Search This Blog

Sunday 22 April 2012

اقبال کا اصلی کارنامہ

اقبال کا اصلی کارنامہ
ایک جنگ میں ایک نابینا صحابیؓ تلوار لہرا لہرا کر کفار کو للکار رہے تھے۔ کسی نے پوچھا کہ تمھیں تو کچھ نظر بھی نہیں آتا پھر کیوں اتنے پرُ جوش ہو؟ کہا، میں مسلمانوں کی ہمت بڑھا اور دُشمنوں کو خوفزدہ کر رہا ہوں۔ گویا خود عملاًشریک نہ ہو سکے تب بھی دوسروں کے حوصلے متزلزل ہونے سے بچا رہے تھے ، یہی اس صحابیؓ کا اصل کارنامہ تھا۔ اقبالؒ کا اصل کارنامہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ کسی نے اُن کو شاعر کہا کسی نے سیاستدان کسی نے فلسفی اور کسی نے ملامتی صوفی۔ سب درست مگر مجھے مولانا مودودیؒ کی وہ بات اس ضمن میں سب سے اچھی لگی تھی جب انہوں نے لکھا تھا کہ اقبال کا اصل کارنامہ یہ تھا کہ ایک ایسے دور میں اسلام کی حقانیت، قرآن کی عظمت اور پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت کی آواز بلند کی جبکہ دوسروں کا ایمان لڑکھڑا رہا تھا۔ مولانا مودودیؒ کا خیال ہے کہ اس زوال و انحطاط کے دور میں نئی تعلیم یافتہ نسل مغرب کی سیاسی اور عددی برتری اور سائنس کی حیرت انگیز سبقت سے سخت متاثر ہو رہی تھی بلکہ پُرانی نسل بھی اپنے دیرینہ عقائد و اعمال کے بارے میں ایک الجھن اور شک و تذبذب کا شکار تھی۔ ایسے میں علّامہ اقبال جو بیرونی ممالک سے اعلیٰ ترین تعلیمی اسناد حاصل کر کے واپس لوٹے تھے، نے مغرب کی ظاہری چکا چوند اور سائنس کی اصل ماہیت و حقیقت اور مغربی فلاسفہ کی تعلیمات پر کڑی نکتہ چینی کی اور مسلمانوں کا اعتماد بحال کیا۔ علیگڑھ وغیرہ کے جدید تعلیم یافتہ افراد اقبالؒ کی دنیاوی تعلیم اور رُعب دار شخصیت کے سامنے بول نہ سکے۔ یہیں سے کفر و الحاد اور نئی روشنی کی عقل پرست نسل کو ایک بہترین اور قابل اعتماد سہارا نصیب ہوا۔ اقبالؒ سے قدرتِ کاملہ نے یہی کام لینا تھا اور جسے انھوں نے بخوبی انجام دیا۔ یہ اسی دور کی باتیں ہیں جب بقول اکبرالہ آبادی محفل میں اسپنسر و مِل کا نغمہ چھیڑا گیا تھا اور دنیا میں سُپر مین بننے والے اپنی تاریخ کو ایک بُوزنہ (بندر) کے ساتھ باندھ رہے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب مسلمانوں کے بد ترین سیاسی زوال اور خلافت عثمانیہ کی شکست و ریخت کا آغاز ہو چکا تھا۔ یہ و ہ دور تھا جب ہندوستان کے مسلمان اپنے سیاسی غلبے سے محروم ہو کر محکومیت، پستی، پسماندگی، جہالت اور سرکاری ملازمتوں میں برائے نام نمائندگی کے شکار ہو چکے تھے، یہ وہ دور تھا جب اسلامی عقائد اور شرعی قوانین کے نفاذ اور عقلی ثبوت پر بحث سے اچھے خاصے لوگ شرمساری محسوس کر رہے تھے، یہ وہ دور تھا جب اشتراکیت نے اپنے فلسفہ اور سیاسی تسلط سے بہت سوں سے اپنا لوہا منوایا تھا۔ جدید تعلیم یافتہ ذہن آئن سٹائن کے نظریۂ اضافیت، کوانٹم تھیوری اور ڈارون کے نظریۂ ارتقاء کی قرآنی تعلیمات سے ثبوت، تردید یا تطبیق مانگ رہا تھا۔ یہ سب باتیں عام مولوی کے بس کی بات نہ تھی۔ اس کے لیے اقبالؒ ہی کا حکیمانہ طرز بیان، پُر زور استدلال، مغرب کے فکر و فن کے بارے میں گہرا مطالعہ اور ذاتی تجربہ و مشاہدہ درکار تھا۔ نطشے، ہیگل، دانتے، برگساں، گوئیٹے سمیت سب پر بے باکانہ اظہارِ خیال اور اُن کے طلسم کو چیلنج کرنا اور اُس کے مقابلے میں اسلام، قرآن اور پیغمبرِ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے کر سنائی ؒ، رومی ؒ، غزالیؒ اور جمال الدین افغانیؒ تک کے مشاہیرِ اسلام کی عظمت و رفعت، اُن کے پیغام و فلسفہ کی سچائی اور دورِ جدید میں اُس کے مکمل طور پر قابلِ عمل اور قابلِ نفاذ ہونے کی آواز اٹھانا اقبال ہی کی قسمت میں تھا۔ دورِ انحطاط و زوال اور شکست و ملال کے دنوں میں مسلمانوں کو ایسی ہی ایک آواز کی ضرورت تھی جو کھوئے ہووں کی جستجو ہو اور جو سب کو حوصلہ دے، ہمت دے، بہتر مستقبل کی خوش خبری دے، عزم، محنت، شجاعت اور صداقت کا یقین دلائے، مایوس نگاہوں کو کامیابی اور برحق ہونے کا پیام دے، شکستہ دلوں کو فتح کی نوید سنائے اور اُسے نگاہِ آئینہ ساز میں عزیز بتائے۔ یہی اقبالؒ کا اصل کارنامہ تھا جو وہ پچھلی صدی کے اوائل میں کر گیا۔ لوگ اقبال کی بیرونی تعلیم سے مرعوب تھے لیکن اُس نے مغربی تہذیب کو اپنے آپ خودکشی کرنے والی اور مغربی فلسفہ کو مردہ یا نزع کی حالت میں گرفتار بتایا۔ موجودہ صدی کے اوائل بھی اُس سے کچھ مختلف نہیں۔ اس لیے یا تو ایک اور اقبال کی ضرورت ہے یا اقبال کی ایک نئے رنگ اور نئے ڈگر سے تشریح کی ضرورت ہے۔
قارئین کرام! آئیے دیکھیں اقبالؒ نے اُس دور میں کیا کہا تھا؟ سب سے پہلے اُ س نے اسلام کو ایک زندہ قوت قرار دیا جو بقول ان کے’’ ذہن انسانی کو نسل و وطن کی قیود سے آزاد کر سکتی ہے اور جس کے تقدیر کو کسی دوسری تقدیر کے حوالے نہیں کیا جا سکتا ‘‘(نظریات و افکارِ اقبال، شیخ محمد علی۔ صفحہ 531)۔ دوسرا یہ کہ جب ایک ملاقاتی نے اُن سے پوچھا کہ آپ نے مذہب، اقتصادیات، سیاسیات، تاریخ اور فلسفہ وغیرہ علوم پر جو کتابیں اب تک پڑھی ہیں، ان میں سب سے بلند پایہ اور حکیمانہ کتاب آپ کی نظر سے کون سی گزری ہے؟ علامہ یہ سوال سن کر کمرے میں گئے اور واپس آکر اس شخص کے ہاتھوں پر ایک کتاب رکھتے ہوئے فرمایا: ’’قرآن کریم‘‘ (اقبال اور قرآن، ڈاکٹر غلام مصطفی خان صفحہ 20 بحوالہ روزگارِ فقیر)۔ تیسری اور سب سے بڑھ کر بات جو علّامہ نے اس دور میں بتائی وہ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تھی اس لیے کہ اسلام اور قرآن کریم کو مذہب و کتاب کی سطح سے بلند کرنے والی ذات صرف دانائے سُبل ختم الرسل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تھی جنہوں نے اپنے اسوئہ حسنہ اور عملی تعبیر و تفسیر سے یہ دکھایا کہ یہ سب باتیں محض فلسفے اور خیالات نہیں ہیں بلکہ یہ سب کچھ عملی طور پر ممکن ہو سکتا ہے اور دنیا میں ایسا کرکے دکھایا۔ اقبالؒ نے کھلے الفاظ میں کہا: ’’مسلمانوں کا فرض ہے کہ اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مدنظر رکھیں تاکہ جذبۂ تقلید اور جذبۂ عمل قائم رہے‘‘ ( اقبال اور تصوف، محمد شریف بقاء، صفحہ 205 بحوالہ تقریر میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، مطبوعہ صوفی اکتوبر 1916)۔ اقبال نے عشق محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی درست توجیہہ و تشریح میں جتنا کچھ کہا ہے اس کا احاطہ الگ سے کتابوں میں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اقبالیات پر میرے پاس بھی سینکڑوں کتابیں موجود ہیں اور اکثر بڑے پائے کی کتابیں ہیں مثلاً اقبالِ کامل (عبدالسلام ندوی)، نقوش اقبال (ابوالحسن علی ندوی)، حکمتِ اقبال (ڈاکٹر رفیع الدین)، روح اقبال (یوسف حسین خان)، برھان اقبال (پروفیسر محمد منور)، مطالعۂ اقبال کے چند نئے رخ (ڈاکٹر سید عبداللہ) اور اقبال چند نئے مباحث (ڈاکٹر تحسین فراقی) سے لے کر خلیفہ عبدالحکیم، ڈاکٹر وحید قریشی، مولانا غلام رسول مہر، عبدالمجید سالک، پروفیسر سلیم چشتی، نذیر نیازی اور پروفیسر حمید احمد خان وغیرہ تک کے مقالات، تشریحات اور ملفوظات بہت کچھ موجود ہے مگر سچ پوچھیں تو جو مزہ اور لطف و سرور ڈاکٹر محمدطاہر فاروقی کی کتاب ’’اقبال اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ میں ہے وہ کسی دوسری شاعرانہ فلسفیانہ حکیمانہ کتاب میں نہیں ہے۔ ذکرِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تو اقبال کی حالت متغیر ہو جاتی تھی اور جب ایک شخص نے اقبالؒ کی محفل میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام بے احتیاطی سے لیا تو اس کو فوراً محفل سے نکال باہر کیا۔ جب نتھو رام نے ایک کتاب ’’تاریخِ اسلام‘‘ کے نام سے انگریزی میں لکھی اور اس میں شان اقدسؐ میں انتہائی گستاخیاں کیں تو مسلمانوں نے اس شاتمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مقدمہ دائر کیا مگر کچھ نہ بنا۔ ہزارہ کے ایک نوجوان عبدالقیوم نے اپنے تیز دھار چاقو سے نتھو رام پر حملہ کیا اوراُسے واصل جہنم کیا۔ عبدالقیوم شہیدؒ پر مقدمہ چلا مگر سزائے موت برقرار رہی۔ مسلمانوں کے ایک وفد نے اقبالؒ سے اپیل کی کہ وہ وائسرائے سے رحم کی اپیل کریں مگر اقبال نہ مانے۔ بلکہ کہا کہ ’’جب عبدالقیوم خود کہہ رہا ہے کہ میں نے شہادت خریدی ہے تو میں اس کے اجر و ثواب کی راہ میں کیسے حائل ہو سکتا ہوں؟ کیا تم چاہتے ہو کہ میں ایسے مسلمان کے لیے وائسرائے کی خوشامد کروں جو زندہ رہا تو غازی اور مر گیا تو شہید ہے۔ بعد کے اشعار میں عبدالقیوم کی طرف اشارہ کرکے اپنے ایک قطعے میں یہی کہا کہ ُان شہیدوں کی دیّت اہل کلیسا سے نہ مانگو جن کا خون قدرو قیمت میں حرم سے بڑھ کر ہے‘‘۔ (اقبال اور محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: ڈاکٹر محمد طاہر فاروقی، صفحہ 8,9)۔ اقبال کی یہ باتیں کہ’’ دہر میں اسمِ محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجالا کر دے، اور محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تو نے وفا کی تو یہ جہاں کیا چیز ہے سب لوح و قلم تیرے ہیں، اور یہ کہ جب بولہب کے شعلے زیادہ بھڑکنے لگیں تو ان کو بجھانے کے لیے مصطفی کا ظہور قریب ہو جاتا ہے، اور یہ کہ ازل سے تاامروز شرارِ بولہبی چراغِ مصطفوی سے ستیزہ کار رہا ہے، اور یہ کہ شاخسارِ مصطفی کی ایک کلی، غنچہ بن جاؤ اور بہارِمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہواؤں سے کھل کے شگفتہ ہو جائے، اور یہ کہ جہاں جہاں بھی دنیائے رنگ و بُو میں کوئی مخلوق آباد ہے وہ ہمیشہ ہمیشہ نورِ مصطفوی سے فیض اور زندگی حاصل کرتی رہے گی اور یہ کہ جو بھی شخص عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ڈوب جائے اُسے وہ بے پناہ قوتیں حاصل ہو جائیں گی کہ وہ بحرو برپر اپنا تسلط جما لے گا اور یہ کہ خاکِ یثرب (مدینہ) دونوں جہانوں سے خوش تر اس لیے ہے کہ اُس شہر پُر نور میں دونوں جہان کا آقا موجود ہیں، اور یہ کہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچو اس لیے کہ اصل دین وہی ہے، باقی فلسفے اور نظام تمام بولہبی اور کفر ہیں‘‘ اور اس طرح کی بے شمار باتیں اقبالیات کے طلبا و طا لبات کو معلوم ہیں اور ان سب پر محققین نے طرح طرح سے لکھا ہے،یہ اُس دورِ زوال و شکست اور مغلوبیت و محکومیت میں ایک توانا اور حیات بخش صدا تھی جو کاشانۂ اقبال سے بلند ہوئی اور گرتے لڑکھڑاتے اور مایوس و غمگین دلوں کو گرما گئی۔ ایسے عقل پرست، فلسفہ پرست، ظاہر پرست اور مادہ پرست ماحول میں اقبال نے مسلمانوں کا رُخ مدینے کی طرف موڑا اور کہا ’’کیا تم نہیں جانتے کہ یہ عشق و مستی (جو انسانی بقا کے لیے ضروری ہے) کہاں سے آتی ہے؟ یہ سرشاری و سرمستی آفتاب مصطفوی کے انوار و تجلیات کی ایک کرن ہے۔ یہ نصیب میں آگئی تو سب کچھ مل گیا۔ جب تک اس کا سوز انسان میں ہے اسی وقت تک اسے حقیقی زندگی میسر ہے۔ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک بحرِ ذخّار کے مانند ہیں جس کی موجیں آسمان کو چھوتی ہیں۔ تم بھی اسی سمندر سے سیرابی حاصل کرو تاکہ تمھیں نئی زندگی ملے اور تمھاری وہ بھولی بسری کیفیات جنھیں مادی دنیا نے تم سے چھین لیا ہے از سرِ نو تم کو مل جائے۔ سچ یہ ہے کہ آپؐ کی ذات گرامی جیسا دوسرا کوئی فرزند مادرِ گیتی کے پیٹ سے پیدا نہیں ہوا۔ مسلمانوں کا وجود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے جلووں سے روشن ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں کی خاک ایسی مقدس اور بلند رتبہ ہے کہ اس سے طور جنم لیتے ہیں۔ میرا جسمانی وجود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پرِ تو سے ظہور میں آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نورانی اور مقدس سینے سے میری صحبتیں روشن و درخشاں رہتی ہیں۔ ہر لمحہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فراق میں تڑپنا میرے لیے باعثِ راحت ہے۔ میری شامِ فراق صبحِ محشر سے زیادہ گرم ہے۔ وہ بہار کابادل ہیں تو میں اس بادل سے شاداب کیا ہوا باغ ہوں۔ میں کہ میرا وجود انگور کی بیل کے مانند ہے اور میں انہی کے بارانِ کرم سے سیراب ہوں‘‘ (ایضاً۔ بحوالہ مثنوی مسافر اور اسرار و رموز)۔ اقبال کا اپنی تمام تر فنی، علمی اور فکری قابلیت کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظرِ عنایت قرار دینا ہی دراصل ایک ایسی بات تھی کہ مسلمانوں کے حوصلے بحال ہوئے اور جدید ذہن کے شکوک و شبہات دور ہوئے۔ یہی ان کا اصل کارنامہ ہے۔ معلوم نہیں اقبالیات میں خالص اس موضوع پر کوئی کام ہوا ہو۔ رہے نام اللہ کا۔

No comments:

Post a Comment