Search This Blog

Sunday 22 April 2012

علامہ اقبال کی عصری معنویت

افکارواخلاق کامہکتا گلستاں
علامہ اقبال کی عصری معنویت
 
جدید تہذیب وتمدن نے انسانی دنیا کو جہاں بے شمار صنعتی ومشینی آلات وایجادات کی قوتوں سے بہرہ ور کیا ، وہاں عصری افکارواخلاق کی رنگارنگی سے بھی مانوس اور متاثر کرکے رکھ دیا۔ ہرمکتبۂ فکر یا نظریہ اپنے ابتدائی ایام میں پُرکشش اورقلب ونظر کو اپنی طرف مرکوز کرتاہے ،لیکن بتدریج معاشی ،تہذیبی اور عمرانی تبدیلیاں اس فکر کو وقت کی رفتار کے ساتھ یا تو کمزور کردیتی ہیں یا ان کی اہمیت بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ اشتمالی ، بورژوائی ،ترقی پسندی ، سرمایہ داری اور قوم پرستی کے افکار مختلف ممالک میں رہنے والے عوام کے ایک طبقے کو اپنی جانب متوجہ کررہے تھے لیکن مرورِ ایام کے ساتھ ان افکار ونظریات کی گرفت کمزور ہوتی چلی گئی اور اسی طرح وطنیت ، وجودیت ،نیچریت ، الحاد اور تصوریت کے دبستان افکار انسانی ذہن کو ہر دور میں متاثر بھی کرتے رہیں گے اور اس کے اندر تذبذب ، تشکیک اور ترہیب وترغیب کے ملے جلے جذبات واحساسات کو جنم بھی دیتے رہیں گے ۔
ترجمانِ حقیقت دانائے راز علامہ اقبال انسانی دنیا میں معروف ومقبول نظریات اور افکار واخلاق کے تاریخی اور عمرانیاتی پس منظر سے بخوبی آگاہ تھے اور عالمی ادب کے شہ پاروں پر بھی ان کی گہری نظر تھی ۔ وہ مختلف نظریہ ساز شخصیات کے چند نمایاں پہلوئوں اور عمدہ کارناموں سے استفادہ بھی کرچکے تھے چنانچہ عالمی ادب میں اقبال وہ منفرد نام ہے جس نے تنگ نظری اور تعصب کے دائروں سے بالاتر ہوکر جملہ مذاہب کی تعلیمات پر اپنا مثبت ردعمل ظاہر کیا اور ان مذاہب کے علمبرداروں کو اپنے منتخب کلام میں موزون مقام ومرتبے پر نہایت احترام کے اسلوب میں پیش کیا ۔ یہ اقبال کا بہت بڑا کارنامہ ہے جس کی مثال شاذونادرہی دنیائے شعر وادب میں ادب کے قارئین وشائقین کو کہیں ملے گی ۔ عصری نظریات میں اقبال مادیت اور تصوریت کے افکار کوانسانی تہذیب اور صالح قدروں کی نشونما میں بہت بڑی رکاوٹ تصور کرتے ہیں ۔ مادیت اقبال کی نظر میں انسان کو ایک بسیار خورحیوان اور مشینوں کا نظام انسان کے دل میں مروت کا جذبہ مٹا کر رکھ دیتاہے ۔ مغرب ،جہاں کے علمی اور تہذیبی سرچشموں سے اقبال فیض یاب ہوچکے تھے ، وہاں کی ہر چیز کو وہ ہدفِ تنقید نہیں بناتے بلکہ مغرب کے دانشوروں کی وسعتِ نظر کا اعتراف کرتے ہیں لیکن یورپ اور اہل یورپ جب شکم پرستی اور مادیت پر غرق ہوکر پوری دنیا کو انہی خطوط پر ڈھالنے کی سعی وجہد کرتاہے توفکرِ اقبال اس طرزف حیات پر سراپا احتجاج کرتی ہے   ؎
غربیاں گُم کردہ اَند افلاک را
درشکم جویند جانِ پاک را
نفسِ مطمئنہ کو شکم پروری کے سائے میں تلاش کرنا اقبال کے نزدیک ناممکنات میں سے ہے ۔ ان کے خیال میں ’’زمانے نے پرانے بتوں یعنی افکارواحوال کو نئے اندازوں اور نئی صورتوں میں پیش کیا ہے  لیکن میں حرم (اسلام) سے دور نہیں جاسکتا ہوں کیونکہ اس کی بنیاد مضبوط ہے     ؎
زمانہ کہنہ بتاں را ہزار بار آراست
من از حرم نگۂ شتم کہ پختہ بنیاد است
اقبال دنیا کے تمام مادی نظام ہائے زندگی کو انسانی دنیا کے لئے اذیت رساں اور روحانی سکون وراحت سے محرومی کا ذریعہ سمجھتے رہے اور ان کی نظر علم وعمل میں ہم آہنگی ہی ایک بہترین معاشرے کی تشکیل میںمعاون ثابت ہوسکتی ہے ۔یوسف حسین خان نے ’’روحِ اقبال‘‘ میں بڑی فکر انگیز بات کہی ہے ۔
’’انسان حقیقت کو عمل کے ذریعے جیتی جاگتی شکل میں محسوس کرتاہے ۔ وہ حقیقت جو محض علم تک محدود رہے ،تجریدی اور غیر یقینی رہے گی ، یقینی علم خود عمل میں مضمر ہوتاہے ۔ جب تک ہرتجریدی وجود عمل کے دھارے میں غرق نہ ہوجائے وہ حقیقت نہیں بن سکتا ۔ عمل کے ذریعے حقائق اشیاء اور انسانی خودی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ایسے گتھ جاتے ہیں کہ انہیں جدا کرنا دشوار ہوجاتا ہے۔ وہ شخص جس کی خودی عمل سے بیگانہ رہی ہو ، باوجودعمل کے ادھوری زندگی بسر کرے گا اور خوداس کا عمل بھی ادھورا رہے گا ۔ عمل کا دارومدار نیت پر ہے اور نیت انسانی سیرت کا کرشمہ ہے ‘‘   ؎
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ اخاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
فکرِ اقبال کے مطابق عمل صالح اور نیتِ صالحہ کی بنیاد پر فرد جپ اپنی خودی کو استوا رکرتا ہے تو وہ اس ذات کے قرب میں آجاتاہے جو فلسفۂ مذہب کا لب لباب ہے ۔ مادی اور مشینی افکار آدمی کو اپنے وجود کی پرستش پر آمادہ کرتے ہیں، جب کہ مذہبی اور روحانی تصورات انسانی کو اپنے خالق ومالک کا عرفان حاصل کرنے کی تحریک فراہم کرتے ہیں ۔
اقبال کے پیش کردہ پیغامات میں یہ جو خودی کانظریہ عموماً دہرایا گیا اور باربار بیان کیاجاتاہے ، اس کا خلاصہ بھی یہی ہے کہ انسان اپنا شعور، دوسرے کا شعور ، اپنی پہچان اور دوسرے کی پہچان اور بالآخر ذاتِ حقیقی کا شعور وادراک کرے اور پھر اپنے آپ کو اس کے رنگ میں ڈھالنے کی متواتر جدوجہد کرے   ؎
زندۂ یا مردۂ یا جاں بلب
از سہ شاہد را شہادت کُن طلب
شاید اوّل شعورِ خویشتن
خویش را دیدن بہ نورِ خویشتن
شاہدِ ثانی شعورِ دیگرے
خویش را دیدن بہ نورِ دیگرے
شاہدِ ثانی شعورِ دیگرے
خویش را دیدن بہ نورِ دیگرے
شاہدِ ثالث شعورِ ذاتِ حق
خویش را دیدن بہ نورِ ذاتِ حق
ترجمہ : - توزندہ ہے ، مردہ ہے یا جاں بلب ہے تین گواہوں سے شہادت ڈھونڈ۔ پہلا گواہ اپنی ذات کا عرفان ۔ اپنی ذات کو اپنی روشنی میں دیکھنا ۔ دوسرا گواہ دوسرے کی پہچان ۔ اپنے آپ کو دوسرے کی روشنی میں دیکھنا۔ تیسرا گواہ ذاتِ حق کی معرفت ۔ اپنے آپ کو ذاتِ حق کے نور کی روشنی میں دیکھنا ،یعنی اس ذات کی تلاش کے لئے مصروفِ عمل ہونا۔
دانائے راز کے نزدیک حقیقت کبریٰ تک رسائی کے د و ذریعے ہیں ، ایک تجرباتی ومشاہداتی علوم کا بلواسطہ طریقہ جس کے ذریعے انسان کائنات کے مادی مظاہر پر تفکر کرکے ان کے پیدا کرنے والے کا ادراک حاصل کرتاہے اور دوسرا ذریعہ مذہبی یا وجدانی واردہ یا تجربہ ہوتاہے جس سے انسان براہِ راست تطہیر قلب کے ذریعے صدق وصفا کے اس بلند مقام کو پالیتاہے جہاں مادی کائنات کے باطنی اسرار خود بخود اس کے دل پر کھل جاتے ہیں ۔
جدید علوم وفنون کی اہمیت اور عصری افادیت سے کوئی بھی باشعور انسان آنکھ نہیں چراسکتاہے اور ان علوم کے بغیر موجودہ دور میں زندہ رہنا ممکن بھی نہیں ہے لیکن اقبال کے نزدیک ان علوم کو اس سرچشمۂ ہدایت سے منسلک رہناہوگا   جوانسان کے لئے اس کے بنانے والے نے مختلف اوقات میں اپنے خاص بندوں کے ذریعے ارسال کیا ہے ۔ اقبال کی نگاہ میں کائنات کی مادی حقیقتوں پر انسان کے غلبہ وتصرف کا اصل مقصد اس کی لمحہ بہ لمحہ روحانی نشو ونما اور صحت کاملہ کا عرفان واحساس ہے لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ انسان اپنی خداداد صلاحیتوں کو کام میں لاتے ہوئے کائنات کے ہر ذرّے میں پوشیدہ نورِ حقیقت کی آرزو سے اپنے دل کو منور اور روح کوجِلّا بخشے ،اگر ایسا نہیں تو پھر مادی تصرف چاہے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کرے مگر وہ اپنی تاریک رات کو منور کرنے کے اہل نہیں ہوسکتاہے   ؎
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیامیں سفر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا
زندگی کے خم وپیچ میں اُلجھا ایسا
آج تک فیصلۂ نفع وضرر کر نہ سکا
عصر حاضریقینا اپنی تمام تر برق وبخارات کی ترقیات کے ساتھ آگے کی طرف گامزن ہے لیکن اسی رفتار پر اقبال کی نظرمیں فیضان سماوی یا بالفاظ دیگر دانشِ روحانی سے محروم ہورہاہے ۔ فکرِ معاش، ترجیحات ِ شکم ، جلبِ زَر ، طمع دنیا ، ہوس رانی ، تفوق ، نسبتی بالاتری ، جھوٹی سیاست اور منافقانہ انداز فکر ونظر وہ عصری افکار واخلاق ہیں ، جن کے خلاف ’’ضربِ کلیم‘‘ کی پیشانی پر اقبال نے اعلانِ جنگ کیا تھا ۔ یہ اعلان اقبال نے اسّی سال پہلے کیا تھا ، حالانکہ تب کچھ قدریں باقی تھیں ۔آج وہ زندہ ہوتے ،پتہ نہیں ان کے قلم سے کس نوعیت کے آتش باز اشعار نکلتے   ؎
مقابلہ تو زمانے کا خوب کرتا ہوں
اگرچہ میں نہ سپاہی ہوں نَے امیرِ جنود
مجھے خبر نہیں یہ شاعری ہے یا کچھ اور
عطا ہوا ہے مجھے ذکروفکر وجذب وسرود
…………
رابطہ:- اقبال انسٹی چیوٹ کشمیر یونیورسٹی

No comments:

Post a Comment