Search This Blog

Friday, 27 April 2012

سوڈان میں تیل کی جنگ…چشم کشا حقائق

سوڈان میں تیل کی جنگ…چشم کشا حقائق

-پروفیسر شمیم اختر

10 اپریل کو جنوبی سوڈان کی افواج نے شمالی سوڈان (جسے سوڈان کہا جاتا ہے) کے تیل پیدا کرنے والے علاقے Heglig پر قبضہ کرلیا تو سوڈان نے اپنا علاقہ واگزار کرنے کے لیے فوجی کارروائی اور جنوبی سوڈان کی قابض فوج پر بمباری کردی تو جنوبی سوڈان کی فوج کو وہ علاقہ خالی کرنا پڑا۔ خبروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ سوڈان کی فوجوں نے پسپا ہوتی ہوئی دشمن فوج پر فضائی حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ استعماری ٹولے نے مسلم ممالک کے ٹکڑے کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔ یہ سلسلہ جو جنگِ عظیم اول میں سلطنت ِ عثمانیہ کے حصے بخرے کرنے سے شروع ہوا تھا، برابر جاری ہے۔ چنانچہ مشرقی بنگال کی پاکستان، مشرقی تیمور کی انڈونیشیا، اور جنوبی سوڈان کی سوڈان سے علیحدگی بظاہر الگ الگ واقعات ہیں لیکن یہ ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ سوڈان افریقہ کا سب سے وسیع و عریض ملک تھا جس کی اکثریت مسلمان ہے، لیکن جنوب میں کچھ وحشی بت پرست قبائل اور عیسائی آباد ہیں جنہیں امریکہ، برطانیہ اور یورپی طاقتوں نے مرکزی حکومت کے خلاف بغاوت پر اکساکر ریاست سے علیحدگی پر آمادہ کرلیا اور ان کی چھاپہ مار فوج (سوڈان عوامی آزاد فوج) کو تربیت اور اسلحہ فراہم کرکے مرکزی حکومت سے خانہ جنگی کے لیے تیار کردیا، جب کہ مرکز میں حکومت کو کمزور کرنے کے لیے اس کے صدر عمرالبشیر اور دیگر پر غیر مسلم اقلیت اور دارفور میں آباد قبائل کی نسل کشی کے الزام میں بین الاقوامی تعزیراتی عدالت کے ذریعے ان کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری کرادیا اور ان پر سفری پابندیاں بھی عائد کردیں۔ لیکن 54 رکنی افریقی یونین نے سوڈان کے رہنمائوں کے خلاف کارروائی کرنے سے انکار کردیا۔ اس کا کہنا تھا کہ جب سے یہ عدالت قائم ہوئی ہے اس نے صرف افریقی رہنمائوں کو ہی نشانہ بنایا ہے۔ اس کا رویہ متعصبانہ ہے۔ (اکانومسٹ 23-17 مارچ 2012ئ، صفحہ 57) یہ سب استعمار باَلفاظ ِدیگر صلیبی صہیونی ٹولے کی ریشہ دوانیاں ہیں کہ دوسری ریاستوں پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لیے ان کی قیادت کی کردار کشی کرکے، خاص کر مسلم ممالک پر مذہبی انتہاپسندی کا الزام لگاکر ان کے وسائل تیل، گیس، یورینیم اور دیگر معدنیات کو لوٹنے کے لیے انسدادِ دہشت گردی کے نام پر ان پر فوج کشی کرکے قبضہ کرلیا جائے۔ چین میں برطانوی سفارت خانے سے افیون کی اسمگلنگ روکنے پر برطانیہ نے فوج کشی کرکے ہانگ کانگ پر قبضہ کرلیا۔ اسی طرح پرتگال نے مکائو پر قبضہ کرکے وہاں منشیات کا کاروبار شروع کردیا۔ 1989ء میں امریکہ نے پناما کے حکمران نوریگا پر کوکین کی اسمگلنگ کا الزام لگاکر اس چھوٹی سی ریاست پر فوج کشی کردی، اور عراق پر وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اسلحہ کی موجودگی کا جھوٹا الزام لگاکر قبضہ کیا، جبکہ افغانستان پر اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کے الزام میں وحشیانہ فضائی اور زمینی حملے کرکے قبضہ کرلیا، کیونکہ امریکہ نے وہاں ایک کھرب ڈالر کی لاگت کی معدنیات کا سراغ لگا لیا تھا اس لیے اس پر حملہ ضروری ہوگیا تھا، اب ایران پر جوہری اسلحہ کے حصول کا چرچا کرکے اس پر حملے کے لیے پرتول رہا ہے۔ استعمار دو صدی سے ایسی مذموم چالیں چل رہا ہے۔ اس کی نیت سوڈان میں چار لاکھ اسّی ہزار تیل پیپے یومیہ کی نکاسی پر خراب ہوگئی تو اس نے جنوبی سوڈان میں بسنے والی غیرمسلم اقلیت کو مسلح کرکے علیحدگی کے لیے اکسایا اور سوڈان کے صدر عمرالبشیر کو بلیک میل کرکے انہیں 1995ء میں اپنے ملک کو تقسیم کرنے پر مجبور کردیا۔ اس معاہدے کی رو سے جنوبی سوڈان کے باشندوں کو9 جولائی 2011ء کو رائے شماری کے ذریعے اپنی علیحدہ آزاد ریاست بنانے کا اختیار دیا گیا۔ اور اس دوران جنوبی سوڈان کے قبائل کو ڈالر تقسیم کرکے علیحدگی کے حق میں ووٹ دینے پر آمادہ کرلیا۔ چاروناچار عمرالبشیر کو کڑوا گھونٹ نگلنا پڑا، کیونکہ ان کے سر پر تعزیری عدالت کی شمشیر لٹک رہی تھی جس نے ان کی گرفتاری کا پروانہ جاری کردیا تھا۔ لیکن سوڈان کی تقسیم غیر فطری تھی کیونکہ شمال اور جنوب کے درمیان کوئی قدرتی حدِّ فاصل مثلاً دریا، پہاڑ یا صحرا نہیں ہے، نیز جنوب میں ڈِنکا، Lou Nuer اور Murle قبائل آپس میں برسر پیکار ہیں۔ Murle قبیلہ سوڈان کی مرکزی حکومت کی جانب سے علیحدگی پسندوں سے لڑتا رہا ہے۔ علاوہ ازیں ڈِنکا اور Lou Nuer کے لوگ جو جنوبی سوڈان کی حکومت میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں بیرونی امداد ہتھیا لیتے ہیں، خاص کر ڈِنکا جو سب سے بڑا قبیلہ ہے۔ Murle اور Lou Nuer قبائل میں پشتینی دشمنی ہے، جو Jongli ریاست میں اپنے عروج پر ہے۔ یہ قبائل مویشیوں کو چھین کر لے جاتے ہیں۔ چنانچہ اگست2011ء میں Murle قبیلے نے Jongli ریاست کے Pieri نامی قصبے پر چھاپہ مار کر Nuer قبیلے کے 600 افراد کو قتل،200 لڑکوں کو اغوا کرلیا اور پچیس ہزار گائیں لوٹ لیں۔ بعد ازاں Luer نے Pibor میں Murle قبیلے کے چار سو آدمیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ یہ قبائلی لڑائی تقسیمِ سوڈان سے پہلے سے جاری ہے اور 2009ء میں اس نے شدت اختیار کرلی۔ اس میں دارفور سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے۔ (اکانومسٹ 10 ستمبر 2011ء صفحہ 47) قارئین کو حیرت ہوگی کہ دارفور میں سوڈان کی فوج کی جانب سے کی گئی قتل و غارت گری کی داستانوں کا میڈیا میں اتنا چرچا ہوا کہ بین الاقوامی تعزیراتی عدالت نے سوڈان کے سربراہ کے خلاف پروانۂ گرفتاری جاری کردیا، لیکن جنوبی سوڈان میں غیر مسلم قبائل کی خونریزی پر پردہ ڈال دیا گیا۔ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ہم عمرالبشیر کے خلاف قانونی کارروائی کے مخالف ہیں بلکہ ہمارا مؤقف تو وہی ہے جو افریقی یونین کا ہے کہ اس بارے میں امتیازی سلوک کیوں برتا جاتا ہے؟ یہاں یہ بات بے محل نہیں ہوگی کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کینیڈا کی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ امریکہ کے سابق صدر جارج واکر بش کو جنگی جرائم کے ارتکاب کی پاداش میں گرفتار کرے، کیونکہ وہ برٹش کولمبیا کے مقام Surrey میں اقتصادی سربراہ کانفرنس منعقدہ 20 اکتوبر 2011ء کو وہاں موجود ہوگا۔ ایمنسٹی کی نمائندہ Susan Lee کا کہنا تھا کہ یہ اقدام امریکہ کو کرنا چاہیے تھا کیونکہ جارج بش نے اقوام متحدہ کے کنونشن برائے انسداد ایذا رسانی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سی آئی اے کے خفیہ قید خانوں میں زیر حراست افراد سے اقبالِ جرم کرانے کے لیے ان کے سر کو پانی میں ڈبونے جیسے انتہائی پُرتشدد طریقوں کو دورانِ تفتیش استعمال کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ (ڈان 13 اکتوبر 2011ئ) غرض عمرالبشیر اور جارج بش دونوں پر جنگی جرائم کے ارتکاب کا مقدمہ چلایا جانا چاہیے، ورنہ صرف سوڈان کے حکمران کو ہدف بنانا ناانصافی ہوگی، اور اگر جارج بش کے ساتھ ٹونی بلیئر، بارک اوباما، ڈیوڈ پیٹریس، لیون پیناٹا وغیرہ کو بھی انسانیت کے خلاف جرائم کی سزا نہیں دی جاتی تو یہ بھی ناانصافی ہوگی، کیونکہ قانون یا تو سب کے لیے یا کسی کے لیے نہیں۔ دراصل سوڈان کی تقسیم کا مسئلہ تو امریکہ کی سازش کا نتیجہ تھا، ورنہ شیشان میں روس، سنکیانگ میں چین کے مظالم کیا کم ہیں کہ ان کے حکمرانوں کو عدالت کے کٹہرے میں نہ کھڑا کیا جائے! جنوبی سوڈان نے سوڈان کو تیل کی فراہمی سے محروم کرنے کے لیے جنوری 2012ء میں تیل کی نکاسی کو مکمل طور پر بند کرنے کا اعلان کردیا، جب کہ کینیا سے اس کے لامو بندرگاہ تک پائپ لائن بچھانے کی یادداشتِ مفاہمت پر دستخط کردیے (اکانومسٹ 17-11 فروری 2012ء ص 45)۔ جب کہ خام تیل لے جانے کے لیے سوڈان میں پائپ لائن موجود تھی جو کارخانے میں تیل کی صفائی کے بعد درآمد کے لیے اسے ٹرمینل تک لے جاتی تھی۔ جنوبی سوڈان کا حکمران متبادل پائپ لائن بچھانے کے لیے امداد حاصل کرنے کی خاطر Heglig سے اپنی فوج کے انخلا کے بعد چین کے چھ روزہ دورے پر گیا ہوا ہے۔ اس صورت حال نے چین کو بڑے مخمصے میں ڈال دیا ہے جو سوڈان کا دیرینہ حلیف رہا ہے۔ جیسا کہ قرائن شاہد ہیں کہ تیل کی پیداوار کی بندش، اس کی ترسیل کے لیے متبادل پائپ لائن بچھانے کا منصوبہ اور بالآخر 10 اپریل کو سوڈان کے تیل پیدا کرنے والے علاقے Heglig پر قبضہ سوڈان کی اقتصادی حالت تباہ کرنے کا معاندانہ اقدام تھا۔

No comments:

Post a Comment