Search This Blog

Saturday 21 April 2012

فکر اقبال

فکر اقبال

محمد یعقوب شاہق


اقبال کے ہاں یہ اخذ و قبول محض عقیدت و محبت کی وجہ سے نہیں، نہ اسکی وجہ اندھی تقلید تھی بلکہ اسکے پس منظر میں ناقابل تردید دلائل و براہین اور اعلیٰ درجہ کی دانش و بصیرت کارفرما تھی۔ بلاشبہ اقبال نے اسلام کی ابدی اور حقیقی روح تک پہنچنے کےلئے منطق، معقولات اور فلسفیانہ تعبیرات کے ”ظن و تخمین“ کے بجائے جس بصیرت کو اپنا رہنما بنایا اور جس روشنی پر اعتماد کیا وہ ”عشق رسول“ کی روشنی تھی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ عقل و دانش کے خلاف ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے وہ ایسی عقل کو رہبر ماننے کےلئے تیار نہیں جس کے پاس ”وحی“ کی روشنی نہ ہو ....
عقل ہم عشق است و از ذوق نگاہ بیگانہ نیست
لیکن ایں بیچارہ را آں جرات رندانہ نیست
اقبال بلاشبہ عاشق رسول ہے لیکن اسکا عشق گہرے تدبر و تفکر، وسیع مشاہدے اور عمیق تجربے سے مالا مال ہے۔ وہ دنیائے انسانیت کے بھٹکے ہوئے قافلوں پر نظر ڈالتا ہے جو انسانوں کے خود ساختہ نظام ہائے حیات کے دوزخ کی سرگرداں ہیں۔ وہ فلسفہ مادیت سے جنم لینے والے افکار پر نظر ڈالتا ہے تو اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ ان فلسفوں میں انسان کی روحانی پیاس کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔ اسکے برعکس یہ فلسفے انسان کو انسانیت کے بلند مقام سے گرا کر حیوان بنا چکے ہیں۔
جواناں را بدآموز ایں عصر
شب ابلیس را روز است ایں عصر
بدامانش مثال شعلہ پیچیم
کہ بے نور است و بے سوز است ایں عصر
اقبال کے ”عشق رسول“ نے ایک نئے ”علم کلام“ کی بنیادیں اسوار کی ہیں جن میں توحید باری، نبوت، معراج، وحی و الہام، مسئلہ خیر و شر اور مسئلہ تقدیر جیسے نازک اور مابعدالطبیعاتی مسائل کو جدید مسائل کو جدید مذاق کےمطابق خوبصورتی سے حل کیا گیا۔ ان مسائل کو نظری مباحث سے الگ کرکے عملی زندگی سے ہم آہنگ کرنا بڑے غور و فکر کا محتاج ہے۔ اقبال کی محمد عربی سے محبت اسی تدبر و تفکر کے نتیجہ میں ہی پیدا ہوئی۔ چنانچہ فلسفہ سخت کوشی کے عنوان سے ڈاکٹر نکلسن کو لکھے گئے خط میں اپنے نقطہ نظر کو وہ ان الفاظ میں واضح کرتے ہیں۔
”یہ درست ہے کہ مجھے اسلام سے محبت ہے لیکن مسٹر ڈکنسن کا یہ خیال صحیح نہیں کہ میں نے صرف اس محبت کے پیش نظر مسلمانوں کو اپنا مخاطب ٹھہرایا ہے۔ بلکہ دراصل عملی حیثیت سے میرے لئے اسکے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ ایک خاص جماعت یعنی مسلمانوں کو اپنا مخاطب قرار دیا جائے کیونکہ تنہا یہی جماعت میرے مقاصد کےلئے موزوں واقع ہوئی ہے۔ مسٹر ڈکنسن کا یہ خیال بھی درست نہیں کہ اسلامی تعلیمات کی روح کسی خاص گروہ سے مختص ہے۔
”میری فارسی نظموں کا مقصود اسلام کی وکالت نہیں بلکہ میری قوت طلب و جستجو تو صرف اس چیز پر مرکوز رہی ہے کہ ایک جدید معاشرتی نظام تلاش کیا جائے اور عقلاً یہ ناممکن معلوم ہوتا ہے کہ اس کوشش میں ایک ایسے معاشرتی نظام سے قطع نظر کر لیا جائے جس کا مقصد وحید ذات پات، رتبہ و درجہ، رنگ و نسل کے تمام امتیازات مٹا دینا ہے۔ اسلامی دنیوی معاملات کے باب میں نہایت ژرف نگاہ بھی ہے۔ اور پھر انسان میں بے نفسی اور دنیوی لذائذ و نعم کے ایثار کا جذبہ بھی پیدا کرتا ہے.... یورپ اس گنج ہائے گراں مایہ سے محروم ہے اور یہ متاع اسے صرف ہمارے فیض صحبت سے ہی مل سکتی ہے۔“ (مضامین اقبال مرتبہ تصدق حسین تاج)
پس اقبال پیغمبر ختمی المرتبتﷺ سے ”عشق و محبت“ کے جذبات کو جب شاعرانہ پیکر تراشتے ہیں تو ان کی نگاہ میں ایک ایسا سیماب پا گروہ ہوتا ہے جو عقل و دانش اور فکر و تدبر کی اعلٰ صلاحیتوں کے ساتھ عملی اعتبار سے جرات رندانہ بھی رکھتا ہے۔ اور جو عشق و محبت کے تقاضوں کو اس طرح سمجھتا ہے کہ اپنے محبوب کی خاطر مال، جان، اولاد غرضیکہ دنیا کی ہر شے قربان کر دیتا ہے۔ اسکی استقامت اور بے مثال شجاعت، ایثار کے نتیجہ میں دنیا کی امامت و پیشوائیت اسکے قدم چومتی ہے۔ نہ اسے کسی جابر و قاہر سلطان کا دبدبہ مرعوب کر سکتا ہے، نہ دنیوی لذائذ کی کوشش اس کو جادہ حق سے ہٹا سکتی ہے۔ یہی وہ گروہ تھا جسکے عشق کی حرارت سے شرار بولہبی گل ہو گیا۔
غرض تم سے کہوں میں کیا کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے
جہاں گیر و جہاں دار و جہانبان و جہاں آرا
تجھے آباءسے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تو گفار وہ کردار تو ثابت وہ سیارا
عش کی اس پرواز کے سیاق و سباق میں جب اقبال امت مرحومہ کے ان گروہوں پر نظر ڈالتے ہیں جو ناموس رسالت کا نام لے کر اسلام کی سوداگری میں مصروف ہیں تو ان کی رگ حمیت پھڑک اٹھتی ہے اور ان نام نہاد عاشقان رسول کا اصل چہرہ سامنے لے آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ لوگ جو اس دور میں پیری مرید کا کاروبار کرتے ہیں وہ نوجوانوں اور لڑکوں کےلئے مذاق کا نمونہ بن کر رہ جاتے ہیں۔ وہ مریدوں کےساتھ شب و روز سفر میں مصروف رہتے ہیں لیکن ملت کی ضروریات سے بے خبر ہیں۔ اسی طرح منبر محراب سے تعلق رکھنے والا واعظ بھی اپنی خواہش نفس کے بت خانہ کا پجاری ہے اور دین حق کا مفتی آج اپنے فتویٰ کو فروخت کر رہا ہے۔
پیر ہا پیر از بیاض مو شدند
سخرہ بہر کو دکان کو شدند
دل زنقش لاالٰہ بیگانہ
از صنم ہائے ہوس بت خانہ
با مریداں روز و شب اندر سفر
از ضرورت ہائے ملت بے خبر
واعظاں ہم صوفیاں منصب پرست
اعتبار ملت بیضا شکست
واعظ ما چشم بر بتخانہ دوخت
مفتی دین مبیں فتویٰ فروخت
یہی شیخ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے
گلمیم بوزرؓ و دلق اویسؓ و چادر زہراؓ
اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے نمناک
نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت نہ نگاہ
ان اشعار سے علامہ اقبال کا مقصد علمائے کرام کی تضحیک ہر گز نہ تھا جیسا کہ بعض ترقی پسند ”دانشور“ ان سے استدلال کرتے رہتے ہیں البتہ ان کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلانا اور کوتاہیوں پر متنبہ کرنا ضرور تھا۔ (جاری)
اقبال جس پرآشوب دور میں پیدا ہوئے تھے اس میں سیاسی شکست و ریخت اور انگریزی استعمار کی ریشہ دوانیوں نے جس گروہ کو سب سے زیادہ تختہ مشق بنایا وہ علمائے کرام ہی کا گروہ تھا۔ وہ سخت جان ملا جو اپنی جان کی قیمت پر بھی اعلائے کلمتہ الحق سے باز نہیں رہتا تھا مرور زمانہ کے ساتھ اپنے اس کردار کے غافل ہوتا چلا گیا۔ ملت اسلامی کے وہ شیوخ جو اپنے اپنے پیش رو عقاب صفت حضرات کی مسندوں کے وارث ہوئے وہ اسلام کے اصلی تصور کی غلط نمائندگی کر رہے ہیں‘ اس لئے اقبال نے انکے کھوتے ہوئے جوہر کردار کو پھر سے احساس ذمہ داری کی دولت عطا کرنے کی خاطر بھرپور تنقید کی ....
مولوی بیگانہ از اعجاز عشق
ناشناس نغمہ ہائے ساز عشق
ساقی دیرینہ را ساغر شکست
بزم رنداں حجازی ما شکست
کعبہ آباد است از اصنام ما
خندہ زن کفر است بر اسلام ما
عشق کے حقیقی تقاضے مومن کو شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنے کی دعوت دیتے ہیں۔ رسول اللہ نے فقر و سلطان کو یکجا کر کے اہل ایمان کو دنیا کی عظیم اور ناقابل شکست قوت بنا دیا تھا لیکن آج ناموس رسالت کے محافظ آپس میں دست و گریبان ہیں۔ فروعی قسم کے اختلافات کو انہوں نے کفر و اسلام کا مسئلہ بنا دیا ہے۔ انکے اس علمی اور اخلاقی زوال پر اقبال کا دل کڑھتا ہے....
دین حق از کافری رسوا تر است
زانکہ ملا مومن کافر گر است
بے نصیب از حکمت دین نبی
آسمانش تیرہ از بے کوکبی است
مکتب و ملا و اسرار کتاب
کور مادر زاد و نور آفتاب
دین کافر فکر و تدبیر و جہاد
دین ملا فی سبیل اللہ فساد
اسلام انسان کو رہبانیت کے گوشہ عافیت سے نکال کر حق و باطل کی کشمس کے عین درمیان لے آیا تاکہ باطل قیادت و امامت کے مقام پر فائز نہ رہ سکے۔ لیکن وقت گزرنے کےساتھ ساتھ یہ نظریہ فقر خود نام لیوایاں اسلام کے ہاتھوں پامال ہو گا۔ ”شاخ سدرہ“ کا مسافر ”خاور خار و خش پر قناعت کر گیا۔ کفر کی طاقتیں فکر و تدبیر اور جدوجہد کے راستے پر گامزن ہیں جبکہ دینی رہنما فی سبیل اللہ فساد کے راستہ پر عمل پیرا ہے۔ اس صورتحال کو دیکھ کر اقبال کی آنکھ سے آنسو ٹیپکتے ہیں ....
فقر عریاں گرمی بدو حنین
فقر عریاں بانگ تکبیر حسینؓ
فقر را تا ذوق عریانی نماند
آ جلال اندر مسلمانی کماند
فقر جوع و رقص و عریانی کجاست
فقر سلطانی است، رہبانی کجاست
فقر ذوق و شوق و تسلیم و رضاست
ما امینم این متاع مصطفی است
اقبال نے جس طبقہ پر سب سے زیادہ تند تیز حملے کئے ہیں وہ مغرب زدہ طبقہ ہے جس نے اپنی خودی کی لازوال نعمت کو مغرب کے ہاتھوں فروخت کر دیا ہے۔ یہ طبقہ یقین و ایمان کی دولت سے محروم اغیار کے افکار کی گدائی میں مصروف ہے۔ اسکے اندر نقاق کا زہر سرایت کئے ہوئے ہیں۔ وہ زبان سے تو اسلام اور نبیﷺ کا نام تو لیتا ہے لیکن درحقیقت اسلامی عقائد اور تصورات سے اسکا یقین متزلزل ہو چکا ہے۔ وہ اغیار کی معاشرت کو اپنی معاشرت سے بہتر، غیروں کے معاشی نظام کو اپنے نظام معیشت سے اچھا اور دوسروں کی تہذیب و ثقافت کو اپنی تہذیب سے زیادہ ترقی پسند سمجھتا ہے۔
اقبال فرماتے ہیں
ایں غلام ابن غلام ابن غلام
حریت اندیشہ او را حرام
اقبال نصیحت کرتے ہیں کہ
اے اسیر رنگ، پاک از رنگ شو
مومن خود کافر افرنگ شو
وہ کہتے ہیں کہ یہ طبقہ ملت بیضا کے لئے زہر ہلاہل سے کم نہیں کیونکہ اس کا ضمیر پختہ عقائد سے خالی ہو چکا ہے اور جس قوم میں ایسے ڈھلمل اور متذبذین کی بہتات ہو جائے وہ اندر سے کھوکھلی ہو جاتی ہے
سن اے تہذیب حاضر کے گرفتار
غلامی سے بتر ہے بے یقینی
حرف اس قوم کا بے سوز عمل زار و زبوں
ہو گیا پختہ عقائد سے تہی جس کا ضمیر
یہ حالات کی ستم ظریفی ہی ہے کہ اقبال کی دانش و بصیرت نے 1930ءمیں جس ریاست کا خواب دیکھا تھا اور جسے آگے چل کر قائداعظم محمد علی جناحؒ نے حصول پاکستان کی صورت میں ان کے خواب کی تعبیر پیش کر دی.... اس ریاست کو صرف پچیس سال کے بعد اسی طبقہ نے اپنی خواہشات نفس کی قربان گاہ میں بھینٹ چڑھاتے ہوئے دولخت کر دیا جو انگریزوں کے چلے جانے کے بعد ان کا ذہنی غلام تھا اور اب یہی طبقہ باقی ماندہ پاکستان کی تہذیب و ثقافت اور سالمیت کا بھی سودا کرنے پر ادھار کھائے بیٹھا ہے۔
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
اب ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ اقبال نے مغربی مفکرین سے کیا اثرات قبول کئے اور کن افکار کو مسترد کر دیا۔ اس رد و قبول کا معیار کیا تھا: اس موضع پر شارحین اقبال کے ہاں اختلافات پایا جاتا ہے۔ ہمارے نزدیک اس موضوع کی دو جہتیں ہیں۔ اولاً یہ کہ مغربی شعرا اور دانشوروں کے حوالے سے اقبال کا رویہ کیا تھا اور ثانیاً یہ کہ مغرب کے سیاسی یا معاشی مفکرین کو اقبال نے کس نظر سے دیکھا۔
جہاں تک اول الذکر موضوع کا تعلق ہے تو اس میں دو رائے نہیں پائی جاتیں کہ اقبال نے جس طرح عربی کے قدیم (قبل از اسلام) شعراءمثلاً امراءالقیس اور عنترہ، فارسی زبان کے شعراءمثلاً مولانا رومؒ، حافظ شیرازی، سعدی، عمر خیام سنائی وغیرہ کا گہرائی سے مطالعہ کیا تھا۔ شیکسپیئر (1564تا 1616)، جرمن شاعر گوئٹے (1749ءتا 1832ئ) کا بغور مطالعہ کیا تھا۔ ان کی نظم و نثر میں ان شعراءکے حوالے موجود ہیں۔ اقبال نے ان تمام شعراءکی بلوغت فکر، تخلیق کی وسعت اور اسالیب کی ندرت کو نئے انداز میں اپنی شاعری میں جذب کیا۔ ان کے افکار میں جہاں ایسی بات ملی جو اپنے افکار کی گراں مائیگی، انصاف اور اصناف اور اسالیب کے تنوع اور احساسات و جذبات کے پیرایہ ہائے اظہار میں زیادہ وقیع، زیادہ جامع اور زیادہ اثرانگیز ہے۔
ثانیاً اقبال نے انیسویں اور بیسویں صدی عیسویں کے مغربی مفکرین اور فلاسفہ کے افکار کا بھی باریک بینی سے جائزہ لیا ہے جس کا ثبوت ان کے نثری مضامین میں بھی ملتا ہے اور شاعری میں بھی اس کے واضح اشارے موجود ہیں لیکن اقبال کے ترقی پسند شارحین کی اس رائے کو قبول نہیں کیا جا سکتا جنہوں نے اقبال کے مرد کامل کا تعلق نیٹشے سے یا ان کے معاشی افکار کا تعلق نہیں۔ کارل مارکس اور ہیگل وغیرہ سے ملانے کی سعی کرتے ہوئے اپنی پسند کا مفہوم برآمد کرنے کی جسارت کی ہے۔ اس کے برعکس صحیح بات یہ ہے کہ انہوں نے مغربی مفکرین کے سیاسی، تہذیبی، تمدنی، معاشی اور تعلیمی افکار کو کسی عصبیت کی بنا پر نہیں بلکہ اعلیٰ وجہ البصیرت، زبردست فلسفیانہ دلائل اور ناقابل تردید دلائل سے باطل ثابت کیا ہے۔ مثال کے طور پر ہیگل اور مارکس نے ”تاریخ کی مادی تعبیر“ کے عنوان سے جو فلسفہ پیش کیا جس پر آگے چل کر سوشلسٹ معاشرہ کی بنیادی استوار ہوئیں۔ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ان میں سے اول الذکر نے دو نظریاتی یعنی تھیسس اور انٹی تھیسس (Thesis and Anti Thesis) کی پیکار سے تیسرے نظریہ (Synthesis) کی پیدائش کو تاریخ کا ارتقائی عمل قرار دیا جبکہ موخرالذکر نے پیکار و تصادم کے پس منظر میں ”معاشی محرکات“ کو اصل الاصول قرار دیا۔ وہ کہتا ہے کہ نظریات میں تبدیلی کا واحد محرک معاشی حالات ہوتے ہیں اور اسی کے بطن سے عقائد، اخلاق اور خیروشر کے پیمانے جنم لیتے ہیں۔ چنانچہ اگر بزور قوت دوسری قسم کا ماحول پیدا کر دیا جائے تو خیرونشر کے معیارات بھی خود بخود تبدیل ہو جائیں گے اس لئے وہ خدا رسول، وحی، الہام، نیکی اور بدی کے جملہ تصورات کو سرمایہ دارانہ معاشی نظام کے اوہام قرار دیتا ہے۔
اقبال نے اس فلسفہ تاریخ کی پوری قوت اور استدلال سے تردید کی اور اس کے مقابلے میں اسلام کا نظریہ تاریخ پیش کیا جس کی رو سے ابتدائی آفرینش سے دنیا میں خیروشر کی دو قوتیں برسرپیکام رہی ہیں اور دنیا میں تاریخی عمل کا ارتقاءان دو قوتوں کے تصادم و پیکار سے تشکیل پاتا ہے۔ وہ قوتیں برسرپیکار رہی ہیں اور دنیا میں تاریخی عمل کا ارتقاءان دو قوتوں کے تصادم و پیکار ہے تشکیل پاتا ہے۔
موسیٰؑ و فرعون و شبیرؓ و یزید
ایں دو قوت از حیات آید پدید
زندہ حق از قوت شبیریؓ است
باطل آخر داغ حسرت میری است
بالفاظ دیگر اس دنیا میں مادی قوانین کے علاوہ ایک اخلاقی قانون بھی کارفرما ہے اور قوموں کی تقدیر کے فیصلے اکثر اخلاقی قوانین کے نتیجہ میں رونما ہوتے ہیں۔ قرآن حکیم میں مختلف اقوام عالم کے عروج و زوال کے حوالے سے جو اشارات کئے گئے ہیں وہ اسی اصول کی توضیح کرتے ہیں۔ اقبال ملوکیت، اشتراکیت اور سرمایہ دارانہ نظام حیات کو ایک ہی مادی فلسفہ حیات کے مختلف مظاہر خیال کرتے ہیں اور ان کے خیال میں یہ نظام ہائے حیات انسان کو اغراض و مفادات اور خواہش نفس کا بندہ بنا دیتے ہیں جس کے نتیجہ میں دنیا میں ظلم اور فساد جنم لیتا ہے۔ وہ کارل مارکس پر ان الفاظ میں تنقید کرتے ہیں
دین آں پیغمبر نا حق شناس
بر مساوات شکم دارد اساس
یعنی دین اشتراکیت کا یہ جھوٹا پیغمبر جس نے پیٹ کی مساوات پر اپنی شریعت کی بنیاد رکھی۔ یاد رہے کہ مارکس کی کتاب ”سرمایہ“ (CAPITAL DAS)دین اشتراکیت کی بائبل تصور کی جاتی ہے۔ چنانچہ اقبال نے اشتراکیت کی اور سرمایہ دارانہ نظام دونوں کو میں انسانیت کے لئے ہلاکت خیز قرار دیا۔
زندگی ایں را خروغ آں را خراج
درمیان ایں دو سنگ آدم زجاج
ہر دو جان ناصبور و ناشکیب
ہر دو یزداں ناشناس آدم فریب
ایں زعلم و دیں آ رد شکست
آں برد جاں را زتن ناں را زدست
اس لئے انہوں نے اس وقت کے سوشلسٹ مفکرین اور کارفرما طبقہ کو اسلام کے دامن میں پناہ لینے کی نصیحت کی تھی۔ جب سوشسٹ انقلاب کا سورج نصف النہار پر چمک رہا تھا.... اب سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد یہ نظریہ خود اپنی موت مر چکا ہے:
در گزر ازلا اگر جوئندہ
تا زہ اثبات گیری زندہ
چیست قرآن: خواجہ پیغام مرگ
دستگیر بندہ بے ساز و برگ
برصغیر پاک و ہند میں سرخ انقلاب کے علمبرداروں نے ادبی دنیا میں اس نظریہ کا پروپیگنڈہ کرنے کے لئے ”ترقی پسند تحریک کی بنیاد رکھی اور تحریک سے منسلک اگر سب نے نہیں تو اکثریت نے دینی اقدار کا مذاق اڑایا اور یہ تاریخ کی ایک ستم طریقی ہے کہ ”سوویت یونین“ کی شکست و ریخت کے بعد وہی دانشور امریکی استعمار کی گود میں بیٹھ کر ایک مرتبہ پھر دینی قدروں کو تنقید کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ اقبال نے مغرب کے سرمایہ نظام کے نیست و نابود ہونے کی نہ صرف خواہش کی ہے بلکہ پیش گوئی بھی کر رکھی ہے کہ یہ نظام بھی فطرت انسانی کے خلاف ہے اور بالآخر اس کی تقدیر میں بھی مٹ جانا لکھا ہوا ہے
ایں بنوک فکر چالاک یہود
نور حق از سینہ ¿ آدم ربود
نا تہ و بالا نہ گردد ایں نظام
دانش و تہذیب و دیں سودائے خام
یعنی ”موجودہ سود در سود پر چلنے والا بینکنگ سسٹم درحقیقت یہود کی فکر عیار کا آفریدہ ہے۔ اس نظام سے انسان کے سینہ سے سچائی اور حق کی روشنی جاتی رہی۔ جب تک یہ نظام تہ و بالا نہیں ہو جاتا اس وقت دانش، تہذیب اور دین محض خام خیالی ہے۔“
اقبال مغربی جمہوریت جس کی بنیاد عوامی حاکمیت کے تصور پر رکھی گئی ہے سے بھی کوئی خوش فہمی نہیں رکھتے۔ اسلام کے تصور حکومت میں ایک شورائی نظام موجود ہے جس میں طاقت کا سرچشمہ عوام نہیں بلکہ اللہ سبحانہ کی ذات ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ کسی مسلمان معاشرہ کے سب عوام و خواص مل کر بھی اللہ کی مقرر کردہ حدود توڑنے کے مجاز نہیں۔ مندرجہ ذیل اشعار ان کے خیالات کی وضاحت کر رہے ہیں۔
گریز از طرز جمہوری، غلام پختہ کارے شو
کہ از مغز دو صد خر، فکر انسانی نمی آید
یعنی ایسی جمہوریت جس میں طاقت کا سرچشمہ عوام کو کہا جائے ایک دلفریب نعرہ تو ہو سکتا ہے لیکن انسانوں کی حقیقی آزادی اور فلاح کی ضمانت نہیں دے سکتا۔ دو سو گدھوں کے انسانی فکر کی آفرینش نہیں ہو سکتی بلکہ انسانوں کو غلام بنانے کا ایک نیا اور جدید طریقہ ہے۔
گرمی ¿ ہنگامہءجمہور دید
پردہ بر روئے ملوکیت کشید
الحذر از گرمی ¿ گفتار او
الحذر از حرف پہلو دار او
تن پرست و جاہ مست و کم نگاہ
اندرونش بے نصیب از لاالٰہ
مفہوم یہ ہے کہ جمہوریت کے ہنگاموں کا حقیقی مقصد ملوکیت کے چہرہ پر نقاب ڈالنے کے مترادف ہے۔ ان لوگوں کی تقاریر اور گرمی ¿ گفتار اور ان کی ذومعنی گفتگو سے اللہ کی پناہ کہ یہ لوگ درحقیقت تن پرست جاہ و اقتدار کے خواہشمند اور انتہائی کم ظرف ہیں جن کے اندر کا انسان کلمہ طیبہ کی نعمت سے محروم ہی رہتا ہے۔
جمہوریت ایک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
ایک طرف ان کے یہ نظریات ہیں تو دوسری طرف یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے نہ صرف سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیا بلکہ انتخابات میں بھی حصہ لیا۔ ان کی تحریروں میں موجود دور میں طرز حکومت کے حوالے سے اگرچہ کوئی مبسوط مقالہ یا تحقیقی مواد موجود نہیں تاہم خطبہ الٰہ آباد اور دیگر تحریروں سے یہ ضرور اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک آدمی ایک ووٹ کے تصور کے خلاف تھے اور جمہوری طرز حکومت ہی ایک ایسا نظریہ رکھتے تھے جو مسلمان علمائے کرام اور اہل دانش کی اجتہادی کاوش کے نتیجہ میں سامنے آئے جموریت کے مروجہ طریق انتخاب سے وہ مطمئن نہ تھے اور ان کی خواہش تھی کہ اہل مغرب کے برعکس مسلمان اپنا ایک جمہوری نظام وضع کریں جس میں عامتہ المسلمین کے مفادات کا بھی تحفظ کیا جائے اورریاست ایک ایسے ماڈل کی حیثیت سے سامنے آئے جس میں اسلامی اقدار و روایات کی عکاسی ہوتی ہو۔ وہ آمریت کے سخت مخالف تھے.... فرمایا کہ
زیر گردوں آمری از قاہری است
آمری از ماسوااللہ کافری است
زندگی اور اس کے متعلقات کو اس زاویہ نگاہ سے دیکھنے والے شخص کی نظروں سے یہ حقیقت اوجھل نہیں رہ سکتی تھی کہ اسلام ہر معاشرہ میں اپنی بالادستی کا تقاضا کرتا ہے۔ ان کی بصیرت اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ انہوں نے ہندوستان کے اندر ایک اسلامی ریاست کے قیام کا تصور اس وقت پیش کیا جب مسلمانان ہند کو اپنے مستقبل کے لئے راہ عمل متعین کرنے میں دشواری پیش آ رہی تھی۔ خطبہ الٰہ آباد میں ہی مجوزہ ریاست کے طرز حکمرانی کے خدوخال بھی موجود ہیں۔ اس خطبہ کے چند جملے ملاحظہ فرمائیے:
٭ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ بحیثیت ایک اخلاقی نصب العین اور نظام سیاست کے اسلام ہی وہ سب سے بڑا جزو ترکیبی تھا جس سے مسلمانان ہند کی تاریخ حیات متاثر ہوئی۔
٭ اسلام کی رو سے خدا اور کائنات، کلیسا اور ریاست اور روح اور ایک ہی کل کے مختلف اجزا ہیں۔
٭ کیا آپ چاہتے ہیں کہ اخلاقی اور سیاسی نصب العین سے اسلام کا بھی وہی حشر ہو جو مغرب میں مسیحیت کا ہوا ہے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ہم اسلام کو بطور ایک تخیل کے تو برقرار رکھیں لین اس کے نظام سیاست کی بجائے ان قومی نظامات کو اختیار کر لیں جہاں مذہب کی مداخلت کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا؟
٭ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس ملک میں اسلام بحیثیت ایک متدنی قوت کے زندہ رہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کر سکے۔
٭ میں ہندوستان اور اسلام کی فلاح و بہبودکے خیال سے ایک منظم اسلامی ریاست کے قیام کا مطالبہ کر رہا ہوں۔ اس سے ہندوستان کے اندر توازن قوت کی بدولت امن و امان قائم ہو جائے گا اور اسلام کو اس امر کا موقع ملے گا کہ وہ ان اثرات سے آزاد ہو کر جو عربی شہنشاہیت کی وجہ سے اب تک اس پر قائم ہیں اس جمود کو توڑ ڈالے جو اس کی تہذیب و تمدن، شریعت اور تعلیم پر صدیوں سے طاری ہے۔
٭ میری خواہش ہے کہ پنجاب، شمال مغربی سرحدی صوبہ سندھ اور بلوچستان کو ملا کر ایک ریاست بنا دیا جائے۔
٭ ایک سبق جو میں نے تاریخ اسلام سے سیکھا ہے یہ ہے کہ یہ صرف اسلام تھا جس نے آڑے وقتوں میں مسلمانوں کی زندگی کو قائم رکھا نہ کہ مسلمان.... اگر آج اپنی نگاہیں پھر اسلام پر جما دیں اور اس کے زندگی بخش تخیل سے متاثر ہوں تو آپ کی منتشر اور پراگندہ قوتیں ازسرنو جمع ہو جائیں گی۔ (مضامین اقبال۔ تصدق حسین تاج۔ صفحہ 107تا 144)
ان جملوں کے ساتھ اگر آپ علامہ کے مضمون ”جغرافیائی حدود اور مسلمان“ کا اختتامی پیرا گراف مطالعہ فرمائیں تو ان کا تصور ریاست واضح ہو کر سامنے آ جائے گا۔
”مسلمان ہونے کی حیثیت سے انگریز کی غلامی بند توڑنا اور اس کے اقتدار کا خاتمہ ہمارا فرض ہے اور اس آزادی سے ہمارا مقصد یہی نہیں کہ ہم آزاد ہو جائیں بلکہ ہمارا اول مقصد یہ ہے کہ اسلام قائم رہے اور مسلمان طاقتور بن جائے۔ اس لئے مسلمان کس یایسی حکومت کے قیام میں مددگار نہیں ہو سکتا۔ جس کی بنیادیں انہی اصولوں پر ہوں جن پر انگریزی حکومت ہے۔ ایک باطل کو مٹا کر دوسرے باطل کو قائم کرنا چہ معنی دارد؟ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ ہندوستان کلیتہً نہیں تو ایک بڑی حد تک دارالاسلام بن جائے لیکن اگر آزادی ہند کا نتیجہ یہ ہو کہ جیسا دارالکفر ہے ویسا ہی رہے یا اس سے بھی بدترین بن جائے تو مسلمان ایسی آزادی وطن پر ہزار مرتبہ لعنت بھیجتا ہے۔ ایسی آزادی کی راہ میں لکھنا، بولنا، روپیہ صرف کرنا، لاٹھیاں کھانا، جیل جانا، گولی کا نشانہ بننا سب کچھ حرام اور قطعی حرام سمجھتا ہے۔ (حوالہ: مضامین اقبال مرتبہ تصدق حسن تاج احمدیہ پریس حیدر آباد دکن 1362 ھ)
اقبال نے جس ارض پاک کا خواب دیکھا تھا اس میں رنگ و نسل، موروثی بادشاہت، لسانی، علاقائی اور فرقہ وارانہ اختلافات کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ وہ ایک ایسا خطہ زمین چاہتے تھے جہاں عدل و انصاف کی حکمرانی ہو۔ صد افسوس کہ ان کے خواب کی تعبیر ہنوز تشنہ ¿ تکمیل ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اقبال نے اپنے افکار کو ہمیشہ اس بصیرت سے ہم آہنگ رکھا جو اسلام کے عمیق مطالعہ اور دائمی اسلام کے ساتھ قلبی تعلق نے ان میں پیدا کر دی تھی۔ خود فرماتے ہیں
نہ کردم از کسے دریوزہ چشم
جہاں را جز بچشم خود ندیدم
اغیار کے افکار و تخیل کی گدائی
کیا تجھ کو نہیں اپنی خودی تک بھی رسائی
ہاں! وہ اس بات پر فخر محسوس کرتے ہیں کہ محمد عربیﷺ کے دامن رحمت میں پناہ لینے اور ان کے فرمودات سے خوشہ چینی ہر دور کی ظلمتوں کے لئے صبح عید کا پیغام ہے
نوع انساں را پیغام آخریں
حامل او رحمتہ اللعالمیں
میرا نشیمن نہیں در گہہ میر و وزیر
میرا نشیمن بھی تو شاخ نشیمن بھی تو
تجھ سے مری زندگی سوز تب و درد و داغ
تو ہی مری آرزو تو ہی مری جستجو
تجھ سے گریباں مرا مطلع صبح النشور
تجھ سے مرے سینے میں آتش اللہ ہو
ذکر و فکر و علم و عرفانم توی
کشتی و دریا و طوفانم توی
اے پناہ من، حریم کوئے تو
من بہ امیدم رمیدم سوئے سو
بلکہ وہ آرزو کرتے ہیں کہ انہیں حجاز میں موت آ جائے، جہاں بقہل ان کے ”آں خنک شہرے کہ آنجا دلبر است
ہست شان رحمتت گیتی نواز
آرزو دارم کہ میرم در حجاز

No comments:

Post a Comment