Search This Blog

Tuesday 31 July 2012

مصر از انقلاب تا انتخاب۔۔۔تاریخی پس منظر میں

مصر از انقلاب تا انتخاب۔۔۔تاریخی پس منظر میں


انقلاب مصر ،جس کی شروعات 2011 کے بہار میں ہوئی، صداراتی انتخابات کے اختتام تک ایک لمبے سفر سے گذرا۔ اخوان المسلمین کے محمد مرسی کے صدر منتخب ہونے کے بعد بھی مصر ی جمہوریت کو محکم نہیں مانا جا سکتا کیونکہ پرانی واحد حزبی حکومت کے سایے ابھی بھی حکومتی ایوانوں میں اپنی چھاپ بنائے ہوئے ہیں۔ترکی کی مانند مصری فوج بھی مصر کی دفاعی حکمت عملی و خارجی امورپر اپنے دیرینہ کنٹرول سے ہاتھ نہیں کھنچنا چاہتی اور مصر کی دفاعی حکمت عملی و خارجہ پالیسی نہ صرف مصری اغراض و مقاصد بلکہ عرب دنیا کی پالیسی سازی کی بھی ترجمان ہو سکتی ہے اور اُس کی وجہ مصر کا جغرافیائی محل وقوع، حدود اربعہ،آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا عربی ملک ہونا،شرح خواندگی کے لحاظ سے پیشرفتہ ترین عربی ملکوں میں اُس کا شمار ہونے کے علاوہ کئی اور وجوہات کو گنا جا سکتا ہے جن میں تاریخی وجوہات بھی شامل ہیں ۔
زمانہ قدیم سے ہی مصر کی مہذب دنیا پرسیاسی چھاپ رہی ہے ۔ فرغنہ مصر ،فرعون وآل فرعون کی روایات کی نہ صرف تاریخ بلکہ مقدس مذہبی کتابیں بھی گواہ ہیں۔ تعمیری روایات ،جن میں اہرام مصر کو گنا جاسکتا ہے،نے کرہ ارض کے تاریخی ماخذوں میں مصر کا نام سر فہرست رکھا اور اِن تعمیرات کے ساتھ بھی تاریخی و مذاہب اہل کتاب کی روایات جڑی ہوئی ہیں ۔حضرت یوسف ؑ سے سوتیلے بھائیوں کی دغا بازی، اُن کا کنوئیں میں پھینکا جانا اور پھر ایک قافلے کے وسیلے سے کنوئیں سے باہر لایا جانا،بازار مصر میں اُن کی فروخت،عزیز مصر کے دربار میں رسائی،عزیز مصر کی اہلیہ زلیخا کا حسن یوسف ؑ پر فریفتہ ہونااور حضرت یوسف ؑ کا پیغمبرانہ تقدس قائم رکھتے ہوئے انجام کار عزیز مصر بننا اور پھر مصری دربار میں قحط زدہ کنعاں سے آئے ہوئے سوتیلے بھائیوں سے فراخدلی سے پیش آتے ہوئے اُن کو غلہ فراہم کرنااور اِس بیچ حضرت یعقوب ؑ سے بیٹے کی جدائی کے غم میں نا بینائی اور پھر بیٹے کی خبر آتے ہی مسرت کے لمحات ایک ایسی حقیقت کے گواہ ہیں جہاں دغا ،لالچ،انسانی اقدار سے کھلواڑ بھی ہے اور انسانیت کی بہترین روایات بھی دیکھنے کو ملتی ہیں،پیغمبرانہ وسعت قلبی کی جلوہ نمائی بھی ہے اور یہ بھی دیکھنے کو ملتاہے کہ زمانہ قدیم میں مہذب دنیا کی قحط زدگی کو دریائے نیل کے کنارے پر واقع مصر کی لہلاتی ہوئی کھیتی ہی سہارا فراہم کرتی تھی۔ مصر کی اِس لہلاتی ہوئی کھیتی کو مد نظر رکھتے ہوئے حضرت عمر فاروق  ؓ نے بحیرہ احمر کے آر پار ایک سمندری راستے سے مصر و حجاز کی دوری کو نزدیکی میں بدل لیا تاکہ اسلامی سلطنت کے دارلخلافہ کو غلے کی فراہمی میں کو ئی دقت پیش نہ آئے ۔
زمانہ جدید میں بر اعظموں کے بیچوں بیچ سمندری راستے کو کم سے کم کرنے میں نہر سوئزکی ساخت ہوئی جس سے یورپ و افریقی ایشائی بر اعظموں میں دوریاں کم ہوئیں۔ خیر یہ تو بعد کی باتیں ہیں۔حضرت یوسف ؑ کے زمانے میں عبرانیوں کا مصر میں بس جانا اور اُن کے بعد فرعونوں کے اُن پر مظالم اور آخر کار حضرت موسی ؑ کے وسیلے سے اُن کی رہائی ،صحرائے سینائی میں سفر ، نجات دہندوںحضرت موسی ؑ واُن کے بھائی حضرت ہارون ؑ کے ساتھ عبرانیوں کی زیا دتیاں ،اسرائیل میں بستی، جو زمانہ جدید کی سیاست کو بھی گھیرے میں لئے ہوئے ہے کیونکہ یورپی یہودیوں نے اِسی بستی کو بنیاد بنا کر عربوں سے اُن کی زمین چھین لی اور ایک زبردستی کاقبضہ بنائے ہوئے ہیں۔ مصری تاریخ کی رنگینی کی داستاں اتنی ہی نہیں ہے۔ اُس کے کئی اور رنگ ہیں۔
بحر متوسط کے ساحل پرواقع مصر ایک افرو ایشیائی ملک ہے یعنی بر اعظم افریقہ و ایشیا پہ محیط ملک کے مغربی رومی سلطنت کے قریبی تعلقات نے اُس کو عالمی سیاست سے بہرہ مند رکھا ۔مصری ملکہ کلوپیٹرا کے قیصر روم جولیس سیزر کے رومانی وازدواجی رشتے اور اُس کے بعد قیصر روم کے شاہی دربار میں ایک با اثر شخصیت و قیصر کے قریبی دوست مارک انٹونی کے ساتھ اُس کے معاشقے نے ایک ایسی تکونی رنگین رومانی داستان کو جنم دیا جس سے ولیم شیکسپیئر جیسے ادیبوںنے اتنے رنگوں سے بھرا کہ آج تک اِس داستان کو رومان،سیاسی شعبدہ بازی،سامنے کی دوستی و پیٹھ میں خنجر کی مثال مانا جاتا ہے جہاں بروٹس نے رومن سنیٹ کی سیڑھیوں پہ چڑھتے ہوئے قیصر روم جولیس سیزر کی پیٹ میں خنجر گھونپا ۔یہ واقع تقریباََ نصف صدی قبل از تولد پاک حضرت مسیح  ؑ پیش آیا اور آج بھی سیاسی فریب کو یہ کہا جا تاہے کہ بروٹس کا رول دہرایا گیا۔مغربی رومی سلطنت کا زوال پس از تولد مسیح  ؑ کا دور ہے اور پھر رومیوں و یونانیوں نے مشرقی رومی سلطنت کی داغ ڈالی جس کا دارلخلافہ قسطنطنیہ بنا جو اسلامی دور میں اسلامبول بنا اور آج کل استنبول کہلاتا ہے۔مشرقی رومی سلطنت کو بازنطینی سلطنت بھی کہا جاتا ہے جو پس از طلوع اسلام زوال پذیر ہوئی ۔ مصر میں گرچہ اپنی بادشاہت تھی البتہ مصری بادشاہ مقومس بازنطینی سلطنت کا باجگذار تھا۔ مصریوں کی اکثریت نے دین اسلام کی عظمت کو قبول کرتے ہوئے مصر کو ایک اسلامی ملک بنایا البتہ مصریوں میں آبادی کا ایک قلیل حصہ عیسائی فرقے قبطیوں میں شامل رہا۔تاریخ اسلام کے سنہری دور میں مصریوں کا کافی اثر رہا جس کوایک کالم میں بیاں کرنا ممکن نہیں ہو گا بلکہ ہمیں زمانہ جدید میں ہی لوٹنا ہو گا۔
بیسویں صدی کے وسطی دور میں مصری شاہ فاروق کو فوجی انقلابیوں نے بر طرف کیا۔مصری ساحل سے رخصت ہوتے ہوئے شاہ فاروق نے تاریخی الفاظ دہرائے کہ جلد ہی دنیا میں پانچ ہی شاہ رہیں گے، چہار تاش کے اور ایک شاہ انگلستان ۔ سچ تو یہ ہے کہ مصری بادشاہت کے آخری دور میں تین خواتین شاہ فاروق کی والدہ ملکہ مادر نازلی برطانوی سفیر رسل پاشا (پاشا ترکی زباں میں سر کو کہتے ہیں اور یہ ایک اعزازیہ مانا جاتا تھا) کی اہلیہ اورمصری وزیر اعظم زغلول پاشاکی اہلیہ کا سیاسی امور میں بڑاعمل دخل تھا۔فوجی انقلابیوں کا رہبر کرنل جمال عبدالناصر تھا جس کے دور حکومت (1952-1970) میں اُنہیں بے پناہ محبوبیت نصیب ہوئی۔وہ عربی دنیا کے ہیرو مانے جاتے تھے حالانکہ 1967کی عرب اسرائیلی جنگ میں اُنہیں بری ہار کا سامنا کرنا پڑا ۔کرنل ناصر نے بے پناہ مقبولیت کے باوجود مصر کوایک پائدار جمہوریت نہیں دی اور اخوان المسلمین جیسی اسلام پسند تنظیموں کو حکومتی تشدد کا شکار ہونا پڑا۔ایک واحد حزبی حکومت قائم کی گئی حالانکہ ایک کامل جمہوریت میں بھی کرنل ناصر کی سیاسی حیثیت کو چلینج کرنا ایک انہونی بات تھی ۔یہ مصر سیاست کا المیہ رہا کہ تقریباََ ساٹھ سال گذرنے پر بھی مصری جمہوریت کو پائدار نہیں کہا جا سکتا حالانکہ اب ایک منتخب صدر زمام حکومت کو سنبھالے ہوئے ہیں۔
ناصر کی روایات کواُن کے جانشین انور السادات (1970-1984) نے قائم رکھا ۔1973 کی ماہ رمضان کی جنگ میں مصری افواج نے پہلی دفعہ کامیابی کا منہ دیکھاجس فوجی کامیابی کو مکمل تو نہیں کہا جا سکتا البتہ نسبتاً پہلے کی جنگوں ،جو1948 اور 1967میں ہوئیں، سے اِس جنگ میں مصر کا فوجی اعتبار قائم رہا ۔مصری فوجوں نے نہر سوئز کو عبور کر کے پہلی دفعہ اسرائیلی فوج کواچھنبے میں ڈال دیا۔شامی اور اردنی فوجوںکو البتہ اِس جنگ میں پسپائی کا سامنا کرنا پڑا۔سادات عربی اتحاد کو قائم نہیں رکھ سکا اور 1978 میں اُس نے اسرائیلی پارلیمنٹ میں اسرائیلیوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دئے ۔عربی مفادات کی بجائے سادات نے خالص مصری مفادات کا خیال رکھا جس سے سینائی کا علاقہ مصریوں کو واپس تو مل گیا لیکن آج تک یروشلم اور گولان کی بلندیاں اسرائیلی تسلط میں ہیں۔ 1984 میں فوج میں اسلام پسند وں نے سادات کو قتل کیااور  1984سے 2011تک حسنی مبارک نے اپنے پیشرؤں کی سیاسی روایات کوقائم رکھا۔
 2011؁ٗ کی عربی بہار کی ہواؤں نے جمہوری قوتوں کو انقلاب برپا کرنے کی شاہ دی۔پہلے پہلے لیبرل عناصر ،جن میں جمہوریت نواز طلبا  شامل رہے ،قاہرہ کے تحریر چوک میں مظاہروں میں شامل ہوئے ،البتہ مظاہروں کا حجم تب ہی بڑھنے لگا اور آواز موثر تر ہوتی گئی جب مظاہرین میں اسلام پسند عناصر شامل ہوئے جن میں قدیم جماعت اخوان المسلمین اور سلفی فرقے کے عناصر شامل تھے۔ فوج نے یہ دیکھتے ہوئے کہ حسنی مبارک ایک ناکارہ مہرہ بن چکا ہے، اُس کااستعفیٰ حاصل کیا اور دوسرے مہروں کو آگے بڑھانے کا سلسلہ جاری رکھا لیکن مصری پارلیمنٹ کے انتخابات میں اسلام پسندوں کی زبردست کامیابی کے بعد مصری فوج کے حاکم اگر چہ کچھ حدتک پسپا ہوئے لیکن سیاسی شطرنج پہ کچھ مہرے ابھی بھی فوجی کھیل کی ساکھ کوسہارا دئے جا رہے تھے جن میں قانون اساسی کی نگہباں عدالت پارلیمنٹ میں لئے جانے والے فیصلہ کے برعکس عدالتی رائے دے کر پارلیمانی فیصلوں کی نفی کرتی رہی حتّی کہ صدارتی انتخابات کی باری آئی۔صدارتی انتخابات کے الیکشن کمیشن میں فوج کے زیر سایہ کام کرنے والی حکومت نے اُنہیں عناصر کو الیکشن کمیشن میں شامل کیا جو فوج کے ہم پیالہ و ہم نوالہ تھے، چنانچہ اخوان المسلمین کے فرنٹ امیدوار خیرط الشتر کے کاغذات نامزدگی رد کر لئے گئے۔ ماضی میں اُن کی تجارتی سرگرمیوں کو شک کے دائرے میں لایا گیا۔ اِسی طرح سلفی امیدوار حازم صالح ابو اسماعیل کو اُن کی مرحومہ والدہ کی کسی زمانے میں امریکی شہریت کو بہانہ بنا کے اُن کے کاغذات نامزدگی رد کر لئے گئے۔امریکی حکومت کے کارندوں نے سابقہ امریکی شہریت کے ثبوت میں کاغذات فراہم کرنے میں زرہ بھر دیر نہیں کی اور ایسے میں مصری انقلابیوں سے اپنی خصومت کا ثبوت دیا۔حالت یہاں تک پہنچی کہ  23 کاغذات نامزدگی میں 10 کو رد کر لیا گیا۔اِس طرح فوج کی کوشش جاری رہی کہ ایک ایسے صدر کوسامنے لایا جائے جو فوجی حاکموں کے اشاروں پہ چلے لیکن نہ جانے کیوں اور کیسے اخوان المسلمین کے دست دوم کے امیدوار محمد مرسی کو میدان میں رہنے دیا گیا جنہوںنے انجام کار انتخاب جیت کے نئی حکومت قائم کی البتہ اُنہیں بہت احتیاط سے کام لینا ہو گا۔
فوج و انتظامیہ ایسے عناصر سے بھری پڑی ہے جو سابقہ ساٹھ سال کی انتظامیہ کے در پروردہ ہیں ۔یہ مفاد خصوصی رکھنے والا طبقہ اپنے مفادات کو خطرے میں دیکھ کے کوئی بھی اقدام کر سکتا ہے البتہ اِن عناصر کو خوف ہے تو یہی کہ اُن کا کوئی بھی اقدام تحریر چوک کے انقلابیوں کو سامنے لا سکتا ہے اور اُن کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اِس کے باوجود محمد مرسی کی کاامکانی کامیابی کو نظر میں رکھتے ہوئے مصری فوج و قانون اساسی پرنظارتی عدالت نے مصری پارلیمان کے انتخاب کو یہ بہانہ بنا کے کالعدم قرار دیا کہ جس قانون کے تحت یہ انتخابات کرائے گئے وہ قانون اساسی سے مطابقت نہیں رکھتا۔یہ کاروائی صدراتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے بعد ہوئی جب کہ دوسرے مرحلے میں دو ہی امیدوار میدان میں رہے ایک تو محمد مرسی اور حسنی مبارک کی سرکار کے آخری وزیر اعظم اور سابقہ ایر فورس جنرل احمد شفیق چونکہ اِن دونوں میں کسی کو واضح اکثریت نہیں ملی تھی لہذا دوسرے مرحلے کے انتخابات کروائے گئے جس میں محمد مرسی کو 51.7 فیصد اور احمد شفیق کو 48.3 فیصدوؤٹ حاصل ہوئے اور اُنہیں سال رواں کے  24 جون کو منتخب صدر قرار دیا گیا۔صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اُنہوں نے ہاشم قندل کو وزیر اعظم نامزد کیا جو کہ فوج کے زیر سایہ کام کرنے والی حکومت میں آبی وسائل و آبشاشی کے وزیر تھے۔موصوف امریکہ میں پڑھے لکھے انجینئر ہیں اور گر چہ اُن کا اخوان المسلمین سے کوئی تعلق نہیں البتہ وہ مذہب کے پابند مانے جاتے ہیں ۔
مصری فوج نے قانون اساسی کی نظارتی عدالت کے فیصلے کے ذریعے سے پارلیمان کی بر طرفی کا جو حکمنامہ صادر کروایا ہے اُس کو نادیدہ لیتے ہوئے کوئی دو ہفتے پہلے جولائی کے مہینے میں مصری صدر محمد مرسی نے بر طرف شدہ پارلیمان کا اجلاس طلب کیا جس میں فوج نے کوئی رخنہ تو نہیں ڈالا لیکن دیکھنا یہ ہے فوجی کونسل نے عدالتی حکم کی آڑ میں نئے قانون اساسی کی تشکیل اور بجٹ بنانے کا کام جواپنی تحویل میں لے لیا ہے، اُس کے تدارک کیلئے نئے صدر محمد مرسی کیا اقدامات کرتے ہیں ۔ایک قانونی جنگ مصر میں شروع ہو چکی ہے اور نئے صدر کو گوناگوں مشکلات کا سامنا ہے۔فوج بجٹ پر اپنی گرفت رکھنے والے فوجی افسروں کی مراعات اور فوجی اخراجات کے پھیلاؤ کو قائم رکھنے کی اپنی مہم میں کس حد تک جا سکتی ہے، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔مصر بھاری قرضے میں مبتلا ہے اور یہ قرضہ بہت حد تک بے غیرت و وطن فروش عناصر نے اپنی ذاتی ساکھ و ایک ایسے سیاسی ڈھانچے کو قائم رکھنے کے لئے کھڑا کیا ہے جسے نہ تو عربی مفادات کی پرواہ ہے نہ مصر کے غریب عوام کا خیال! مصر کے نئے سیاسی رخ کو جانچنے کیلئے امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن پچھلے دنوں مصر گئیں او ر صدر محمد مرسی سے مل کے ظاہراََ َمصر کی داخلی سیاسی کشمکش سے اپنی بے تعلقی ظاہر کی لیکن کون نہیں جانتا کہ در پردہ سیاسی تار کہاں سے ہل رہے ہیں۔اللہ نگہباں۔یار زندہ صحبت باقی!
Feedback on<iqbal.javid46@gmail.com>

No comments:

Post a Comment