Search This Blog

Tuesday 26 June 2012

محمد مُرسی کی کامیابی

محمد مُرسی کی کامیابی

- آخر کار مصر میں ایک طویل دور آمریت کا خاتمہ ہوگیا۔ جمال عبدالناصر کی بغاوت کے بعد سے اب تک مصر پر فوج ہی قابض تھی جس کی آخری علامت حسنی مبارک نے 30 سالہ تک اس ملک پر حکومت کی اور بظاہر انتخابات بھی کروائے۔ لیکن یہ انتخابات یکطرفہ ہی ہوتے تھے جس میں وہ بھاری اکثریت سے جیت جاتے تھے۔ مخالفین کو انہوں نے کبھی آزادی سے انتخابات میں حصہ لینا تو درکنار‘ آزادی سے زندہ رہنے کا حق بھی نہیں دیا۔ مصر کی مقبول ترین جماعت اخوان المسلمون ہے لیکن اس پر زندگی تنگ کردی گئی۔ اس کے رہنمائوں کو پھانسیاں دی گئیں اور بے شمار افراد کو جیلوں میں ٹھونس دیا گیا۔ آخر کار اللہ نے اپنی رسی کھینچ لی اورمصر بھی بہار انقلاب کی زد میں آگیا۔ تیونس سے اٹھنے والے عوامی طوفان نے مصر کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا‘ تیونس میں عوامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اہل تیونس نے یہ نعرہ لگایا تھا ’’مصریو‘ اب تمہاری باری ہے۔‘‘ اور پھر مصر کے عوام بھی سڑکوں پر نکل آئے۔ ہر چوک کو میدان التحریر یا آزادی چوک بنادیا گیا۔ حسنی مبارک نے آخری وقت تک قدم جمانے کی کوشش کی لیکن عوام کا پیمانہ صبر کب کا لبریز ہوکر چھلک اٹھا تھا۔ فروری 2011 ء میں انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا۔ جب عوام بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئیں تو پھر تبدیلی آکر رہتی ہے۔ مصر کی حکومت کے پیچھے بھی فوج کا ہاتھ تھا لیکن عوام کا سیلاب دیکھ کر وہ بھی کچھ نہیں کرسکی۔ البتہ عوام کو ٹھنڈا کرنے اور اقتداراپنی مٹھی میں رکھنے کے لیے حسنی مبارک کی برطرفی کے بعد ایک فوجی کونسل بنادی گئی جس کے سربراہ فیلڈ مارشل حسین طنطاوی تھے۔ فوجی کونسل کو شاید یہ گمان ہو کہ حسنی مبارک کی برطرفی کے بعد عوام کا غصہ ٹھنڈا ہوجائے گا اور وہ اپنی من مانی کرتی رہے گی۔ پارلیمنٹ کا انتخاب کرایا گیا جس میں اکثریت اخوان المسلمون کے پاس آگئی۔ گزشتہ دنوں پارلیمنٹ کے آدھے ارکان کو فارغ کردیا گیا۔ صدارتی انتخابات ہوئے تو ان میں محمد مُرسی نے اکثریت حاصل کی مگر ان کی کامیابی کے اعلان میں دانستہ تاخیر کی گئی۔ آخر کار ایک بار پھر عوام نے سڑکوں پر دھرنا دیا۔ گزشتہ اتوار کو الیکشن کمیشن کے سربراہ نے محمد مُرسی کی کامیابی کا اعلان کردیا۔ ان کے مقابلہ میں حسنی مبارک کے دور کے وزیراعظم احمد شفیق تھے جو فوج کے لیے پسندیدہ تھے کیونکہ وہ بھی ایک ریٹائرڈ جنرل ہیں۔ ان کی کامیابی فوج ہی کی کامیابی ہوتی۔ مگر ایسا ہو نہیں سکا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ عالم عرب کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک مصر میں ایک دیندار مسلمان ایوان صدر میں داخل ہوا ہے اور اسلام پسندوں نے کامیابی حاصل کی ہے۔ یہ کامیابی اخوان المسلمون کی کامیابی ہے جو کئی عرب ممالک کے عوام میں مضبوط جڑیں رکھتی ہے لیکن لادین حکمرانوں کی سختیوں کی سب سے زیادہ شکاربھی وہی رہی ہے۔ صدارتی انتخاب میں 5کروڑ سے زائد افراد نے ووٹ ڈالے جن میں سے محمد مُرسی نے 51.73 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ 16-17 جون کو ہونے والے انتخابات میں معلوم ہوگیا تھا کہ محمد مُرسی جیت گئے ہیں مگر احمد شفیق اور دیگر صدارتی امیدواروں نے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ بہرحال ان کی یہ کوشش بھی ناکام ہوگئی مگر اب مغربی ذرائع ابلاغ اور لادین عناصر ایک دیندار مسلمان کی کامیابی کو نیا رنگ دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قوم تقسیم ہوگئی ہے۔ قبطی چرچ کے سربراہ نے اسلام پسندوں کی کامیابی کو مصر کے لیے خطرہ قرار دیا۔ احمد شفیق کے حامیوں پر سوگ طاری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ مصر کے لیے ایک افسوسناک دن ہے کہ اس ملک کی نمائندگی محمد مُرسی اور ان کا گروپ کرے گا۔ اسلام کے مخالفین ابھی سے یہ پروپیگنڈا کررہے ہیں کہ اخوان المسلمون شخصی آزادی پر قدغن لگادے گی اور سیاست میں مذہب کا دخل ہوگا۔ حیرت ہے کہ ان لوگوں نے حسنی مبارک کی آمریت کو تو قبول کرلیا جس نے شخصی آزادی کا تصو رہی ختم کردیا تھا اور مذہب کو سیاست ہی نہیں معاشرت سے بھی بے دخل کردیا تھا۔ شخصی آزادی کا یہ عالم تھا کہ مصریوں کو ڈاڑھی رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ جب حسنی مبارک برسراقتدار آیا تو اس نے کالجوں اور جامعات کے باہر فوجی دستے تعینات کردیے تھے جو باریش طلباء اور اساتذہ کی ڈاڑھیاں مونڈ کر ان کو اندر جانے کی اجازت دیتے تھے۔ حسنی مبارک نے اپنے عوام خاص طو رپر اسلام پسندوں کے ساتھ جو کچھ کیا اس پر کسی قبطی چرچ نے آواز اٹھائی نہ نام نہاد سیکولر عناصر نے۔ حسنی مبارک کی آمریت کے خلاف اسلام پسند اور دین دار طبقہ ہی میدان میں آیا جس کا نعرہ اسلامی نظام ہی تھا اور اللہ اکبر کے نعرے لگتے تھے۔ تاہم محمد مُرسی نے کامیابی کے بعد سب کو ساتھ لے کر چلنے کا اعلان کیا ہے اور مصر کو حقیقی جمہوری ملک بنانے کا وعدہ کیا ہے لیکن سیکولر عناصر اور عیسائیوں کا خوف دور کرنے ‘ خود کو جمہوریت کا علمبردار ثابت کرنے کے لیے محمد مُرسی شریعت پر کوئی سمجھوتا کرنے سے باز رہیں۔ یہ عزت ان کو اللہ نے اسلام کا نام لینے پر دی ہے۔اگر انہوں نے اللہ کے بجائے بندوں کو خوش رکھنے کی کوشش کی تو اللہ تعالیٰ ان سے یہ منصب واپس بھی لے سکتا ہے۔ اخوان المسلمون نے کئی عشروں پر مشتمل یہ جدوجہد کسی سیکولر نظام یا مغربی جمہوریت کے لیے نہیں کی ہے۔ بعض عرب رہنما کامیابی کے بعد شریعت نافذ کرنے کے اپنے ارادوں سے ہٹتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جمہوریت اسلام اور شریعت نہیں ہے۔ اگر کوئی اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کی غرض سے اسلامی نظام کے نفاذ سے انحراف کرتا ہے تو شاید وہ حسنی مبارک کی طرح 30 سال گزارلے لیکن اس کا انجام کچھ مختلف نہیں ہوگا۔ بہار عرب کے نتائج دیکھتے ہوئے ان حکمرانوں کو بھی سبق حاصل کرنا چاہیے جو عوام کو تنگ کرنے اور ان کے حقوق غصب کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ وہ شاید اس گمان میں ہیں کہ ان کے خلاف عوام باہر نہیں نکلیں گے اور ان کے ملک میں میدان تحریر نہیں سجے گا۔ یہی گمان تیونس‘ لیبیا اور مصر کے حکمرانوں کو بھی تھا اور شاید یہی شام کے حکمرانوں کو ہے۔ جن ممالک میں عوامی انقلاب کامیاب ہوا ہے وہاں کے حکمرانوں کو امریکا کی سازشوں سے بھی ہوشیار رہنا چاہیے جس کا اختیار اپنے غلاموں کے خلاف عوامی تحریکوں پر چاہے نہ ہو لیکن وہ عوام کی کامیابی کو اپنی کامیابی میں بدلنے کی کوشش ضرور کرسکتا ہے اور کررہا ہے۔

No comments:

Post a Comment