Search This Blog

Monday 6 August 2012

مہلت عمل

مہلت عمل

-فرحین رفیع
اس نے دیکھا ایک قطار میں تین کرسیاں رکھی ہوئی تھیں۔ بہت سے لوگ جمع تھے جو باری باری ان کرسیوں پر بیٹھتے تھے اور پھر چند ہی لمحوں میں ایک جہاں سے دوسرے جہاں میں پہنچ جاتے تھے۔ ہر شخص ان کرسیوں پر بیٹھتے ہوئے ہچکچا رہا تھا۔ بیٹھنا نہ چاہتے ہوئے بھی بیٹھنا پڑرہا تھا، کیونکہ آس پاس کچھ لوگ تھے جو ہر ایک کو اس کی باری پر زبردستی بیٹھنے پر مجبور کررہے تھے۔ چاہے کوئی کتنا ہی روتا‘ التجا کرتا مگر ان لوگوں کے آگے بے بس ہوکر رہ جاتا تھا۔ اس نے دیکھا کہ اس کی بہن اس سے آگے ایک کرسی کے قریب ہے اور اب اسے بیٹھنا ہی تھا، مگر وہ گھبرا کے رک گئی اور اس کی طرف پُرامید نظروں سے دیکھنے لگی۔ اس نے بس ایک لمحہ سوچا اور پھر اپنی بہن سے آگے بڑھ کر اس کی جگہ پر خود آگئی۔ بہن نے شکر گزار نظروں سے اسے دیکھا، مگر اس نے سوچا اس میں کیا بڑی بات ہے! بیٹھنا تو سب کو ہی ہے، اس کی بہن مزید کتنے لمحے بچ سکے گی! سب کو بالآخر یہ جگہ چھوڑنی ہی ہے۔ مگر کرسی پر بیٹھتے بیٹھتے اس کا دماغ چکرا گیا، اس کے سامنے اس کی پوری زندگی ایک کھلی کتاب کی طرح آگئی، وہ سوچنے لگی کہ جب یہ سفر ختم ہوگا اور اسے اگلے جہاں پہنچادیا جائے گا تو کیا ہوگا! اتنی دیر میں اس کی نظر چند اشخاص پر پڑی جو بڑے بڑے رجسٹر تھامے ایک سرے سے دوسرے سرے پر جارہے تھے‘ بڑی جلدبازی میں تھے۔ یکایک ایک جھماکا سا ہوا۔ اسے ایک رجسٹر پر اپنا نام نظر آیا، مگر وہ خوف سے کانپ گئی۔ اس کا رجسٹر ناکام لوگوں کی لسٹ کے ساتھ تھا۔ وہ جھانک کر دیکھنے لگی۔ مگر یہ کیا، کئی صفحات تو بالکل خالی تھے۔ وہ دل تھام کے رہ گئی۔ اے کاش کچھ ایساکام کیا ہوتا کہ یہ پرچے خالی نہ جاتے، کچھ نمبر تو ہر صفحے پر مل جاتے۔ کاش کچھ ایسا کیا ہوتا! اس کی پچھلی زندگی اس کے سامنے ایک فلم کی طرح آگئی کہ کس طرح اس نے اتنا وقت ضائع کیا جبکہ اسے بہت اچھی طرح علم تھا کہ یہ زندگی چند روزہ ہے، کھیل تماشے میں برباد کرنے کے لیے نہیں بلکہ اسے اس مہلت سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہیے تھا۔ جابجا، قدم قدم پہ نیکیاں بکھری ہوئی تھیں، اسے بس سمیٹ کر اپنے پاس جمع کرنا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ اس کے یہ ہاتھ پائوں بھی اس کے خلاف گواہی دے سکتے ہیں، اس لیے انہیں نیکی کے کاموں میں ہی لگانا بہتر ہے۔ مگر افسوس ہائے افسوس کہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی وہ شیطان کے بہکاوے میں آگئی۔ سوچتی، بس کچھ دیر اور زندگی سے لطف اندوز ہولوں‘ اس کی لذتوں سے فائدے اٹھالوں، پھر اچھی طرح توبہ کرکے نیک زندگی بسر کرلوں گی۔ مگر یہ کیا کہ یہ وقت اتنی جلدی آگیا۔ یاد آیا کہ اس نے یہ بھی پڑھا ہوا تھا کہ وہ وقت اچانک ہی آجائے گا اور اس کو ہر گھڑی اس وقت کے لیے تیار رہنا چاہیے تھا۔ اس کے آس پاس ہلچل سی ہوئی۔ اسے لگا کہ وہ بس اب جارہی ہے اپنے رب ذوالجلال کے پاس، جس سے وہ کچھ بھی نہ چھپا سکے گی… کوئی بہانہ‘ کوئی افسانہ نہ گھڑسکے گی… اور پھر شاید…اچانک اس کی آنکھ کھل گئی۔ وہ ہڑبڑا کے اٹھ گئی۔ اسے یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ یہ سب ایک خواب تھا… اتنا بھیانک خواب! کافی وقت لگا اسے سنبھلنے میں، مگر جب یقین ہوگیا تو خوشی سے اس کی چیخ نکل گئی: ’’او خدایا تیرا شکر ہے۔ تیرا لاکھ لاکھ احسان ہے کہ میری مہلتِ عمل ابھی ختم نہیں ہوئی، ابھی وقت ہے میرے پاس… اب میں ان شاء اللہ اس وقت نہیں پچھتائوں گی جب وقت ِآخر قریب ہوگا۔ ہاں ان شاء اللہ میں اپنی مہلتِ عمل ضائع نہیں کروں گی۔‘‘

No comments:

Post a Comment