Search This Blog

Sunday, 22 April 2012

کشمیر: اقبال شناسوں کی کہکشاں

کشمیر: اقبال شناسوں کی کہکشاں

کشمیر کی سیاسی اور سماجی تاریخ میں علامہ اقبالؔ کی بلند قامت شخصیت نمایاں مقام کی حامل ہے۔ انہوں نے نہ صرف گلشنِ کشمیر کے دل فریب نظاروں، فلک رس کہُساروں، ترنم ریز آبشاروں اور حسین و جمیل مرغزاروں کے دلکش حُسن کی منظر کشی کرتے ہوئے    ؎
            پانی ترے چشموں کاتڑپتا ہوا سیماب
            مرغانِ سحر تیری فضائوں میں ہیں بیتاب
                        اے وادی لو لاب
جیسے متعدد اشعار اور نظمیں لکھ کر جنتِ کشمیر کی حسین فضائوں کو خراج تحسین پیش کیا ہے بلکہ کشمیر ان کی روح کی گہرائیوں میں آباد رہا ۔ یاد رہے کہ کشمیر صدیوں سے محکومی ، پسماندگی اور بے چار گی کا ہدف رہا۔ یہ فرزندِ کشمیر علامہ اقبال ؒہی تھے جنہوں نے کشمیر کے درد کو شدت سے محسوس کیا اور ایک مخلص رہنما کی حیثیت سے ، کشمیریوں کی سیاسی محکومی، معاشی بد حالی اور نفسیاتی دبائو کی داستانِ الم اقوام عالم کے ایوانوں تک پہنچانے میں تاریخ ساز کر دار ادا کیا۔ تحریک حرّیت کشمیر سے علامہ اقبالؔ کی فکری و عملی وابستگی کے تعلق سے کلیم اختر اپنے ایک مضمون  ’’ اقبالؔ اور آزادی کشمیر‘‘ میں لکھتے ہیں۔
’’حقیقت یہ ہے کہ علامہ تازیست تحریک حریت کشمیر سے فکری و عملی طور پر وابستہ رہے اور زندگی کے کسی دور میں بھی اس سے لا تعلق یا بیگانہ نہیں ہوئے‘‘۔
چنانچہ علامہ اقبالؔ کشمیریوں کی طویل غلامی کے خاتمے کی دُعا کرتے ہوئے جد باتی لہجے میں فرماتے ہیں    ؎
پنجۂ ظلم و جہالت نے بُرا حال کیا
بن کے مقراض ہمیں بے پرو بال کیا
توڑ اُس دستِ جفا کیش کو یار ب جس نے
روحِ آزادی کشمیر کو پامال کیا
درجہ بالا حقائق کی روشنی میں جب جموں و کشمیر میں اقبالؔ شناسی کی خدمات کا سوال ذہن میں ابھرتا ہے تو اس خدمات کی بہت سی جہتیں نظروں کے سامنے آتی ہیں۔ جس طرح علامہ اقبالؔ کو کشمیر اور کشمیریوں کے ساتھہ قلبی اُنس تھا اُسی طرح کشمیری بھی اپنے اُس مُخلص رہنما کی احسان مندی کا اعتراف مختلف زاؤیوں سے کرتے آئے ہیں، جس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ کشمیر کے پیرو جواں کے ذہنوں پر علامہ کا نام و پیام کسی نہ کسی صورت میں ہمیشہ چھایا رہتا ہے۔
جہاں تک جموں و کشمیر میں اقبالؔ شناسی کی خدمات کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں حوصلہ افزاء بات یہ ہے کہ علامہ اقبالؔ کی زندگی میں اُردو میں جو پہلی کتاب کلامِ اقبالؔ پر تحریر ہوئی تھی میری معلومات کے مطابق وہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے مولوی احمد الدّین کی کتاب ’’اقبالؔ پر ایک نظر‘‘ ہے۔  1926ء میں اس کتاب کے شائع ہونے سے کتابی صورت میں اقبالؔ شناسی کی روایت کی بنیاد پڑگی۔
جموں و کشمیر میں اقبالؔ شناسی کے باب میں جن شاعروں، مفکروں، عالموں، دانشوروں، محققوں اور مورخین و ناقدین نے علامہ اقبالؔ کے فکرو فن اور شخصیت کے مختلف گوشوں پر قابل قدر خدمات انجام دی ہیں ان میں منشی محمد الدین فوقؔ، مہجورؔ کا شمیری ، ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم، ڈاکٹر محمد رفیع الدین، جناب کلیم اختر، پروفیسر جگن ناتھ آزاد، پر وفیسر حامدی کاشمیری، سید علی شاہ گیلانی، پروفیسر محمد امین اندرابی، پروفیسر اکبر حیدری کا شمیری، جناب محمد یوسف ٹینگ، جناب حکیم منظور، پروفیسر غلام رسول ملک، جناب غلام نبی خیالؔ، پروفیسر مرغوب بانہالیؔ، پروفیسر محمد اسداﷲ وانی، ڈاکٹر بدرالدین بٹ، پروفیسر سید حبیب، جناب عبداﷲ خاورؔ، ڈاکٹر نذیر احمد شیخ، پروفیسر بشیر احمد نحوی، پروفیسر تسکینہ فاضل ، ڈاکٹر مشتاق احمد گنائی اور ڈاکٹر نذیر احمد (دور درشن سرینگر ) خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ جن مفکروں اور ناقدوں نے اپنی ملازمت کے سلسلے میں کشمیر میں اقامت کے دوران اقبالؔ شناسی میں خاطر خواہ اضافہ کیا ان میں پروفیسر آلِ احمد سرورؔ ، پروفیسر خوند میری ، پروفیسر سراج الدین ، پروفیسر کبیراحمد جائسی، پروفیسر مسعود حُسین خان ، پروفیسر عبدالحق ، پروفیسر قدوس جاوید وغیرہ کی خدمات بھی بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ ان اقبالؔ شناسوں نے اقبالؔ اور اقبالیات کے مختلف پہلوئوں پر سیر حاصل کام کیا ہے اور علامہ کی دانشوری، تخلیقیت، شخصیت، بصیرت، فکرو نظر، تنقیدی شعور اور سیاسی آگاہی جیسے پہلوئوں پر بصیرت افروز مقالات اور کتابیں لکھی ہیں۔ یہاں پر میں یہ بات بِلا خوفِ تردید کہنا چاہونگا کہ اقبالؔ شناسی کی تاریخ میں علامہ کی شخصیت اور فکرو فن پر جو کام کشمیر میں ہوا ہے وہ اقبالؔ کے تئیں بہترین خراج عقیدت ہے۔ پچھلی ایک دہائی میں اقبالیات کے حوالے سے کشمیر میں جو کتابیں سامنے آئیں ہیں ،میرے ناچیز خیال میں ان میں دو کتابیں بڑی اہمیت کی حامل ہیں ۔ ایک پروفیسر حامدی کا شمیری کی کتاب ’’اقبالؔ کا تخلیقی شعور ‘‘ اور دوسری پروفیسر قدوس جاوید کی کتاب ’’ اقبال کی تخلیقیت ‘‘ ہے ۔ تنقیدی نوعیت کی یہ دونوں کتابیں اقبالؔ کے فکرو فن کو جدید تنقیدی زاؤیے سے پرکھنے کے عمل کو پیش کرتی ہیں۔ ان کے مطالعہ سے ظاہر ہو رہا ہے کہ کئی امور میں اختلاف ہونے کے باوجود یہ کتابیں مطالعہ اقبالؔ کے تعلق سے نئے امکانات کی نشان دہی بھی کرتی ہیں اور اقبالیات کے دانشوروں اور ناقدوں کو مزید نئے گوشتہ ہائے فکر ونظر کی جانب دعوت فکر بھی دے رہی ہیں۔
کشمیر میں اقبالؔ فہمی اور اقبالؔ شناسی کو فروغ دینے میں کچھ اداروں کا رول بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ان میں اقبال انسٹی ٹیوٹ کشمیر یونیورسٹی ،جموں و کشمیر اکادمی آف آرٹ، کلچر اینڈ لینگویجز، اقبالؔ اکادمی کشمیر وغیرہ شامل ہیں،۔ اقبالؔ انسٹی ٹیوٹ کشمیر یونیورسٹی وہ واحد ادارہ ہے جو اقبالؔ فہمی اور اقبالؔ شناسی کے میدان میں تحقیقی وتنقیدی، تالیفی و تصنیفی اور تقریری و تدریسی سطح پر تاریخی کردار ادا کر رہا ہے۔ جیسا کہ پروفیسر حامدی کاشمیری ’’ اقبالؔ کا تخلیقی شعور‘‘ میں اس تعلق سے لکھتے ہیں کہ ’’ بلا شبہ اقبالؔ انسٹی ٹیوٹ نے اقبالؔ فہمی میں ایک اہم اور تاریخی کردار ادا کیا ہے۔‘‘
علامہ اقبالؔ کے کلام و پیام کو عام قاری تک پہنچانے میں کشمیر سے شائع ہو رہے اخبارات اور رَسائل کی خدمات بھی قابل داد ہیں۔ اس تعلق سے اخبارات میں آفتاب، سرینگر ٹائمز، کشمیر عظمیٰ، گریٹر کشمیر، قومی وقار، مومن اور رَسائل میں اقبالیات، بازیافت، شیرازہ، حکیم الامت وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اس سلسلے میں دور درشن کیندر سرینگر اور ریڈیو کشمیر سرینگر کی خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں۔
محکمہ تعلیم جموں و کشمیر کا یہ قدم بھی قابل ستائش ہے کہ پچھلے چند برسوں سے یہ محکمہ ریاستی سطح پر تعلیمی اداروں میں یومِ اقبالؔ کی تقاریب منعقد کر ا رہا ہے۔ تاہم سرکاری سطح پر ہائر اسکینڈری سے لے کر کالج سطح کے نصاب میں کلامِ اقبالؔ کو ترجیحی بنیادوں پر شامل کر نے کی ضرورت ہے تاکہ ان اداروں میں زیر تعلیم افراد بھی صحیح معنوں میں اقبالؔ کے مذہبی، اخلاقی، سیاسی ، سماجی اور تعلیمی وادبی افکار سے روشناس ہو سکیں۔
اس مختصر سے جائز ے کے بعد آخر پر میں اس حقیقت کا اظہار کرنا مفید سمجھتا ہوں کہ کشمیر کی نئی نسل جس جو ش و جذبے کے ساتھ اقبالیاتی سمیناروں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں اور اس میں کلامِ اقبالؔ کو پڑھنے، سمجھنے اور اس سے استفادہ کرنے کا جو رحجان نظر آرہا ہے وہ کشمیر میں کلامِ اقبالؔ کی معنویت کی توسیع کا تسلی بخش ثبوت بھی پیش کر رہا ہے اور اقبالؔ شناسی کے روشن ترامکانات کا جواز فراہم کرتے ہوئے علامہ کے اس مشہور شعر کی معنوی عکاسی بھی کر رہا ہے کہ   ؎
نہیں ہے نا اُمید اقبالؔ اپنی کِشتِ ویراں سے
ذرانم ہوتو یہ مٹی بہت زر خیز ہے ساقی

No comments:

Post a Comment