Search This Blog

Thursday, 5 April 2012

ہماری جائز مانگوں کی خاطر

سمیع احمد قریشی
میٹ والی چال، روم نمبر68، دادا صاحب پھالکے روڈ، دادر، ممبئی
فون نمبر:  9323986725

ہماری جائز مانگوں کی خاطر، جلوس نکالنا ہمارا جمہوری حق ہے
جلوس کی خاطر جوش کے ساتھ ہوش کا رہنا ضروری
سو فی صد سچ ہے کہ جوش میں ہوش کو قائم رکھنا ضروری ہے۔ جب ہماری مسلمانوں کی صفوں میں کالی بھیڑیں موجود ہوں تو یہ آواز بھی زیادہ ہوجاتا ہے کہ اُسے قائم رکھیں۔ آج جہاں چند سالوں سے مسلم قوم، پورے ملک ہی میں نہیں بین الاقوامی سطح پر تعلیمی میدان میں آگے جارہی ہے۔ جو آج کے دور میں انتہائی ضروری ہے۔ مسلمانوں کو تعلیمی سماجی ترقی کی جانب سے ہٹانے کے لیے، اک منظم سازش کے تحت ، تخریبی، غیر ضروری باتوں کی جانب اُلجھا کر اُن کا قیمتی وقت، روپیہ پیسہ برباد کرنے کی ناکام کوششیں کی جارہی ہیں۔ اُس کے باوجود یہ مسلمان ترقی کی جانب گامزن رہے گا۔ پھونکوں سے چراغ بجھایا نہ جائے گا۔ مسلمانوں کی تعمیر و ترقی روکنے کے لیے، جہاں ہمارے ملک عزیز میں، اُسے بے قصور، بے گناہ ہونے کے باوجود بلا وجہ گرفتار کیا جارہا ہے۔ دوسری جانب اُس کی شریعت کا مذاق اُڑایا جارہا ہے۔ نعوذباللہ قرآن پاک اور ہمارے پیارے نبیۖپر رکیک حملے ہورہے ہیں۔ نیز غیر ضروری باتوں پر اُکساکر اُسے سڑکوں پر اُتارنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ وہ پولس کی لاٹھی و گولی کا شکار بنیں، گرفتار ہوں، جیل جائیں، پھر عدالتوں میں تو پھر اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ ابھی ابھی حال ہی میں ہم نے سبرامنیم سوامی کی مذہبی دِل آزاری پر صبر سے کام لیا۔ ہم قانونی کارروائیوں پر دھیان دیا۔ جس کا نتیجہ یقینی طور پر ملے گا۔ ملعون سلمان رشدی  کی جے پور آمد پر، پورے ہندوستان میں صبرآمیز، جمہوری طریقہ سے احتجاجات کیے۔ اُسی کا نتیجہ تھا کہ وہ ملعون رشدی ہندوستان نہ آسکا۔ ہم نے اس ملک میں گزشتہ  چند سالوں سے دیکھا ہے کہ ہمارے پرامن احتجاجی جلوسوں پر پولس نے کس بربریت کا مظاہرہ کیا۔ جب ہمارے صوبہ کا وزیر داخلہ یہ کہے کہ پتھر کا جواب گولی ہے تو اس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ پولس کیسی ہوگی۔ جب رات ہے ایسی متوالی تو صبح کا عالم کیا ہوگا۔ کسی دل آزار چاہے و ہ مذہبی ہو یا غیر مذہبی حرکت، اس پر جمہوری طریقہ سے پرامن احتجاج  عوام کا دستوری حق ہے۔  اس سے ہمیں کوئی روک نہیں سکتا۔ مگر ہم میں بھی کالی بھیڑیں ہیں جن کے باعث پوری مسلم قوم کی رسوائی ہوسکتی ہے۔ یہ 'کالی بھیڑیں' کہیں ہمارے جلوس میں اوسامہ بلادین کی تصویریں اُٹھائی ہوتی ہیں تو کہیں 'ہم سے جو ٹکرائے گا مٹی میں مل جائے گا' کے علاوہ مسلکی وغیر مسلکی دل  آزار نعرے لگاتے ہیں۔ قاعدے و قانون کو بالائے طاق رکھ کر، بلاضرورت جلوس و جلسے کرتے ہیں۔ پھر ہماری پریشانیاں بڑھتی ہیں۔جانی و مالی نقصانات ہوتے ہیں۔ مالیگائوں و ممبئی کے مسلمانوں کو مسلمانوں کے جلوسوں کے ساتھ، پولس کی بربریت کا اندازہ بخوبی ہوگا۔ مضمون ہٰذا لکھنے کا مقصد ہرگز مسلمانوں کو ڈرانا یا خوف دلانا ہرگز نہیں ہے۔ ہم نے تو بے قصوروں، بے گناہوں چاہے وہ ہندو ہوں یا مسلمان سب کے حق میں لڑائی لڑی ہے۔ لڑرہے ہیں۔ کسی کا خوف و ڈر نہیں۔ ہم صاف ایمان ہیں۔ صرف خدا سے ڈرتے ہیں۔ ہم نے اُن ماں باپ کو دیکھا ہے جن کی اولادیں جلوس میں گئیں اور پھر واپس نہ آئیں۔ ہم نے اُن تاریخ ساز جلوس کو دیکھا ہے جو انتہائی پرامن رہے۔ شرکاء جلوس کے لحاظ سے تاریخی بن گئے۔ جیسے 1969ئ میں مسجد اقصیٰ کے معاملہ میں مسلمانان ممبئی کا تاریخی جلوس جس کی کریڈٹ قائدین مسلم اور علمائے دین کو ہی دی جائے گی۔ جنہوں نے انتہائی عمدہ و معیاری قیادت کی بناء پر تاریخی پرامن شاندار جلوس نکالا جو ممبئی ہی نہیں دُنیا کی تاریخ کا حصہ بنا دیا۔ 
آج مسلمانوں میں قوم کا نام لینے والے لیڈروں کی کمی نہیں۔ اس کا فیصلہ جلد بھی نہیں کیا جاسکتا کہ کون صدق دِل سے لیڈر ہے۔ ان میں شبیر عقل و فہم ، بردباری سنجیدگی سے عار میں پبلسٹی کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ احتجاج کس طرح معیاری بنے، جانتے نہیں۔ جوش میں ہوش کیا ہوتا ہے جاننے سے دور ہیں۔ ان کے لیے جذبات بھڑکاکر، مسلمانوں کو سڑکوں پر اُتارنا آتا ہے۔ مگر کنٹرول کرنا نہیں آتا۔ عام مسلمانوں کو سمجھنا چاہیے کہ جلوس کے نام پر بھی خوبصورت ''سیاست'' ہوتی ہے اور آخر جمعہ کا دن ہی جلوس کے لیے کیوں؟ اس پر بھی سوچنا سمجھنا ضروری ہے۔ صرف نام نہاد شہرت کے لیے اک کے بعد اک موضوع کو صرف نام نہاد سستی شہرت کے لیے تلاش کرتے رہنا یہ سراسر عقلی دیوالیہ پن کی نشانی ہے۔ 
جو نام نہاد لیڈران، آئے دن کرتے آئے ہیں، کاش کہ وہ ہوش کے ناخُن لیں۔ دراصل مسائل کے تدارک کے لیے لمبی جدوجہد کرنی ہوتی ہے۔ اللہ کا فضل و کرم ہے کہ آج بھی ممبئی اور پورے ملک میں سنجیدہ دانشوران قوم و علماء کرام کی کمی نہیں جو انتہائی سنجیدگی و متانت کے ساتھ ، انتہائی جانفشانی سے قوم ملک و ملت کے لیے کارخیر کررہے ہیں۔ وہ بھی متواتر سالہا سال سے۔ الغرض مختصر یہ کہ جائز مطالبات کے لیے، جمہوریت نے پرامن تحریک کا حق دیا ہے۔ مگر اس حق کے نام پر مسلمانوں میں گھسی کالی بھیڑیں، پولس میں گھسی کالی بھیڑیں، ہم مسلم نوجوانوں کی زندگیوں کے ساتھ خونی کھلواڑ نہ کریں۔ اس کا سدباب ضروری ہے۔ 


سمیع احمد قریشی

No comments:

Post a Comment