book, which is divided into 43 books, containing a total of 7,190 narrations. According to Munthiri, there are a total of 2,200 Hadiths (without repetition) in Sahih Muslim. According to Muhammad Amin, there are 1,400 authentic Hadiths that are reported in Al-Sihah Al-Sittah. It took Imam Muslim long years to compile this book. Abu Saimah, one of his colleagues was so much attracted that he remained with him assisting in compiling work for 15 years. 
He was so cautious that he used the word Haddathna with the Hadith, which had been recited to him by his own teachers and assigning the word Akhbarna to what he had read out to them.
He added a long introduction, in which he explained the principles which he had followed in the choice of materials for his book; and which should be followed in accepting and relating any Hadith. Upon completing his manuscript he presented it to Abu Zar'ah of Rayy, the reputed scholar of Hadith for verification and accepted his comments.
The Sahih Muslim has been acclaimed as the most authentic collection of traditions after that of Sahih Bukhari, and preferred for its detailed arrangement. More than 30 commentaries have been written by many leading scholars. Abdur Rahman Siddiqui translated Sahih Muslim into Urdu and Abdul Hameed Siddiqui into English.
Besides Sahih Muslim he wrote many other books on the science of Hadith. Ibn Al-Nadeem mentions five books by him on the subject. Most of them like the following retain their eminence to the present day:
Al-Kitab Al-Musnad Al-Kabir Ala-al-Rijal;  Al-Jami' Al-Kabir; Kitab-al-Asma' wal-Kuna; Kitab-Al'Ilal and Kitab-ul-Wijdan.
He taught Hadith at Nishapur and many of his students later became famous and rose to prominence in the realm of Hadith like Imam Abu Eisa Tirmidhi, Abu Hatim Razi, Musa bin Harun, Ahmad bin Salamah, Abu Bakr bin Khuzaimah, Abu `Awanah and Hafiz Dhahbi. Surprisingly his teachers included Imam Bukhari and Imam Ahmad bin Hanbal and his student was Imam Abu Isa Tirmizi.
Imam Muslim adhered strictly to the path of righteousness. His excellent character can be well judged from the simple fact that he never ever indulged even in backbiting. He had a remarkable memory.
Imam Muslim died at the age of 57 in 261 AH and was buried in the suburbs of Nishapur. May Almighty Allah grant him the best reward.

 courtesy: Arab News

پورا ملک ایک شخص کو ملک بدر کرنے کے درپے

پورا ملک ایک شخص کو ملک بدر کرنے کے درپے

آصف جیلانی  

-ایک 51 سالہ فلسطینی جس کو 19 سال قبل برطانیہ میں سیاسی پناہ دی گئی تھی، پچھلے دس برس سے قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہا ہے اور اسے محض اس بناء پر ملک بدر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اس پر مسلم شدت پسند ہونے کا شبہ ہے اور اسے یورپ کا اسامہ بن لادن قرار دیا جاتا ہے، جب کہ اس کے خلاف برطانیہ میں دہشت گردی میں ملوث ہونے یا دہشت گردی کو شہہ دینے کا کوئی الزام نہیں۔ محض امریکا مُصر ہے کہ اس کے خلاف بم دھماکوں کی سازش کرنے اور دہشت گردی بھڑکانے کے الزام میں اردن میں مقدمہ چلایا جائے۔ یہ عالم دین ابوقتادہ ہیں جو پچھلے 6سال سے برطانیہ سے ملک بدری کے خلاف عدالتوں میں برسرپیکار ہیں۔ گزشتہ ہفتے ان کے وکیلوں نے برطانوی حکومت کو عین اُس وقت مات دے دی جب کہ انہیں گرفتار کرکے ملک بدر کرنے کے انتظامات کیے جارہے تھے۔ ان کا معاملہ پھر ایک بار انسانی حقوق کی یورپی عدالت میں پیش کیا گیا ہے جس کے پانچ اعلیٰ جج یہ فیصلہ کریں گے کہ آیا ان کا معاملہ عدالت کے ’’گرینڈ چیمبر‘‘ کے سامنے پیش کیا جائے یا نہیں۔ دراصل یورپی عدالت ہی نے اس سال جنوری میں ابوقتادہ کو اس بنا پر اردن کے حوالے کرنے کے لیے ان کی ملک بدری روک دی تھی کہ ان کے خلاف اردن میں بم حملوں کی سازش کا جو مقدمہ ہے اس میں احتمال ہے کہ اُن کے خلاف وہ شہادت استعمال کی جائے جو ایذا رسانی کے ذریعے حاصل کی گئی ہے۔یورپی عدالت نے واضح حکم دیا تھا کہ انہیں اُس وقت تک ملک بدر نہ کیا جائے جب تک اردن سے اس بارے میں سمجھوتا طے نہیں پاتا کہ ان کے خلاف مقدمے میں ایذارسانی کے ذریعے حاصل کردہ شہادت استعمال نہیں کی جائے گی۔ گزشتہ تین مہینوں سے برطانوی وزیر داخلہ ٹریسا مے اردن سے یہ یقین دہانی حاصل کرنے کی کوشش کررہی تھیں اور پچھلے دنوں عمان بھی گئی تھیں۔ اردن کی حکومت کی یقین دہانی سے لیس برطانوی وزیر داخلہ کی واپسی کے بعد ابوقتادہ کو ملک بدر کرنے کی تیاری ہورہی تھی کہ ان کے وکیلوں نے عین وقت پر یورپی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جس کے نتیجے میں برطانوی حکومت کی کوشش ڈھیر ہوگئی۔ اب غالب امکان ہے کہ برطانوی اور یورپی عدالتوں میں ابوقتادہ کے مستقبل کے بارے میں طویل معرکہ جاری رہے۔ ابوقتادہ الفلسطینی جن کا اصل نام عمر بن محمود بن عثمان ہے، 1960ء میں بیت اللحم میں پیدا ہوئے تھے۔ اور چونکہ اُس زمانے میں غرب اردن، اردن کی حاکمیت میں تھا اس بنا پر انہیں اردنی شہریت حاصل ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ 1989ء میں وہ پاکستان گئے تھے اور کچھ عرصہ قبائلی علاقے میں رہے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اُس زمانے میں ان کی اسامہ بن لادن سے ملاقاتیں رہیں، لیکن اس کا کوئی واضح ثبوت نہیں۔ 1991میں وہ اردن لوٹے جہاں امریکیوں کی ایماء پر اردن کے حکام نے ان کو ایذا رسانی کا نشانہ بنایا۔ آخرکار 1993ء میں وہ اپنی اہلیہ اور پانچ بچوں کے ساتھ فرار ہوکر لندن پہنچے اور یہاں اس بناء پر سیاسی پناہ کی درخواست کی کہ ان کو اردن میں ایذا رسانی کا نشانہ بنایا گیا ہے اور اگر وہ اردن واپس گئے تو ان کی جان کو خطرہ ہے۔ 1994ء میں ابوقتادہ کو پناہ گزین تسلیم کیا گیا اور برطانیہ میں قیام کی اجازت دے دی گئی۔ اُس وقت ان کے خلاف کوئی الزام نہیں لگایا گیا اور نہ انہیں برطانیہ کے لیے خطرہ قرار دیا گیا جیسے کہ اب قرار دیا جارہا ہے۔ لندن میں وہ ریجنٹس پارک کے قریب واقع فورتھ فادر کمیونٹی سینٹر میں دینی درس و تدریس میں مصروف تھے اور ان کے طلبہ کا ایک بڑا حلقہ تھا۔ اس دوران جب ابوقتادہ لندن میں تھے، اردن کی عدالت نے ان کی غیر حاضری میں دہشت گرد حملوںکے الزام میں انہیں عمرقید کی سزا سنائی۔ اس زمانے میں برطانیہ میں ان کے خلاف دہشت گردوں کی مدد واعانت کا کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا، البتہ ان پر اخبارات نے اُس وقت شدت پسندی کا الزام لگایا جب انہوں نے 2001ء میں بی بی سی کے پینوراما پروگرام میں خودکش حملوں کو حق بجانب قرار دیا۔ اسی زمانے میں جرمنی میں شدت پسندوں کے ایک گروہ کے بارے میں تفتیش کے سلسلے میں ابوقتادہ کے گھر پر پولیس نے چھاپہ مارا اور ایک لاکھ ستّر ہزار پونڈ کی نقد رقم برآمد کی، اور پولیس کو ایک لفافہ بھی ملا جس میں ’’چیچنیا کے مجاہدین‘‘ کے لیے آٹھ سو پونڈ کی رقم رکھی ہوئی تھی، لیکن پولیس نے ان پرکوئی فرد جرم عائد نہیں کی۔ اس زمانے میں اخبارات میں یہ خبریں بھی شائع ہوئیں کہ 9/11کے حملوں میں شامل سعودی شہری عطامحمدکے جرمنی میں فلیٹ سے ابوقتادہ کے خطبوں کا کیسٹ برآمد ہوا تھا۔ ابوقتادہ کو خطرہ محسوس ہوا کہ امریکی ان کے تعاقب میں ہیں اور انہیں کسی نہ کسی صورت میں گرفتار کرنا چاہتے ہیں۔2001ء میں جب برطانوی پارلیمنٹ نے وہ نہایت سخت قانون منظور کیا جس کے تحت کسی شخص کو بھی عدالت کے سامنے پیش کیے بغیر طویل مدت کے لیے گرفتار کیاجاسکتا ہے تو ابوقتادہ غائب ہوگئے، لیکن ایک سال بعد پولیس نے انہیں جنوبی لندن کے ایک گھر سے ڈھونڈھ نکالا اور بیل مارش کے جیل خانے میں قید کردیا۔ یہاں سے ابوقتادہ کی برطانوی حکومت کے خلاف عدالتی معرکہ آرائی کا آغاز ہوا۔ 2005ء میں برطانیہ کی سپریم کورٹ ’لا لارڈز‘ نے ابوقتادہ کی نظربندی کو غیر قانونی قرار دیا، لیکن ان پر نظربندوں جیسی کڑی پابندیاں عائدکردی گئیں۔ پانچ مہینے بعد انہیں دوبارہ گرفتار کرلیا گیا۔ 2007ء میں ہائی کورٹ نے انہیں ملک بدر کرنے کا حکم دیا، لیکن 2008ء میں وہ اس حکم کے خلاف اپیل جیت گئے، اس کے باوجود ان کو جیل خانے میں قید رکھا گیا۔ اسپیشل امیگریشن اپیل کمیشن نے ان کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا لیکن حکومت نے انہیں دوبارہ گرفتار کرلیا اور ملک بدر کرنے کا حکم دیا۔ ابوقتادہ نے اس حکم کے خلاف انسانی حقوق کی یورپی عدالت میں اپیل دائر کی اور یہ دلیل پیش کی کہ ان کو اردن میں اپنی جان کا خطرہ ہے کیونکہ ان کے خلاف مقدمہ میں ایسی شہادت استعمال کی جائے گی جو ایذا رسانی کے ذریعے حاصل کی گئی ہے۔ اس سال جنوری میں یورپی عدالت نے ابوقتادہ کی دلیل تسلیم کی اور حکم دیا کہ انہیں اُس وقت تک اردن کے حوالے نہ کیا جائے جب تک اردن سے یہ یقین دہانی حاصل نہ کرلی جائے کہ ان کے خلاف مقدمہ میں ایذا رسانی کے ذریعے حاصل کی گئی شہادت استعمال نہیں کی جائے گی۔ اس حکم کے بعد برطانوی حکام نے ابوقتادہ کو ضمانت پر تو رہا کردیا لیکن جیل خانے سے بھی سخت پابندیاں ان پر عائد کردیں۔ گھر میں وہ نہ تو موبائل فون استعمال کرسکتے تھے اور نہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ۔ ان پر 22 گھنٹے کا کرفیو نافذ تھا۔ دن کے دوران وہ صرف دو بار گھر سے باہر جاسکتے تھے وہ بھی زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹے کے لیے۔ حقوقِ انسانی کی تنظیموں نے اس پابندی کو غیر انسانی قرار دیا اور اس پر سخت احتجاج کیا، لیکن حکام پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ عجیب و غریب بات یہ کہ گو ابوقتادہ پر دہشت گردی کو شہہ دینے کا الزام لگایا گیا اور انہیں یورپ کا اسامہ بن لادن قرار دیا گیا، وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون بھی انہیں اس قدر خطرناک شخص قرار دیتے رہے کہ ان کو ایک لمحہ کے لیے بھی برطانیہ کی سرزمین پر رہنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، لیکن ان کے خلاف ایسے کسی الزام میں کوئی مقدمہ نہیں چلایا گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ پورا ملک ابوقتادہ کو محض شبہ کی بنیاد پر ملک بدر کرنے پر تلا ہوا ہے۔ حکومت تو ایک طرف رہی، حزب مخالف بھی ان کو ملک سے نکال دینے کے مطالبے میں پیش پیش ہے، اور اخبارات تو ایسا لگتا ہے کہ ان کے خون کے پیاسے ہیں۔ یہ بات واقعی سمجھ میں نہیں آتی کہ ایک ایسا شخص جس کو 19 سال قبل خود برطانوی حکومت نے سیاسی پناہ دی اور جس کے خلاف کسی الزام میں کوئی مقدمہ دائر نہیں کیا گیا ہے، وہ آخر اس قدر خطرناک کیسے ہوسکتا ہے کہ سارا ملک اس سے خوف زدہ ہے اور اس سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے!

Monday 23 April 2012

Sachar, Mishra, Harsh Mander, yet the Silent Budget of 2012


Sachar, Mishra, Harsh Mander, yet the Silent Budget of 2012

The annual budget of a country reflects the Government’s priorities. It is, in fact, the preface of the financial year's book. However, there is no noticeable mention of Muslims and other minorities in the budget presented by the Finance Minister in the Parliament for 2012-13. It indicates that the Central Government does not seem to be interested in the welfare of Muslims and other minorities during 2012-13. Probably the reason could be that no major election is going to be held in near future. Otherwise, when we look back in retrospect, we discover that only recently - on the eve of provincial elections - the politicians were busy swearing to strive for the betterment and welfare of the Muslims. However, just within a few weeks, it seems that all the tall claims and promises came to a screeching halt and even began moving in the back gear. In December 2011, central ministers had been calling meetings of the Muslim leaders and they were apparently holding consultations as to what better could be done for the minorities in the new financial year and the new five-year plan. However, by the time the Budget began being firmed up the elections had already passed by. Suddenly, Muslims disappeared from sights and minds. A certain state leader did publically accept that her party had been defeated because Muslims did not vote for it. But no similar realizations were heard from any other party. Rather the chintan baithaks inferred that the organization is weak in the state and the number of leaders is unwieldy, etc. A very high level of political sagacity and astuteness is needed to publicly accept the defeat being caused by Muslim 'no vote'.
Why no sub-plan for Muslims? 
There is a proposal in the union budget to increase by 18% the sub-plan funds allocated for the welfare of the scheduled castes. The allocation would now go up to Rs 37,113 crore. We are well aware that in 1950 the Muslims and Christians had been, unconstitutionally and clandestinely, excluded through executive fiat, from the definitive list of the scheduled castes. Yet, there is complete silence in the budget in respect of Muslims and Christians. The civil society organization Center for Equity Studies established by the former IAS officer Harsh Mander provided extensive details in its survey report of 2011 under the title Promises to Keep that the only way to implement the Sachar Committee Report is a Budget Sub-Plan for Muslims. The MoS, Minority Affairs rejected this report in the Parliament on the ground of one or two minor statistical inaccuracies. What message does this convey?
In order to promote the small-scale business the Government proposed in the budget that the ministries and public sector companies should make one fifth of their purchase from these dealers. Also one fourth thereof is to be purchased from the persons belonging to the scheduled castes. No similar plan has been proposed for Muslims and Christians. Religious prejudice against them seems to have compounded.
The Sachar Committee had recommended that the Government should confer special privileges and rewards (incentives based on diversity index) on those who proactively ensure religious diversification among the beneficiaries of their works and profession, institutions and housing complexes. The expert committee formed for this purpose by the Ministry of Minority Affairs presented its report three years back. However, the UPA Government made no mention of this scheme even in its seventh budget nor any funds were allocated for this purpose.
Waqf Development Corporation
The Sachar Committee had recommended that Waqf Development Corporation should be established at the national level. The UPA Government has presented its sixth budget after the Sachar Report's acceptance. But the Waqf Development Corporation has not yet matched up to the Government's priority. In the last year’s budget, funds had been earmarked for the new campuses of Aligarh Muslim University, but that work is yet to take off. Obviously, the last year's allocation lapsed, but there is no such mention in the current year's budget.

Muslims in Muzaffarnagar (UP) demanding reservation at a convention on 6th March 2011
Muslims regarded as persona non-grata for key posts
The Rangnath Mishra Commission had recommended that fifteen percent of funds should be allocated for minorities in all Government schemes that promote employment opportunities, out of which two third should be allocated only for Muslims. Since then the fifth budget has been presented, but still this reasonable recommendation did not crystallize. The Commission had also recommended that the PM's 15-Point Program for Minorities' Welfare should be accorded a statutory status and judicial protection. No initiative has been taken in this regard so far. The Commission had recommended the establishment of a Coordination Committee of Nationalized Banks for expediting disbursement of loans to the minorities. This well considered proposal could not find place in any of the five annual budgets. The Commission had recommended that Muslims and the members of other minorities should be included in all the commissions, boards, committees and corporations at central and state levels and the chairmanship should rotate among persons professing different faiths. Several years have gone by without any progress in this regard. The Government seems to be content that Muslims occupy only those posts which have something to do with minorities. Why can't they man the positions like union Finance Secretary, Deputy Chairman of Planning Commission, Governor of Reserve Bank, National Security Advisor, Lieutenant Governor of Delhi, IB Chief, Chairman of SCOPE (Standing Committee on Public Enterprises), Chairman of Air India, Chairman of UPSC and Staff Selection Commission, etc? Why the Muslims are permanently regarded as persona non-grata for these posts?
Minority sub-quota not exclusive for Muslims
Two days prior to the declaration of provincial assembly elections held in Feb-March 2012 the Central Government had issued orders - implementing the Mishra Commission Report - that in Government appointments, there will be a 4.5% per cent sub-quota for all the minorities carved out of the 27% OBC reservation. But the Commission had also recommended that, since among all the minorities Muslims constitute 73%, therefore two third of such sub-quota should be allocated for them. But this rider did not find place in the Government order. Here it must be clarified that the Sikhs are also included in minorities while they are also listed in the scheduled castes for whom a separate huge reservation has been in place for more than half a century. Besides, Sikhs and Jains have been occupying Government jobs for a long time in a proportion much larger than their share in population. Still the Government did not implement the Mishra Commission Report. A Muslim-specific impact remains uncommitted and uncertain even in the petty sub-quota of December 2011.
Muslim community needs self-appraisal
The Muslim community also needs to indulge in self-appraisal. Whoever is able to grab some official, semi-official or any autonomous position must go ahead and take it. But such aspiring individuals comprise less than one percent of the community. Why can't the remaining 99% be proactive for the community's uplift? They need not be apprehensive of at least plain speaking vis a vis the Government. In any case the community must not confine its role to casting the ballot at the time of elections. Dr Sir Iqbal, composer of our national song Saarey jahaan se achha Hindostaan hamaara said: Jumbish se hai zindagi jahaan ki: Dynamism enlivens the world. Elsewhere he says, a human being - conscious of his or her worth - need not be content with being a pearl inside a shell lying in deep sea. One should rather pride oneself in being that drop of rain water which stirs the ocean. Much larger number of individuals will have to become vibrant. Particularly those who retire from job, profession or business have manifold obligation. The Creator bestowed upon them competence, experience, a dignified and peaceful life, privileges, better opportunities for the education of their children who too have since settled in life. Even after retirement, by the grace of God, they continue to enjoy for long good health and sound physical faculties including an agile mind. If still they do not actively devote substantial part of themselves for social uplift that would surely be counted as sacrilegious.
(The author is President, Zakat Foundation of India, New Delhi. He can be contacted at info@zakatindia.org)

Western media and Islamophobia By Asghar Ali Engineer


Western media and Islamophobia

By Asghar Ali Engineer
Muslims keep on complaining that media is hostile to Islam and Muslims, and projects more often that not their distorted image. The Western media in particular has been quite antagonistic, particularly after the horrible incident of 9/11. But even earlier, it was not very friendly, if not hostile, to Islam and Muslims. There are complex reasons for this which must be properly understood by Muslims rather than all the time condemning the media. It is easier to condemn but difficult to understand.
We propose to analyze these reasons here in this article and on our proper understanding depends remedial measures. To start with let us keep in mind that this hostility is more political than religious though it appears to be religious. Both Islam and Christianity are global religions and rulers belonging to these two religious communities were also rivals and tried to build their empires at each others’ cost.
Islam and Christianity were never rivals as religions but political rulers were and they fought against each other and which created powerful prejudices in the minds of followers of respective religions. The crusades were most zealously fought and these crusades left deep impact on their minds. Turkey became one of the world’s greatest empires and penetrated right up to central Europe. This too left scars over the memories of Europeans.
Muslims were a dominant power right through the medieval ages and it is Europe which emerged after renaissance as a powerful force. It made tremendous advances in science and technology and soon began to colonize Asian and African countries. In these countries it was confronted with Muslim rulers. In India too the British had to defeat declining Moghul Empire to seize power.
Needless to say all this struggle for power and domination created powerful prejudices against Islam and Muslims. These rulers at times also used missionaries to aggressively preach Christianity and Muslims too responded to keep their flock together or to convert tribals to Islam as rival preachers. Such an approach made the whole struggle appear as religious rather than political.
Clash of civilizations
Thus this hostile attitude is carried over and is reflected in the media approach towards Islam and Muslims. Prof. Huntington’s Clash of Civilizations which got rave reviews in the Western media was also nothing but reflection of this attitude. This book became all the more important after collapse of the Soviet Union when the USA was looking for ‘an external enemy’ and Islam came handy for the most numerous and historical rival of western powers.
There was a sort of lull after devastations of two World Wars in which mainly Christian powers were involved and the strife was more for national domination this time than domination by two religious rivals. Once reconstruction of destroyed nations began and United Nations’ Organization (UNO) came into existence human rights and human dignity became more central than religion and religious rivalry receded into the background.
But now another factor emerged on the scene in the form of creation of Israel in what was Palestinian area. What crusades could not achieve it was achieved through Israel post-World War II. Israel was created, not so much to compensate for killing of innocent millions of Jews but to continue to dominate the Muslim world through other means. Arabs in any way were in no way responsible for anti-Semitism or killing of innocent Jews yet it is Arabs, particularly Palestinians, who were made to pay the price.
Zionism emerged as most aggressive right wing political ideology with the support of Western powers, particularly the USA which had emerged as the most powerful nation after Second World War replacing the British. Thus USA backed Israel to the hilt and continues to do so till today. Israel with its right wing ideology and neocons of USA found in each other political allies and came close to each other.
It is these elements who control US media both print as well as electronic and their interest was well served by maligning Islam and Muslims. Their alliance was not that of Jews and Christians but as right wing political forces. Similarly in Palestine the Muslim Arabs and Christian Arabs are solidly united as allies as both are victims of Zionist aggression. This makes it clear that it is not Christian or Jewish assault on Muslims but right wing political assault on Palestinians.
It is interesting to note that Western nations are generally secular and believe in secular nationalism but fully support Israel which is a religious nation and all non-Jewish people – Muslims as well as Christians – are second-class citizens. But since Israel serves the interests of Western nations it is acceptable as a key ally even if it is founded on the principle of religious nationalism. Any other nation, if based on religion, would be denounced as reactionary.
9/11
This hostility towards Islam and Muslims which has historical foundation became much more acute with the events of 9/11. Now it was an open war with Islam and Muslims. It was projected in Western media as such. It is for Muslims to deeply reflect that such terrorist acts do not achieve anything but instead, brings bad name to Islam. This act by a handful of al-Qaida followers led by Osama bin Laden has tremendously harmed Islam and thanks to Western media now it is universally believed that Islam is religion of violence.
Of course al-Qaeda never had support of majority of Muslims, it was supported by a small aggressive minority as it generally happens in other communities also. Many surveys conducted by various agencies like PEW and others also clearly showed that right from Algeria to Indonesia only a minuscule minority supported acts like that of 9/11 and yet the mainstream Western media never splashed such news prominently whereas any violent attack would be displayed most prominently.
Muslims should not only be peaceful but also appear to be so in various ways so that the media is compelled to splash such news also. If not, as we have been seeing, violence by few would be presented as if all Muslims are behind it. Also, there are other reasons too for projecting Islam and Muslims in an unfavourable light and it is for us Muslims to deeply reflect about it and bring about changes in our society.
They see lack of freedom and dictatorship in most of the Muslim countries. Instead of probing deeper they take it Islam is the main reason. Islam does not permit democracy and promotes autocracy. Many Muslim youth belonging to right wing ideologies propagate early caliphate system as the only solution and then media builds upon it.
The moment some article or cartoon or picture derogatory to Islam or the Prophet or any other holy personality appears in Western media there are violent demonstrations or even threat to kill the person who wrote the article or drew the cartoon and this leads to the conclusion that there is total intolerance and lack of freedom in Islam or Muslim societies as the Western culture is totally different.
They forget that until yesterday western society was no different and Muslim society is still pre-modern and semi-feudal. The young generation of journalists brought up in a very different culture and environment and also subject to rightwing propaganda thinks it is serious violation of human rights and write strongly against it. It thinks only western culture guarantees freedom and has democratic culture whereas Islamic societies are highly intolerant and autocratic.
The present generation of journalists has been brought up in highly commercialized world of journalism and lacks the investigative ethos of older generation. It draws instant conclusions on the basis of hasty and sketchy evidence and under pressure to quickly and sensationally. This is the truth of investigation of modern day journalism and it is investigation of the truth which is the casualty.
What is worse is that what is written in Western press or spoken and discussed in electronic media in the West is taken as gospel truth by the media in third world and reproduced in its own media. Thus it acquires global dimensions. India is no different. Though there is free and independent media but it pride itself on regurgitating what appears in Western media. And India has its own right-wing parties and ideologies which is strongly reflected specially in language media.
Media is supposed to be an essential part of democratic functioning as it cultivates public opinion but instead of creating critical opinions it caters to existing prejudices and thus strengthens status quo and majoritarian point of view. The same is true of the media in Muslim countries. It also reflects majoritarian point of view and caters to anti-minorityism and right-wing ideologies. What is worse there is hardly free media in Muslim countries except in few cases. Thus objective media is a casualty everywhere.

سوشیل میڈیاکے بیجا استعمال کا نیا رجحان ۔ جسٹس کاٹجو


فلسطینی عوام پر مظالم ہو رہے ہیں، مگر عرب ممالک خاموش ہیں، جارج گیلوے


مسجد اقصیٰ کی آزادی کی خواہش نہ رکھنے والا شخص اچھا مسلمان نہیں ہو سکتا
فلسطینی عوام پر مظالم ہو رہے ہیں، مگر عرب ممالک خاموش ہیں، جارج گیلوے

لندن ۔بریڈفورڈ ویسٹ کے ممبر آف پارلیمنٹ کا کہنا تھا کہ فلسطین کی ایک بچی جس کے والدین اور تمام بہن بھائی ایک اسرائیلی میزائل حملے میں شہید ہوئے مجھ سے پوچھ رہی تھی کہ ہمارے نصابی کتب میں پڑھائے جانے والے وہ اسلامی کردار کہاں ہیں، جو ہر ظلم کے خلاف آواز بلند کیا کرتے تھے۔

فلسطینی عوام پر مظالم ہو رہے ہیں، مگر عرب ممالک خاموش ہیں، جارج گیلوے
اسلام ٹائمز۔ ریسپیکٹ پارٹی کے رہنما اور بریڈفورڈ ویسٹ کے ممبر آف پارلیمنٹ جارج گیلوے نے امریکہ اور برطانیہ کے متضاد رویہ اور پالیسیوں کا تمسخر اڑاتے ہوئے کہا ہے کہ ڈیوڈ کیمرون انڈونیشیا کے دورے کے دوران مسلمانوں کو جمہوری رویہ اپنانے کی نصیحت کرتا ہے حالانکہ انڈونیشیا دنیا کی بڑی جمہوریت میں سے ایک ہے اور وہ بھی اس کے باجود کہ برطانیہ نے وہاں پر آمر کی حمایت تھی، مگر دوسری جانب فلسطینیوں کو ایک جمہوری حکومت منتخب کرنے کی سزاد ی جا رہی ہے اور اسرائیل نے امریکہ و برطانیہ کی حمایت سے مظلوم فلسطینیوں پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ وہ بریڈفورڈ میں فلسطین کے عوام کے لئے منعقد کردہ ایک چیریٹی ڈنر سے خطاب کر رہے تھے۔ اس موقع پر ریسپیکٹ پارٹی کے مقامی عہدیداران ارشد علی اور اقبال راٹھور اور نوید حسین بھی موجود تھے۔

جارج گیلوے نے اسرائیل کی جانب سے فلسطینی عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے کہا فلسطینی اپنے ہی وطن میں مہاجر کیمپوں میں بدترین حالات کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔ جارج گیلوے نے اسرائیلی مظالم کی منظرکشی کرتے ہوئے کہا کہ کیا کوئی اس بات کا تصور کر سکتا ہے کہ وہ خود اپنے گھر سے باہر کر دیا جائے اور اس کے گھر میں اس کے سامنے کوئی اور قیام پذیر ہو اور ایسے لوگ وہاں پر قابض ہوں جن کے پاس بروک لین، لندن، پیرس یا نیویارک میں پہلے ہی گھر موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جنین کیمپ کی مصائب سے بھرپور زندگی کا یہ عالم ہے کہ ایک اسکوائر کلومیٹر میں 14 ہزار خاندان مقیم ہیں اور یہ لوگ روزانہ ہائیفا میں اپنے گھروں پر قابض لوگوں کو اپنی آنکھوں سے بے بسی کے ساتھ دیکھتے ہیں۔

جارج گیلوے نے کہا کہ صرف اس بات کا تصور کریں کہ آپ کو ساٹھ برس سے زائد عرصہ سے اپنے گھر سے باہر رکھا جائے۔ آپ کھلے آسمان تلے پڑ ے ہوں اور کوئی دوسرا آپ کے بیڈروم میں سو رہا ہے، مگر آج کی مہذب دنیا میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے اور دنیا تماشائی ہے۔ انہوں نے عرب ممالک پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عربوں میں کوئی ایک بھی ملک ایسا نہیں جو انسانیت سوز مظالم پر انگلی اٹھانے کی بھی جرات کر سکے۔ جارج کا کہنا تھا کہ فلسطین کی ایک بچی جس کے والدین اور تمام بہن بھائی ایک اسرائیلی میزائل حملے میں شہید ہوئے مجھ سے پوچھ رہی تھی کہ ہمارے نصابی کتب میں پڑھائے جانے والے وہ اسلامی کردار کہاں ہیں، جو ہر ظلم کے خلاف آواز بلند کیا کرتے تھے۔

مسجد اقصیٰ کی حرمت بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میرے نزدیک وہ شخص اچھا مسلمان نہیں ہو سکتا جو مسجد اقصیٰ کی آزادی کی خواہش نہیں رکھتا، جہاں پر 55 سال سے کم عمر مسلمانوں کا داخلہ منع ہے، جہاں پر ہر جمعہ کو مسلمان نمازیوں پر آنسوگیس اور گولیوں کی بارش کی جاتی ہے۔ جارج گیلوے نے کہا کہ انسانیت کی اس سے زیادہ اور کیا توہین ہو گی کہ مظلوم اور بے بس عورتیں پابندیوں کے باعث آئے دن چیک پوائنٹس اور سکوریٹی دیوار کے ساتھ بچوں کو جنم دینے پرمجبور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شرکاء سے کہا کہ آپ کے غزہ جانے سے اگرچہ ان کے مصائب ختم نہیں ہوں گے مگر انہیں ایک پیغام ضرور ملے گا کہ بریڈفورڈ اور برطانیہ میں ابھی ان لوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے جو مظلوم انسانیت کا درد رکھتے ہیں۔

اپنے مرحوم نوجوان ممبر کو زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے جارج گیلوے نے کہا کہ فلسطین کے لئے جانے والے قافلے کا نام ابوبکر رؤف کانوائے ہو گا، جس کا استقبال غزہ کے ایک ملین سے زائد افراد کریں گے۔ تقریب کے اختتام پر ریسپیکٹ پارٹی کے رہنما اقبال راٹھور ، نوید حسین اور ارشد علی نے فلسطین جانے والی خاتون کیرن کو ڈاکٹر چوہان کی جانب سے دواؤں کے 2باکس پیش کئے۔ قبل ازیں ارشد علی اور دیگر نے تقریب سے خطاب کیا۔ مختلف اشیاء کی نیلامی کے ذریعے غزہ کے لئے امدادی رقوم بھی جمع کی گئیں۔

Sunday 22 April 2012

علامہ اقبال کی عصری معنویت

افکارواخلاق کامہکتا گلستاں
علامہ اقبال کی عصری معنویت
 
جدید تہذیب وتمدن نے انسانی دنیا کو جہاں بے شمار صنعتی ومشینی آلات وایجادات کی قوتوں سے بہرہ ور کیا ، وہاں عصری افکارواخلاق کی رنگارنگی سے بھی مانوس اور متاثر کرکے رکھ دیا۔ ہرمکتبۂ فکر یا نظریہ اپنے ابتدائی ایام میں پُرکشش اورقلب ونظر کو اپنی طرف مرکوز کرتاہے ،لیکن بتدریج معاشی ،تہذیبی اور عمرانی تبدیلیاں اس فکر کو وقت کی رفتار کے ساتھ یا تو کمزور کردیتی ہیں یا ان کی اہمیت بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ اشتمالی ، بورژوائی ،ترقی پسندی ، سرمایہ داری اور قوم پرستی کے افکار مختلف ممالک میں رہنے والے عوام کے ایک طبقے کو اپنی جانب متوجہ کررہے تھے لیکن مرورِ ایام کے ساتھ ان افکار ونظریات کی گرفت کمزور ہوتی چلی گئی اور اسی طرح وطنیت ، وجودیت ،نیچریت ، الحاد اور تصوریت کے دبستان افکار انسانی ذہن کو ہر دور میں متاثر بھی کرتے رہیں گے اور اس کے اندر تذبذب ، تشکیک اور ترہیب وترغیب کے ملے جلے جذبات واحساسات کو جنم بھی دیتے رہیں گے ۔
ترجمانِ حقیقت دانائے راز علامہ اقبال انسانی دنیا میں معروف ومقبول نظریات اور افکار واخلاق کے تاریخی اور عمرانیاتی پس منظر سے بخوبی آگاہ تھے اور عالمی ادب کے شہ پاروں پر بھی ان کی گہری نظر تھی ۔ وہ مختلف نظریہ ساز شخصیات کے چند نمایاں پہلوئوں اور عمدہ کارناموں سے استفادہ بھی کرچکے تھے چنانچہ عالمی ادب میں اقبال وہ منفرد نام ہے جس نے تنگ نظری اور تعصب کے دائروں سے بالاتر ہوکر جملہ مذاہب کی تعلیمات پر اپنا مثبت ردعمل ظاہر کیا اور ان مذاہب کے علمبرداروں کو اپنے منتخب کلام میں موزون مقام ومرتبے پر نہایت احترام کے اسلوب میں پیش کیا ۔ یہ اقبال کا بہت بڑا کارنامہ ہے جس کی مثال شاذونادرہی دنیائے شعر وادب میں ادب کے قارئین وشائقین کو کہیں ملے گی ۔ عصری نظریات میں اقبال مادیت اور تصوریت کے افکار کوانسانی تہذیب اور صالح قدروں کی نشونما میں بہت بڑی رکاوٹ تصور کرتے ہیں ۔ مادیت اقبال کی نظر میں انسان کو ایک بسیار خورحیوان اور مشینوں کا نظام انسان کے دل میں مروت کا جذبہ مٹا کر رکھ دیتاہے ۔ مغرب ،جہاں کے علمی اور تہذیبی سرچشموں سے اقبال فیض یاب ہوچکے تھے ، وہاں کی ہر چیز کو وہ ہدفِ تنقید نہیں بناتے بلکہ مغرب کے دانشوروں کی وسعتِ نظر کا اعتراف کرتے ہیں لیکن یورپ اور اہل یورپ جب شکم پرستی اور مادیت پر غرق ہوکر پوری دنیا کو انہی خطوط پر ڈھالنے کی سعی وجہد کرتاہے توفکرِ اقبال اس طرزف حیات پر سراپا احتجاج کرتی ہے   ؎
غربیاں گُم کردہ اَند افلاک را
درشکم جویند جانِ پاک را
نفسِ مطمئنہ کو شکم پروری کے سائے میں تلاش کرنا اقبال کے نزدیک ناممکنات میں سے ہے ۔ ان کے خیال میں ’’زمانے نے پرانے بتوں یعنی افکارواحوال کو نئے اندازوں اور نئی صورتوں میں پیش کیا ہے  لیکن میں حرم (اسلام) سے دور نہیں جاسکتا ہوں کیونکہ اس کی بنیاد مضبوط ہے     ؎
زمانہ کہنہ بتاں را ہزار بار آراست
من از حرم نگۂ شتم کہ پختہ بنیاد است
اقبال دنیا کے تمام مادی نظام ہائے زندگی کو انسانی دنیا کے لئے اذیت رساں اور روحانی سکون وراحت سے محرومی کا ذریعہ سمجھتے رہے اور ان کی نظر علم وعمل میں ہم آہنگی ہی ایک بہترین معاشرے کی تشکیل میںمعاون ثابت ہوسکتی ہے ۔یوسف حسین خان نے ’’روحِ اقبال‘‘ میں بڑی فکر انگیز بات کہی ہے ۔
’’انسان حقیقت کو عمل کے ذریعے جیتی جاگتی شکل میں محسوس کرتاہے ۔ وہ حقیقت جو محض علم تک محدود رہے ،تجریدی اور غیر یقینی رہے گی ، یقینی علم خود عمل میں مضمر ہوتاہے ۔ جب تک ہرتجریدی وجود عمل کے دھارے میں غرق نہ ہوجائے وہ حقیقت نہیں بن سکتا ۔ عمل کے ذریعے حقائق اشیاء اور انسانی خودی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ایسے گتھ جاتے ہیں کہ انہیں جدا کرنا دشوار ہوجاتا ہے۔ وہ شخص جس کی خودی عمل سے بیگانہ رہی ہو ، باوجودعمل کے ادھوری زندگی بسر کرے گا اور خوداس کا عمل بھی ادھورا رہے گا ۔ عمل کا دارومدار نیت پر ہے اور نیت انسانی سیرت کا کرشمہ ہے ‘‘   ؎
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ اخاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
فکرِ اقبال کے مطابق عمل صالح اور نیتِ صالحہ کی بنیاد پر فرد جپ اپنی خودی کو استوا رکرتا ہے تو وہ اس ذات کے قرب میں آجاتاہے جو فلسفۂ مذہب کا لب لباب ہے ۔ مادی اور مشینی افکار آدمی کو اپنے وجود کی پرستش پر آمادہ کرتے ہیں، جب کہ مذہبی اور روحانی تصورات انسانی کو اپنے خالق ومالک کا عرفان حاصل کرنے کی تحریک فراہم کرتے ہیں ۔
اقبال کے پیش کردہ پیغامات میں یہ جو خودی کانظریہ عموماً دہرایا گیا اور باربار بیان کیاجاتاہے ، اس کا خلاصہ بھی یہی ہے کہ انسان اپنا شعور، دوسرے کا شعور ، اپنی پہچان اور دوسرے کی پہچان اور بالآخر ذاتِ حقیقی کا شعور وادراک کرے اور پھر اپنے آپ کو اس کے رنگ میں ڈھالنے کی متواتر جدوجہد کرے   ؎
زندۂ یا مردۂ یا جاں بلب
از سہ شاہد را شہادت کُن طلب
شاید اوّل شعورِ خویشتن
خویش را دیدن بہ نورِ خویشتن
شاہدِ ثانی شعورِ دیگرے
خویش را دیدن بہ نورِ دیگرے
شاہدِ ثانی شعورِ دیگرے
خویش را دیدن بہ نورِ دیگرے
شاہدِ ثالث شعورِ ذاتِ حق
خویش را دیدن بہ نورِ ذاتِ حق
ترجمہ : - توزندہ ہے ، مردہ ہے یا جاں بلب ہے تین گواہوں سے شہادت ڈھونڈ۔ پہلا گواہ اپنی ذات کا عرفان ۔ اپنی ذات کو اپنی روشنی میں دیکھنا ۔ دوسرا گواہ دوسرے کی پہچان ۔ اپنے آپ کو دوسرے کی روشنی میں دیکھنا۔ تیسرا گواہ ذاتِ حق کی معرفت ۔ اپنے آپ کو ذاتِ حق کے نور کی روشنی میں دیکھنا ،یعنی اس ذات کی تلاش کے لئے مصروفِ عمل ہونا۔
دانائے راز کے نزدیک حقیقت کبریٰ تک رسائی کے د و ذریعے ہیں ، ایک تجرباتی ومشاہداتی علوم کا بلواسطہ طریقہ جس کے ذریعے انسان کائنات کے مادی مظاہر پر تفکر کرکے ان کے پیدا کرنے والے کا ادراک حاصل کرتاہے اور دوسرا ذریعہ مذہبی یا وجدانی واردہ یا تجربہ ہوتاہے جس سے انسان براہِ راست تطہیر قلب کے ذریعے صدق وصفا کے اس بلند مقام کو پالیتاہے جہاں مادی کائنات کے باطنی اسرار خود بخود اس کے دل پر کھل جاتے ہیں ۔
جدید علوم وفنون کی اہمیت اور عصری افادیت سے کوئی بھی باشعور انسان آنکھ نہیں چراسکتاہے اور ان علوم کے بغیر موجودہ دور میں زندہ رہنا ممکن بھی نہیں ہے لیکن اقبال کے نزدیک ان علوم کو اس سرچشمۂ ہدایت سے منسلک رہناہوگا   جوانسان کے لئے اس کے بنانے والے نے مختلف اوقات میں اپنے خاص بندوں کے ذریعے ارسال کیا ہے ۔ اقبال کی نگاہ میں کائنات کی مادی حقیقتوں پر انسان کے غلبہ وتصرف کا اصل مقصد اس کی لمحہ بہ لمحہ روحانی نشو ونما اور صحت کاملہ کا عرفان واحساس ہے لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ انسان اپنی خداداد صلاحیتوں کو کام میں لاتے ہوئے کائنات کے ہر ذرّے میں پوشیدہ نورِ حقیقت کی آرزو سے اپنے دل کو منور اور روح کوجِلّا بخشے ،اگر ایسا نہیں تو پھر مادی تصرف چاہے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کرے مگر وہ اپنی تاریک رات کو منور کرنے کے اہل نہیں ہوسکتاہے   ؎
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیامیں سفر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا
زندگی کے خم وپیچ میں اُلجھا ایسا
آج تک فیصلۂ نفع وضرر کر نہ سکا
عصر حاضریقینا اپنی تمام تر برق وبخارات کی ترقیات کے ساتھ آگے کی طرف گامزن ہے لیکن اسی رفتار پر اقبال کی نظرمیں فیضان سماوی یا بالفاظ دیگر دانشِ روحانی سے محروم ہورہاہے ۔ فکرِ معاش، ترجیحات ِ شکم ، جلبِ زَر ، طمع دنیا ، ہوس رانی ، تفوق ، نسبتی بالاتری ، جھوٹی سیاست اور منافقانہ انداز فکر ونظر وہ عصری افکار واخلاق ہیں ، جن کے خلاف ’’ضربِ کلیم‘‘ کی پیشانی پر اقبال نے اعلانِ جنگ کیا تھا ۔ یہ اعلان اقبال نے اسّی سال پہلے کیا تھا ، حالانکہ تب کچھ قدریں باقی تھیں ۔آج وہ زندہ ہوتے ،پتہ نہیں ان کے قلم سے کس نوعیت کے آتش باز اشعار نکلتے   ؎
مقابلہ تو زمانے کا خوب کرتا ہوں
اگرچہ میں نہ سپاہی ہوں نَے امیرِ جنود
مجھے خبر نہیں یہ شاعری ہے یا کچھ اور
عطا ہوا ہے مجھے ذکروفکر وجذب وسرود
…………
رابطہ:- اقبال انسٹی چیوٹ کشمیر یونیورسٹی