Search This Blog

Tuesday 24 April 2012

پورا ملک ایک شخص کو ملک بدر کرنے کے درپے

پورا ملک ایک شخص کو ملک بدر کرنے کے درپے

آصف جیلانی  

-ایک 51 سالہ فلسطینی جس کو 19 سال قبل برطانیہ میں سیاسی پناہ دی گئی تھی، پچھلے دس برس سے قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہا ہے اور اسے محض اس بناء پر ملک بدر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اس پر مسلم شدت پسند ہونے کا شبہ ہے اور اسے یورپ کا اسامہ بن لادن قرار دیا جاتا ہے، جب کہ اس کے خلاف برطانیہ میں دہشت گردی میں ملوث ہونے یا دہشت گردی کو شہہ دینے کا کوئی الزام نہیں۔ محض امریکا مُصر ہے کہ اس کے خلاف بم دھماکوں کی سازش کرنے اور دہشت گردی بھڑکانے کے الزام میں اردن میں مقدمہ چلایا جائے۔ یہ عالم دین ابوقتادہ ہیں جو پچھلے 6سال سے برطانیہ سے ملک بدری کے خلاف عدالتوں میں برسرپیکار ہیں۔ گزشتہ ہفتے ان کے وکیلوں نے برطانوی حکومت کو عین اُس وقت مات دے دی جب کہ انہیں گرفتار کرکے ملک بدر کرنے کے انتظامات کیے جارہے تھے۔ ان کا معاملہ پھر ایک بار انسانی حقوق کی یورپی عدالت میں پیش کیا گیا ہے جس کے پانچ اعلیٰ جج یہ فیصلہ کریں گے کہ آیا ان کا معاملہ عدالت کے ’’گرینڈ چیمبر‘‘ کے سامنے پیش کیا جائے یا نہیں۔ دراصل یورپی عدالت ہی نے اس سال جنوری میں ابوقتادہ کو اس بنا پر اردن کے حوالے کرنے کے لیے ان کی ملک بدری روک دی تھی کہ ان کے خلاف اردن میں بم حملوں کی سازش کا جو مقدمہ ہے اس میں احتمال ہے کہ اُن کے خلاف وہ شہادت استعمال کی جائے جو ایذا رسانی کے ذریعے حاصل کی گئی ہے۔یورپی عدالت نے واضح حکم دیا تھا کہ انہیں اُس وقت تک ملک بدر نہ کیا جائے جب تک اردن سے اس بارے میں سمجھوتا طے نہیں پاتا کہ ان کے خلاف مقدمے میں ایذارسانی کے ذریعے حاصل کردہ شہادت استعمال نہیں کی جائے گی۔ گزشتہ تین مہینوں سے برطانوی وزیر داخلہ ٹریسا مے اردن سے یہ یقین دہانی حاصل کرنے کی کوشش کررہی تھیں اور پچھلے دنوں عمان بھی گئی تھیں۔ اردن کی حکومت کی یقین دہانی سے لیس برطانوی وزیر داخلہ کی واپسی کے بعد ابوقتادہ کو ملک بدر کرنے کی تیاری ہورہی تھی کہ ان کے وکیلوں نے عین وقت پر یورپی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جس کے نتیجے میں برطانوی حکومت کی کوشش ڈھیر ہوگئی۔ اب غالب امکان ہے کہ برطانوی اور یورپی عدالتوں میں ابوقتادہ کے مستقبل کے بارے میں طویل معرکہ جاری رہے۔ ابوقتادہ الفلسطینی جن کا اصل نام عمر بن محمود بن عثمان ہے، 1960ء میں بیت اللحم میں پیدا ہوئے تھے۔ اور چونکہ اُس زمانے میں غرب اردن، اردن کی حاکمیت میں تھا اس بنا پر انہیں اردنی شہریت حاصل ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ 1989ء میں وہ پاکستان گئے تھے اور کچھ عرصہ قبائلی علاقے میں رہے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اُس زمانے میں ان کی اسامہ بن لادن سے ملاقاتیں رہیں، لیکن اس کا کوئی واضح ثبوت نہیں۔ 1991میں وہ اردن لوٹے جہاں امریکیوں کی ایماء پر اردن کے حکام نے ان کو ایذا رسانی کا نشانہ بنایا۔ آخرکار 1993ء میں وہ اپنی اہلیہ اور پانچ بچوں کے ساتھ فرار ہوکر لندن پہنچے اور یہاں اس بناء پر سیاسی پناہ کی درخواست کی کہ ان کو اردن میں ایذا رسانی کا نشانہ بنایا گیا ہے اور اگر وہ اردن واپس گئے تو ان کی جان کو خطرہ ہے۔ 1994ء میں ابوقتادہ کو پناہ گزین تسلیم کیا گیا اور برطانیہ میں قیام کی اجازت دے دی گئی۔ اُس وقت ان کے خلاف کوئی الزام نہیں لگایا گیا اور نہ انہیں برطانیہ کے لیے خطرہ قرار دیا گیا جیسے کہ اب قرار دیا جارہا ہے۔ لندن میں وہ ریجنٹس پارک کے قریب واقع فورتھ فادر کمیونٹی سینٹر میں دینی درس و تدریس میں مصروف تھے اور ان کے طلبہ کا ایک بڑا حلقہ تھا۔ اس دوران جب ابوقتادہ لندن میں تھے، اردن کی عدالت نے ان کی غیر حاضری میں دہشت گرد حملوںکے الزام میں انہیں عمرقید کی سزا سنائی۔ اس زمانے میں برطانیہ میں ان کے خلاف دہشت گردوں کی مدد واعانت کا کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا، البتہ ان پر اخبارات نے اُس وقت شدت پسندی کا الزام لگایا جب انہوں نے 2001ء میں بی بی سی کے پینوراما پروگرام میں خودکش حملوں کو حق بجانب قرار دیا۔ اسی زمانے میں جرمنی میں شدت پسندوں کے ایک گروہ کے بارے میں تفتیش کے سلسلے میں ابوقتادہ کے گھر پر پولیس نے چھاپہ مارا اور ایک لاکھ ستّر ہزار پونڈ کی نقد رقم برآمد کی، اور پولیس کو ایک لفافہ بھی ملا جس میں ’’چیچنیا کے مجاہدین‘‘ کے لیے آٹھ سو پونڈ کی رقم رکھی ہوئی تھی، لیکن پولیس نے ان پرکوئی فرد جرم عائد نہیں کی۔ اس زمانے میں اخبارات میں یہ خبریں بھی شائع ہوئیں کہ 9/11کے حملوں میں شامل سعودی شہری عطامحمدکے جرمنی میں فلیٹ سے ابوقتادہ کے خطبوں کا کیسٹ برآمد ہوا تھا۔ ابوقتادہ کو خطرہ محسوس ہوا کہ امریکی ان کے تعاقب میں ہیں اور انہیں کسی نہ کسی صورت میں گرفتار کرنا چاہتے ہیں۔2001ء میں جب برطانوی پارلیمنٹ نے وہ نہایت سخت قانون منظور کیا جس کے تحت کسی شخص کو بھی عدالت کے سامنے پیش کیے بغیر طویل مدت کے لیے گرفتار کیاجاسکتا ہے تو ابوقتادہ غائب ہوگئے، لیکن ایک سال بعد پولیس نے انہیں جنوبی لندن کے ایک گھر سے ڈھونڈھ نکالا اور بیل مارش کے جیل خانے میں قید کردیا۔ یہاں سے ابوقتادہ کی برطانوی حکومت کے خلاف عدالتی معرکہ آرائی کا آغاز ہوا۔ 2005ء میں برطانیہ کی سپریم کورٹ ’لا لارڈز‘ نے ابوقتادہ کی نظربندی کو غیر قانونی قرار دیا، لیکن ان پر نظربندوں جیسی کڑی پابندیاں عائدکردی گئیں۔ پانچ مہینے بعد انہیں دوبارہ گرفتار کرلیا گیا۔ 2007ء میں ہائی کورٹ نے انہیں ملک بدر کرنے کا حکم دیا، لیکن 2008ء میں وہ اس حکم کے خلاف اپیل جیت گئے، اس کے باوجود ان کو جیل خانے میں قید رکھا گیا۔ اسپیشل امیگریشن اپیل کمیشن نے ان کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا لیکن حکومت نے انہیں دوبارہ گرفتار کرلیا اور ملک بدر کرنے کا حکم دیا۔ ابوقتادہ نے اس حکم کے خلاف انسانی حقوق کی یورپی عدالت میں اپیل دائر کی اور یہ دلیل پیش کی کہ ان کو اردن میں اپنی جان کا خطرہ ہے کیونکہ ان کے خلاف مقدمہ میں ایسی شہادت استعمال کی جائے گی جو ایذا رسانی کے ذریعے حاصل کی گئی ہے۔ اس سال جنوری میں یورپی عدالت نے ابوقتادہ کی دلیل تسلیم کی اور حکم دیا کہ انہیں اُس وقت تک اردن کے حوالے نہ کیا جائے جب تک اردن سے یہ یقین دہانی حاصل نہ کرلی جائے کہ ان کے خلاف مقدمہ میں ایذا رسانی کے ذریعے حاصل کی گئی شہادت استعمال نہیں کی جائے گی۔ اس حکم کے بعد برطانوی حکام نے ابوقتادہ کو ضمانت پر تو رہا کردیا لیکن جیل خانے سے بھی سخت پابندیاں ان پر عائد کردیں۔ گھر میں وہ نہ تو موبائل فون استعمال کرسکتے تھے اور نہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ۔ ان پر 22 گھنٹے کا کرفیو نافذ تھا۔ دن کے دوران وہ صرف دو بار گھر سے باہر جاسکتے تھے وہ بھی زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹے کے لیے۔ حقوقِ انسانی کی تنظیموں نے اس پابندی کو غیر انسانی قرار دیا اور اس پر سخت احتجاج کیا، لیکن حکام پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ عجیب و غریب بات یہ کہ گو ابوقتادہ پر دہشت گردی کو شہہ دینے کا الزام لگایا گیا اور انہیں یورپ کا اسامہ بن لادن قرار دیا گیا، وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون بھی انہیں اس قدر خطرناک شخص قرار دیتے رہے کہ ان کو ایک لمحہ کے لیے بھی برطانیہ کی سرزمین پر رہنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، لیکن ان کے خلاف ایسے کسی الزام میں کوئی مقدمہ نہیں چلایا گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ پورا ملک ابوقتادہ کو محض شبہ کی بنیاد پر ملک بدر کرنے پر تلا ہوا ہے۔ حکومت تو ایک طرف رہی، حزب مخالف بھی ان کو ملک سے نکال دینے کے مطالبے میں پیش پیش ہے، اور اخبارات تو ایسا لگتا ہے کہ ان کے خون کے پیاسے ہیں۔ یہ بات واقعی سمجھ میں نہیں آتی کہ ایک ایسا شخص جس کو 19 سال قبل خود برطانوی حکومت نے سیاسی پناہ دی اور جس کے خلاف کسی الزام میں کوئی مقدمہ دائر نہیں کیا گیا ہے، وہ آخر اس قدر خطرناک کیسے ہوسکتا ہے کہ سارا ملک اس سے خوف زدہ ہے اور اس سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے!

No comments:

Post a Comment