میں نے اقبال کو مرتے دیکھا
-سر محمد شفیع
علامہ اقبال کی موت 21اپریل 1938ء کو صبح کے کوئی پانچ بجے واقع ہوئی، اور مجھے اس بات کا شرف حاصل ہے کہ میں اُن تین اشخاص میں سے ایک ہوں جو علامہ کی موت کی شہادت دے سکتے ہیں۔ علامہ مرحوم کے انتقال کے وقت میرے سوا اور دو اشخاص بھی تھے جن میں سے ایک تو علی بخش تھا اور دوسرے دیوان علی تھے۔ علی بخش علامہ مرحوم کا ایک وفادار نوکر تھا جو کوئی چالیس برس سے علامہ کے ہاں ملازم تھا۔ علامہ اقبال کی موت سے کوئی چوبیس گھنٹے پیشتر ہی تمام گھر والے اور عزیز و اقارب پریشان تھے، ان کے خاندان کا ہر فرد اس غم میں برابر کا شریک تھا۔ علامہ اقبال کا آخری دن اُن کی کئی ایک خصوصیات کا اظہار بھی کررہا تھا، گو کہ بعض وقت وہ شدت ِدرد سے بیتاب ہوجاتے تھے تاہم ان کے چہرے پر خوشی اور مسرت کی جھلک بھی دکھائی دیتی تھی، وہ موت کی آخری گھڑی تک باصحت تھے۔ ان کی موت ایک ایسی رات کو واقع ہوئی جس میں وہ بہت کم سوئے۔ موت سے ایک دن قبل دن کے کوئی ایک بجے علامہ اقبال نے کہا کہ اُن کے پیٹ میں شدید درد ہورہا ہے۔ میں نے انہیں ایک خوراک دوا پیش کی جس کو ان کے پرائیوٹ ڈاکٹر نے تجویز کیا تھا۔ یہ نیند آور دوا تھی، لیکن انہوں نے اسے پینے سے انکار کردیا اور کہا:’’میں اس کی ایک خوراک بھی نہیں پیوں گا، اس میں افیون ہے اور میں نے تہیہ کرلیا ہے کہ مرتے وقت بے ہوش نہیں رہوں گا۔ پانچ بجنے میں ابھی کوئی دس منٹ باقی تھے کہ علامہ اقبال نے شربت کا ایک گلاس پینے کی خواہش ظاہر کی۔ میں نے گلاس میں تھوڑا سا شربت انڈیلا اور اسے اُن کے ہاتھوں میں دے دیا۔ انہوں نے کہا: ’’لیکن یہ تمام میں کیونکر پی سکتا ہوں؟‘‘ اور پھر وہ خود بولے: ’’خیر میں اسے پی لوں گا۔‘‘ اور پھر وہ ایک ہی سانس میں سارا گلاس پی گئے۔ اُس کے چند ہی لمحے بعد علامہ کے سینے میں شدت کا درد ہونے لگا اور انہوں نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ دیا اور آہستہ سے ’’ہائے‘‘ کہا۔ علی بخش فوراً اٹھ بیٹھا اور سیدھا علامہ کے بستر کے قریب جاپہنچا اور انہیں اپنے ہاتھوں سے سہارا دیا، تب علامہ اقبال نے کہا: ’’مجھے یوں محسوس ہورہا ہے جیسے کوئی میرے دل میں کوئی چیز چبھو رہا ہے۔‘‘ اور اس کے بعد انہوں نے اپنی بند آنکھیں کھول دیں اور چھت کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: ’’اللہ‘‘۔ اور یہی وہ آخری لفظ ہے جو اُن کی موت سے قبل اُن کے منہ سے نکلا۔ علی بخش فوراً علامہ سے لپٹ گیا اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔ علامہ اب بستر پر دراز ہوچکے تھے، جیسے ہی اُن کا سر تکیہ سے لگا علی بخش نے فوراً آپ کا چہرہ قبلہ کی طرف پھیر دیا اور اس کے چند ہی لمحوں بعد شاعر کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی۔ اپنی موت سے ایک دن قبل علامہ اقبال روزمرہ کی طرح جلد اپنے بستر سے اٹھ بیٹھے اور پھر ایک پیالی چائے پی۔ اس عرصہ میں چائے پیتے رہے اور میں انہیں اخبار پڑھ کر سناتا رہا۔ اس کے کچھ ہی دیر بعد حجام آیا اور آپ کی داڑھی بنائی۔ اس وقت علامہ میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں دکھائی دے رہی تھی سوائے اس کے کہ میں نے آپ کی آنکھوں میں چند لال لال ڈورے دیکھے۔ پھر اقبال اپنے دفتر چلے گئے جو کہ ملاقاتی کمرے سے ملحق تھا اور وہاں جاکر بستر پر لیٹ گئے۔ آپ تکیے کے سہارے بہت دیر بستر پر لیٹے رہے۔ آپ کو کھانسی نہایت شدت کی ہونے لگی۔ بعض دفعہ تو اتنی شدت سے ہوتی کہ آپ کا چہرہ سرخ ہوجاتا اور آپ بالکل بے بس و لاچار دکھائی دیتے۔ آپ کی رحلت سے ایک دن قبل ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس سے علامہ اقبال بہت مسرور اور خوش دکھائی پڑتے تھے۔ ہوا یہ کہ آپ کا پرانا ساتھی اور ہم جماعت ’’بیسرنؔ‘‘ آپ سے ملنے آیا۔ جوں ہی وہ کمرے میں داخل ہوا علامہ نے اٹھنے کی کوشش کی اور اپنے پرانے ساتھی کو خوش آمدید کہا۔ سب سے پہلے بیسرنؔ نے علامہ کو وہ دن یاد دلائے جب کہ وہ اور علامہ ایک ساتھ میونخ یونیورسٹی میں تعلیم پایا کرتے تھے۔ پرانے واقعات کو یاد کرکے علامہ بہت خوش ہوئے اور ان کا چہرہ دمک اٹھا۔ علامہ اقبال نے اپنے پرانے ساتھی پر سوالات کی بوچھاڑ شروع کردی۔ انہوں نے لیڈی بیسرنؔ، بیسرن کی بیٹی اور اپنے کئی دیگر ساتھیوں کے متعلق حالات دریافت کیے۔ اس کے بعد دونوں میں خاصی دلچسپ گفتگو ہوتی رہی۔ ان کی بات چیت سے میں نے اندازہ لگایا کہ بیسرن افغانستان جانا چاہتا تھا۔ اقبال جنہیں کابل کے متعلق بہت کچھ معلوم تھا، اس کے دلفریب مناظر، میوے، پھل اور موسم کے متعلق باتیں کرنے لگے۔ بیسرن نے آپ سے کابل کے مشہور مقامات کے متعلق بھی بات چیت کی۔ وہ جنہیں علامہ سے گفتگو کرنے کا موقع ملا ہے بخوبی جانتے ہیں کہ ان کی باتیں بڑی دلچسپ ہوتی تھیں، اور وہ باتیں کرتے ہوئے تھکتے نہیں تھے۔ اسی موقع پر علامہ نے بیسرنؔ سے جرمن فلسفہ سے متعلق بھی بحث چھیڑ دی اور اُس کے بعد وہ دونوں سیاسیات پر باتیں کرنے لگے۔ بیسرنؔ نہیں چاہتا تھاکہ ایک ایسے وقت وہ اپنی گفتگو کو طول دے جبکہ علامہ کی صحت ٹھیک نہیں تھی۔ اس نے کہا: ’’شاید میری اس غیر متوقع مداخلت سے آپ کی صحت پر برا اثر پڑرہا ہوگا۔‘‘ اقبال نے فوراً جواب دیا: ’’یہ بالکل ہی دوسرا راستہ ہے میرے دوست۔ آپ کی ہر سانس میرے لیے مرہم کا کام کررہی ہے۔‘‘ یہ دلچسپ گفتگو کوئی ڈیڑھ گھنٹے بعد اختتام کو پہنچی اور بیسرنؔ چلا گیا۔ اسی شام کا ایک قصہ بانو سے متعلق ہے۔ بانو علامہ اقبال کی چھوٹی لڑکی کا نام ہے۔ وہ تیز تیز دوڑتی ہوئی علامہ کے کمرے میں داخل ہوئی اور خاموشی سے آپ کے پہلو میں بیٹھ گئی۔ علامہ کی نظر کافی کمزور ہوچکی تھی۔ آپ نے بچی کے سر پر ہاتھ رکھا اور پیار سے کہا: ’’کون آیا ہے، شاید بانو ہوگی۔‘‘ ایک اور موقع پر جیسے ہی بانو کمرے سے باہر نکلی آپ نے فرمایا: ’’وہ بخوبی جانتی ہے کہ اس کے باپ کی موت کی گھڑی قریب آچکی ہے۔‘‘ بانو حسب معمول اپنے باپ سے ملنے کے لیے تین دفعہ آیا کرتی تھی۔ ایک تو مدرسہ جاتے وقت، دوسرے واپسی کے وقت، تیسرے سونے سے قبل۔ اقبال، بانو سے اکثر کھانے کے متعلق دریافت کیا کرتے تھے: ’’تم نے آج کیا کھانا کھایا اور کتنا کھایا۔‘‘ ’’اتنا کھایا۔‘‘ بانو معصومیت سے اپنے ہاتھ کے اشارے سے جواب دیتی اور شاعر مسکرانے لگتے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ چھوٹے بچوں سے صرف کھانے پینے کے بارے میں پوچھنا چاہیے، اور یہی وہ آسان طریقہ ہے جس سے بچے کا دل موہ لیا جاسکتا ہے۔‘‘ موت سے ایک دن قبل دوپہر کے وقت بانو آپ سے بغل گیر ہوگئیں۔ نہ جانے اُس دن اقبال کو کیا ہوگیا تھا، وہ رو رہے تھے اور بانو حیرت سے آپ کا منہ تک رہی تھیں۔ اُس وقت سورج غروب ہورہا تھا اور اس کی ارغوانی شعاعیں علامہ مرحوم کے مکان کو چھوتی ہوئی آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھیں۔ علامہ کا بستر اُن کے دیوان خانے میں بچھا دیا گیا۔ اسی موقع پر ایک تانگہ راستے سے گزرا۔ تانگے والا ایک غمگین پنجابی گیت الاپ رہا تھا۔ شاعر نے جب اس کی درد بھری آواز سنی تو ایک ’’سرد آہ‘‘ بھری اور چھت کو گھورنے لگے۔ اس واقعہ کے کچھ ہی دیر بعد فاطمہ بیگم اقبال سے ملنے آئیں۔ فاطمہ ایک مقامی اناث کالج کی پرنسپل تھیں۔ شاعر نے آپ سے لڑکیوں کے متعلق مذہبی مسائل پر بات چیت کی، آپ نے کہا کہ مسلمان لڑکیوں کو سختی سے اسلام کی تعلیم دینا چاہیے۔ اس وقت آپ کے سارے دوست احباب اور رشتہ دار جمع ہوچکے تھے۔ وہ تمام جانتے تھے کہ اب اقبال کا وقت قریب آچکا ہے۔ وہ ایک دوسرے سے دبی آواز میں پوچھتے: ’’کیا آج رات اقبال زندہ رہ سکیں گے؟‘‘ اور یہی ایک سوال تھا جو ہر ایک دماغ کو پریشان کررہا تھا۔ اسی لمحہ جاوید اندر آیا۔ جاویدؔ، اقبال کی تیسری بیوی کا پہلا بیٹا ہے۔ جیسے ہی وہ کمرے میں آیا، اقبال نے کہا: ’’یہ کون آیا ہے؟‘‘ اور جب انہیں بتایا گیا کہ جاوید آیا ہے تو آپ نے جاوید کو بیٹھنے کے لیے کہا اور پھر فرمانے لگے: ’’جاوید کے معنی فارسی میں غیر فانی کے ہیں۔‘‘ محمد حسین کو جو آپ کے ایک قریبی دوست تھے، مخاطب کرتے ہوئے آپ نے کہا: ’’جاوید کے پیدا ہونے کے تھوڑے ہی دنوں بعد میں ’’مجدد شاہ‘‘ کے مقبرے پر جو سرہند میں واقع ہے، حاضر ہوا تھا جہاں میں نے خدا سے دعا فرمائی تھی کہ وہ نومولود کو زمانے کی خراب باتوں کی ناپاکی سے پاک کردے۔‘‘ واضح رہے کہ مجدد شاہؒ عہدِ جہانگیر کے ایک مشہور ولی اور ایک مشہور شاعر گزرے ہیں۔ اُس وقت بہت شدت کی گرمی پڑ رہی تھی اور شاعر نے خواہش کی کہ ان کا بستر صحن میں منتقل کردیا جائے۔ یہاں پر تین مشہور ڈاکٹروں نے آپ کا معائنہ کیا۔ وہ جاتے وقت وعدہ کرگئے کہ وہ کل دوبارہ انجکشن دینے آئیں گے۔ شاعر نے ڈاکٹروں سے کہا کہ وہ بلا کھٹکے ان کی صحت سے متعلق حالات کہہ دیں کیونکہ وہ کسی چیز سے نہیں ڈرتے۔ رات کے کوئی بارہ بجے ہوں گے کہ شاعر کی بے چینی میں اضافہ ہوگیا اور انہیں دوبارہ اُن کے دیوان خانے میں لایا گیا۔ علی بخش آپ کے ہمراہ تھا، اس سے آپ کی یہ حالت نہ دیکھی گئی اور وہ بے اختیار رونے لگا۔ جب اقبال کی نظر اپنے وفادار نوکر کے بہتے ہوئے آنسوئوں پر پڑی تو آپ نے فرمایا: ’’علی بخش! مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ اب ہماری 40سال کی دوستی عن قریب ختم ہونے والی ہے۔‘‘ تقریباً آدھی رات بیت چکی تھی اور اقبال نیند نہ آنے کی وجہ سے بہت بے چین ہوگئے تھے۔ آپ کے دوست احباب اُس وقت بھی آپ کے قریب تھے۔ اُن میں سے ایک نے یہ تجویز پیش کی کہ آپ نیند آور دوا کی ایک خوراک بھی پی لیں تو رات کا باقی حصہ نہایت اطمینان سے گزر جائے گا۔ اس دفعہ بھی انہوں نے اس دوا کو پینے سے انکار کردیا۔ اُس کے بعد دوستوں سے آپ نے اجازت چاہی اور آپ سونے کے لیے چلے گئے۔ آپ کو غیر متوقع طور پر جلدی نیند آگئی، لیکن ابھی گھنٹہ بھر بھی سونے نہ پائے تھے کہ پھر سے بیدار ہوگئے اور کہا کہ پیٹ میں شدت کا درد ہورہا ہے۔ عبدالقیوم نے جو آپ کے ایک قریبی رشتے دار تھے، پھر سے آپ سے درخواست کی کہ آپ نیند آور دوا پی لیں، مگر آپ برابر انکار کرتے رہے۔ وقت تیزی سے گزرتا رہا اور شاعر کی بے چینی اور اضطراب میں اضافہ ہوتا گیا۔ شاید یہ آخری رات تھی جس میں انہوں نے حقہ نہیں پیا۔ اس موقع پر اب ہم صرف تین اشخاص باقی رہ گئے تھے: علیؔ بخش، دیوان علی اور میں۔ وہ منظر بڑا ہی جگرسوز اور دلخراش تھا جبکہ شاعر نے ہم سے دردبھری آواز میں کہا کہ ہم اُن کے نزدیک بیٹھ جائیں۔ اور جب ہم میں سے کوئی اونگھنے لگتا تو وہ کہتے: ’’تمہیں صرف آج رات ہی جاگنے کی تکلیف گوارا کرنی ہوگی؟‘‘ اس کے بعد انہوں نے دیوان علی سے کہا کہ وہ انہیں ایک پنجابی گیت سنائیں۔ دیوان علی خوشی سے گانے کے لیے راضی ہوگئے۔ اب شاعر کی موت کو صرف چار گھنٹے باقی تھے۔ لیکن اب بھی اُن کے ہوش و حواس قائم تھے۔ دیوان علی نے پنجاب کے مشہور شاعر ’’بلھے شاہ‘‘ کے چند گیت الاپے۔ ان گیتوں سے شاعر بہت متاثر دکھائی دیتے تھے۔ اور بالآخر میں نے دیکھا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ رات کے کوئی تین بجے ان کی حالت انتہائی خراب ہوگئی اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ حکیم محمد حسین قریشی کو بلا لائوں جو کہ لاہور کے ایک نامی گرامی طبیب تھے۔ ان کا مکان کوئی ڈیڑھ میل کے فاصلے پر تھا۔ میں سائیکل پر نہایت تیز رفتاری کے ساتھ ان کے مکان پر پہنچا اور اپنی پوری قوت سے انہیں آواز دی لیکن وہ اپنے بنگلہ کی تیسری منزل پر سورہے تھے۔ میری آواز بے کار ثابت ہوئی اور مجھے مایوس واپس لوٹنا پڑا۔ اقبال نے جب مجھے بغیر حکیم کے دیکھا تو کہا: ’’اب کیا کیا جائے؟‘‘ تھوڑے ہی وقفہ کے بعد شاعر نے یوں محسوس کیا کہ درد میں کمی ہورہی ہے اور اس طرح انہیں سکون مل رہا ہے، لیکن آہ… جلتی ہوئی چنگاری کی یہ آخری چمک تھی۔ اس وقت صبح کے کوئی پانچ بجا چاہتے تھے کہ ان کے درد میں اچانک شدت پیدا ہوگئی لیکن انہوں نے صبرو استقلال سے اُسے برداشت کیا۔ بجائے آہ و فغاں کرنے کے انہوں نے ہم سے کہا کہ ان کا بستر ان کے دارالمطالعہ میں منتقل کردیا جائے جہاں انہوں نے سالہا سال فلسفہ اور ادب پر غور و فکر کرتے ہوئے گزارے تھے۔ یہ اُن کا پسندیدہ کمرہ تھا۔ وہ ’’اللہ‘‘ کہتے ہوئے بستر پر لیٹ گئے اور پھر شاعر مشرق موت کی آغوش میں ہمیشہ ہمیشہ کی نیند سوگیا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ اپنی موت سے کیونکہ ایک ہفتہ قبل اقبالؔ نے یہ تحریر اپنے بھائی کے ہاں روانہ کی تھی جو آپ کی بیماری سے سخت پریشان تھے: ’’مجھے اجازت دیجیے کہ میں ایک سچے مسلمان کی خصوصیت آپ پر ظاہر کردوں، جب وہ مرے تو مسکراتے ہوئے چہرے سے موت کو خوش آمدید کہے۔‘‘ اور میں نے اچھی طرح اندازہ لگایا کہ اقبالؔ نے بسترِ مرگ پر اپنے اس کہے پر پوری طرح عمل کیا۔ جب اُن کی آخری گھڑی آن پہنچی تو میں نے دیکھا کہ اُن کے لبوں پر ایک مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ |
No comments:
Post a Comment