Search This Blog

Sunday 29 April 2012

مغرب سے مکالمہ


مغرب سے مکالمہ

2
-نیاز سواتی
اسلام اور مغرب کے مابین تہذیبی اختلافات نے تصادم کی شکل اختیار کرلی ہے۔ اس جنگ میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال نے انسانی جانوں کے اتلاف کو تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچادیا ہے۔ جنگ میں زندہ بچ جانے والے افراد پر پڑنے والے مضر نفسیاتی اثرات اور ہجرت کی صعوبتیں اس پر مستزاد ہیں۔ اس صورت حال نے جنگ کے دونوں فریقوں یعنی اسلام اور مغربی معاشروں کے سنجیدہ اذہان کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ اس تصادم سے مسلم امہ زخم زخم ہے تو مغربی معاشرے بھی محفوظ نہیں رہے۔ عراق اور افغانستان سے واپس جانے والے فوجیوں کے تابوت، زخمی فوجی اور پھر بڑھتے ہوئے جنگی اخراجات نے مغربی معاشروں کو بددل کرکے رکھ دیا ہے۔ مغربی معاشروں میں پائی جانے والی آزادانہ فضا اب ماضی کا قصہ بن چکی ہے۔ مشہور امریکی مصنف اور صحافی امریکا کو پولیس اسٹیٹ قرار دے رہے ہیں۔ ان جنگوں کی طوالت اور جنگی اخراجات کے نتیجے میں مغربی عوام کی سہولتوں میں کمی نے ان جنگوں سے بیزاری کو جنم دیا ہے۔ دوسری طرف مسلم معاشرے چونکہ ان جنگوں کے اصل متاثرین میں سے ہیں، لہٰذا یہاں مکالمے کی اہمیت پر زیادہ زور دیا جارہا ہے۔ اسلام اور مغرب کے مابین مکالمے کی شدید ضرورت اور بظاہر ہموار فضا کے باوجود اس مکالمے کی عدم موجودگی حیران کن محسوس ہوتی ہے، مگر معاملے کا بغور جائزہ لیا جائے تو صورت حال سمجھ میں آنے لگتی ہے اور اس مکالمے کی رکاوٹوں کا ادراک ممکن ہوجاتا ہے۔ اس مکالمے کے ضمن میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ مکالمہ وہاں ممکن ہوتا ہے جہاں دونوں فریقوں کے مابین بنیادی امور مشترکہ ہوں اور اختلافات کی بنیادیں گہری نہ ہوں۔ اسلام اور مغرب کے درمیان بنیادی تصورات یعنی تصورِ انسان، تصور کائنات اور تہذیبی اقدار میں اس قدر اختلاف ہے کہ یہ دونوں شجر اپنی جڑوں سے شاخوں تک ایک دوسرے کی مکمل ضد ہیں۔ اس لیے یہاں دو طرفہ بات چیت (Dialogue) ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے، البتہ یک طرفہ گفتگو (Monologue) یعنی دعوت کی کامیابی کا امکان ضرور موجود ہے کہ یا تو مسلمان مغربی تہذیب اور اقدار کو اپنالیں یا پھر مغربی معاشرے دعوت کے نتیجے میں اسلام قبول کرلیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب جدید مسلم دانش وروں نے مغرب کی بنیادی آدرشوں کو نہ صرف یہ کہ اپنا لیا ہے بلکہ ’’آئیڈیالائزڈ‘‘ بھی کرلیا ہے تو مغرب اسلام سے کیوں مذاکرات کرے! جب کہ عالم اسلام نے مادر پدر آزادی (Freedom)، انسانی حقوق (Human Rights)، جمہوریت (Democracy)، سرمایہ داری (Capitalism)، ترقی (Development) اور مساوات (Equality) کے مغربی تصورات کو قبول کرلیا ہے تو مغرب اسلام سے مکالمہ کرنے کے بجائے اپنی تہذیبی اقدار کو مسلم معاشروں پر بزور بازو کیوں نہ نافذ کرے! اور مغرب اس وقت یہی کررہا ہے۔ افغانستان جیسے ممالک میں یہ کام جنگ کے ذریعے ہورہا ہے تو پاکستان اور سعودی عرب جیسے ممالک میں دوستی کے پردے میں… اور پردہ بھی وہ جس کے متعلق شاعر نے کہا: خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں مغرب ایسے گروہ سے مکالمے کا قائل ہے جو مغرب کی عسکری طاقت کو اپنے نظریے، طرزِ زندگی اور ایمانی جذبے کے ذریعے چیلنج کردے اور مغرب اپنی ٹیکنالوجیکل برتری کے باوجود اس گروہ کے مقابلے میں شکست سے دوچار ہوجائے۔ حالیہ تاریخ میں یہ صورت حال افغانستان میں موجود ہے۔ افغان قوم نے مغرب کی تین مختلف سپر پاورز یعنی برطانیہ، روس اور امریکا کو جنگ کے میدان میں شکست دے کر یا تو مکالمے پر مجبور کردیا، یا پھر علی الاعلان شکست تسلیم کرنے کی راہ دکھا دی۔ معرکۂ خیر و شر کی تاریخ ازل تا امروز یہی ثابت کرتی ہے کہ جب بھی طاقت کسی ایسے شخص یا نظام کے ہاتھ میں مرتکز ہوجائے جو وحی الٰہی کا پابند نہ ہو تو زمین پر فساد برپا ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں طاقتور فریق دلیل، مکالمے اور معقولیت کے بجانے نہ صرف اپنی طاقت پر بھروسا کرتا ہے بلکہ اپنا مؤقف غلط ثابت ہوجانے کے باوجود ہر دلیل کا جواب طاقت سے دینے کی کوشش کرتا ہے۔ یہاں تفصیل کا موقع نہیں، لہٰذا تاریخ سے چند مثالیں پیش کرنے پر اکتفا کروں گا۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو دلیل کے میدان میں شکست دے دی تو فرعون نے معقولیت اور استدلال کے بجائے طاقت استعمال کی، مگر بالآخر اپنے بدانجام کو پہنچ کر وہ رہتی دنیا کے لیے عبرت کا سامان بن گیا۔ ابراہیم علیہ السلام نے دلیل اور مکالمے کے ذریعے نمرود کو غلط ثابت کردیا تو اس نے اپنی طاقت استعمال کرتے ہوئے ابراہیم علیہ السلام کو آگ کے الائو میں پھینک دیا، مگر نصرت ِالٰہی نے انہیں وہاں سے بھی بحفاظت باہر نکال کر ایک بار پھر انؑ کی اخلاقی برتری ثابت کردی، تب بھی نمرود نے دلیل ماننے کے بجائے طاقت کے استعمال کو ہی بہتر جانا۔ یورپ کی تاریخ کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ قرونِ وسطیٰ تک یورپ بڑی حد تک عیسائیت کی تعلیمات کے ماتحت تھا۔ اس دور میں معقولیت، مکالمے اور دلیل کو کبھی رد نہیں کیا گیا۔ مگر عیسائیت کے بتدریج زوال کے نتیجے میں یورپ مکمل طور پر سیکولر ہوگیا تو یورپی قوموں نے آپس میں بھی مکالمہ کرنا پسند نہ کیا بلکہ طاقت کو اپنا بہترین ہتھیار جانا۔ اس صورت حال نے دنیا کو یکے بعد دیگرے دو عالم گیر جنگوں سے دوچار کیا۔ مشرق وسطیٰ میں مغرب نے دلیل اور مکالمے کو مکمل طور پر رد کرتے ہوئے فلسطینیوں کو ان کے وطن سے بے دخل کردیا اور دنیا بھر کے یہودیوں کو فلسطین میں جمع کرکے اسرائیل کی ناجائز ریاست بزور بازو قائم کردی۔ مغرب نے فلسطینی مقبوضہ علاقوں یعنی مغربی کنارے اور غزہ کی تحریک مزاحمت ’’حماس‘‘ کو پوری دنیا سے کاٹ کر دنیا کی سب سے بڑی انسانی جیل تشکیل دی۔ اس ’’انسانی جیل‘‘ پر اسرائیل نے سترہ دن تک بارود اور آہن کی بارش کی، مگر حماس کی استقامت اور اسرائیل پر راکٹ حملوں سے بوکھلا کر مذاکرات کی میز سجائی گئی، مگر شروع میں دلیل اور مکالمے کو سختی سے رد کردیا گیا۔ 9/11 کے بعد امریکا نے افغانستان کی طالبان انتظامیہ اور شیخ اسامہ کو ٹوئن ٹاور پر حملے کا مجرم گردانتے ہوئے حملے کا ارادہ ظاہر کیا تو طالبان انتظامیہ نے  اسامہ کے خلاف ثبوت مانگے اور  اسامہ کو کسی غیر جانب دار ملک کے حوالے کرنے پر آمادگی ظاہر کردی۔ اس معقول استدلال کو رد کرتے ہوئے افغانستان کو خاک و خون میں نہلا دیا گیا۔ گزشتہ گیارہ سال سے یہ خونیں کھیل جاری ہے۔ ڈیزی کٹر بموں، کارپٹ بمبنگ اور قرآن کی توہین جیسے ہتھکنڈوں کی ناکامی اور مجاہدین کی مسلسل استقامت کے بعد امریکا نے طالبان سے مذاکرات کے لیے بے چینی کا اظہار کیا، مگر شاید تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دوہرانے والی ہے کہ سپر پاور افغانستان میں شکست کھانے کے بعد دنیا کے نقشے سے سوویت یونین اور عظیم سلطنت برطانیہ کی طرح غائب ہوجاتی ہے۔ اب ریاست ہائے امریکا کا یہی انجام قریب ہے۔ تقدیر امم کیا ہے کچھ کہہ نہیں سکتا مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارہ...............
 .......... فلسطین میں جبراً آباد کی جانے والی ہر یہودی بستی، افغانستان میں دم توڑتی ہر معصوم بچی، عافیہ صدیقی کیس، گوانتاناموبے کا اذیت کدہ اور          سے بلند ہونے والی بہنوں کی آہ و بکا اس مکالمے کی ناکامی کا اعلان ہے۔ مغرب سے مکالمہ جرم نہیں، مگر اس مکالمے کی کسی پائیدار بنیاد کا ہونا ضروری ہے۔ اس وقت مغرب مکالمے کے بجائے تصادم کی راہ پرگامزن ہے۔ یہ گھڑی فضول مکالمے میں وقت ضائع کرنے کے بجائے عمل کی طلب گار ہے۔ یہ گھڑی محشر کی ہے تُو عرصۂ محشر میں ہے پیش کر غافل کوئی عمل اگر دفتر میں ہے تہذیبی تصادم کی اس فضا میں ایک اور قابلِ غور غلط فہمی یہ ہے کہ چونکہ دنیا بھر میں ہونے والی قتل و غارت گری میں مختلف مذاہب کے ماننے والے باہم برسرپیکار ہیں لہٰذا ایک عالمی بین المذاہب مکالمے (INTER FAITH DIALOGUE) کی ضرورت ہے تاکہ بین المذاہب مفاہمت کے نتیجے میں دنیا امن کا گہوارہ بن جائے۔ اس خیال کی بنیادی خامی یہ ہے کہ یہ بات برسرزمین حقائق کے خلاف ہے۔ اس وقت دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں حکومتوں کا ڈھانچہ سیکولر ہے اور زمامِ کار بھی سیکولر قوتوں کے ہاتھ میں ہے۔ اس وقت دنیا میں کہیں بھی ایسی اسلامی، عیسائی اور یہودی ریاست موجود نہیں جس نے اپنے مذہب کے ریاستی و معاشرتی سطح پر احیاء کو ممکن بنایا ہو۔ اور تو اور دنیا کی نظریاتی مملکت کہلانے والے دو ممالک پاکستان اور اسرائیل بھی اپنی چند مذہبی رنگ کی حامل دستوری شقوں کے باوجود عملاً محض سیکولر ریاستیں ہیں۔ ایسی صورت میں جب دنیا کے متحارب گروہ مسلم، عیسائی اور یہودی بنیادوں پر متصادم ہی نہیں (بلکہ اصل جنگ سیکولر مغربی اور اسلامی تہذیب کے درمیان جاری ہے) تو بین المذاہب مکالمہ محض ایک لاحاصل ذہنی عیاشی ہی کہلا سکتا ہے۔ مغربی دانش ہر قسم کی مذہبی قوت اور علامت کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپی یونین نے اپنے مشیروں میں ہیبرماس جیسے فلسفی کو شامل کیا، مگر عیسائیت کی سب سے بڑی شخصیت یعنی پوپ کو شامل نہیں کیا۔ اس پر پوپ نے سخت احتجاج کیا، مگر یہ احتجاج حقارت کی نگاہ سے ٹھکرا دیا گیا۔ اس معاملے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ مغرب کے پس پشت کارفرما ذہن لبرل ازم یعنی مغربی تہذیب کے مخالفوں سے مذاکرات کے بجائے ان کا صفایا کرنے کا قائل ہے۔ رالز کے نزدیک لبرل سرمایہ داری کے انکاری، معاشرے کے لیے ایک بیماری کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کو اسی طرح کچل دینا چاہیے جس طرح ہم مضر کیڑے مکوڑوں کو کچل دیتے ہیں۔ ایک اور لبرل مفکر ڈربن کے مطابق… ''I am ready to agree any one who is liberal, if he is not liberal, I am not going to agree with him, I am going to shoot him,'' اس وقت جب کہ امریکا مکالمے، امن اور مذاکرات نام کی ہر چیز کو روندتا ہوا نہ صرف عراق اور افغانستان کے لاکھوں مسلمانوں کو قتل اور ان سے زیادہ کو اپاہج بنارہا ہے، اسی امریکا نے عراق کے اسپتالوں میں دوائیوں کی رسد منقطع کرکے دولاکھ سے زائد عراقی بچوں کو تڑپ تڑپ کر مرنے پر مجبور کردیا۔ اسی مغرب کے ٹھیکیدار کی طفیلی ریاست اسرائیل نے غزہ شہر کا محاصرہ کرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو شعب ابی طالب میں محصورکرنے کی یاد تازہ کردی۔ کہاں گئے بین المذاہب مذاکرات، کہاں ہے نام نہاد مکالمہ! اس مکالمے کی حقیقت معلوم کرنی ہو تو غزہ میں شہداء کی مائوں سے ملیے، جن کے معصوم بچوں کے جسموں کے چیتھڑے بتارہے ہیں کہ یہ مکالمہ محض فریب اور امت ِمسلمہ کی رہی سہی غیرت اور مزاحمت کے خاتمے کا عنوان ہے۔ امن کا درس محض جہاد کے خاتمے کی ناآسودہ خواہش کا نام ہے۔ امریکا کے ہاتھوں امتِ مسلمہ پر ظلم کی داستان میں کہیں بارود کی بو ہے تو کہیں معصوم بچوں کے لہو کی بوندیں ہیں، کہیں ہچکیوں اور سسکیوں کی گھٹی ہوئی آوازیں ہیں تو کہیں شہیدوں کی بیوائوں کے بہتے آنسوئوں کی نمکینی ہے، اور کہیں ان باحیا عورتوں کی برہنہ لاشیں ہیں جنہیں آفتاب و ماہتاب کی کرنوں کے سوا کسی غیر نے نہ دیکھا تھا۔ یہ داستاں ایک خوں چکاں تحریر ہی نہیں آتش فشاں تاریخ بھی ہے جو امریکی دہشت اور وحشت کے ہتھیاروں سے امت ِمسلمہ کے افق پر تحریر کی جارہی ہے۔ مکالمے کے ضمن میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ مکالمہ کہاں ممکن ہے اور اس کی ضرورت کہاں ہے؟ غور سے دیکھا جائے تو زیرنظر مکالمے کے ضمن میں ہمارا رویہ مضحکہ خیز ہے۔ ہم مغرب سے ایک غیر منطقی اور بے نتیجہ مکالمے کے لیے بے چین ہیں جب کہ امت ِمسلمہ کے مختلف مکاتب فکر سے مکالمے کے سرے سے انکاری ہیں۔ جس قدر تگ و دو اسلام و مغرب کے مکالمے کے لیے کی جارہی ہے اگر اس کا عشر عشیر بھی عالم اسلام کی تحریکات اور مزاحمتی گروہوں کے درمیان مکالمے کے لیے کی جائے تو امت مقابلے اور مکالمے دونوں کے لحاظ سے ایک بہتر پوزیشن میں آسکتی ہے۔ امت ِمسلمہ کے راسخ العقیدہ مکاتب فکر کے جتنے بھی فروعی اختلافات پائے جاتے ہوں، بہرحال وہ سب اللہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، قرآن و سنت، خلافت ِراشدہ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اسلامی طرزِ زندگی کے احیاء پر متفق ہیں۔ ایسی صورت میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ان مشترکہ امور کی بنیاد پر امت کے مختلف مکاتبِ فکر، تحریکاتِ اسلامی اور مزاحمتی گروہ باہم مکالمے کا آغاز کریں تاکہ ان سب کے درمیان پائے جانے والے جزوی اختلافات کے باوجود یہ ایک دوسرے کے معاون و مددگار بنیں۔ تحریکاتِ اسلامی کی مشترکہ حکمت عملی مغرب پر مربوط ضرب لگانے کے ساتھ ساتھ مغرب کی ذہنی مرعوبیت ختم کرنے میں بھی مددگار ہوگی۔ اسی طرح مغربی استعمار کے گماشتوں یعنی اسرائیل اور بھارت وغیرہ کے خلاف برسرپیکار مزاحمت کاروں کے درمیان مکالمے کی ضرورت ہے تاکہ عالمی سطح پر عالمی استعمار کے مقابلے کے لیے مربوط عسکری حکمت عملی ترتیب دی جاسکے۔ اس وقت مغرب کی طرف سے امت ِمسلمہ سیاسی، علمی اور عسکری ہر سطح پر چیلنج سے دوچار ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ امت اور اس کی تہذیبی اقدار کو صفحہ ہستی سے مٹانے پر تیار مغرب کے خلاف دنیا بھر کی اسلامی تحریکات، مزاحمتی گروہ اور دین کے اصل وارث یعنی علماء کرام باہمی مکالمے کے ذریعے ایک دوسرے کے مددگار اور پشتی بان بنیںاور امت کو تاریخ کے اس نازک ترین دور سے نکال کر آگے لے کر جائیں۔ یہ دور اپنے تمام تر چیلنجز کے ساتھ ساتھ امکانات کی ایک لامحدود کائنات بھی رکھتا ہے۔

No comments:

Post a Comment