دل کے رشتے
افشاں مراد
رشتوں کے تانے بانے بُنتے‘ ان کی الجھی ڈوروں کو سلجھاتے‘ مانو جیسے صدیاں بیت گئی ہیں۔ پر یہ ایسے الجھے ہوئے ہوتے ہیں کہ چاہ کر بھی ان کا کوئی سرا ہاتھ نہیں آپاتا۔ زندگی ایسے گزرتی جارہی ہے جیسے ریت ہاتھوں سے پھسلتی جارہی ہو۔ پر ان رشتوں ناتوں کو سمجھنا غالباً سب سے اوکھا کام ہے۔ آپ بھی یہ بات مانیں گے کہ رشتہ چاہے قریبی ہو یا دور کا، اس کو سمجھنے اور نبھانے کے لیے اُلّو کا دماغ اور شیر کا سا جگر چاہیے، کیونکہ ہم سب ہر رشتے سے اتنی توقعات وابستہ کرلیتے ہیں کہ پھر جب وہ توقع پوری نہیں ہوتی اور بھرم ٹوٹتا ہے تو بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ ہم خود بھی نہ جانے کتنے لوگوں کی توقعات کا مرکز ہیں‘ لیکن اس میں سے شاید پچاس فیصد ہی ہم ان کو نبھا پاتے ہوں گے۔ آپ کے عزیز رشتہ دار‘ دوست احباب‘ سسرال‘ میکہ‘ ددھیال‘ ننھیال ہر ایک سے آپ کا تعلق علیحدہ علیحدہ خانوں میں بٹا ہوا ہوتا ہے۔ کچھ خانے آپ کے دل میں بنے ہوئے ہوتے ہیں‘ کچھ دماغ میں، اور کچھ کو آپ صرف دنیاداری کے لیے نبھا جاتے ہیں۔ لیکن بعض اوقات حالات و واقعات آپ کے ان خانوں کو بالکل الٹ پلٹ کردیتے ہیں اور جو لوگ آپ کے دل سے بہت قریب ہوتے ہیں‘ وہ آپ سے بہت دور، اور جو آپ سے بہت دور ہوتے ہیں وہ آپ کے دل کے نزدیک آجاتے ہیں۔ یہی دنیا ہے اور یہی رشتوں کی سچائی۔ بعض دفعہ آپ اپنے قریبی رشتوں مثلاً شوہر‘ بیوی‘ بچوں یا بہن بھائیوں سے اتنی توقعات وابستہ کرلیتے ہیں کہ شاید آپ ان کے بغیر سانس بھی نہیں لے سکتے۔ لیکن خصوصی حالات کے تحت آپ کو پتا چلتا ہے کہ ’’جن پہ تکیہ تھا وہی پتّے ہوا دینے لگے‘‘ جن پر آپ بہت بھروسا کرتے ہوں وہی آپ کا ساتھ چھوڑ جائیں، تو یہ انسانی فطرت ہے کہ ہم اندر سے بالکل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں، رشتوں پر سے ہمارا بھروسا‘ اعتبار ختم ہوجاتا ہے، ہم اللہ سے گلے شکوے کرنے لگتے ہیں۔ ایسے میں اچانک ہی وہ لوگ جن سے بظاہر آپ کی صرف سلام دعا ہوتی ہے یا صرف جان پہچان ہوتی ہے وہ آگے بڑھتے ہیں اور آپ کا ہاتھ تھام کر آپ کو سہارا دیتے ہیں‘ آپ کا یقین واپس لوٹاتے ہیں‘ آپ کو زندگی کی طرف واپس لاتے ہیں تو اچانک ہی یہ لوگ ہماری زندگیوں میں کتنے اہم‘ کتنے معتبر ہوجاتے ہیں۔ اللہ ہی انہیں ہمارا رفیق بناتا ہے۔ ہمارے دل میں، ہماری زندگیوں میں انہیں شامل کرتا ہے۔ اور جو بظاہر ہمارے قریب ہوتے ہیں‘ وہ ہم سے اتنی دور چلے جاتے ہیں کہ ہم ان کی شکل دیکھنا بھی نہیں چاہتے، لیکن ہمیں ان کو دیکھنا بھی پڑتا ہے اور برداشت بھی کرنا پڑتا ہے، کیونکہ یہ ہمارے رشتے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اپنے رشتوں کو آج تک برت کر ہم تو یہ سیکھ سکے ہیں کہ آپ کسی سے کوئی توقع وابستہ نہ کریں، سب کچھ اللہ پر چھوڑ دیں۔ رشتہ چاہے قریب کا ہو یا دور کا‘ کسی بھی وقت آپ کو کوئی غیر متوقع جھٹکا دے سکتا ہے۔ اپنی محبتوں کو اللہ کی محبت میں رشتے داروں اور قرابت داروں پر نچھاور کریں اور بدلے میں کچھ نہ چاہیں، البتہ رشتوں میں اعتدال رکھنا ضرور سیکھنا چاہیے، جو کہ غالباً تجربے سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ جس رشتے کی جو جگہ ہے اس کو وہیں رکھیں‘ کسی کو گنجائش سے زیادہ جگہ دے دی جائے تو وہ اس کا غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی لیے ہر رشتے کی اپنے ذہن میں ایک حد ضرور مقرر کرنی چاہیے، اس سے ہم کو بھی آسانی ہوجاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ دل میں رہنے والے دل سے نہیں نکلتے، موسم ہزار بدل جائیں مگر رشتے نہیں بدلتے۔ یہ بات آپ اپنے والدین یا بہت قریبی دوستوں کے بارے میں تو کہہ سکتے ہیں، باقی کسی رشتے کے بارے میں یہ یقین نہیں کیا جاسکتا کہ وہ زمانے اور حالات کے حساب سے تبدیل نہیں ہوگا۔ دوستوں کا ساتھ جتنا پرانا ہوتا جاتا ہے اُن سے رشتہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ والدین تو وہ متاعِ حیات ہیں جس کا کوئی نعم البدل ہو ہی نہیں سکتا۔ باقی ہر رشتے میں اتار چڑھائو اور بدلائو آتے رہتے ہیں، لیکن اہم یہ ہوتا ہے کہ آپ وقت کے ساتھ کیا سیکھتے ہیں اور اپنی آئندہ زندگی میں اس کو کیسے کارآمد بناتے ہیں۔ کیا یہ بدلائو‘ اتار چڑھائو ہماری زندگی میں مؤثر تبدیلی لایا یا ہماری زندگی کو تباہ و برباد کرگیا… دونوں صورتوں میں ہم کچھ سیکھیں نہ سیکھیں ایک ناقابلِ فراموش سبق ضرور سیکھ جاتے ہیں، اور اگر ہم اس سبق سے اپنی آئندہ زندگی کو سدھار لیں تو یہ ہماری کامیابی ہے۔ رشتہ چاہے جو بھی ہو، اس کو اس کی جگہ پر رکھ کر ہم زیادہ بہتر زندگی جی سکتے ہیں۔ اسی لیے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ’’یہ دل میں رہنے والے جب دل سے نکلتے ہیں تو پھر کبھی اپنی جگہ دوبارہ نہیں بناسکتے۔‘‘ چاہے کتنے ہی موسم بیتیں‘ رتیں بدلیں‘ دل میں چبھی پھانس نہیں نکلتی۔ پھر زندگی کے کسی موڑ پر چاہے ایک دوسرے کو معاف کردیا جائے لیکن وہ عزت‘ وہ مقام اور وہ رتبہ کبھی نہیں بحال ہوسکتا جو ایک بار چلا جائے۔ اس لیے ہر رشتے کو اس کے مقام پر رکھ کر ہی نبھانا سب سے بہتر حکمت عملی ہے۔
رشتوں کے تانے بانے بُنتے‘ ان کی الجھی ڈوروں کو سلجھاتے‘ مانو جیسے صدیاں بیت گئی ہیں۔ پر یہ ایسے الجھے ہوئے ہوتے ہیں کہ چاہ کر بھی ان کا کوئی سرا ہاتھ نہیں آپاتا۔ زندگی ایسے گزرتی جارہی ہے جیسے ریت ہاتھوں سے پھسلتی جارہی ہو۔ پر ان رشتوں ناتوں کو سمجھنا غالباً سب سے اوکھا کام ہے۔ آپ بھی یہ بات مانیں گے کہ رشتہ چاہے قریبی ہو یا دور کا، اس کو سمجھنے اور نبھانے کے لیے اُلّو کا دماغ اور شیر کا سا جگر چاہیے، کیونکہ ہم سب ہر رشتے سے اتنی توقعات وابستہ کرلیتے ہیں کہ پھر جب وہ توقع پوری نہیں ہوتی اور بھرم ٹوٹتا ہے تو بڑی تکلیف ہوتی ہے۔ ہم خود بھی نہ جانے کتنے لوگوں کی توقعات کا مرکز ہیں‘ لیکن اس میں سے شاید پچاس فیصد ہی ہم ان کو نبھا پاتے ہوں گے۔ آپ کے عزیز رشتہ دار‘ دوست احباب‘ سسرال‘ میکہ‘ ددھیال‘ ننھیال ہر ایک سے آپ کا تعلق علیحدہ علیحدہ خانوں میں بٹا ہوا ہوتا ہے۔ کچھ خانے آپ کے دل میں بنے ہوئے ہوتے ہیں‘ کچھ دماغ میں، اور کچھ کو آپ صرف دنیاداری کے لیے نبھا جاتے ہیں۔ لیکن بعض اوقات حالات و واقعات آپ کے ان خانوں کو بالکل الٹ پلٹ کردیتے ہیں اور جو لوگ آپ کے دل سے بہت قریب ہوتے ہیں‘ وہ آپ سے بہت دور، اور جو آپ سے بہت دور ہوتے ہیں وہ آپ کے دل کے نزدیک آجاتے ہیں۔ یہی دنیا ہے اور یہی رشتوں کی سچائی۔ بعض دفعہ آپ اپنے قریبی رشتوں مثلاً شوہر‘ بیوی‘ بچوں یا بہن بھائیوں سے اتنی توقعات وابستہ کرلیتے ہیں کہ شاید آپ ان کے بغیر سانس بھی نہیں لے سکتے۔ لیکن خصوصی حالات کے تحت آپ کو پتا چلتا ہے کہ ’’جن پہ تکیہ تھا وہی پتّے ہوا دینے لگے‘‘ جن پر آپ بہت بھروسا کرتے ہوں وہی آپ کا ساتھ چھوڑ جائیں، تو یہ انسانی فطرت ہے کہ ہم اندر سے بالکل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں، رشتوں پر سے ہمارا بھروسا‘ اعتبار ختم ہوجاتا ہے، ہم اللہ سے گلے شکوے کرنے لگتے ہیں۔ ایسے میں اچانک ہی وہ لوگ جن سے بظاہر آپ کی صرف سلام دعا ہوتی ہے یا صرف جان پہچان ہوتی ہے وہ آگے بڑھتے ہیں اور آپ کا ہاتھ تھام کر آپ کو سہارا دیتے ہیں‘ آپ کا یقین واپس لوٹاتے ہیں‘ آپ کو زندگی کی طرف واپس لاتے ہیں تو اچانک ہی یہ لوگ ہماری زندگیوں میں کتنے اہم‘ کتنے معتبر ہوجاتے ہیں۔ اللہ ہی انہیں ہمارا رفیق بناتا ہے۔ ہمارے دل میں، ہماری زندگیوں میں انہیں شامل کرتا ہے۔ اور جو بظاہر ہمارے قریب ہوتے ہیں‘ وہ ہم سے اتنی دور چلے جاتے ہیں کہ ہم ان کی شکل دیکھنا بھی نہیں چاہتے، لیکن ہمیں ان کو دیکھنا بھی پڑتا ہے اور برداشت بھی کرنا پڑتا ہے، کیونکہ یہ ہمارے رشتے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اپنے رشتوں کو آج تک برت کر ہم تو یہ سیکھ سکے ہیں کہ آپ کسی سے کوئی توقع وابستہ نہ کریں، سب کچھ اللہ پر چھوڑ دیں۔ رشتہ چاہے قریب کا ہو یا دور کا‘ کسی بھی وقت آپ کو کوئی غیر متوقع جھٹکا دے سکتا ہے۔ اپنی محبتوں کو اللہ کی محبت میں رشتے داروں اور قرابت داروں پر نچھاور کریں اور بدلے میں کچھ نہ چاہیں، البتہ رشتوں میں اعتدال رکھنا ضرور سیکھنا چاہیے، جو کہ غالباً تجربے سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ جس رشتے کی جو جگہ ہے اس کو وہیں رکھیں‘ کسی کو گنجائش سے زیادہ جگہ دے دی جائے تو وہ اس کا غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی لیے ہر رشتے کی اپنے ذہن میں ایک حد ضرور مقرر کرنی چاہیے، اس سے ہم کو بھی آسانی ہوجاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ دل میں رہنے والے دل سے نہیں نکلتے، موسم ہزار بدل جائیں مگر رشتے نہیں بدلتے۔ یہ بات آپ اپنے والدین یا بہت قریبی دوستوں کے بارے میں تو کہہ سکتے ہیں، باقی کسی رشتے کے بارے میں یہ یقین نہیں کیا جاسکتا کہ وہ زمانے اور حالات کے حساب سے تبدیل نہیں ہوگا۔ دوستوں کا ساتھ جتنا پرانا ہوتا جاتا ہے اُن سے رشتہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ والدین تو وہ متاعِ حیات ہیں جس کا کوئی نعم البدل ہو ہی نہیں سکتا۔ باقی ہر رشتے میں اتار چڑھائو اور بدلائو آتے رہتے ہیں، لیکن اہم یہ ہوتا ہے کہ آپ وقت کے ساتھ کیا سیکھتے ہیں اور اپنی آئندہ زندگی میں اس کو کیسے کارآمد بناتے ہیں۔ کیا یہ بدلائو‘ اتار چڑھائو ہماری زندگی میں مؤثر تبدیلی لایا یا ہماری زندگی کو تباہ و برباد کرگیا… دونوں صورتوں میں ہم کچھ سیکھیں نہ سیکھیں ایک ناقابلِ فراموش سبق ضرور سیکھ جاتے ہیں، اور اگر ہم اس سبق سے اپنی آئندہ زندگی کو سدھار لیں تو یہ ہماری کامیابی ہے۔ رشتہ چاہے جو بھی ہو، اس کو اس کی جگہ پر رکھ کر ہم زیادہ بہتر زندگی جی سکتے ہیں۔ اسی لیے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ’’یہ دل میں رہنے والے جب دل سے نکلتے ہیں تو پھر کبھی اپنی جگہ دوبارہ نہیں بناسکتے۔‘‘ چاہے کتنے ہی موسم بیتیں‘ رتیں بدلیں‘ دل میں چبھی پھانس نہیں نکلتی۔ پھر زندگی کے کسی موڑ پر چاہے ایک دوسرے کو معاف کردیا جائے لیکن وہ عزت‘ وہ مقام اور وہ رتبہ کبھی نہیں بحال ہوسکتا جو ایک بار چلا جائے۔ اس لیے ہر رشتے کو اس کے مقام پر رکھ کر ہی نبھانا سب سے بہتر حکمت عملی ہے۔
No comments:
Post a Comment