Search This Blog

Tuesday 31 July 2012

زانوئے تلمذ تہہ کرنا شرط ِاوّل

زانوئے تلمذ تہہ کرنا شرط ِاوّل

گریجویشن میں نصابی اُردو پڑھنے کے بعدمجھے اردو شاعری کا چسکا لگ گیا ۔پہلے پہل تک بندی کرنے کے لئے لغت سے ہم آہنگ الفاظ چُن چُن کرمن گھڑت شعری جملے تراشنے کی کوشش کرنے لگا۔شاعری کا جنوں اس حد تک پہنچ گیا کہ نصابی تعلیم اثر انداز ہونے لگی۔گھروالوں کی ڈانٹ ڈپٹ کے باوجود چوری چھپے ایک ڈائری ترتیب دینے کا کام جاری رہا۔روز نت نئے اشعار ’’لکھنے‘‘ کی تگ ودو میں صفحے سیاہ کرنے میں گھنٹوںمصروف عمل رہتا۔چند کتابوں کے مطالعہ کے بعد پتا چلا کہ شاعری صرف ردیف و قافیہ کا نام نہیں بلکہ ’’ شعر چیزے دیگر است‘‘کے مترادف ایک ایسی دنیا ہے جس کی تخلیق کے لئے شعوری کوششوں کے علاوہ فطری رجحان کا ہونا اتنا ضروری ہے جتنا ایک انسان کیلئے پانی اور ہوا ضروری ہے۔یہ دنوں چیزیں کسبی نہیں بلکہ وہبی ہیں ۔اسی دوران مجھے کمال احمد صدیقی کی کتاب ’’ عروض اور آہنگ‘‘ پڑھنے کا موقعہ ملا۔پیش لفظ پڑھ کر ہی اندازہ ہواکہ عروض کی بھول بھلیوں سے نکلنا آسان نہیں۔پھر بھی میں نے ہمت کرکے بحروں کے اوازن اور ارکان سمجھنے کی کوشش کی ،لیکن جب عروض کا معاملہ ریاضی کی طرح پیچیدہ اور گنجلک لگا تو میںنے غزل کے بجائے آزاد نظم میں طبع آزمائی شروع کی لیکن جلد ہی معلوم ہوا کہ آزاد نظم کا بھی ایک باقاعدہ عروضی نظام ہوتا ہے۔اسی لئے نثر لکھنے پر اکتفا کیا۔
دوران مطالعہ مجھے اس بات کا شدید احساس ہوا کہ شاعری کے اسرارو رموز سیکھنے کے لئے اساتذہ کے سامنے زانوئے ادب تہہ کرنا شرط اول ہے۔ہر دور میں اساتذہ کی ایک روایت رہی ہے جو اپنے شاگردوں کو شاعری کے محاسن و معائب سے آشنا کرتے ہیں ،کلام کی باریکیوں سے روشناس کراتے ہیں تاکہ شاگردمیں شعرکہنے کا سلیقہ اور ہنربخوبی پیدا ہو ۔ورنہ بگڑا شاعر مرثیہ گو بننے میں دیر نہیں لگتی۔
آ پ کہ یہ جان کر تعجب ہوگا کہ عرب میں شاعری شروع کرنے کے لئے باضابطہ استادسے اجازت لی جاتی تھی ۔اس سلسلے میں عربی زبان کے رجحان ساز شاعرابونواس کا واقعہ بہت ہی مشہورہے ۔جب انہوں نے زمانہ ٔ طالب علمی میں ایک بار اپنے استاد خلف الاحمر سے شعر گوئی کی اجازت چاہی ۔تو خلف الاحمر کہا کہ میںتمہیں اس وقت تک اجازت نہیں دے سکتا جب تک کہ تم قدیم شعرائے عرب کے ایک ہزار اشعار حفظ نہ کرلواور ان میں گیت ،قصیدہ اور فردیات سب کچھ ہونا چاہیے۔ابو نواس یہ حکم سن کر ایک مدت کے لئے گوشہ نشین ہوگیا اور عرصہ طویل کے بعد حاضر ہو کر اس نے استاد سے کہا:
’’جناب ،میں نے آپ کا حکم بجا لایا۔‘‘
’’ تو سناؤ‘‘۔ خلف الاحمر نے کہا۔
ابونواس نے اشعار سنا نے شروع کیے اور کئی دن کی مدت میں اس نے اپنے یاد کئے ہوئے زیادہ تر اشعار سنا ڈالے اور پھر اپنی درخواست کا اعادہ کیا کہ مجھے شعر کہنے کی اجازت عطاہو۔
’’ اجازت نہیں مل سکتی ‘‘۔خلف الاحمر نے کہا۔’’ تاوقت یہ کہ تم وہ سب اشعار اپنے حافظے سے اس طرح محوکردو گویا تم نے انہیں کبھی یاد ہی نہ کیا تھا ۔‘‘
’’استاد ،یہ توبہت مشکل ہے‘‘۔ ابونواس نے کہا۔’’ میں نے تو یہ اشعار بڑی محنت کرکے اچھی طرح یاد کرلئے ہیں۔‘‘
خلف الاحمر نے صاف کہا کہ ’’جب تک تم انہیں بھلاؤ گے نہیں ،تب تک تمہیں شاعری کی اجازت نہیں ملے گی‘‘۔
بیچارہ ابونواس دوبارہ کسی خانقاہ میں چھپارہا اور بہت مدت وہاں پڑا رہا ،جب تک وہ سارے اشعار اس کی یاد اشت سے محو نہ ہوگئے ۔تب کہیں باہر نکل کر وہ استاد کی خدمت میں حاضر ہو ااور بولا:
’’استاد میں نے وہ اشعار اس طرح بھلادیئے ہیں گویا میں نے انہیں کبھی یاد ہی نہ کیا تھا ‘‘۔
’’ اچھا توجاؤ ‘‘۔خلف نے کہا ’’ اب شعر کہو‘‘۔
استاد اور شاگرد کے رشتے پر بات کرتے ہوئے اردو کے معروف محقق ڈاکٹر یعقوب عامر لکھتے ہیں:
’’ شاعری کے فن میں استادی اور شاگردی کو بڑی اہمیت حاصل تھی ۔جہاں کسی شاعرکے لئے فخر کی بات تھی کہ وہ اپنے زمانے کے مسلم الثبوت استاد سے تلمذ رکھتا وہاں استاد بھی اس بات پر ناز کرتاکہ اس کا شاگرد ہونہار اور ذہین ہے ۔دوسرے لوگ بھی اس بات کو قابل ذکر سمجھتے تھے کہ فلاں فلاں کا شاگرد ہے ،بغیر استاد کے کسی شاعر کو بہت کم امتیاز حاصل ہوتا تھا۔
ادبی تاریخ کا سرسری مطالعہ کرنے کے بعد ہی پتا چلتا ہے کہ اردو ادب میں باقاعدہ اصلاح سخن کی تحریک بھی چلی ہے یہاں تک کہ دبستانِ دلّی اور  دبستا نِ لکھنؤ کی بنیاد میں اصلاح سخن کی تحریک ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے۔جگہ جگہ ایسی تربیت گاہیں تھیں جہاں شعراء ایک دوسرے سے استفادہ کیا کرتے تھے ۔ ڈاکٹر عنوان چشتی ایسی تربیت گاہوں کے بارے میں رقطراز ہیں:
’’ اصلاح سخن کی تحریک کے پروان چڑھنے کے بعد دہلی میں ایک ہی وقت میں اردو شاعری کی چار تربیت گاہیں نظر آتی ہیں ۔ان میں پہلی تربیت گاہ خان آرزو کا مکان،دوسری شاہ تسلیم کا تکیہ ،تیسری خواجہ میر درد ؔ کی خانقاہ اور چوتھی میرتقی میر ؔ کی ڈیوڑھی ہے ‘‘۔
میں جانتا ہوں کہ میری طرح ہزاروں ایسے نوجوان ہونگے ،جن کے دل میں یہ خواہش ضرور ہوگی کہ ان کے اشعار بھی اخباروں اور رسالوں کی زینت بنیں ،کہنہ مشق شعراء ان کی طرف متوجہ ہوں یا کم از کم انہیں اتنی خفت نہ اُٹھانی پڑے کہ شعر ٹوٹ رہا ہو۔اکثر و بیشتر نام نہاد شعراء نوعمر و نوآموز شعراء پر استادی کی دھاک بٹھانے کے لئے یہی جملہ رٹتے رہتے ہیں کہ ’’شعر ٹوٹ رہا ہے ‘‘۔جس سے نوآموز شاعر کے حوصلے پہلے ہی مرحلے پرٹوٹ جاتے ہیںاور وہ شاعری کے نام پر کان پکڑنے لگتاہے ۔جب کہ ہونا ایسا چاہئے کہ کہنہ مشق شعراء اصلاح سخن کی روایت کو برقراررکھتے ہوئے نوآموز شعراء کی تربیت کرتے اور ایک نئی نسل کو سامنے لانے میں اپنا رول نبھاتے مگرفی الوقت ریاست میں اس نوعیت کی کوئی ادبی تحریک کے آثار دکھائی نہیں دے رہے ہیں ۔اسی لئے شاید ہم سنجیدگی کے ساتھ لکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ نہیں کرپارہے ہیں۔
……………………
موبائل نمبر:-9419711330 ؛   salimsalik2012@gmail.com

No comments:

Post a Comment