Search This Blog

Saturday, 21 April 2012

عالمگیریت کا جنون اور اس کی قیمت

عالمگیریت کا جنون اور اس کی قیمت

مسعود انور 

-عالمگیریت ایک جنون ہے جو سفید فام نسل میں بری طرح سے سرایت کرگیا ہے۔ سفید فام نسل ہی کیا اس کے اوپر مسلط کردہ حکمراں ایک عالمگیر حکومت کے خمار میں اس بری طرح سے مبتلا ہیں کہ ان کو اس کے وہ نتائج بھی نظر نہیں آرہے جو اب ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ آزاد ممالک کے خلاف جنگ، ہر جگہ حملے، مختلف حکومتوں کے خلاف سازشیں، یہ سب اتنے وسیع پیمانے پر ہورہا ہے کہ اس سے پہلے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ جنگ کی اس پھیلتی آگ نے اب ان ممالک کو بھی نگلنا شروع کردیا ہے جنہوں نے اس کو شروع کیا تھا۔ روز بڑھتی بیروزگاری کے نتیجے میں بھوک و افلاس کا عفریت اب رفتہ رفتہ امریکا و برطانیہ کو بھی اپنے قبضے میں لیتا جارہا ہے۔ 

امریکا کی سرکاری رپورٹ کے مطابق اپریل کے تیسرے ہفتے میں بیروزگاری کی شرح میں مزید اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ خبررساں ایجنسی بلوم برگ کے مطابق اس وقت امریکا میں بیروزگاری کی شرح گزشتہ چار برسوں میں بلند ترین سطح پر ہے۔ امریکا، برطانیہ یا دیگر ترقی یافتہ ممالک میں بیروزگاری اور پاکستان و ہندوستان میں بیروزگاری میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ یہاں پر بیروزگاری کا مطلب ہے کہ ایک دن مزید فاقے کے ساتھ مگر امریکا، برطانیہ و دیگر ترقی یافتہ ممالک میں بیروزگاری کا مطلب انتہائی ہیبت ناک ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب آپ نہ صرف اپنے آرام دہ گھر سے نکل کر سڑک پر آجائیں گے بلکہ آپ کو اپنی کار سمیت تمام آسائشوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑیںگے۔ ان ممالک میں یہ ساری آسائشیں کریڈٹ کارڈ کی مرہون منت ہیں۔ فلیٹ قرضے پر لیا ہوا ہے۔ اس کا فرنیچر بھی قرضے پر ہی حاصل کیا گیا تھا۔ فرج میں کھانے پینے کی اشیاء بھی کریڈٹ کارڈ پر ہی خریدی گئی ہیں۔ کار بھی لیزنگ پر حاصل کی گئی تھی اور اس میں ایندھن بھی کریڈٹ کارڈ سے ہی ڈلوایا جاتا ہے۔


ان ممالک میں بیروزگاری کامطلب یہ ہے کہ اب آپ قرض کی مزید قسطوں کی ادائیگی کے اہل نہیں رہے اور نادہندگان کی فہرست میں آپ کا نام آگیا ہے۔ نادہندگان کی فہرست میں نام کی شمولیت کا آسان ترین مطلب یہ ہے کہ اب آپ کا بنک آپ کو فلیٹ اور کار سے بے دخل کرکے اس کو اپنے قبضے میں لے لے گا اور اس کو قانونی کارروائی کے بعد قرق کردے گا۔ آپ کا کریڈٹ کارڈ بھی بند کردیا گیا ہے۔ بچت پہلے سے ہی نہیں تھی۔ لیجیے جناب اب لگ جائیے خیراتی کھانے کی قطار میں اور سوئیے کسی پارک کی بنچ پر۔


برطانیہ کے ایک جریدے ایوننگ اسٹینڈرڈ میں شائع ہونے والے ایک آرٹیکل کے مطابق گزشتہ ایک برس میں برطانیہ میں غربت و افلاس کی سطح میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق اس وقت برطانیہ میں 24 فیصد کے قریب آبادی غربت کی لکیر کو پار کرچکی ہے۔ بچوں میں اس کی شرح اور بھی خوفناک ہے۔ اس وقت برطانیہ میں ہر تین بچوں میں سے ایک بچہ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے جبکہ کئی علاقوں میں یہ تعداد پچاس فیصد تک بھی ہے۔ فیچر رائٹر ڈیوڈ کوہن اپنے آرٹیکل "In 2012, thousands of children are starving on the streets of London" میں ایک خیراتی ادارے میں آنے والے بچوں کی خوفناک حالت کی منظر کشی کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ان کو دیکھ کر ترس کے ساتھ ساتھ خوف بھی آتا ہے۔ یہ خیراتی ادارہ ہر ہفتہ دو ہزار بچوں کو کھانا مہیا کرتا ہے۔ ڈیوڈ کوہن کے مطابق اس ادارے میں آنے والے بچے خوراک کی انتہائی کمی کا شکار ہیں۔ افلاس ان کے چہرے سے عیاں ہے۔ خوراک کی کمی کی وجہ سے ان میں سے اکثر بچے جو 8 برس کے ہیں، جسامت سے چھ برس کے اور چھ برس کے بچے تین اور چار برس کے نظر آتے ہیں۔


برطانیہ نے جو تین ماہ بعد ہی اولمپک کی میزبانی کرنے جارہا ہے، اس امر کو یقینی بنایا ہے کہ آنے والے سیاحوں سے برطانیہ کی یہ سیاہ تصویر چھپائی جاسکے۔ کوہن لکھتا ہے کہ آپ کو اولمپک کے دوران لندن کی سڑکوں پر یقینا افلاس کے مارے ہوئے یہ بچے نظر نہیں آئیں گے کیوں کہ سرکاری اداروں نے اس کا مکمل بندوبست کیا ہوا ہے۔


اس خیراتی ادارے Kids Company کی سربراہ Camila Batmanghelidjh نے جریدے کو بتایا کہ گزشتہ عشرے کے دوران بھوک کے شکار بچوں کی تعداد میں ان کے پاس پانچ گنا اضافہ ہوا ہے جبکہ بھوک کے مارے ازخود آنے والے بچوں کی تعداد گزشتہ ایک برس میں دوگنی ہوگئی ہے۔ کامیلا ان بچوں کی کئی آبدیدہ داستانیں سناتی ہیں۔ ایک بچے نے ان کو بتایا کہ وہ اور اس کا بھائی ایک مرتبہ بھوک سے اتنا بے تاب ہوگئے تھے کہ ایک فلیٹ سے جہاں پر وہ ملنے گئے تھے، انہوں نے فرج سے منجمد گوشت چرالیا اور اس کو وہ دونوں بھائی کچا ہی کھاگئے۔ کامیلا کا کہنا ہے کہ ہم روز ان بچوں کی تعداد میں اضافہ ہی دیکھ رہے ہیں جن کے والدین بیروزگاری کا شکار ہیں اور اب وہ اپنے بچوں کو فاقوں سے بچانے کے لیے کچھ نہیں کرسکتے ۔ یہ والدین صرف وہ نہیں ہیں جو دیگر ممالک سے نقل مکانی کرکے یہاں آئے ہیں بلکہ ان میں لندن ہی میں پیدا ہونے اور بڑے ہونے والے لوگ بھی شامل ہیں۔ 


ایک ایسے دور میں جہاں امیر مزید امیر اور غریب مزید غریب ہوتا جارہا ہے، ایسے افراد کی تعداد میں اضافہ ہونا ناگزیر ہے۔ گزشتہ سال لندن میں رہنے والے ایک ہزار امیر ترین افراد کی دولت میں مزید اٹھارہ فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا تھا۔ ان ایک ہزار افراد کی مجموعی دولت کا اندازہ 395.8 ارب اسٹرلنگ پاؤنڈ لگایا گیا تھا۔ جبکہ بڑھتے ہوئے ٹیکسوں کی وجہ سے ایک عام آدمی کی آمدنی میں 552 پاؤنڈ کی کمی ریکارڈ کی گئی۔


یہ تمام ٹیکس صرف اور صرف جنگ کے اخراجات پورے کرنے کے لیے لگائے جارہے ہیں۔ جنگ سے کس کو فائدہ پہنچتا ہے۔ یہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں۔ ایک مرتبہ پھر اس کا اعادہ کرتے ہیں۔ جنگ ہوگی تو ہوائی جہاز، بحری جہاز بھی درکار ہوں گے اور گولہ `بارود بھی۔ ان تمام کے لیے ایندھن بھی درکار ہوگا۔ فوجیوں کے لیے غذا بھی چاہیے ہوگی اور یونیفارم وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب کون بنائے گا۔ ان ساری کمپنیوں کے مالک یہ عالمی سازش کرر ہے ہیں جن کی دولت میں ہر روز کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ ایک عالمگیر حکومت کا عفریت ہر سو پھیلتا جارہا ہے اور اس نے ان ممالک کو بھی اپنے سائے میں لینا شروع کردیا ہے جہاں سے اس کا آغاز ہوا تھا۔ امریکا و برطانیہ کے ان فاقہ زدہ بچوں کا تصور کیجئے۔ آپ کو ان میں اور عراق، لیبیا یا افغانستان کے بچوں میں کوئی فرق نظر نہیں آئے گا مگر اس تاریک تصویر کو کوئی شرمین عبید دکھانے کو تیار نہیں۔ اور نہ ہی کوئی سول سوسائٹی اس عالمگیریت کے خلاف شمعیں روشن کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ مشتری ہشیار باش۔

No comments:

Post a Comment