غازی محمد بن قاسم ایک بہترین مدبر،منظم اور
مثالی حکمران تھے
محبت وعقیدت میں غیر مسلموں نے ان کے مجسمے بنا
کر پوجنا شروع کردیا ۔ ایاز الشیخ
گلبرگہ ۔
رمضان المبارک ہمارے لیے کئی اہم تاریخی واقعات کی بنا پر بھی بڑی اہمیت
رکھتا ہے۔ 17 رمضان کو جنگ بدر ہوئی جو حق و باطل کے درمیان پہلا معرکہ تھا، جس نے
حق کی فتح کو راسخ کر دیا اور جس کے نتیجے میں آگے چل کر روم و فارس کی سلطنتیں بھی
اسلامی پرچم کے زیر نگیں آگئیں۔ 10 رمضان کو محمد بن قاسم کی زیر کمان مسلم فوج نے
سندھ کو فتح کیا۔محمد بن قاسم نے اپنی مظلوم بہن کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے نہ صرف
ان کو راجا داہر کے ظلم سے نجات دلائی بلکہ اہل سندھ کو اسلام کے آفاقی پیغام سے روشناس کیا یہی وجہ ہے
کہ سندھ کو باب الاسلام کا درجہ ملاجس کے بعد پورے برصغیر میں اسلام کی دعوت پھیلی۔
آج بھی غازی سندھ محمد بن قاسم کو سندھ کے عوام ہیرو کے طور پر یاد کرتے ہیں۔'' ان
خیالات کا اظہار جناب ایاز الشیخ، چیرمین امام غزالی ریسرچ فاونڈیشن نے اے ایل سی
لکچر ہال میں منعقد سیمینار کو مخاطب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ محمد بن
قاسم کی شخصیت تاریخ اسلام میں نمایاں
مقام رکھتی ہے، انہوں نے محظ 17 سال کی عمر ہی سندھ کو فتح کیا تھا، یہاں کے ڈاکو
اور قزاق عرب تاجروں کو بہت نقصان پہنچاتے تھے، ان کے جہازوں پر قبضہ کرلیتے اور
سامان لوٹ لیتے تھے، ایک مرتبہ ان لوگوں نے عرب کے جہازوں پر قبضہ کرلیا، مردوں ،
عورتوں اور بچوں کو قید کرلیا، جب سندھ کے حاکم راجہ داہر سے ان سب کو واپس کرنے کی
درخواست کی گئی ، تو قید کردہ لوگ جیل خانے میں موجود ہونے کے باوجود یہ کہہ دیا
کہ جہاز لوٹنے والوں پر ہمارا بس نہیں چلتا تم خود آکر اپنے قیدیوں کو چھڑا لو اور
اپنا مال واسباب حاصل کرلو، تب محمد بن قاسم93
ھ میںچھ ہزار کا لشکر لے کر سندھ
روانہ ہوئے اور اپنے اعلی اخلاق و کردار سے سندھ اور ملتان وغیرہ کو فتح کرلیا اور
پورے ملک میں امن ومان اور عدل وانصاف قائم کیا، سب کو مذہبی آزادی دے دی ، حتی کہ
مندروں کی حفاظت و مرمت اپنے خزانے سے کرائی، کئی نئے منادر بھی تعمیرکئے ۔ پجاریوں
کو سرکاری خزانہ سے وظائف مقرر کئے ، کاشت کاروں اور کاریگروں کی مدد فرمائی، اور
ہر ایک کے ساتھ برابری ، عدل وانصاف کا معاملہ کیا اور تمام لوگوں کو شہری بن کر
امن و امان کے ساتھ آزادانہ زندگی گذارنے کا حق دیا۔اگر سیکیولریزم کا مطلب پرامن
بقائے باہمی، تمام مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ برابری ، عدل وانصاف کا سلوک اور
بلا لحاظ مذہب و قوم تمام لوگوں کو شہری
بن کر امن و امان کے ساتھ آزادانہ زندگی گذارنے کا حق دینا ہے ، تو یہ سب غازی
محمد بن قاسم نے عملاًکردکھایا۔ وہ صحیح معنوں میں ہندوستان کے پہلے سیکولر حکمران
تھے۔ معروف مصنف شیخ اکرم ان کے متعلق لکھتے ہیں:''محمد بن قاسم نے پرانے نظام کو
حتی الوسع تبدیل نہ کیا۔ راجہ داہر کے وزیراعظم کو وزارت پر برقرار رکھا اور اس کے
مشورے پر عمل کرتے ہوئے تمام نظامِ سلطنت ہندوں کے ہاتھ میں رہنے دیا۔ عرب فقط فوجی
اور سپاہیانہ نظام کے لیے ہوتے تھے۔ مسلمانوں کے مقدمات کا فیصلہ قاضی کرتے تھے۔ لیکن
ہندوں کے لیے ان کی پنچائتیں بدستور قائم تھیں''۔
ایاز الشیخ نے اپنا خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا کہ
متصب مورخوں نے ہمیشہ مسلم حکمرانوں کی ظالمانہ تصویرپیش کی۔ لیکن کچھ انصاف پسند
غیر مسلم مورخین نے حقیقت کو واضح کرنے کی کوشش کی۔ رما شنکر ترپاٹھی لکھتے ہیں:''سندھ
کے فاتحین نے رواداری کے دور اندیشانہ پالیسی پر عمل کیا۔ اس میں شک نہیں کہ اسلام
پھیلا، لیکن عیسائیوں کے گرجوں، یہودیوں کے عبادت خانوں اور آتش پرستوں کی قربان
گاہوں کی طرح، ہندو مندر بھی محفوظ و مستحکم رہے۔ برہمنوں کو اجازت تھی کہ وہ چاہیں
تو نئے مندر تعمیر کریں، چاہیں پرانے مندروں کی مرمت کرائیں۔ مذہبی رواداری کی اس
سے زیادہ کیا صورت ہو گی کہ محمد بن قاسم نے جس طرح مسجدوں کے لیے اوقاف مقرر کیے،
ویسے ہی مندروں کے لیے بھی جاگیریں مقرر کیں۔''
اسی طرح معروف مورخ ڈاکٹر تارا
چند، محمد بن قاسم کے متعلق لکھتے ہیں:اس مسلمان فاتح نے مفتوحوں کے ساتھ عقلمندی
اور فیاضی کا سلوک کیا۔ مالگزاری کا پرانا نظام قائم رہنے دیا اور قدیمی ملازموں
کو برقرار رکھا۔ ہندو پجاریوں اور برہمنوں کو اپنے مندروں میں پرستش کی اجازت دی
اور ان پر فقط ایک خفیف سا محصول عائد کیا، جو آمدنی کے مطابق ادا کرنا پڑتا تھا۔
زمینداروں کو اجازت دی گئی کہ وہ برہمنوں اور مندروں کو قدیم ٹیکس دیتے رہیں۔'' سندھ کے عوام کی محمد بن قاسم سے محبت وعقیدت
کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے جانے کے بعد سندھ کے غیر مسلموں نے
ان کے مجسمے بنا کر ان کو پوجنا شروع کردیا ۔سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی نے 1988 میں
شامی صدر کے دورہ کے موقعہ پر بجا طور پر کہا تھا کہ محمد بن قاسم اسلام کا پیغام
لیکر ہندوستان آئے انکا پیغام امن و سلامتی اور بھائی چارہ کا تھا۔
چیرمین آئی جی آر ایف نے تاسف کا اظہار کرتے
ہوئے کہا کہ مسلمانوں نے اپنے ہیروز کا فراموش کردیا ہے ہماری نوجوان نسل صلاح الدین
ایوبی، طارق بن زیاد، موسی بن نصیر، محمد بن قاسم، محمود غزنوی، اورنگ زیب عالمگیر،
التمش، شیرشاہ سوری، ٹیپو سلطان اور دیگر تاریخی شخصیات سے نا آشنا ہے۔ تعلیمی
نظام کا کیا رونا ہم نے خود ان اکابرین کی سیرت سے انہیں واقف کرانے کوئی کوشش نہیں
کی۔ آج ہندوستان میں ہمارا وجود انہیں بزرگان کا مرہون منت ہے لیکن انہیں فراموش
کرکے ہم احسان فراموشی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
آخر میں انہوں نے نوجوانوں سے کہا کہ وہ غازی محمد بن قاسم کو اپنا آئیڈئیل
بنائیں ۔انکی زندگی اور کارناموں میں ہمیں اللہ پر یقین، ہمت و شجاعت، صحیح وقت پر
صحیح اقدام، جن، ہوم ورک یعنی پہلے سے تیاری، اپنے سے بڑوں کی تابعداری، مذہبی
رواداری، حلم اور تدبر کے سبق ملتے ہیں۔۔ مسلم خلیفہ کی تبدیلی کے بعد جب نئے خلیفہ
سلیمان نے انہیں ان کے عہدے سے ہٹایا تو انہوں نے ایک سچے مسلمان کی طرح اس حکم کو
قبول کیا اور اس حکم کے خلاف بغاوت کرنے کے مشورے کو رد کر دیا اور بڑوں یا ہائر
اتھارٹی کی تابعداری کی مثال قائم کی۔ انہوں نے کہا کہ محمد بن قاسم نے ہمارے لئے
تاریخ میں بہت اچھی مثالیں چھوڑی ہیں۔ ہمیں تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہئے جو ایسا
نہیں کرتے وہ خود تاریخ اور آنے والی نسلوں کے لیے عبرت کا نشان بن جاتے ہیں۔ آج
ہم وطن عزیز میں امن و امان ، ترقی، فرقہ وارنہ ہم آہنگی چاہتے ہیں تو اس کے لئے
غازی محمد بن قاسم کی پرپرامن بقائے باہمی کی پالیسی پر عمل کرنا ہوگا۔
قبل ازیں سیمینار کا آغاز تلاوت کلام پاک سے
ہوا۔ کم سن بچی عفاف نے نعت شریف کا نذرانہ پیش کیا اور کلام اقبال سنایا۔ بعد ازیں
ہشتم جماعت کی طالبہ شیخہ امامہ ایازنے بزبان انگریزی محمد بن قاسم کی حیات و
خدمات پر تقریر کی۔ شیخ احمد متعلم درجہ ہفتم نے محمد بن قاسم نوجوانوں کے لئے رول
ماڈل کے عنوان سے بزبان انگریزی مضمون پیش کیا۔ دعا پر سیمینار کا اختتام عمل میں
آیا۔
رپورٹ : محمد علی، میڈیا انچارج IGRF
No comments:
Post a Comment