احوال پاکستان
پاسبان مل گئے…لیکن اپناکیاحال ہے
مظفر اعجاز
-ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں بتایاہے کہ یورپ میں مسلمانوںکو تعصب کا سامناہے۔ مسلم خواتین کو حجاب اورمردوں کو داڑھیاں رکھنے کی وجہ سے نوکریوں سے برخاست کیا جارہاہے ایمنسٹی کی خاتون رکن اورگروپ میں اسپیشلسٹ مارکوپروبتی نے کہاہے کہ حجاب کو سیکورٹی رسک قرارنہیں دیا جاسکتا۔ یہ امتیاز ختم کیاجائے۔ یورپی حکومتیں مسلمانوں کے ساتھ تعصب ختم کریں۔ دلچسپ امریہ ہے کہ یہ حال صرف یورپ کا نہیں بلکہ حجاب‘ داڑھی اورمسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کرنے والوں کے سرخیل امریکا کا بھی یہی حال ہے وہاں بھی کبھی حجاب کے خلاف کارروائی ہوتی ہے تو کبھی مسلمانوں ہی کے خلاف۔ یہاں تک کہ اس امریکا میں مسلمانوں کو اور مساجدکو دھمکی آمیزخطوط لکھے جارہے ہیں۔ ایک دھمکی تو یہ دی گئی ہے کہ مسلمانوں کو قتل کرنا ہمارے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ تو ٹیمپل یونیورسٹی میں اسلام کے خلاف ہی کانفرنس منعقدکردی گئی۔ ساری دنیا میں مسلمانوں ‘اسلامی شعائر حجاب داڑھی وغیرہ کو تنقید کانشانہ بنایاجاتاہے لیکن اسلامی ملکوں میں بھی کالے انگریزوں کے پالے ہوئے لوگ روشن خیالی کے نام پر یہی کچھ کررہے ہیں۔ پاکستان میں ملازمتوں سے حجاب اورداڑھی کی بنیادپرنکالتے نہیں تو امتیازی سلوک ضرورکرنے لگے ہیں۔ میڈیا میں تو یہ الفاظ کھل کر استعمال ہوتے ہیں کہ یار ابھی کچرا بھرلو نو جماعتی ‘نوملا نو داڑھی والا…یار یہ لوگ آگے چل کر مصیبت کرتے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے یہ غلط ہے یہ نہیں چلے گا یہ کرو یہ نہ کرو…وغیرہ وغیرہ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ میڈیاسے لوگوں کو محض داڑھی‘ اسلام نمازوغیرہ کی وجہ سے فارغ کیا جارہا ہے ۔ پارٹی تعلق کو بہت بعد میں خاطرمیں لایا جاتاہے۔ لیکن ایک اہم پیش رفت ہورہی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ خود امریکا اوریورپ سے ہی آواز اٹھ رہی ہے۔ امریکا میں بھی لوگ اس امتیازی سلوک کے خلاف آوازاٹھارہے ہیں گویا پاسبان مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے…لیکن کعبے کا کیا حال ہے‘ اس جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اسلام کے نام پروجود میں آنے والے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں دین کو دہشت گردی بنایاگیاہے۔ مسلمان کو ملا اور بنیاد پرست بنادیاگیاہے۔ پردے کو مذاق بنایاجارہاہے بے حیائی بے ہودگی عام ہے‘ میڈیا اس میں سب سے زیادہ استعمال ہورہاہے۔ تازہ مثالیں امریکاکی ہیں۔ امریکی شہرہالی ووڈ میں عیسائی طالبات فٹبال ٹیم کی مسلمان کپتان ارم خان کو اسکارف پہننے پر امتیازی سلوک اورتنقیدکا نشانہ بنانے پر اس سے اظہاریکجہتی کے لیے اسکارف پہن کر میدان میں اتریں۔انہوں نے ریمارکس دیے ہیں وہ بھی بڑے دلچسپ ہیں وہ کہتی ہیں کہ ہمیں چندگھنٹے اسکارف پہننے سے سرمیں گرمی محسوس ہوئی اور لوگوںکی عجیب چبھتی ہوئی نگاہوں کا سامنا کرنا پڑا ہم سارادن اسکارف پہننے پر ارم کو مبارکباد دیتے ہیں۔ اسی طرح سینیٹ لوئس کی ایک جیل میں چندگھنٹوں کے لیے بھیجی جانے والی مسلمان خاتون کے سرسے اسکارف نوچنے کا نوٹس لیاگیا تو نہ صرف جیلرنے معذرت کاخط لکھا بلکہ اب یہ اصول طے ہوگیا ہے کہ کسی مسلمان خاتون کو جیل میں اسکارف سے محروم نہیں کیاجائے گا۔ پتانہیں عافیہ کو کب اسکارف دیاجائے گا۔ اس سے بھی تو بھری عدالت میں اسکارف چھیناگیاتھا۔ تازہ ترین خبریہ ہے کہ ٹیمپل یونیورسٹی میں اسلام کے خلاف ہونے والی کانفرنس کا عام امریکیوں نے جوغیرمسلم ہیں نہ صرف بائیکاٹ کیا بلکہ شرکاء کو اس کانفرنس میں شریک ہونے پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ یہ سب کچھ امریکا میں ہورہاہے ۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کی غیرمسلم گروپ اسپیشلسٹ مارکوپرولینی حجاب اور داڑھی کے خلاف امتیازپر اٹھ کھڑی ہوئی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ یورپی حکمران مسلمانوں سے امتیاز اور تعصب ختم کریں۔ لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کیاہورہاہے۔ یہاں تو عورت کو بے حجاب ہی نہیں بے لباس کیاجارہاہے۔ کس چیز کے لیے ؟ چند ٹکوں کی خاطر۔طرح طرح کے اشتہارات آرہے ہیں ایک سے بڑھ کر ایک آئیڈیا لایاجارہاہے کپڑوں کا اشتہاربھی بے لباس عورت کے ساتھ ہے اور بلیڈاورشیونگ کریم کابھی بے لباس عورت کے ساتھ۔ ایسی اشیا کے اشتہارات بھی آنے لگے ہیں جن کانام بڑے بڑے لوگ بھی نجی محفلوں میں لیتے ہوئے شرماتے ہیں ۔ان کا ذکر رازداری سے کرتے ہیں۔ یہ سب تو صنم خانے کا احوال ہے لیکن اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں جس کو مولانا حسین احمدمدنی نے بھی قیام کے بعد مسجد کا درجہ دیاتھا اس میں یہ سب ہورہاہے۔ اصلاح معاشرہ کی مہم بھی چلائی جارہی ہے۔ علمائے کرام سے اپیل کی جارہی ہے کہ فحاشی وعریانی کے اس سیلاب کے خلاف میدان میں آئیں۔ لیکن ہم سمجھتے ہیںکہ علماء کے خطبوں سے اور اصلاح معاشرہ مہم سے اصلاح نہیں ہوگی۔جب تک پاکستان کے ایک ایک خاندان کا سربراہ اپنی اولاد کے مستقبل کے حوالے سے تشویش میں مبتلا نہیں ہوجاتا جب تک وہ خود اس بے حیائی کو نہیں روکتا اس وقت تک کچھ نہیں ہوگا۔ حجاب کے حق میں پاکستان میں کس منہ سے مہم چلائی جاسکے گی۔ پاکستانی عوام عافیہ کو اسکارف واپس لوٹانے کی مہم کیسے چلائیں گے۔ ان کے ملک میں عورت کو بے لباس کیاجارہاہے یہ سائن بورڈز سلامت کیسے ہیں جہاں لاکھوں روپے میں عورت کو ٹکے کی جنس بنایاجارہاہے۔ خود اصلاح نہیں کریں گے تو پاکستان سے بڑا صنم خانہ کوئی نہیں رہے گا۔ |
No comments:
Post a Comment